دہلی فسادات کو تین برس بیت گئے
شہری ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہوں کے دوران ہندو انتہا پسندوں نے حملے کیے جس میں 60 مسلمان شہید ہوئے
بھارتی دارالحکومت میں فروری 2020 کو ہوئے والے فسادات کو تین برس بیت گئے جس میں ہندو انتہا پسندوں نے 60 مسلمانوں کوشہید کیا تھا، تین سال گزرنے کے بعد بھی بھارتی مسلمانوں کے دلوں پر لگنے والے وہ زخم آج بھی تازہ ہیں۔
دہلی فسادات میں راشٹر سویم سیوک سنگھ( آر ایس ایس ) اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند ہندوؤں نے 60 سے زائد مسلمانوں کو شہید اور کروڑوں روپے کی املاک تباہ کر دی تھیں۔
فسادات اس وقت پھوٹ پڑے جب آر ایس ایس اور بی جے پی کے انتہا پسند ہندوؤں نے دہلی کے سلیم پور، جعفرآباد، موج پور روڈ، کردم پور اور بابر پور علاقوں میں شہری ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے پرامن دھرنوں پر حملہ کیا اور فائرنگ کی۔
حملے کے دوران ہندو انتہا پسندوں نے تلواروں، لوہے کی سلاخوں کا استعمال کیا اور مسلمانوں کے گھروں اور املاک کو آگ لگائی۔ برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی) جیسے بین الاقوامی نیوز چینل نے اس ظلم واستبداد کی کوریج دی اور مودی حکومت کو بے نقاب کیا۔23 فروری 2020 کو حکمران بی جے پی کے رہنما کپل مشرا نے دہلی پولیس سے سڑکیں صاف کرنے کو کہا لیکن ناکامی کے بعد اس نے تشدد پھیلانے کی دھمکی دی۔
بی جے پی کے ایک اور رہنما اور مرکزی حکومت کے وزیر انوراگ ٹھاکر کے بیان کہ مسلمانوں کو گولی مارو نے بھی مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کی نفرت ظاہر کی ۔ انوراگ ٹھاکر کے اشتعال انگیز بیان کے بعد تشدد پھوٹ پڑا اور مسلح ہندی عسکریت پسند لاٹھیوں، پتھروں اور تلواروں کے ساتھ مسلمانوں کی کالونیوں/علاقوں میں گھس گئے۔
دہلی فسادات سے متعلق جاری ایک رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے خوف سے ڈاکٹروں نے زخمی مسلمان کا علاج کرنے سے انکار کیا اور مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ کر انہیں ہراساں کیا۔مسلمانوں کے خلاف دہلی کے فسادات کو تاریخ میں ہمیشہ بی جے پی کے ظلم و جبر کی تلخ یاد کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔