بھارتی انتخابات کے خطے پر اثرات…

مودی کا دعویٰ ہے کہ یہ لوگ ملک دشمن ہیں، جو پاکستان کے حق میں بولتے ہیں۔۔۔۔



بھارت میں ان دنوں انتخابی گہما گہمی خوب عروج پر ہے۔ 7 اپریل سے شروع ہونے والے انتخابات 12 مئی تک جاری رہیں گے۔ 9 مرحلوں پر مشتمل طویل ترین انتخابات میں اکیاسی کروڑ پینتالیس لاکھ رائے دہندگان اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے، جس کے لیے پورے ملک میں 9 لاکھ سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔ یورپی ممالک، امریکا و کینیڈا سے مبصرین کی ٹیمیں انتخابات کے مشاہدہ کے لیے بھارت پہنچ گئی ہیں جب کہ سارک ممالک اور اقوام متحدہ سے خصوصی ایلچی بھی مدعو کیے گئے ہیں۔

بھارت میں وزارت عظمیٰ کے اہم عہدے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نریندر مودی، کانگریس کی راہول گاندھی، تامل ناڈو کی جے للیتا اور مغربی بنگال (کلکتہ) کی ممتا بینرجی مدمقابل ہیں۔ لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے سادہ اکثریت کے لیے 272 نشستیں درکار ہوں گی۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں تن تنہا مطلوبہ تعداد حاصل نہیں کرسکیں گے۔ حکومت بنانے کے لیے اکثریتی جماعت کو اتحاد کی ضرورت درپیش رہے گی۔ تاہم اس دفعہ نوجوان رائے دہندگان اور اقلیتوں کے ووٹوں کو خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اقلیتوں کے ووٹ کل تعداد کے پچیس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ جب کہ 18 سال سے 22 سال تک کی عمر والے نوجوان، جو اس دفعہ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے، کسی بھی جماعت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔

گزشتہ عام انتخابات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ کانگریس کو رائے دہندگان کے کل ووٹوں میں سے 12 کروڑ ووٹ ملے تھے، جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے حصے میں 7 کروڑ 80 لاکھ ووٹ آئے تھے۔ گزشتہ 67 سال میں 50 برس سے زائد برسراقتدار رہنے والی کانگریس اس وقت حزبِ اختلاف کی مضبوط جماعت بے جے پی کے خاص نشانے پر ہے۔ جب کہ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی بھی خاصی مقبولیت پا رہی ہے۔ بھارت میں انتخابی مہم کا تجزیہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس دفعہ بالی ووڈ کی اداکارائیں اور جرائم پیشہ افراد بھی امیدواروں کی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں، جس کے باعث انتخابی مہم میں نہ صرف سیاسی کارکنوں کی دلچسپی دیکھنے میں آرہی ہے، بلکہ سیاسی رہنما بھی اپنی چرب زبانی کی بدولت سیاسی حریفوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔

نریندر مودی خود کو وزارت عظمیٰ کا مضبوط امیدوار تصور کرتے ہیں۔ ان دنوں اپنے سیاسی مخالفین پر خوب کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ روزگار، تعلیم، معیشت، قومی فلاح و بہبود جو کسی بھی سیاسی رہنما کے لیے انتخابی جلسے کے اہم عنوانات ہوتے ہیں، اس پر گفتگو کو ثانوی حیثیت دے دی گئی ہے۔ نریندر مودی قوم پرست ہندوئوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے انتخابی جلسوں میں خارجہ پالیسی بالخصوص طاقت کا حصول، پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور تنازع کشمیر پر اپنے جارحانہ موقف کا بار بار اعادہ کررہے ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ سیاسی مخالفین کے کردار کو مشکوک ثابت کرنے کے لیے انھیں بلا دریغ پاکستان کا ایجنٹ اور بھارت کا غدار قرار دے دیتے ہیں۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا تین ''اے کے'' پاکستان کے لیے بے مثال قوت بن کر ابھرے ہیں۔ پہلا اے کے 47 آتشیں رائفل کلاشنکوف ہے، دوسرا بھارتی وزیر داخلہ اے کے انٹونی، جو کہتا ہے کہ پاک فوج کی وردی پہنے ہوئے لوگوں نے ہمارے فوجیوں کے سر کاٹے تھے، جب کہ ہماری فوج کہتی ہے کہ یہ کام پاکستانیوں نے کیا تھا۔ تیسرا اے کے 49 ہے، جس نے حال ہی میں ایک نئی پارٹی کو جنم دیا ہے۔ ان کا اشارہ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال اور ریاست نئی دہلی میں ان کی 49 روزہ حکومت ہے۔ مودی کا کہنا ہے کہ اروند کجریوال کی پارٹی کی ویب سائٹ پر کشمیر کو پاکستان کے نقشے میں دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی پارٹی کا ایک سینئر رکن کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ بھی بڑے زور و شور سے کر رہا ہے۔

مودی کا دعویٰ ہے کہ یہ لوگ ملک دشمن ہیں، جو پاکستان کے حق میں بولتے ہیں۔ نریندر مودی 2001 سے مغربی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ چلے آرہے ہیں۔ 2002 میں انھی کے دور حکومت میں گجرات میں بدترین مسلم کش فسادات رونما ہوئے تھے۔ جن میں مسلمانوں کو ہندو بلوائیوں نے بڑی بے دردی سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی مسلمان نریندر مودی کے ممکنہ وزیراعظم بننے سے سخت تشویش میں مبتلا ہے۔ بالخصوص ہندو اکثریتی علاقوں کے مسلمان نریندر مودی کے حالیہ بیانات پر تحفظات کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک پاکستان اور چین کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرنے والے نریندر مودی کا کہنا ہے کہ کانگریس قومی سلامتی کو مضبوط بنانے میں ناکام رہی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ بھارت کو کانگریس سے پاک کیا جائے۔

مودی نہ صرف اسلحہ کی بڑی مقدار میں خریداری اور ایٹمی دھماکوں کے حامی رہے ہیں، بلکہ انھیں سمندری حدود میں بھارتی بحریہ کی مضبوطی کا فکر بھی لاحق ہے۔ پاکستانی بندرگاہ گوادر میں چین کی موجودگی پر بھی انھیں سخت تشویش ہے۔دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان 67 سال سے حل طلب مسئلہ کشمیر بھی مزید پیچیدہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ نریندر مودی انتخابی جلسوں میں اس بات کا کھلم کھلا اظہار کر رہے ہیں کہ ہم انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کے راستے پر چلیں گے، وہ راستہ جو ہمیں واجپائی نے دیا ہے۔ کشمیریت سے ان کی مراد جموں و کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضے کا دوام ہے۔ کشمیری مسلمان بھی نئی منتخب ہونے والی بھارتی حکومت سے اس دیرینہ تنازع کے حل کی کوئی امید نہیں رکھتے۔ صرف نیشنل کانفرنس کے عمر عبداﷲ، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی محبوبہ مفتی، نیشنل پینتھر پارٹی کے بھیم سنگھ جیسے بھارت نواز کشمیری رہنما اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت کی نئی حکومت مسئلہ کشمیر کا ایسا حل لے کر آئے گی، جس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی میں واضح کمی واقع ہوگی۔

بھارتی رہنمائوں کی انتخابی مہم اور ان کے مابین پائی جانے والی سیاسی کشمکش کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر نئی منتخب ہونے والی حکومت کی قیادت نریندر مودی کے ہاتھ آگئی تو اس خطے میں کشیدگی کی صورت حال کو قابو نہیں کیا جاسکے گا۔ ان دنوں یورپ سمیت امریکا و فرانس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھارتی عوام کے پیٹ کاٹ کر ہی چلائی جا رہی ہیں۔ سخت گیر ہندو قوم پرست رہنما نریندر مودی پھر اس میدان میں اپنے پیش روئوں سے بھی مزید دو ہاتھ آگے بڑھیں گے۔ یقیناً یہ صورت حال بھارتی مسلمانوں سمیت خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی نہایت تباہ کن ثابت ہوگا۔ عالمی امن کے ضامنوں کو اس کے انسداد کے لیے درپیش صورت حال پر گہری نظر رکھنی پڑے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں