وزیراعظم صاحب یہ زیادتی اور ناانصافی نہ ہونے دیجیے

زرداری صاحب سے کہوںگا کہ ایک ایماندار افسر کی پروموشن میں کوئی رکاوٹ ہے تو اسے دور کرا دیں


[email protected]

سندھ کے لوگ مرزا قلیج بیگ کے نام سے بخوبی واقف ہیں، ان کی تعلیمی خدمات کے باعث انھیں سندھ کا سرسیّد کہا جاتا ہے۔ ان کا پڑپوتا نجف مرزا بہت اچھے نمبر لے کر میڈیکل کالج میں داخل ہوا اور پانچ سال بعد ڈاکٹر بن گیا۔

ڈاکٹر بن کر دوسرے دوستوں کی دیکھا دیکھی نجف نے بھی سی ایس ایس کا امتحان دیا اور اپنی ذہانت، قابلیّت اور محنت کے بل پر پولیس سروس آف پاکستان کے لیے منتخب ہوگیا۔

سروس کے پہلے پانچ سال نوجوان افسروں کو اپنے صوبے سے باہر سروس کرنا ہوتی ہے لہٰذا اس کی تعیناتی پنجاب میں ہوگئی۔

خالق ومالک نے اسے انتہائی پاکیزہ اور اعلیٰ کردار اور بہترین صورت اور سیرت سے نوازا تھا اس لیے اپنے بیچ کے اس سب سے خوبرو افسرکی جوانی بے داغ رہی اور سروس کے پہلے دن سے ہی اُس نے رزقِ حلال کو حرزِجاں بنالیا۔

ایمانداری اس کے ایمان کا بنیادی جزو رہا اور باوقار طریقے سے نوکری کرنا اس نے اپنا شعار بنالیا، پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے لیے کسی کی سفارش کرانا اُس نے ہمیشہ اپنے وقار اور dignity کے خلاف سمجھا، لہٰذا بہت سے دوسرے افسروں کی طرح وہ اچھی پوسٹنگ کے لیے کسی سیاستدان سے نہ کبھی ملا اور نہ کبھی کسی سے سفارش کرائی۔

جب بینظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم تھیں اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا بینظیر اور آصف زرداری کے سب سے بااعتماد ساتھی ہونے کے ناطے بہت بااثر تھے، اُس وقت بھی ڈاکٹر ذوالفقار کا کزن نجف مرزا ضلع بھکّر کی کسی دور دراز تحصیل میں نوکری کرتا رہا اور کسی بہتر جگہ پر تعیناتی کے لیے اپنے تعلق یا رشتے داری کو استعمال نہیں کیا۔

ایسے نگینے اور ہیرے افسر چونکہ بہت کم رہ گئے ہیں اس لیے ان کی خوشبو دور دور تک پھیلتی ہے اور یہ خوشبو لاہور تک بھی پہنچ گئی، لہٰذا 1997 میں جب مجھے لاہور پولیس کا سربراہ مقرر کیا گیا تو لاہور میں اپنی ٹیم کے لیے میری نظرِ انتخاب سب سے پہلے ڈاکٹر نجف مرزا پر پڑی۔ لہٰذا میں نے اسے لاہور پولیس کا2nd in command یعنی ایس پی ایڈمنسٹریشن مقرر کرا دیا۔

نجف کی وجہ سے مجھے بہت اطمینان ہوگیا، جونیئر لیول کی تمام تعیناتیاں اور ٹرانسفرز میرٹ پر ہونے لگیں اور سفارش کلچر آہستہ آہستہ دم توڑ گیا۔

لاہور کی تعیناتی پولیس سروس کا سب سے بڑا چیلنج اور سب سے مشکل ٹیسٹ سمجھا جاتا ہے، جس میں افسروں کی تمام faculties آزمائی جاتی ہیں، لاہور کا میدان افسروں کی پوری شخصیّت کھول کر رکھ دیتا ہے اور ان کے تمام پہلو بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ لاہور میں ہی ڈاکٹر نجف کی توانا شخصیّت کے کئی خوشنما پہلو سامنے آئے۔

ہماری ٹیم کو پنجاب کے دارالحکومت میں کئی طاقتور مافیاز سے پنجہ آزمائی کرنا پڑی اور کئی سنگین مسائل اور مشکل چیلنجز سے نبرد آزما ہونا پڑا، اس لیے نجف کی ایمانداری کے علاوہ یہ بھی عیاں ہو ا کہ وہ اﷲ کے ہر فیصلے پر راضی رہنے والا، قناعت پسند، مخلص، بہادر اور انتہائی قابلِ اعتماد شخص ہے جو مشکل ترین حالات کا بھی مسکراتے ہوئے مقابلہ کرنے کی ہمّت رکھتا ہے۔

لاہور میں کئی طاقتور حلقے ہمارے طرزِ عمل اور ہماری پولیسنگ سے ناخوش تھے۔ ان میں کچھ سیاست دان تھے جو لاہور میں اپنی مرضی کے افسر تعیّنات نہ کراسکے تھے۔

کچھ بیوروکریٹ بھی تھے جو پولیس کو اپنی ماتحتی (subordination) میں رکھنا چاہتے تھے اور پولیس کیoperational Independence کے خلاف تھے، اس لیے انھیں نئی ٹیم کی آزادیٔ عمل پسند نہیں تھی اور وہ اپنی نجی محفلوں میںکہتے تھے کہ '' ایس ایس پی لاہور نے لاہور میں دہلی اور ممبئی والا پولیس کا کمشنریٹ سسٹم نافذ کردیا ہے'' ۔

سازش میں کچھ ایسے بااثر صحافی بھی شامل ہوگئے جو ماضی میں فون پر ہی اپنی مرضی کے ایس ایچ او لگوا لیتے تھے اور پھر کچھ ایجنسیوں کے لوگ بھی، جو اس بات سے ناراض تھے کہ نئے افسر ہمارے دفتر آکر حاضری کیوں نہیں لگواتے۔ چنانچہ ان تمام '' ناراض گروپوں'' کی مشترکہ کاوشوں سے لاہور میں پولیس کی نئی اور جدید طرز متعارف کرانے والی اس ٹیم کو ہٹادیا گیا جس سے سب ممبران تتر بتّر ہوگئے۔

ایس پی سٹی عمر چیمہ لندن چلا گیااور ڈاکٹر نجف صوبۂ سندھ چلا گیا۔ ایک بار راقم نے ہی تحریری طور پر حکومت کو یہ تجویز دی تھی کہ بڑی جیلوں کے سپرنٹنڈنٹ، پولیس سروس سے لیے جائیں اور نیک نام پولیس افسروں کو اگر سینٹرل جیلوں کا نگران مقرر کیا جائے تو جیلوں کا ماحول بھی بہتر ہوگا اور اس سے جیلوں کے اندر خطرناک مجرموں کے نیٹ ورک بھی ٹوٹ جائیں گے۔

پنجاب میں تو اس پر عمل نہ ہوا مگر جب ریٹائرڈ جنرل معین حیدر سندھ کے گورنر بنے تو انھوں نے اس تجویز پر عمل درآمد کرا دیا اور کراچی، حیدرآباد اور سکھر کی بڑی جیلوں کے نگران پولیس کے نیک نام افسر مقرر کر دیے گئے۔

سینٹرل جیل کراچی میں نجف مرزا سپرنٹنڈنٹ جیل بن کر گیا تو ایک انقلاب سا آگیا۔ قیدیوں کے لیے راشن سپلائی کرنے والے ٹھیکیداروں سے کمیشن لینے کا سلسلہ بند ہوا تو کھانے کا معیار بہتر ہوگیا، باہر سے منشیات سمیت غیر قانونی اشیاء کی سپلائی بند ہوگئی اور جیل کے اندر ڈسپلن قائم کردیا گیا۔

مگر اس جیل میں ایسے قیدی بھی ہوتے ہیں جو ہر بہت طاقتور ہوتے ہیں، نئے جیلر کے لاگو کردہ ڈسپلن کی تپش انھوں نے بھی محسوس کی اور برا منایا۔ راقم خود سینٹرل جیل کراچی میں درجنوں مرتبہ مرتضیٰ بھٹو قتل میں گرفتار دو بے گناہ اے ایس پیز شاہد حیات اور رائے طاہر سے ملاقات کے لیے گیا۔

چونکہ وہ دونوں بے گناہ تھے اس لیے میں ان کی رہائی کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا تھا اور انھیں سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں بارہا ملا تھا۔

جس کمرے میں نوجوان افسروں سے میں ملتا تھا، اُسی کمرے میں ایک روز خاص قیدی سپرنٹنڈنٹ سے ملنے آیا اور شکایت کی کہ تم نے تو آتے ہی پابندیاں لگانی شروع کردی ہیں۔'' اس پر جیلر ڈاکٹر نجف مرزا نے پورے احترام کے ساتھ کہا '' عدالت کی طرف سے جو بھی سہولتیں دی گئی ہیں، ان میں سے کوئی بھی واپس نہیں لی گئیں''۔

2008میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو ڈاکٹر نجف مرزا کو ایک کیس میں ملوّث کردیا گیا ، یوں وہ پانچ سال تک او ایس ڈی رہے ، صوبۂ سندھ اپنے بہترین پولیس افسر سے محروم رہا۔ پانچ سال کے بعد وفاقی حکومت تبدیل ہوئی تو نجف مرزا کو ایف آئی اے میں تعینات کیا گیا۔

وہاں بھی کچھ عرصہ بعد وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی ناراض ہوگئے اور اسے ایف آئی اے سے ہٹادیا گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اسے نیب میں تعیّنات کرکے سندھ کا انچارج بنادیا گیا، جہاں وہ اپنے فرائض ایمانداری اور انصاف کے مطابق انجام دیتا رہا۔ موجودہ اتحادی حکومت بنتے ہی نجف کو نیب سے ہٹادیا گیا۔

اب پوری سول سروسز میں یہ تاثر ہے کہ چند روز بعد ریٹائرہونے والے ڈاکٹر نجف کو سینئر ترین اور حقدار ہونے کے باوجود گریڈ 22میں پروموٹ نہیں کیا جارہا ، پروموشن بورڈ کا اجلاس سات بار ملتوی کیا گیا ہے۔

میں قوم ، عدالتِ عظمیٰ اور مقتدر حلقوں سے یہ سوال کروںگا کہ کیا ایمانداری سے نوکری کرنا اور میرٹ اور انصاف کے مطابق فیصلے کرنا ایک سول سرونٹ کا ایسا جرم ہے کہ اسے پروموشن سے ہی محروم کردیا جائے؟

اس کے بعد زرداری صاحب سے کہوںگا کہ ایک ایماندار افسر کی پروموشن میں کوئی رکاوٹ ہے تو اسے دور کرا دیں، میں بلاول صاحب سے بھی کہوںگا کہ وہ جدید ذہن کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں وہ خود intervene کرکے زیادتی کا ازالہ کریں ۔

آخر میں پرائم منسٹر صاحب سے گزارش کروںگا کہ آپ پروموشن بورڈ کے سربراہ بھی ہیں اور ملک کے حاکمِ اعلیٰ بھی آپ، خدارا، ایک نیک نام سول سرونٹ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا فوری ازالہ کیجیے اور اس کی ریٹائرمنٹ (26فروری ) سے پہلے پروموشن بورڈ کی میٹنگ کرکے حق دار کو اس کا حق لوٹا دیجیے۔ انصاف کرنے والے اﷲ کو سب سے زیادہ عزیز ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں