ایٹمی قوت اور آٹے کی قطاریں دوسرا اور آخری حصہ
ایسے حالات میں پاکستانی فوج لائق تحسین ہے کہ اس کی بہترین تیاری اور مہارت نے اسے دشمن سے بچا رکھا ہے
وہ چھوٹی سے لکیرشیطان کی انگلی تھی۔ وہ قصہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ کسی نے شیطان سے پوچھا کہ تم اتنے بڑے بڑے فساد کیسے برپا کردیتے ہو ۔تو شیطان اسے بازار لے گیا اور بازار کے ایک حلوائی کی شیرے کی کڑاہی میں ایک انگلی ڈبوکر دیوار پر مل دی۔
اس انگلی کے نشان پر مکھیاں بھنبھنانے لگیں تو چھت سے ایک چھپکلی ان مکھیوں کا شکار کرنے کے لیے اتر آئی، ادھر ایک بلی بھی کہیں سے آپہنچی، بلی کودیکھ کربازار میں چلتے ہوئے ایک رئیس کاکتا بلی پر جھپٹ پڑا۔ دکان میں ہنگامہ دیکھ کرحلوائی نے کتے کو کڑچھامارا جو وہیں مرگیا ،رئیس نے اپنے کتے کایہ حشر دیکھا تو تلوار مارکرحلوائی کاسر اڑا دیا۔
بازار کے دکانداروں نے حلوائی کایہ حشر دیکھا تو رئیس کو مار ڈالا،رئیس کے رشتہ داروں کو خبر ہوئی تو مسلح ہوکر بازار پہنچے اور تھوڑی ہی دیر میں بازار میدان جنگ بن گیا۔پوچھنے والے نے شیطان کی طرف دیکھا تو وہ معصوم سی شکل بناکر بولا، میں نے توکچھ نہیں کیا ہے صرف شیرے کی انگلی دیوار پر مل دی ہے ۔
پنسل کی وہ چھوٹی سی لکیر جو ہندوستان کے نقشے پر کھینچی گئی تھی ،شیطان کی انگلی تھی جس نے گورداس پور کو پاکستان سے جداکرکے بھارت کودیا ۔ہند کے مشہور صحافی کلدیپ نائرنے کہیں لکھا ہے کہ کافی عرصے بعد میں سرسیرل ریڈکلف سے ملا تو اس نے کہا کہ مجھے معلوم ہی نہیںتھا کہ کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اتنی اہمیت اختیار کرجائے گا۔
اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کس کو کشمیرکی اہمییت کاعلم تھا اورکس کس کو نہیں، ریڈ کلف ،لارڈ اسمے اورماؤنٹ کے بارے میں بھی نہیں کہاجاسکتا کہ ان کو کیا معلوم تھا اورکیا نہیں لیکن عالمی مالی مافیا کو علم تھاجسے مجموعی طور پر بینکسٹر (بروزن گینگسٹر) بھی کہا جاسکتاہے اورجس کا ڈائریکٹر جنرل امریکا ہے کہ اگر پاکستان اورہندوستان کو ریڈ کلف کے فارمولے پر آزاد کیاگیا تو دونوں ملکوں میں بہت ساری مشترکات ہیں اورمستقبل میں دونوں کے درمیان مصالحت بھی ہوسکتی ہے۔
پھر افغانستان اورافغانستان کے ساتھ روس بھی اس میں شامل ہوسکتاہے اور چین بھی، یوں طاقت کا پلڑا مغرب سے ایشیا کی طرف بھی جھک سکتاہے جب کہ ایشیا عالمی مالی مافیا کی مارکیٹ ہے اورکوئی تاجر اپنی مارکیٹ کھونے کو تیار نہیں ہوتا ۔اس لیے ضروری تھا کہ ان دونوں ممالک کے درمیان کوئی مستقل تنازعہ موجود رہے اور اس کے لیے ''کشمیر'' کو چنا گیا۔
ایک لکیر نے گورداس پورکو بھارت کے حوالے کردیا، دوسرے الفاظ میں کشمیر تک رسائی دے دی، اگر گورداس پور پاکستان کو دیاگیا ہوتا تو اسے کشمیر تک رسائی بھی نہ ملتی، کشمیر اورکشمیر سے نکلنے والے دریا بھی بھارت کو مل گئے اوردونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل ''ہڈی'' ڈال دی گئی۔
اب دونوں مجبور ہیں کہ دشمنی کا یہ رشتہ ہمیشہ قائم رکھیں، اس کا فائدہ امریکا اوراس کے حلیف ممالک کو پہنچ رہاہے ،نہ صرف گراں قیمت ہتھیار بنا بنا کر دونوں کو بیچ رہے ہیں اور بھی بہت سارے مفادات حاصل کر رہے ہیں۔دونوں ممالک مجبور ہیں کہ اپنے بچوں کاپیٹ کاٹ کاٹ کر اس مستقل دشمنی کو پالتے رہیں ۔بھارت کو پھر بھی یہ بوجھ اٹھانے میں اتنی دشواری نہیں ہے کہ اس کا حجم پاکستان سے زیادہ ہے لیکن پاکستان کو اپنے حجم سے کئی گنا زیادہ بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ہمارے اکثر لوگ ایسی باتیں سوچتے بھی ہیں اورکرتے بھی ہیں، اکثر لوگ دفاع پر خرچ ہونے والے بجٹ کاذکر کرتے رہتے ہیں اور درست بھی ہے کہ ہم آمدنی کابہت زیادہ دفاع پر خرچ کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ اگر جرمنی، جاپان اور بنگلہ دیش نے اتنی تیزرفتار ترقی کی ہے تو اسی وجہ سے کی ہے کہ ان کو فوج پالنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن کوئی دانا سے داناآدمی بتائے کہ پاکستان کے پاس اورکوئی راستہ ہے؟ وہ چاہے نہ چاہے اسے اپنے دشمن سے اپنا دفاع کرنے کے لیے اپنے حجم سے کئی گنا زیادہ بوجھ اٹھانا پڑ رہاہے ۔
یہ ویسی ہی بات ہے جیسا ہماری زندگی میں اکثر دیکھا جاسکتاہے کہ جب دوفریقوں کے درمیان دشمنی ہوجاتی ہے تو دونوں کو ایسا بہت کچھ کرنا پڑتاہے جو پسندیدہ نہیں ہوتا، بچوں کو بہت کچھ سے محروم رکھا جاتاہے ،شادی غمی متاثرہوجاتی ہے اور ہرطرف سے کٹوتی کرکے اسلحہ اوردشمنی پالنے کے لوازمات مہیا کرنا پڑتے ہیں، اثاثے بیچ دیے جاتے ہیں ۔
قرضے چڑھ جاتے ہیں، روزگار متاثر ہوجاتے ہیں، تھانہ کچہری پر خرچ بڑھ جاتا ہے، یہی مجبوری پاکستان کی بھی ہے بلکہ ایسے حالات میں پاکستانی فوج لائق تحسین ہے کہ اس کی بہترین تیاری اور مہارت نے اسے دشمن سے بچا رکھا ہے ورنہ مقابلے میں دشمن اتنا بے رحم ہے، ذلیل ہے کہ وہ اب تک بہت کچھ کرچکاہوتا ؟
اس انگلی کے نشان پر مکھیاں بھنبھنانے لگیں تو چھت سے ایک چھپکلی ان مکھیوں کا شکار کرنے کے لیے اتر آئی، ادھر ایک بلی بھی کہیں سے آپہنچی، بلی کودیکھ کربازار میں چلتے ہوئے ایک رئیس کاکتا بلی پر جھپٹ پڑا۔ دکان میں ہنگامہ دیکھ کرحلوائی نے کتے کو کڑچھامارا جو وہیں مرگیا ،رئیس نے اپنے کتے کایہ حشر دیکھا تو تلوار مارکرحلوائی کاسر اڑا دیا۔
بازار کے دکانداروں نے حلوائی کایہ حشر دیکھا تو رئیس کو مار ڈالا،رئیس کے رشتہ داروں کو خبر ہوئی تو مسلح ہوکر بازار پہنچے اور تھوڑی ہی دیر میں بازار میدان جنگ بن گیا۔پوچھنے والے نے شیطان کی طرف دیکھا تو وہ معصوم سی شکل بناکر بولا، میں نے توکچھ نہیں کیا ہے صرف شیرے کی انگلی دیوار پر مل دی ہے ۔
پنسل کی وہ چھوٹی سی لکیر جو ہندوستان کے نقشے پر کھینچی گئی تھی ،شیطان کی انگلی تھی جس نے گورداس پور کو پاکستان سے جداکرکے بھارت کودیا ۔ہند کے مشہور صحافی کلدیپ نائرنے کہیں لکھا ہے کہ کافی عرصے بعد میں سرسیرل ریڈکلف سے ملا تو اس نے کہا کہ مجھے معلوم ہی نہیںتھا کہ کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اتنی اہمیت اختیار کرجائے گا۔
اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کس کو کشمیرکی اہمییت کاعلم تھا اورکس کس کو نہیں، ریڈ کلف ،لارڈ اسمے اورماؤنٹ کے بارے میں بھی نہیں کہاجاسکتا کہ ان کو کیا معلوم تھا اورکیا نہیں لیکن عالمی مالی مافیا کو علم تھاجسے مجموعی طور پر بینکسٹر (بروزن گینگسٹر) بھی کہا جاسکتاہے اورجس کا ڈائریکٹر جنرل امریکا ہے کہ اگر پاکستان اورہندوستان کو ریڈ کلف کے فارمولے پر آزاد کیاگیا تو دونوں ملکوں میں بہت ساری مشترکات ہیں اورمستقبل میں دونوں کے درمیان مصالحت بھی ہوسکتی ہے۔
پھر افغانستان اورافغانستان کے ساتھ روس بھی اس میں شامل ہوسکتاہے اور چین بھی، یوں طاقت کا پلڑا مغرب سے ایشیا کی طرف بھی جھک سکتاہے جب کہ ایشیا عالمی مالی مافیا کی مارکیٹ ہے اورکوئی تاجر اپنی مارکیٹ کھونے کو تیار نہیں ہوتا ۔اس لیے ضروری تھا کہ ان دونوں ممالک کے درمیان کوئی مستقل تنازعہ موجود رہے اور اس کے لیے ''کشمیر'' کو چنا گیا۔
ایک لکیر نے گورداس پورکو بھارت کے حوالے کردیا، دوسرے الفاظ میں کشمیر تک رسائی دے دی، اگر گورداس پور پاکستان کو دیاگیا ہوتا تو اسے کشمیر تک رسائی بھی نہ ملتی، کشمیر اورکشمیر سے نکلنے والے دریا بھی بھارت کو مل گئے اوردونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل ''ہڈی'' ڈال دی گئی۔
اب دونوں مجبور ہیں کہ دشمنی کا یہ رشتہ ہمیشہ قائم رکھیں، اس کا فائدہ امریکا اوراس کے حلیف ممالک کو پہنچ رہاہے ،نہ صرف گراں قیمت ہتھیار بنا بنا کر دونوں کو بیچ رہے ہیں اور بھی بہت سارے مفادات حاصل کر رہے ہیں۔دونوں ممالک مجبور ہیں کہ اپنے بچوں کاپیٹ کاٹ کاٹ کر اس مستقل دشمنی کو پالتے رہیں ۔بھارت کو پھر بھی یہ بوجھ اٹھانے میں اتنی دشواری نہیں ہے کہ اس کا حجم پاکستان سے زیادہ ہے لیکن پاکستان کو اپنے حجم سے کئی گنا زیادہ بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ہمارے اکثر لوگ ایسی باتیں سوچتے بھی ہیں اورکرتے بھی ہیں، اکثر لوگ دفاع پر خرچ ہونے والے بجٹ کاذکر کرتے رہتے ہیں اور درست بھی ہے کہ ہم آمدنی کابہت زیادہ دفاع پر خرچ کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ اگر جرمنی، جاپان اور بنگلہ دیش نے اتنی تیزرفتار ترقی کی ہے تو اسی وجہ سے کی ہے کہ ان کو فوج پالنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن کوئی دانا سے داناآدمی بتائے کہ پاکستان کے پاس اورکوئی راستہ ہے؟ وہ چاہے نہ چاہے اسے اپنے دشمن سے اپنا دفاع کرنے کے لیے اپنے حجم سے کئی گنا زیادہ بوجھ اٹھانا پڑ رہاہے ۔
یہ ویسی ہی بات ہے جیسا ہماری زندگی میں اکثر دیکھا جاسکتاہے کہ جب دوفریقوں کے درمیان دشمنی ہوجاتی ہے تو دونوں کو ایسا بہت کچھ کرنا پڑتاہے جو پسندیدہ نہیں ہوتا، بچوں کو بہت کچھ سے محروم رکھا جاتاہے ،شادی غمی متاثرہوجاتی ہے اور ہرطرف سے کٹوتی کرکے اسلحہ اوردشمنی پالنے کے لوازمات مہیا کرنا پڑتے ہیں، اثاثے بیچ دیے جاتے ہیں ۔
قرضے چڑھ جاتے ہیں، روزگار متاثر ہوجاتے ہیں، تھانہ کچہری پر خرچ بڑھ جاتا ہے، یہی مجبوری پاکستان کی بھی ہے بلکہ ایسے حالات میں پاکستانی فوج لائق تحسین ہے کہ اس کی بہترین تیاری اور مہارت نے اسے دشمن سے بچا رکھا ہے ورنہ مقابلے میں دشمن اتنا بے رحم ہے، ذلیل ہے کہ وہ اب تک بہت کچھ کرچکاہوتا ؟