فالج کی شکار خاتون کے ہاتھوں میں دس برس بعد حرکت بحال

حرام مغز اور بازو کی رگوں میں ہلکی برقی تحریک سے خاتون چمچے اور کانٹے کا آسانی سے استعمال کرسکتی ہیں

امریکی ماہرین نے حرام مغز میں برقیرے لگا کر ایک خاتون کے ہاتھوں کی حرکت بحال کی ہے جو گزشتہ دس برس سے ہاتھ کی حرکت سے محروم تھیں۔ فوٹو: بشکریہ گارجیئن

جامعہ پٹس برگ اور کارینگی میلون یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک ایسی خاتون کے ہاتھوں کی حرکت بحال کی ہے جو دس برس قبل فالج سے ہاتھوں اور انگلیوں کی حرکت کھوچکی تھیں۔

ہیدر رینڈیولک کی عمر 2012 میں صرف 22 سال تھی جب وہ فالج کی شکار ہوئی تھیں۔ اس کے بعد ان کا دایاں ہاتھ کچھ کمزور پڑگیا لیکن بایاں بازو بالکل ناکارہ ہوگیا تھا۔ اب ان کی گردن، اور بازو کےمختلف حصے پر برقیرے (الیکٹروڈ) لگائے گئے ہیں اور دس برس بعد ان کے ہاتھ اور انگلیوں میں حرکت بحال ہوگئی ہے۔

ہیدر نے دس برس بعد نہ صرف بوتل کا ڈھکنا کھولا بلکہ چھری اور کانٹے سے کھانا بھی کھانے لگی ہیں۔ کارنیگی میلون اور یونیورسٹی آف پٹس برگ کے ماہرین نے خاص برقی نظام کی بدولت اس کے حرام مغز (اسپائنل کورڈ) میں تحریک پیدا کی ہے جس کی بدولت ہیدر کی ہاتھ کی سرگرمی لوٹ آئی ہے۔

' میں ایک ہاتھ والی دنیا سے دوبارہ دونوں ہاتھوں والی دنیا میں لوٹ آئی ہوں، اب دوبارہ میں اپنے بازو کو کنٹرول کرسکتی ہوں،' ہیدر نے اخباری نمائیندوں کو بتایا۔


فالج کی صورت میں ہاتھ اور پاؤں سمیت کئی اعضا مستقل طور پر کمزور یا ناکارہ ہوسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ دماغ میں خون کی فراہمی متاثر ہونے سے یا تو اعضا کو خون کی فراہمی رک جاتی ہے یا پھر حرکت دینے والے نیورون کی صلاحیت شدید متاثرہوتی ہے اور اس سے مریض معذور ہوجاتا ہے۔

سائنسی جریدے نیچر میڈیسن میں شائع رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے پٹھوں کے وہ حساس نیورون (اعصابی خلیات) متحرک کئے ہیں جو براہِ راست ہاتھ کے موٹر نیورون (حرکت پیدا کرنے والے خلیات) سے رابطہ کرتے ہیں۔ انہیں غیرمعمولی طور پر متحرک کیا گیا۔ اس طرح دماغ کے خلیات سگنل کو وصول کرنے لگے۔ سادہ الفاظ میں ہاتھ کو ہلانے والے سینسری نیورون کے سگنل کو غیرمعمولی طور پر بڑھایا گیا۔

تاہم اس ٹیکنالوجی میں سویوں کی شکل کے تار (الیکٹروڈ) سوئی سے ان اعصاب تک پہنچائے گئے جو بازو کو حرام مغز سے جوڑتے تھے۔ 29 روز تک انہیں ایسے ہی چھوڑ دیا گیا اور روزانہ چار گھنٹے تک انہیں آزمایا گیا۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے ہاتھ کی حرکت بحال ہونے لگی۔

تاہم اب یہ دیکھنا ہے کہ آیا یہ ٹیکنالوجی دیگر افراد کے لیے مفید ثابت ہوسکے یا نہیں اور اس کا جواب وقت ہی دے سکے گا۔

 
Load Next Story