لاہور کے ادبی میلے اور فیض ؔصاحب

فیض کے پرستاروں کی اس میلے میں بھر پور شرکت نے ان کے نظریہ اظہار کو دوام بخشا ہے

atharqhasan@gmail.com

کالم ایک ہے مگر ان دنوںموضوعات کی بہتات ہے۔ سیاست کی پراگندگی پر ، آئی ایم ایف کی نوازشات پر، بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے دو رکنی وفد کی آمد پر ، مہنگائی کے طوفان پر بلاشبہ کئی صفحات کالے کیے جا سکتے ہیں۔

لیکن ان موضوعات پر روزانہ اتنا کچھ لکھا جارہا ہے کہ قارئین بھی تنگ نظر آتے ہیں لکھنے والوں کی بھی مجبوری ہے کہ عوام کی بات خاص تک پہنچانے کے لیے انھیں انھی موضوعات کا سہارا لینا پڑتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اشرافیہ کے نقار خانے میں عوام کے لیے ان کے لکھے الفاظ کی شنوائی محال ہوتی ہے۔ البتہ خواص کی بات عوام تک پہنچانے میں کامیابی یقینی ہے اور آج کل یہ دھندہ زوروں پر بھی ہے۔

بہار کی آمد آمد ہے، اس خوشگوار موسم میں جب چہار سو ہریالی اور پھولوں کی مہک اپنے جوبن پر ہوتی ہے اور فضاء میں خوشبو بکھری ہوتی ہے تو دل کے موسم بھی خوشگوار ہوجاتے ہیں۔

کئی برس پہلے تک لاہور میں بہار کی آمد کا اعلان بسنت کے روئتی تہوار سے ہوتا تھا لیکن برُا ہو ان ظالم لوگوں کا جنھوں نے اس خوبصورت تہوار کوخونی ڈور میں بدل کر لاہور کے اس اہم تہوار کو تباہ و برباد کر دیا۔

لاہور جس کی برصغیر میں شہرت ادب دوست شہر کی ہے، بہار کی آمد ہو اور لاہور میں ثقافتی اور ادبی میلے منعقد نہ ہوں، یہ ممکن نہیں ۔لاہور میں منعقد ہونے والے ادبی اور ثقافتی میلے بہارکے اس موسم کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔

گزشتہ دنوں لاہور میں پاکستان ادبی میلہ اور فیض فیسٹیول کا کامیاب انعقاد غمازی کرتا ہے کہ اس شہر میں ثقافت ابھی زندہ ہے ۔

لاہور کے الحمرا ء ہال میں پاکستان ادبی میلے میں ملک بھر سے ادب اور ثقافت سے منسلک ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔

ایک مدت کے بعد یہ مثبت نظارہ دیکھنے کو ملا کہ لاہوریوں نے اس میلے میں بھر پور شرکت کر کے لاہور شہر کے ادب دوست اور ادب نواز شہر ہونے پر مہر ثبت کر دی ۔

نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے تین روز تک ادبی میلے کی مختلف تقریبات میںجس دلجمعی سے شرکت کی اس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ پاکستانی نوجوانوں کی ادب میں دلچسپی برقرار ہے اور وہ اپنے بزرگوں کی علمی گفتگو سے استفادہ کرنااور محظوظ ہونا چاہتے ہیں ۔


عموماً یہ تصور کیا جاتا ہے کہ علمی اور ادبی تقریبات میں صرف بڑی عمر کے لوگ ہی دلچسپی لیتے ہیں لیکن اس بار نوجوانوں کی بھر پورشرکت نے اس تصور کو غلط ثابت کر دیا ۔حقیقت میں الحمرا کے تینوں ہالز میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی لیکن مجال ہے کہ رش کی وجہ سے کوئی بدمزگی پیدا ہوئی ہو۔

کتابوں کی تقریب رونمائی جن میں خاص طور پر مستنصر حسین تارڑ کی 'میں بھناں دلی دے کنگرے ' اور معروف بیورو کریٹ فواد حسن فواد کی 'کنج قفس ' میں شرکاء کی حیران کن حد تک حاضری اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ لاہور میں ادب دوستی ابھی زندہ ہے۔

محترم انور مقصود کی گفتگو نے سونے پہ سہاگے کا کام دیا، ان کی گفتگو کے دوران ہال تالیوں سے مسلسل گونجتا رہا، انھوں نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے اہل سیاست کو اپنی گفتگو کا مرکز بنایا اور حاضرین سے خوب داد سمیٹی اور کراچی سے لاہور آکر ادبی میلہ لوٹ لیا۔

ادب کا سلسلہ ہو اور فیض صاحب کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں ہے۔سالانہ کی بنیاد پر لاہور میں منعقد فیضؔ فیسٹیول کی تین روز تقریبات میں ادب،ثقافت ، اہل سیاست اور صحافت کے علاوہ عوام کی شرکت حبس زدہ اور گھٹن کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔

پاکستان کے علاوہ ہندوستان سے فیضؔ دوست احباب کی شرکت نے میلے کی رونق میں مزید اضافہ کر دیا۔

ایک ہفتہ قبل بھی باغ جناح میں فیض صاحب کے پرستاروں کی جانب سے فیض ؔمیلے کا انعقاد کیا گیا تھا،دوران میلہ ایک پرستار جی ایم انجم سے گفتگو کا موقع ملا ،وہ کہنے لگے کہ ہم پرستار فیض صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے الگ سے ایک روزہ تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔

وہ کہنے لگے کہ غریبوں کا فیضؔ الگ ہے اور امیروں کا فیضؔ الگ۔ بہر حال فیض صاحب کی یاد میں منعقدہ میلے میں عوام کی والہانہ شرکت اس بات کا اظہار ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے حالات آج بھی وہی ہیں جن کا اظہار فیض صاحب اپنی نظموں میں کر گئے ہیں۔

فیض کے پرستاروں کی اس میلے میں بھر پور شرکت نے ان کے نظریہ اظہار کو دوام بخشا ہے۔ جس طرح احمد فرازؔ کی نظم 'محاصرہ' جو کشمیر یوں کی آزادی سلب کرنے کی نمایندہ سمجھی جاتی ہے اور وہ اس کے متعلق یہ کہہ گئے ہیں جب تک کشمیر آزاد نہیں ہو جاتا ان کی یہ نظم تازہ رہے گی، دوسری جانب جب تک عوام کے لیے جبر کا موسم بدل نہیں جاتا فیض ؔ کا کلام اسی طرح پڑھا جاتا رہے گا اور ان کے پرستار بہار کے موسم میں انھیں عقیدت و احترام سے یاد کرتے رہیں گے۔

فیضؔ دلوں کے بھاگ میں ہے ،گھر بھرنا بھی لُٹ جانا بھی

تم اس حسن کے لطف وکرم پر کتنے دن اتراؤ گے
Load Next Story