کسی کی شہریت پر شک کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جسٹس اطہر من اللہ
شہریت کا فیصلہ کرنا وفاقی حکومت کا حق ہے نادرا کا نہیں، ہزارہ کمیونٹی سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں ریمارکس
سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ کسی کی شہریت پر شک کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
ہزارہ کمیونٹی سے متعلق لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ہزارہ کمیونٹی مطمئن ہے؟کیا ان کے خدشات کم ہوئے ہیں؟، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے جواب دیا کہ ہزارہ کمیونٹی کے خدشات کم ہوئے ہیں۔ حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں۔
دورانِ سماعت ہزارہ کمیونٹی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ٹارگٹ کلنگ اور لا اینڈ آرڈر میں بہت بہتری آئی ہے۔ نادرا اور پاسپورٹ آفس کی جانب سے غیر ضروری شرائط عائد کرنے سے کمیونٹی پریشان ہے۔ پاسپورٹ بنانے کے لیے ایم این اے یا ایم پی اے سے دستخط کی شرط رکھی جاتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہزارہ کمیونٹی کے لوگ بھی پاکستانی ہیں۔ ان کے ساتھ تفریقی رویہ کیوں رکھا جارہا ہے۔ جس کے پاس بھی شناختی کارڈ ہے وہ پاکستانی ہے۔ ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کو ایسی شرائط لگا کر کیوں ہراساں کیا جا رہا ہے؟۔کسی کی شہریت پر شک کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حافظ حمد اللہ کا شناختی کارڈ افغانی کہہ کر منسوخ کردیا گیا جب کہ حافظ حمد اللہ کا بیٹا فوج میں تھا۔پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ شہریت کا حق رکھتا ہے۔ شہریت قیمتی پیدائشی حق ہے۔ نادرا کیسے کسی کی شہریت چیک کر سکتا ہے؟۔ شہریت کا فیصلہ کرنا وفاقی حکومت کا حق ہے، نادرا کا نہیں۔ نادرا ایکٹ شہریت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں دیتا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عام شہریوں کی طرح ہزارہ کمیونٹی پر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لیے وہی شرائط ہیں۔ 9 میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری کرنے پر شناختی کارڈ جاری کردیا جاتا ہے ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جہاں اختیارات سے تجاوز کیا جا رہاہے، اس کا جائزہ لیں۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہزارہ کمیونٹی کے علی رضا ابھی تک بازیاب نہیں ہو سکے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ریاست اپنے شہری کو بھی بازیاب نہیں کروا سکتی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ہزارہ کمیونٹی کے علی رضا کی عدم بازیابی پر رپورٹس طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع علی رضا کی بازیابی نہ ہونے پر رپورٹس جمع کروائیں۔ عدالت نے مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔
ہزارہ کمیونٹی سے متعلق لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ہزارہ کمیونٹی مطمئن ہے؟کیا ان کے خدشات کم ہوئے ہیں؟، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے جواب دیا کہ ہزارہ کمیونٹی کے خدشات کم ہوئے ہیں۔ حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں۔
دورانِ سماعت ہزارہ کمیونٹی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ٹارگٹ کلنگ اور لا اینڈ آرڈر میں بہت بہتری آئی ہے۔ نادرا اور پاسپورٹ آفس کی جانب سے غیر ضروری شرائط عائد کرنے سے کمیونٹی پریشان ہے۔ پاسپورٹ بنانے کے لیے ایم این اے یا ایم پی اے سے دستخط کی شرط رکھی جاتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہزارہ کمیونٹی کے لوگ بھی پاکستانی ہیں۔ ان کے ساتھ تفریقی رویہ کیوں رکھا جارہا ہے۔ جس کے پاس بھی شناختی کارڈ ہے وہ پاکستانی ہے۔ ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کو ایسی شرائط لگا کر کیوں ہراساں کیا جا رہا ہے؟۔کسی کی شہریت پر شک کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حافظ حمد اللہ کا شناختی کارڈ افغانی کہہ کر منسوخ کردیا گیا جب کہ حافظ حمد اللہ کا بیٹا فوج میں تھا۔پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ شہریت کا حق رکھتا ہے۔ شہریت قیمتی پیدائشی حق ہے۔ نادرا کیسے کسی کی شہریت چیک کر سکتا ہے؟۔ شہریت کا فیصلہ کرنا وفاقی حکومت کا حق ہے، نادرا کا نہیں۔ نادرا ایکٹ شہریت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں دیتا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عام شہریوں کی طرح ہزارہ کمیونٹی پر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لیے وہی شرائط ہیں۔ 9 میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری کرنے پر شناختی کارڈ جاری کردیا جاتا ہے ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جہاں اختیارات سے تجاوز کیا جا رہاہے، اس کا جائزہ لیں۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہزارہ کمیونٹی کے علی رضا ابھی تک بازیاب نہیں ہو سکے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ریاست اپنے شہری کو بھی بازیاب نہیں کروا سکتی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ہزارہ کمیونٹی کے علی رضا کی عدم بازیابی پر رپورٹس طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع علی رضا کی بازیابی نہ ہونے پر رپورٹس جمع کروائیں۔ عدالت نے مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔