آفتاب سلطان…حرف انکار یا کچھ اور
جب آفتاب سلطان نے یہ کہا ہے کہ ان پر غلط کام کے لیے دباؤ تھا‘ تو کیا ہی بہتر کہ وہ دباؤ ڈالنے والوں کا نام بھی بتاتے
چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور وزیر اعظم نے اسے قبول بھی کر لیا ہے۔ادھر نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
قانون کے مطابق وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے نئے چیئرمین نیب کو نامزد کریں گے۔ شہباز شریف اور راجہ ریاض کے درمیان کسی ایک نئے نام پر اتفاق کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا آفتاب سلطان کے استعفیٰ سے حکومت کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیںہوگا۔
آفتاب سلطان نے جاتے ہوئے ایک پنڈورا بکس کھولنا مناسب سمجھا ہے حالانکہ وہ خاموشی سے بھی جا سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں رکھا ہے۔ انھوں نے نیب کے افسران سے اپنے الوداعی خطاب میں کہا ہے کہ ان پر غلط گرفتاریوں کا دباؤ تھا۔
انھوں نے اس دباؤکی وجہ سے استعفیٰ دیا ہے' میں کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ نہیں چلا سکتا اور نہ ہی کسی بڑی شخصیت کا رشتہ دار ہونے پر ریفرنس ختم کر سکتا ہوں۔ یوں ان کے خطاب سے یہ تاثر لیا جا رہا ہے کہ ان پر غیر قانونی اقدامات کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔
کچھ دوستوں کی یہ رائے سامنے آئی ہے کہ آفتاب سلطان نے استعفیٰ دیکر بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ لہٰذا وہ ایک ہیرو ہیںکیونکہ انھوں نے غلط کام کرنے سے مستعفی ہونا بہتر سمجھا ہے۔ وہ ایک رول ماڈل ہیں' سب کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔
کل تک تحریک انصاف آفتاب سلطان کو شریف خاندان کے گھر کا ملازم کہہ رہی تھی 'وہ آج انھیں ایک اصول پسند افسر کہہ رہی ہے اور ان کی شان میں قصیدے پڑھ رہی ہے۔ شاید ان کے جانے کے بعد تحریک انصاف کو اندازہ ہوا ہے کہ وہ ٹھیک آدمی تھے۔ لیکن اگر وہ استعفیٰ نہ دیتے تو تحریک انصاف کو کبھی یہ پتہ نہ چلتا کہ وہ ایک اصول پسندافسر ہیں' یہ بتانے کے لیے استعفیٰ دینا ضروری تھا۔
میری رائے میں آفتاب سلطان کا مستعفی ہونا کوئی بہادری ہے۔ وہ کوئی ہیرو ہیں اور نہ ہی کوئی رول ماڈل ہیں۔ دباؤ میں استعفیٰ دینا کوئی بہادری نہیں ہوتی ہے۔
چیئرمین نیب کے عہدہ کو خاص قانونی تحفظ حاصل ہے۔ چیئرمین نیب کو وہی قانونی تحفظ حاصل ہے جو سپریم کورٹ کے ایک جج کو حاصل ہے۔
جس طرح سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ملک کا کوئی ادارہ ایکشن نہیں لے سکتا' اسی طرح چیئرمین نیب کے خلاف بھی ملک کا کوئی ادارہ ایکشن نہیں لے سکتا۔ انھیں صرف سپریم جیوڈیشل کونسل میں ایک ریفرنس سے ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔
جیسے سپریم کورٹ کے جج کو بھی سپریم جیوڈیشل کونسل میں ریفرنس سے ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔ جب آپ کو اس قدر قانونی تحفظ دیا گیا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ آپ ہر قسم کے دباؤ سے بے خوف ہو کر ایمانداری سے اپنا کام کر سکیں۔ اگر اس قدر قانونی تحفظ بھی آپ کا ڈر ختم نہ کر سکے تو یقیناً آپ ایک کمزور آدمی کہلائیں گے۔ آپ غیرمعمولی پریشر برداشت نہیں کر سکتے یہ خوبی نہیں بلکہ خامی ہوتی ہے۔
غلط گرفتاریوں اور غلط مقدمات کا دباؤتو ایک ایس ایچ او پر بھی ہوتا ہے۔ کیا ایس ایچ او اس دباؤ کے نتیجے میں استعفیٰ دے دیتا ہے۔ غلط کام کا دباؤ تو ہر سول سرونٹ پر ہوتا ہے۔ چھوٹے اور بڑے افسران سب پر کسی نہ کسی کام کے حوالے سے دباؤ رہتا ہے۔
ٹرانسفر پوسٹنگ کا دباؤ رہتا ہے، لوگ اپنی ٹرانسفر رکوانے اور کروانے کے لیے دباؤ ڈلواتے ہیں۔ کیا افسران اس دباؤ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ دباؤ کے سامنے کھڑا ہونا بہادری ہے۔ اس لیے میری رائے میں اس قدر قانونی تحفظ کے بعد بھی ان کا مستعفی ہو جانا ان کی کمزوری کو عیاں کرتا ہے۔ استعفیٰ دیکر انھوں نے کوئی قابل تقلید مثال قائم نہیں کی ہے۔
جب آفتاب سلطان نے یہ کہا ہے کہ ان پر غلط کام کے لیے دباؤ تھا' تو کیا ہی بہتر کہ وہ دباؤ ڈالنے والوں کا نام بھی بتاتے اور جن کو نشانہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا' ان کا بھی انکشاف کر دیتے۔ مبہم اور آدھی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی' اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ ایک محفوظ اننگ کھیلنا چاہتے تھے۔ کسی کے خلاف کوئی ایکشن لینا ہی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے جب محفوظ اننگ نہ ملی تو گھر چلے گئے۔
موجودہ حکومت کی نیب قانون میں ترامیم کے بعد ملزم کی گرفتاری کو ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اب چیئرمین نیب چاہے بھی تو کمپلینٹ اور تحقیقات کی سطح پر گرفتاری نہیں کر سکتا۔ نیب قانون میں سے بلا جواز گرفتاری کو ختم ہی کر دیا گیا۔ پھر ان پر گرفتاری کا دباؤ کیسے ہو سکتا تھا۔ وہ بتا سکتے تھے کہ آپ نے خود ہی میرا یہ اختیار ختم کیا ہے۔
میں کیسے گرفتار کر سکتا ہوں۔ آفتاب سلطان کے پاس جو اختیار نہیں تھا انھیں وہ استعمال کرنے کا کیسے کہا جا سکتا ہے۔ حکومت نے ریفرنس بنانے کا عمل خود ہی اتنا مشکل کر دیا ہے کہ نیب چیئرمین چاہتے ہوئے بھی کوئی غلط ریفرنس نہیں بنا سکتا'جب نیب میں کرپشن کی حد پچاس کروڑ مقرر کر دی گئی ہے تو ایک پلاٹ پر گرفتاری کے لیے کیسے کہا جا سکتا ہے۔ شاید وہ جاتے ہوئے فیس سیونگ کر رہے ہوں جس میں حقائق نہیں ہیں یا پھر اصل حقائق بتانے سے گریزاں ہوں۔
مجھے لگتا ہے کہ آفتاب سلطان سیاسی تناؤ سے دامن چھڑانا بہتر سمجھتے تھے۔ ان کو ڈر تھا کہ اگر وہ کوئی ایکشن لیں گے تو گالیاں پڑیں گی۔ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی جائے گی۔ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر کا انجام ان کے سامنے تھا۔
اس لیے انھوں نے عزت بچا کر نکلنا ہی بہتر سمجھا۔ کیس سامنے تھے۔ ایکشن لینا مجبوری تھی۔ دس ماہ میں سب ثابت ہو گیا تھا۔ ان کو پتہ تھا کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کوئی انھیں نہیں نکال سکتا۔ لیکن تنقید اور اعتراضات سے تو انھیں کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔ سب ان کے سامنے تھا۔ اس لیے گھر چلے گئے۔