فاروق اعظمؓ اور قحط کی ہولناکیاں…

آج ارض پاکستان کے صحرائی علاقے ’’تھر‘‘ کے لوگ ہولناک مصیبت سے دوچار ہیں



ISLAMABAD: خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا دور تھا۔ مدینہ اور جزیرہ نما عرب کے مختلف گوشوں میں مسلمان اس فتح و نصرت کی خبروں سے مسرت اندوز ہو رہے تھے جو عراق و شام میں ان کی فوجوں سے پیمان وفا باندھ چکی تھی۔ مال غنیمت کا خمس بارگاہ خلافت میں پہنچتا اور خلیفۃ المسلمین اسے مسلمانوں میں تقسیم فرما دیتے۔ اس سے ان کی زندگی میں آسودگی اور ان کی بدویانہ تنگی و خشکی میں تمدنی، فراخی اور تازگی سرسرانے لگی۔

مسلمان عیش و فراغت کے یہی دن بسر کر رہے تھے کہ تقدیر نے انھیں انتہائی ہولناک مصیبت سے دوچار کردیا۔ یہ سال کے اواخر سے شروع ہوکر اس کے بعد آنیوالے سال کے خاتمے تک مسلط رہی۔ یہ وہ ''قحط'' تھا جس نے ملک عرب کو جنوب کے آخری کناروں سے لے کر شمال کی انتہائی سرحدوں تک گھیر لیا تھا۔ یہ مسلسل 9 مہینے تک جاری رہا، جس میں کھیتیاں تباہ اور مویشی ہلاک ہوگئے۔ انسانوں کو حد درجہ تکلیف و عذاب کا سامنا کرنا پڑا۔

قحط کا سبب یہ ہوا کہ جزیرہ عرب میں پورے 9 ماہ تک بارش کی ایک بوند نہ پڑی۔ ادھر آتش فشاں پہاڑ پھٹنے لگے۔ اس سے زمین کی سطح اور اس کی ساری روئیدگی جل گئی اور وہ سیاہ مٹی کا ڈھیر ہو کر رہ گئی۔ جب ہوا چلتی تو ساری فضا گرد آلود ہوجاتی اس لیے لوگوں میں اس برس کا نام ہی ''عام الرمادہ'' یعنی خاک والا برس پڑگیا۔ بارش نہ ہونے، آندھیاں چلنے اور کھیت جل جانے سے قحط کی صورت پیدا ہوگئی جس نے انسانوں اور جانوروں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا چنانچہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ریوڑ فنا ہوگئے، جو بچ گئے انھیں سوکھا لگ گیا یہاں تک کہ ایک شخص بھیڑ کو ذبح کرتا اور اس کی بدہیئتی دیکھ کر بھوک اور مصیبت کے باوجود چھوڑ کر نکل کھڑا ہوتا۔قحط کی شدت کے زمانے میں ایک دن حضرت عمرؓ کے پاس گھی میں چوری ہوئی روٹی آئی۔ آپؓ نے ایک بدوی سے شریک طعام ہونے کے لیے فرمایا۔ جس طرف گھی تھا وہ بدوی اس طرف سے بڑے بڑے لقمے مارنے لگا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ''معلوم ہوتا ہے تم نے کبھی گھی نہیں کھایا''۔ بدوی نے جواب دیا ''ہاں! میں نے فلاں فلاں دن سے گھی یا تیل نہیں کھایا اور نہ کسی کو کھاتے دیکھا۔'' حضرت عمرؓ نے اسی وقت قسم کھائی کہ جب تک لوگ قحط میں مبتلا ہیں وہ گوشت اور گھی کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ فاروق اعظمؓ نے اپنی قسم کو پورا کیا، یہاں تک کہ اﷲ کے حکم سے بارش برسی اور لوگوں پر سے قحط کی مصیبت دور ہوگئی۔

آج ارض پاکستان کے صحرائی علاقے ''تھر'' کے لوگ اس جیسی ہولناک مصیبت سے دوچار ہیں۔ بھوک، افلاس اور غذائی قلت کے باعث اب تک 250 سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں مریض اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ آج یہ متاثرین پھر کسی ''عمرؓ'' کے متلاشی ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمران بے حس ہوچکے ہیں۔ ثقافت کے نام پر اربوں روپے اڑانے والوں کو یہ خیال نہ آیا کہ اسی صوبے میں چند میل کے فاصلے پر اولاد آدم پانی کی بوند اور روٹی کے نوالے کو ترس رہی ہے۔ اس سے بڑھ کر اور بے حسی کیا ہوگی کہ ایک طرف تو ناؤ نوش کی محفلیں اور رقاصاؤں کے تھرکتے اور بل کھاتے جسم تھے تو دوسری طرف موت کا رقص۔ پیاس و بھوک سے بلکتے، سسکتے اور تڑپتے بچے، عورتیں اور بوڑھے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہے تھے۔ وہ پھول جو بن کھلے مرجھا گئے ان کا ذمے دار کون ہے؟ کیا وہ لوگ نہیں جو سندھ فیسٹیول کے نام پر یکم فروری سے 15 فروری تک حیا سوز کردار سے اسلامی اور مشرقی اقدار کو پامال کرتے رہے؟ کیا وہ لوگ نہیں، جنھوں نے گندم کی ہزاروں بوریوں کو گوداموں میں چھپائے رکھا؟

آج کون سا حکمران ہے جو حضرت عمرؓ کی سیرت کو اپناتے ہوئے یہ قسم کھا سکے کہ جب تک لوگ قحط و خشک سالی کا شکار ہیں وہ فلاں فلاں چیز نہیں کھائے گا۔ ''عام الرمادہ'' (خاک والا برس) میں تو لوگوں نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ ان کا رنگ سیاہ پڑگیا ہے، حالانکہ وہ سرخ و سفید تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گھی، دودھ اور گوشت ان کی غذا تھی، لیکن جب لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے، انھوں نے کثرت سے فاقے کرنے شروع کردیے، یہاں تک کہ جن لوگوں نے ان کی یہ حالت دیکھی تھی وہ کہتے تھے ''اگر اﷲ عام الرمادہ کا قحط دور نہ فرماتا تو ہمارا خیال ہے کہ حضرت عمرؓ مسلمانوں کے غم میں جان دے دیتے۔'' یہ وہ حکمران تھے جو اپنے عوام کے لیے جان تک دینے کے لیے تیار تھے۔

یہاں تو حال یہ ہے کہ متاثرین کی مدد کے لیے آنے والے وزراء ایسے آئے جیسے کسی کی شادی میں آئے ہوں۔ ایک ایسے وقت میں جہاں تھر کے 42 دیہات کے بچے، خواتین اور بوڑھے بھوک، پیاس اور ادویات کی قلت کا شکار تھے، لیکن وزراء بوفے لنچ میں فنگر فش، ملائی بوٹی، بریانی اور تکے کے مزے اڑاتے رہے۔ ہمارے حکمران تو محض فوٹو سیشن کے لیے ان علاقوں کے دورے کرتے ہیں۔

کاش! انھیں حضرت عمرؓ کی یہ بات یاد ہوتی جو انھوں نے قحط کے زمانے میں فرمائی تھی کہ ''مجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس کیوں کر پیدا ہوسکتا ہے جب تک میں خود ان کی مصیبت میں شریک نہ ہوں۔'' یہ ایک حقیقت ہے کہ مصیبت کا اندازہ آدمی کو اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ خود اس میں مبتلا نہ ہو۔ یہ مملکت کا سب سے بڑا آدمی تھا جو اس ابتلا میں ان کا ساتھ دے رہا تھا۔ کسی قوم کا کوئی فرمانروا اس جیسی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ ہمارے حکمران ان پریشان لوگوں کی مصیبت میں تو کیا شریک ہوں گے، یہ تو ان لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس واقعے سے کر سکتے ہیں، قحط کی خبریں میڈیا کے ذریعے پھیلنے کے بعد جب اعلیٰ حکام قحط زدہ علاقے میں گئے تو ان کے پروٹوکول میں مقامی اسپتال کو بند کردیا گیا، اس دوران مزید تین سے چار بچے اپنے والدین کے ہاتھوں میں سسکتے ہوئے موت کی وادی میں چلے گئے۔

ہمارے حکمرانوں کی یہ بے حسی کب ختم ہوگی؟ فائیو ڈور لینڈ کروزر میں گھومنے والوں اور ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں رہنے والوں کو یہ بات سوچنی چاہیے کہ کل روز قیامت جب رب کے دربار میں حاضر ہوں گے تو کیا جواب دیں گے؟ تھر کے بے زبان معصوم لوگوں کا سامنا کس طرح کریں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔