زندگی مشکلات اور ہمت
زندگی جیسی نعمت کی قدر کیجیے اور اپنی زندگی کو مثبت انداز سے بہتر بنانے کےلیے ہمہ وقت کوشاں رہیے
شفق آج بے حد اداس اور رنجیدہ تھی۔ اس کا کسی کام میں دل ہی نہیں لگ رہا تھا۔ باوجود کوشش کے اس کا ذہن بار بار اپنی شکست کی طرف چلا جاتا تھا۔ اس نے تو امتحان میں کامیابی کےلیے بہت محنت کی تھی اور اسے امید بھی تھی کہ کامیابی کے بعد ایک روشن مستقبل اس کا منتظر ہوگا۔ لیکن توقع کے برخلاف وہ امتحان میں فیل ہوگئی تھی۔ ہار جانے کا دکھ تو تھا ہی لیکن دوسری طرف معاشرے اور خاص طور پر عزیز رشتے داروں کی طرف سے سبکی کا خوف بھی تھا۔
ابھی شفق اپنے کمرے میں اسی ادھیڑبن میں تھی کہ اس کے والد اس کے پاس چلے آئے۔ وہ اس کی افسردگی کو کافی دیر سے محسوس کررہے تھے لیکن اسے کچھ وقت بھی دینا چاہتے تھے۔ گھر میں تمام افراد کو شفق کے ناکام ہونے کا دکھ تھا لیکن وہ اس کے سامنے پریشان ہوکر اسے مزید کمزور نہیں کرنا چاہتے تھے۔ شفق کے والد نے اسے کچن میں آنے کےلیے کہا اور تین مختلف برتنوں میں مختلف چیزیں ڈال کر ابالنے کےلیے دیں۔ ایک میں چند آلو، دوسری دیگچی میں انڈے اور تیسرے میں کافی بین رکھ دیے۔ شفق اس سارے عمل سے اکتا سی گئی تھی اور اسے بہت غصہ آرہا تھا کہ آج کے دن ہی ابا نے ایسا کیوں کیا اور اس سب کی کیا تُک بنتی ہے۔
ابا شفق کی بے چینی کو بھانپ چکے تھے۔ تینوں چیزوں کے ابلنے کے بعد انھوں نے آلو کے چھلکے اتارے تو وہ سخت سے نرم ہوکر گل گئے تھے۔ دوسری دیگچی میں انڈے ابل کر سخت ہوگئے تھے اور تیسری کیتلی میں کافی بین نے اپنی شکل برقرار رکھتے ہوئے پانی کو بھی اپنے جیسا رنگ دیا تھا۔
شفق کے ابا نے مثال دیتے ہوئے کہا ''آلو ابلنے سے پہلے سخت تھے، جب ان کو ابلنے کےلیے گرم پانی میں ڈالا تو وہ مشکل سے گھبرا کر کمزور پڑ گئے، جبکہ دوسری طرف انڈے ابلنے کے بعد مضبوط ہوئے اور ان کی ایک ساخت بن گئی، یعنی انھوں نے مشکل کا سامنا کافی حد تک حوصلے سے کیا۔ اور آخر میں رہ گئے کافی بین، جنہوں نے بالکل بھی کسی قسم کے خوف میں مبتلا ہوئے بغیر گرم پانی کا سامنا کیا اور اپنی طاقت سے گرم پانی کا ہی رنگ بدل دیا۔
یہی زندگی ہے۔ کیونکہ زندگی گویا تپتی ہواؤں کا سفر ہے۔ یہاں بہت سی مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہمیں اس دوران یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہر کسی کا ردعمل مختلف ہوتا ہے۔ کبھی کوئی مصیبتوں سے ڈر کر ہار کر بیٹھ جاتا ہے تو کوئی کسی بھی صورتحال سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ مشکل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مردانہ وار سامنا کرتا ہے اور کوئی تو اتنا تناور درخت بن جاتا ہے کہ پریشانیوں، دکھوں اور مصیبتوں کی آندھیاں اسے نہیں اکھاڑ سکتیں۔
زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ کبھی خوشی ہوتی ہے اور کبھی غم۔ کیونکہ اسی توازن کا نام ہی حیات ہے۔ اہم یہ ہے کہ ہم مختلف صورتوں میں کیسے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ کوئی آلو کی طرح ردعمل کا اظہار کرتا ہے، گھبراتا ہے، تو کوئی کافی بین کی طرح مضبوطی سے ایک جگہ پر کھڑا رہتا ہے۔ پریشانی، بیروزگاری، افلاس، بیماری، موت، سب زندگی کے ساتھ ہیں اور ان میں سے کئی چیزوں پر ہمارا کوئی اختیار نہیں لیکن پھر بھی یہ دنیا امید کے سہارے چل رہی ہے۔ انسانیت، خدمت، ہمدردی اور محبت معدوم ضرور ہوئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی۔ ابھی بھی وہ لوگ زندہ ہیں جو اپنی قدروقیمت پہچانتے ہیں، اپنی مٹی جیسی زندگی کو کوشش، محنت اور مسلسل جدوجہد سے سونا بنانے کےلیے کوشاں ہیں۔ یعنی چاہے تو انسان اپنی زندگی کو بامقصد بنا لے اور چاہے تو اسے ضائع کردے۔ یہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ خود کو سونے کی طرح انمول بنائے یا مٹی کی طرح حقیر۔
ہمارے معاشرے میں یہی ہوتا ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں کرتے اور دوسروں کے غلط مشوروں پر چلتے ہیں، جس سے ہمارا آج تو برباد ہوتا ہی ہے لیکن ہمارا آنے والا کل بھی کوئی اچھا نہیں ہوتا۔
غصے میں، جذباتیت میں اکثر ایسے فیصلے کر بیٹھتے ہیں کہ بعد میں سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کی چھوٹی مثال یہ ہے کہ ہم چھوٹے فیصلے فوری لے سکتے ہیں، بڑے نہیں۔ جیسے کوئی دوست فلم پر جانے کےلیے کہے اور ہم چلے گئے تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا لیکن کوئی اگر آپ کو محبت کا یقین دلائے اور آپ بغیر سوچے سمجھے شادی کرلیں تو یہ ساری زندگی کےلیے مصیبت بن جائے گی۔
ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہم ہر کام نہیں کرسکتے بلکہ ہم سب کی مختلف فیلڈز ہیں جس میں ہم اپنی اپنی مہارت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر امتحان ہر شخص ہی کامیابی سے پاس کرلے اور یہی کامیابی ہمارے لیے حرف آخر بن جائے۔ کوئی بھی چیز مستقل نہیں رہتی، چاہے شہرت ہو، دولت یا قسمت؟ وقت ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اور یہی اس وقت کی رعنائی ہے۔ یہ ہم پر ہوتا ہے کہ ہم مصیبتوں کا سامنا حوصلے سے کریں یا پھر کہیں کونے کھدرے میں منہ چھپا کر رونے لگیں۔
زندگی قدرت کا حسین تحفہ ہے، اس کی مثال بہتے ہوئے جھرنے، معصوم بچوں کی قلقاریوں، پھولوں کی رعنائیوں اور موسیقی کے سُر جیسی ہے۔ اس لیے اس نعمت کی قدر کیجیے اور اپنی زندگی کو مثبت انداز سے بہتر سے بہتر بنانے کےلیے ہمہ وقت کوشاں رہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ابھی شفق اپنے کمرے میں اسی ادھیڑبن میں تھی کہ اس کے والد اس کے پاس چلے آئے۔ وہ اس کی افسردگی کو کافی دیر سے محسوس کررہے تھے لیکن اسے کچھ وقت بھی دینا چاہتے تھے۔ گھر میں تمام افراد کو شفق کے ناکام ہونے کا دکھ تھا لیکن وہ اس کے سامنے پریشان ہوکر اسے مزید کمزور نہیں کرنا چاہتے تھے۔ شفق کے والد نے اسے کچن میں آنے کےلیے کہا اور تین مختلف برتنوں میں مختلف چیزیں ڈال کر ابالنے کےلیے دیں۔ ایک میں چند آلو، دوسری دیگچی میں انڈے اور تیسرے میں کافی بین رکھ دیے۔ شفق اس سارے عمل سے اکتا سی گئی تھی اور اسے بہت غصہ آرہا تھا کہ آج کے دن ہی ابا نے ایسا کیوں کیا اور اس سب کی کیا تُک بنتی ہے۔
ابا شفق کی بے چینی کو بھانپ چکے تھے۔ تینوں چیزوں کے ابلنے کے بعد انھوں نے آلو کے چھلکے اتارے تو وہ سخت سے نرم ہوکر گل گئے تھے۔ دوسری دیگچی میں انڈے ابل کر سخت ہوگئے تھے اور تیسری کیتلی میں کافی بین نے اپنی شکل برقرار رکھتے ہوئے پانی کو بھی اپنے جیسا رنگ دیا تھا۔
شفق کے ابا نے مثال دیتے ہوئے کہا ''آلو ابلنے سے پہلے سخت تھے، جب ان کو ابلنے کےلیے گرم پانی میں ڈالا تو وہ مشکل سے گھبرا کر کمزور پڑ گئے، جبکہ دوسری طرف انڈے ابلنے کے بعد مضبوط ہوئے اور ان کی ایک ساخت بن گئی، یعنی انھوں نے مشکل کا سامنا کافی حد تک حوصلے سے کیا۔ اور آخر میں رہ گئے کافی بین، جنہوں نے بالکل بھی کسی قسم کے خوف میں مبتلا ہوئے بغیر گرم پانی کا سامنا کیا اور اپنی طاقت سے گرم پانی کا ہی رنگ بدل دیا۔
یہی زندگی ہے۔ کیونکہ زندگی گویا تپتی ہواؤں کا سفر ہے۔ یہاں بہت سی مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہمیں اس دوران یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہر کسی کا ردعمل مختلف ہوتا ہے۔ کبھی کوئی مصیبتوں سے ڈر کر ہار کر بیٹھ جاتا ہے تو کوئی کسی بھی صورتحال سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ مشکل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مردانہ وار سامنا کرتا ہے اور کوئی تو اتنا تناور درخت بن جاتا ہے کہ پریشانیوں، دکھوں اور مصیبتوں کی آندھیاں اسے نہیں اکھاڑ سکتیں۔
زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ کبھی خوشی ہوتی ہے اور کبھی غم۔ کیونکہ اسی توازن کا نام ہی حیات ہے۔ اہم یہ ہے کہ ہم مختلف صورتوں میں کیسے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ کوئی آلو کی طرح ردعمل کا اظہار کرتا ہے، گھبراتا ہے، تو کوئی کافی بین کی طرح مضبوطی سے ایک جگہ پر کھڑا رہتا ہے۔ پریشانی، بیروزگاری، افلاس، بیماری، موت، سب زندگی کے ساتھ ہیں اور ان میں سے کئی چیزوں پر ہمارا کوئی اختیار نہیں لیکن پھر بھی یہ دنیا امید کے سہارے چل رہی ہے۔ انسانیت، خدمت، ہمدردی اور محبت معدوم ضرور ہوئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی۔ ابھی بھی وہ لوگ زندہ ہیں جو اپنی قدروقیمت پہچانتے ہیں، اپنی مٹی جیسی زندگی کو کوشش، محنت اور مسلسل جدوجہد سے سونا بنانے کےلیے کوشاں ہیں۔ یعنی چاہے تو انسان اپنی زندگی کو بامقصد بنا لے اور چاہے تو اسے ضائع کردے۔ یہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ خود کو سونے کی طرح انمول بنائے یا مٹی کی طرح حقیر۔
ہمارے معاشرے میں یہی ہوتا ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں کرتے اور دوسروں کے غلط مشوروں پر چلتے ہیں، جس سے ہمارا آج تو برباد ہوتا ہی ہے لیکن ہمارا آنے والا کل بھی کوئی اچھا نہیں ہوتا۔
غصے میں، جذباتیت میں اکثر ایسے فیصلے کر بیٹھتے ہیں کہ بعد میں سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کی چھوٹی مثال یہ ہے کہ ہم چھوٹے فیصلے فوری لے سکتے ہیں، بڑے نہیں۔ جیسے کوئی دوست فلم پر جانے کےلیے کہے اور ہم چلے گئے تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا لیکن کوئی اگر آپ کو محبت کا یقین دلائے اور آپ بغیر سوچے سمجھے شادی کرلیں تو یہ ساری زندگی کےلیے مصیبت بن جائے گی۔
ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہم ہر کام نہیں کرسکتے بلکہ ہم سب کی مختلف فیلڈز ہیں جس میں ہم اپنی اپنی مہارت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر امتحان ہر شخص ہی کامیابی سے پاس کرلے اور یہی کامیابی ہمارے لیے حرف آخر بن جائے۔ کوئی بھی چیز مستقل نہیں رہتی، چاہے شہرت ہو، دولت یا قسمت؟ وقت ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اور یہی اس وقت کی رعنائی ہے۔ یہ ہم پر ہوتا ہے کہ ہم مصیبتوں کا سامنا حوصلے سے کریں یا پھر کہیں کونے کھدرے میں منہ چھپا کر رونے لگیں۔
زندگی قدرت کا حسین تحفہ ہے، اس کی مثال بہتے ہوئے جھرنے، معصوم بچوں کی قلقاریوں، پھولوں کی رعنائیوں اور موسیقی کے سُر جیسی ہے۔ اس لیے اس نعمت کی قدر کیجیے اور اپنی زندگی کو مثبت انداز سے بہتر سے بہتر بنانے کےلیے ہمہ وقت کوشاں رہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔