قومی سلامتی کے نام پر شہری آزادی سلب نہیں کی جاسکتی جمہوریت کا تحفظ تمام اداروں کی ذمہ داری ہے چیف جسٹس

ملک کو دہشت گردی اور فرقہ واریت جیسی جنگوں کا سامنا ہے، چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا فل کورٹ ریفرنس سے خطاب

قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جمہوریت کے لیے متوازن رویہ اپنائے، فل کورٹ ریفرنس سے خطاب،پی سی او فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے، پاکستان بار کونسل۔ فوٹو: ایکسپریس نیوز/فائل

ISLAMABAD:
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کے نام پر کسی کو بھی شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

کوئی ادارہ آئین اور قانون میں درج اپنے اختیار سے باہر نہیں جا سکتا، تنقید اورتبصرے ہمیں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے قیام سے نہیں روک سکتے، جمہوریت کا تحفظ عدلیہ کا مقدس فریضہ ہے، باقی عدالتوں پر بالعموم اور سپریم کورٹ پر بالخصوص یہ فریضہ عائد ہوتا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق گزشتہ روز سپریم کورٹ کے رٹائرڈ ہونے والے جج جسٹس خلجی عارف حسین کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ ملک کو دہشت گردی اور فرقہ واریت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جمہوریت کے استحکام کیلیے متوازن رویہ اپنانا ہوگا۔


سپریم کورٹ کا مقدس فریضہ ہے کہ جمہوریت کا تحفظ کرے۔ بینچ، بار اور حکومت سمیت تمام اداروں کو جمہوریت کا تحفظ کرنا ہوگا۔ قومی سلامتی کے نام پر کسی کو بھی عام شہریوں کی آزادی سلب کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عوامی حقوق کو نظرانداز کردیا گیا تو بھی فرض کی ادائیگی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ملک میں جمہوریت کے فروغ کیلیے ایک ستون بن جائیں۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ادارہ آئین اور قانون میں درج اپنے اختیار سے باہر نہیں جا سکتا۔ معاشی، سماجی اور سیاسی انصاف کو یقینی بنانے کے لیے آئین نے تمام اداروں کو سپریم کورٹ کے احکامات کا پابند کیا ہے اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کی ضمانت دی ہے۔

جمہوری اقدار،برداشت ،انسانی عظمت اور لوگوں کو سستا اور فوری انصاف کی فراہمی کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ نہ تو انفرادی حقوق کی وجہ سے قومی سلامتی سے غافل رہا جا سکتا ہے اور نہ ہی قومی سلامتی کے نام پر انفرادی حقوق کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا نہ آئین خود کشی کا نسخہ ہے اور نہ ہی شہری حقوق قومی تباہی کی قربان گاہ ہیں، اسی توازن کو رکھنے کی وجہ سے بعض اوقات عدالت کے فیصلوں پر تنقید ہوتی ہے، حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے انفرادی حقوق نظر انداز کرنے کا گلہ کرتے ہیں جبکہ قومی سلامتی کے ترجمان کہتے ہیں کہ عدالت کا جھکائویک طرفہ ہے۔ کسی کی تنقید یا تبصرہ ہمیں ہمارے کام سے نہیں روک سکتا۔

چیف جسٹس نے ریٹائرڈ ہونے والے جج کو ان کی اعلٰی خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ رٹائرڈ ہونے والے جج جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ پی سی او کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے والے بنچ میں شامل ہونا ان کے لیے اعزا ہے۔ دریں اثنا پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین محمد رمضان چوہدری نے فل کورٹ ریفرنس سے اپنے خطاب میں پی سی اوکو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقلیتی ججوں نے اکثریتی ججوں کو برطرف کرکے آئین سے انحراف کیا ہے۔ گزشتہ چند سال سے اعلیٰ عدلیہ جس آزادی کے ساتھ کام کررہی ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی لیکن آزادی کے ساتھ کام کرتے ہوئے غیر جانبداری بھی نظر آنا چاہیے۔
Load Next Story