سیاست میں بے اصولی اور رسوائیاں
ہر حالت میں الیکشن جیتنے کے لیے مفاد پرستی اب ترجیح اور بے اصولی ضرورت بن چکی ہے
سیاست کو کبھی عوام کی خدمت اور بعض سیاسی رہنماؤں کے نزدیک عبادت کا درجہ حاصل تھا جو اپنی جائیدادیں فروخت کرکے سیاست کرتے تھے۔ ان کی سیاست اصولی، ضمیر کے مطابق اور مفاد پرستی سے پاک ہوا کرتی تھی۔
سیاست اقتدار میں آنے کا ذریعہ پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے مگر اب سیاست جھوٹے وعدوں، عوام کو دھوکا دینے، اپنے اصول اور نظریے کو ترک کرکے حصول اقتدار کا اہم ذریعہ بن چکی ہے کیونکہ ان کے خیال میں عوام کی خدمت اقتدار کے بغیر اور انتخابات میں کامیابی کروڑوں روپے خرچ کیے بغیر نہیں ملتی اور سیاست میں رہنے کے لیے رقم خرچ کرنا پڑتی ہے اور الیکشن جیتنے کے لیے دولت جمع کرنا اب سیاست کی بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔
ہر حالت میں الیکشن جیتنے کے لیے مفاد پرستی اب ترجیح اور بے اصولی ضرورت بن چکی ہے۔ سیاست کے لیے رقم اور رقم جمع کرنے کے لیے اقتدار مجبوری بن چکا ہے اور یہی بے اصولی، مفاد پرستی موجودہ سیاست کا بنیادی اصول بن چکا ہے۔
اب نوابزادہ نصراللہ خان جیسے سیاستدان باقی نہیں رہے جو اپنی زمینیں فروخت کرکے عزت کے لیے سیاست کیا کرتے تھے۔ قومی اور ملک گیر سیاسی جماعتیں کم اور صوبائی اور علاقائی سیاست کے لیے چھوٹی جماعتیں بے شمار ہیں جنھیں قوم پرستی کے باعث کچھ انتخابی کامیابی مل جاتی ہے۔
ایسی علاقائی پارٹیاں کے پی اور بلوچستان میں زیادہ کامیاب ہیں جن کی سیاست کہنے کی حد تک قومی مگر عملی طور پر وہ اپنے اپنے علاقوں میں محدود ہیں جہاں سے انھیں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی مل جاتی ہے اور چند نشستیں حاصل کرلینے والی یہ علاقائی پارٹیاں وقت پر قومی پارٹیوں کی ضرورت بن جاتی ہیں اور قومی پارٹیوں کو اقتدار کے لیے ان چھوٹی پارٹیوں سے معاہدے کرنا پڑتے ہیں جن پر عمل ممکن نہیں ہوتا اور اقتدار میں معاہدے ٹوٹتے اور نئے معاہدے ہوتے رہتے ہیں۔
لسانی سیاست کرنے والی پارٹیوں میں سندھ میں ایم کیو ایم کے سوا کسی اور پارٹی کو انتخابی کامیابی نہیں ملتی کیونکہ اندرون سندھ پیپلز پارٹی نے قوم پرست پارٹیوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا اور شہری علاقوں میں مسلسل کامیابی حاصل کرنے والی ایم کیو ایم نے اقتدار میں آنے والی تمام بڑی جماعتوں سے اتحاد کیا مگر حکومت میں رہتے ہوئے ان کا کسی بھی قومی پارٹی کے ساتھ اتحاد قائم نہیں رہ سکا جس کے باعث وہ تقسیم بھی ہوئی اور باہمی انتشار سے مسلسل انتخابی ناکامیوں نے ایم کیو ایم کو دوبارہ ایک ہونے پر مجبور کردیا ہے۔
جس طرح سیاسی پارٹیوں میں مفاد پرستی، وعدہ خلافی، بے اصولی پائی جاتی ہے اسی طرح سیاسی رہنماؤں میں بھی مفاد پرستی، بے اصولی، سیاسی وفاداری کی تبدیلی بھی عام ہوگئی ہے اور اصول پرست سیاسی رہنما بھی اپنی پارٹیوں میں رہنے کے لیے بے اصولی اور رسوائیاں برداشت کرنے پر مجبور ہیں جو اپنی پارٹی کے خلاف اصولی موقف برقرار نہیں رکھ پاتے اور اگر کبھی ایسا کرنے پر مجبور ہو جائیں تو انھیں مصطفیٰ نواز کھوکھر کی طرح سینیٹر کا عہدہ چھوڑنا یا رضا ربانی کی طرح آب دیدہ ہونا پڑتا ہے ۔
پی ٹی آئی کے بعض وزیروں اور مشیروں کو جس سیاسی پریشانی کا سامنا رہا ایسا اور کسی بھی پارٹی میں نہیں ہوا کہ انھیں غیر متوقع طور پر عہدوں سے ہٹائے جانے۔
محکموں کی تبدیلی کا پیشگی علم نہیں ہونے دیا گیا اور ایسی پریشانی پر وہ احتجاج بھی کرسکے اور پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور رہے۔
حماد اظہر کی پہلے تعریف ہوئی پھر چند روز بعد ہی انھیں وزارت خزانہ سے ہٹایا گیا مگر کسی نے اف نہیں کی۔ فردوس عاشق اعوان سے جس طرح محکمہ اطلاعات واپس لیا گیا وہ بھی خاموش رہنے پر مجبور رہیں ورنہ طلب کرنے پر استعفیٰ دے سکتی تھیں۔
فواد چوہدری کو سائنس و ٹیکنالوجی میں بھیجا گیا وہ وزارت پر ہی صبر کرگئے مگر پھر انھیں وہی وزارت واپس مل گئی مگر انھوں نے اپنا قصور نہیں پوچھا۔ فیاض چوہان کو ہٹانے اور وزارت تبدیل ہوتے تین بار پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جو وہ ہر بار برداشت کرگئے۔
پرویز خٹک کی وزارت اعلیٰ میں ان کی وجہ سے پی ٹی آئی کو 2018 میں دو تہائی اکثریت ملی تھی جس کا اعتراف عمران خان نے بھی کیا مگر انھیں دوبارہ وزیر اعلیٰ نہیں بنایا گیا۔ کارکردگی کی قدر نہ ہونے پر بھی انھوں نے وزیر دفاع کا عہدہ قبول کیا۔
عمران خان نے شیخ رشید کو وزرات داخلہ جیسا اہم محکمہ خود دیا۔ عمران خان سے وفاداری کا دعویٰ کرنے والے شیخ رشید نے ایسے ہی دعوے نواز شریف اور پرویز مشرف سے بھی کیے تھے ۔ یہ شیخ رشید ہی تھے۔
جنھیں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں پہلے مرحلے میں وزیر نہیں بنایا تھا تو وہ دبے الفاظ میں آواز اٹھا رہے تھے جب کہ اعجاز الحق بھی وزیر نہیں بنے تھے۔ دوسرے مرحلے میں شیخ رشید نے جھٹ حلف اٹھا لیا تھا مگر پہلے مرحلے میں نظرانداز کیے جانے پر اعجاز الحق نے حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ سیاست میں بے عزتی کے باوجود وزارت اور پارٹی سے چمٹے رہنے کی باتیں بہت سے رہنماؤں کی مشہور ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کی ترجیح وزارت ہوتی ہے عزت نہیں۔ ہمیشہ سے سیاسی رہنما رسوائیاں برداشت کرکے مصنوعی عزت کے لیے وزارت کے بغیر رہنے پر تیار نہ ہوئے اور ثابت کر دکھایا کہ وزارت ہی سب کچھ ہے۔