ورزش جو بڑھاپے میں کئی مسائل سے بچا سکتی ہے

ورزش کی اس قسم میں تھکاوٹ کا احساس نہیںہوتا لیکن دماغ متحرک ہوجاتا ہے

فوٹو : فائل

'ارتقائی اعتبار سے دیکھیں تو ہم نے اپنے دماغ بہت بڑے کر لیے ہیں جنھیں تر و تازہ اور بحال رکھنا بہت مہنگا کام ہے۔'

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز میں انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ ویلنس ریسرچ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ڈیمیئن بیلی کہتے ہیں کہ 'یہ بہت، بہت بڑے ہیں، بہت غیر مؤثر، اور بحال رہنے کے لیے بہت توانائی خرچ کرتے ہیں بھلے جب یہ کوئی کام نہ کر رہے ہوں۔'

بیلی اس یونیورسٹی کی نیوروویسکیولر ریسرچ لیبارٹری کے سربراہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا کام جسمانی سرگرمیوں کے متعلق ہے کیونکہ 'ذہنی صلاحیتوں میں کمی کا کوئی علاج نہیں مگر ورزش اس کے خلاف ایک بہت اچھا سدِباب ثابت ہو سکتی ہے۔' وہ کہتے ہیں کہ بڑا سوال یہ ہے کہ کتنی، کیسی، اور کتنی بار ورزش کرنی چاہیے۔

بیلی کہتے ہیں کہ لیبارٹری میں ہمارا زیادہ تر کام ورزش کے مختلف پہلوؤوں کو اس کی قسم، شدت اور دورانیے کے اعتبار سے دیکھنا ہے، اور ہماری کوشش وہ بہترین امتزاج حاصل کرنے کی ہے جہاں آپ بہترین کارکردگی حاصل کر سکیں۔

ہم جانتے ہیں کہ جسمانی سرگرمی کے باعث دماغ کو زیادہ سے زیادہ خون پہنچتا ہے' جو کہ اسے نشونما کے لیے ضروری کیمیکلز خارج کرنے میں مدد دیتا ہے۔

خون کی یہ سپلائی اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ سیکھنے اور یادداشت کے لیے ضروری دماغ کا حصہ ہپوکیمپس ہماری عمر کے ساتھ ساتھ سکڑنا شروع کر دیتا ہے اور ایسی صورت میں اسے کم سے کم خون ملتا ہے۔ ٹیکنالوجی میں حالیہ ترقی کی بدولت سائنسدان اب واقعی یہ دیکھ سکتے ہیں کہ جسمانی سرگرمی سے دماغ کو کیسے فائدہ پہنچتا ہے۔

یہ گردن، دماغ اور کھوپڑی میں خون کی بہاؤ کی پیمائش کر سکتے ہیں۔' اور ہماری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ آپ کو گہری سانسیں لینے کی مشقیں کرنے یا جم میں اپنے آپ کو شدید مشکل میں ڈالنے کی ضرورت نہیں تاکہ آپ دماغ کا فائدہ اٹھا سکیں۔ آپ کچھ ایسی زبردست ورزشیں کر سکتے ہیں جن سے آپ کو بالکل بھی ورزش کرنے کا احساس نہیں ہو گا اور یہ دماغ کو متحرک بھی کر دیں گی۔'

یہ کون سی ورزشیں ہیں؟

'ہم نے پایا ہے کہ خاص طور پر وہ لوگ جو بہت فٹ نہیں یا سخت ورزش نہیں کر سکتے، ان کے لیے اٹھک بیٹھک کرنا ایک بہت کارآمد آپشن ہے۔' جی بالکل۔ اٹھک بیٹھک کرنے کو ورزش کی ایک 'سمارٹ' قسم قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہ دماغ کو چیلنج کرتی ہے جس سے دماغ کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ' جب آپ کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کششِ ثقل کے مخالف جاتے ہیں اور جب آپ بیٹھتے ہیں تو آپ کششِ ثقل کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

ہوتا یہ ہے کہ ایسے دماغ کو خون کی فراہمی مسلسل اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ بہاؤ میں اس تبدیلی سے خون کی نالیوں کی اندرونی لائننگ یعنی ویسکیولر اینڈوتھیلیئم متحرک ہوجاتی ہیں اور دماغ کو زیادہ خون پہنچنے لگتا ہے۔'

کتنی دیر تک کرنی چاہیے؟


بیلی تجویز دیتے ہیں کہ کم از کم یہ ورزش ہفتے میں تین دن تین منٹ کے لیے کرنی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایک ماہ روزانہ چار سے پانچ منٹ تک اور ہفتے میں تین دن ورزش کرنے والوں کے دماغ میں خون کتنی جلدی پہنچنے لگتا ہے تو بہتری صاف نظر آتی ہے۔

درحقیقت وہ بتاتے ہیں کہ وہ 30 سے 40 منٹ تک دیگر ورزشوں مثلاً دوڑنے، چہل قدمی یا کھڑی ہوئی سائیکل چلانے کی بہ نسبت زیادہ بہتری دیکھتے ہیں۔ اور آپ ایک تیر سے دو شکار بھی کر سکتے ہیں اگر آپ ورزش کرتے ہوئے کچھ پڑھ لیں یا کراس ورڈ پزل حل کر لیں کیونکہ پروفیسر بیلی کے مطابق 'ہم جانتے ہیں کہ ہم ذہن کو 'کوگنیٹیو سٹریسر' فراہم کر کے دماغ کو خون کی فراہمی بہتر بنا سکتے ہیں۔'

سپورٹس سے بھی مدد مل سکتی ہے

انتہائی محنت طلب کچھ کھیلوں میں دماغ کو آکسیجن کی جس کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے بھی دماغ کی حدود کو آگے دھکیلنے میں اور اس کے دفاعی مکینزم کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ چونکہ بیلی خود ایک سابق ایتھلیٹ ہیں اس لیے وہ خود بھی اپنی اس تحقیق کا حصہ ہیں۔ 'آپ کو اس پر عمل کرنا چاہیے جس کی آپ تبلیغ کریں۔'

وہ کہتے ہیں کہ 'ہم دماغ کو چیلنج کرنے کے لیے کئی طرح کی 'ایکسٹریم سپورٹس' کا استعمال کرتے ہیں تاکہ ان مکینزمز کو مختلف انداز میں سمجھا جا سکے، مثلاً ایک سانس روک کر آکسیجن کے بغیر فری ڈائیونگ، سکائی ڈائیونگ جس میں تناؤ زیادہ اور آکسیجن کم ہوتی ہے، یا انتہائی بلند پہاڑوں کو سر کرنا، اس میں بھی سرگرمی زیادہ ہوتی ہے جبکہ آکسیجن کم۔'

وہ کہتے ہیں کہ ہم آکسیجن کی کمی کے معاملے میں اتنے حساس ہیں کہ جب ہم انتہائی بلند جگہ پر جائیں جہاں آکسیجن کی سطح بہت کم ہو تو دماغ میں خون کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے۔ 'دماغ ہر وقت کمی کو پورا کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ یہ کسی تنی ہوئی رسی پر چلنے جیسا ہے جس میں ایسا کرنے والے شخص کی ہر لحظہ یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ گر نہ جائے۔'

شدید سخت صورتحال میں دماغی ردِ عمل کو ٹریک کرنے سے نہ صرف ڈیمینشیا یعنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو دینے جیسے امراض کے علاج میں مدد سکتی ہے بلکہ اس کی بدولت طویل مدتی خلائی مشن بھی ممکن ہو سکتے ہیں۔ بیلی کہتے ہیں کہ دماغ کششِ ثقل میں تبدیلی کے متعلق نہیات حساس ہے۔

'چونکہ خلا میں کششِ ثقل بہت کم ہوتی ہے اور خون سر کی جانب بہہ رہا ہوتا ہے، اس لیے آپ کو سب کے چہرے تمتماتے ہوئے سرخ جبکہ ٹانگیں سوکھی نظر آتی ہیں۔' اور اس سے ایک طویل مدتی پیچیدگی یہ پیدا ہو سکتی ہے کہ اس سے دماغ میں خون کا دباؤ بڑھ سکتا ہے جو نظر کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ ہمارے سامنے موجود سب سے بڑے مسائل میں سے ہے اور ہم اسی کو سمجھنے کے لیے تجربات کر رہے ہیں تاکہ انسان کی مریخ تک پرواز کو ممکن بنایا جا سکے۔'

یونیورسٹی آف میلان میں اطالوی محققین بھی اس مسئلے پر تحقیق کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے شعبہ ہیلتھ سائنسز کے ڈاکٹر ڈینیئل بوٹائی کہتے ہیں کہ 'ہم نے سوچا کہ کیا ہو گا جب آپ ہل نہ سکیں؟ چونکہ ایسی صورتحال ہوتی رہتی ہیں، جیسے لوگوں نے کووڈ کے دوران بہت عرصہ اپنے صوفوں پر گزارا، یا جب آپ بیمار ہوں، یا پھر کئی ماہ کے لیے خلا میں ہوں۔ ہم اپنے دورانِ خون، ہڈیوں اور پٹھوں کے متعلق تو فکرمند ہو جاتے ہیں مگر ہمیں دماغ کی کارکردگی کے متعلق بھی سوچنا چاہیے۔'

حرکت نہ کرنے سے دماغ میں خون کا بہاؤ کم ہو جاتا ہے اور کافی مقدار میں آکسیجن نہ ملنے کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ 'اگر دماغ کے ساتھ کچھ غلط ہونے لگے تو آپ کے پاس نقصان روکنے کے لیے بہت کم وقت ہوتا ہے، اس لیے ہم جسمانی سرگرمی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ' اس وقت یہ ہمارے پاس موجود واحد حل ہے اور جہاں تک دماغ کی بات ہے تو ہم اب تک صرف سطح پر ہی ہیں۔'

ایزابیل کارڈوسو اور فرنینڈو ٹیزیرا
Load Next Story