کیا پاکستان پر ایلیٹ طبقہ قابض ہے
ملک وقوم کی تعمیر وترقی کے ارتقائی عمل میں طبقہ اشرافیہ کے کردار کو اجاگر کرنے والا نقطہ نظر
کچھ عرصہ قبل ہمارے سابق وزیر خزانہ ، مفتاح اسماعیل نے پے در پے انگریزی مضامین لکھ کر دعوی کیا کہ پاکستان پہ ایلیٹ طبقہ قابض ہو چکا۔وہی بیشتر ملکی وسائل سے مستفید ہو تا اور مراعات و آسائشیں پاتا ہے جبکہ عام پاکستانی مجبور ہے کہ زندگی گذارنے کی خاطر سخت محنت اور مہنگائی کی سختیوں کا مقابلہ کرے۔
سابق وزیراعظم، شاہد خاقان عباسی، سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین اور سابق سربراہ ایف بی آر، شبر علی زیدی بھی وقتاً فوقتاً اسی نقطہ نظر کا اظہار کر چکے۔
یہ معاملہ دراصل اتنا سادہ نہیں جتنا لگتا ہے۔اگر کسی پاکستانی نے اپنی محنت، ذہانت، قابلیت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر دولت، عزت اور شہرت پائی یا کسی اعلی سرکاری و نجی عہدے پر براجمان ہوا تو دنیاوی آسائشیں پانا اس کا حق ہے۔اور یہ بھی کہ اسے اچھی تنخواہ ملے نیز مراعات وسہولیات بھی!ظاہر ہے، جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہو سکتے۔
مگر کامیابیاں پا کر کوئی فرد اپنی حیثیت یا عہدے سے غیر اخلاقی، غیر قانونی اور ناجائز فوائد پانے لگے، ام ِاخلاقی امراض... لالچ و ہوس میں مبتلا ہو جائے تو یہ غلط ہے۔تب وہ ملک وقوم و معاشرے کے لیے مفید نہیں رہتا بلکہ بوجھ بن جاتا ہے۔پھر کہا جائے گا کہ ایلیٹ کلاس کا یہ رکن ناجائز طور پہ ملکی وسائل سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
دو حصے
لغت کی رو سے ایلیٹ طبقہ جسے اردو میں ''اشرافیہ'' یا ''طبقہ بالا'' کہتے ہیں، انسانوں کا ایسا گروہ ہے جو اپنی صلاحیتیوں اور قابلیت کی بنا پر دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جائے۔ماہرین ِسیاسیات و عمرانیات کی رو سے ایک ریاست میں ایلیٹ طبقہ ان گنے چنے افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو زیادہ طاقت ، دولت اور اثرورسوخ رکھتے ہوں۔
ماہرین کی رو سے اس طبقے کے دو حصے ہیں: اول حصہ حکمران، وزیروں مشیروں،جرنیلوں، سرکاری افسروں، ججوں اور سیاست دانوں پر مشتمل ہے۔دوسرے حصے میں نجی طبقے کی بارسوخ شخصیات شامل ہیں جیسے جاگیردار، صنعت کار، کاروباری ، تاجر اور مذہبی رہنما۔
ایلیٹ طبقہ بہرحال دور جدید کا عجوبہ نہیں، سات آٹھ ہزار سال پہلے وادی دجلہ وفرات میں اولیّں شہری ریاستیں وجود میں آئیں تو اس نے بھی جنم لیا۔تب بھی حکومت کے عناصر(بادشاہ، وزیر مشیر، جرنیل، انتظامیہ یعنی سرکاری افسر ، جج)اور نجی شعبے کے امرا نیز پروہت و پنڈت اس کا حصہ تھے۔
یہ ایلیٹ طبقہ حکومت کرتا اور ملکی وسائل سے مستفید ہوتا تھا۔وہ عموماً خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا جبکہ عوام پاؤں کی جوتی سمجھے جاتے۔قانون توڑنا اور مروڑنا اس کا وصف خاص تھا۔
مثلاً ہندوستان میں برہمن مت(المعروف بہ ہندومت)کاطبقہ بالا اچھوت کو انسان نہیں جانور سمجھتا تھا۔چناں چہ کوئی برہمن کسی شودر کو قتل بھی کر دیتا تو اس سے کوئی بازپرس نہ ہوتی۔مصر، بابل، ایران، روم اور یونان کی تہذیبوں کا بھی یہی حال تھا جہاں ایلیٹ کلاس عام آدمی کو محض زندہ رہنے کا حق دے کر سمجھتی تھی کہ اس پہ بڑا احسان کر ڈالا۔
تبدیلی کی ہوا
ایلیٹ طبقے کے طرز حکمرانی یا ''اسٹیٹس کو''میں تبدیلی تب آتی جب کوئی عوام دوست حکمران برسراقتدار آ جاتا۔وہ پھر عام آدمی کی فلاح وبہبود کے کام بھی کرتااور عوام کی زندگیوں میں آسانیاں لے آتا۔ماضی کے ایسے حکمرانوں میں حمورابی (بابل)، ملکہ ہشاپشت (مصر)، سائرس اعظم (ایران)، نوشیرواں عادل (ایران)، اشوک اعظم(ہندوستان) اور پرسیلیز (یونان) قابل ذکر ہیں۔
مگر یہ استثنی تھے، بیشتر بادشاہ اپنے جرنیلوں ، بیوروکریسی اور عدلیہ کی مدد سے جابرانہ انداز میں عوام پر حکومت کرتے اور انھیں ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا کر رکھتے۔اسی طرزعمل سے ''وی آئی پی کلچر''نے جنم لیا جو ایلیٹ طبقے کو معاشرے میں بے جا مراعات و مرتبہ دینے کا سبب بن گیا۔
دنیا کی پہلی فلاحی ریاست
نبی کریم ﷺ بہ حیثیت بادشاہ نبی دنیا کے پہلے حکمران ہیں جنھوں نے عوام کی فلاح وبہبود کو حکومت کی بنیادی ذمے داری اور فرض قرار دیا۔چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست مدینہ میں حکومتی ڈھانچا عوام پر حکمران نہیں اس کے تابع تھا۔
اس حکومت کا ہر اعلی وادنی رکن عوام کی خدمت کرتا اور اپنی ذمے داریاں بجا لاتا تھا۔ریاست میں ٹیکس بہت کم تھے۔اسی لیے ریاست مدینہ کے عام لوگ بھی خوشحال ہو گئے اور پُرسکون انداز میں زندگی گذارنے لگے۔اس ریاست میں بوڑھوں اور معذوروں کو بھی حقوق حاصل تھے چاہے وہ غیر مسلم ہی ہوں۔
بدقسمتی سے رحمت اللعالمینﷺ اور خلفائے راشدین کے بعد یہ عوام دوست حکومتی نظام مکمل صورت میں برقرار نہ رہ سکا۔اس میں ایلیٹ طبقے نے دوبارہ طاقت اور اثرورسوخ حاصل کر لیا۔گو بیشتر مسلم حکمرانوں نے سنت نبویﷺ پہ عمل کرتے ہوئے عوام کی فلاح وبہبود کو کسی نہ کسی طور مدنظر ضرور رکھا۔
اس امر کی بہترین مثال اندلس کے حکمران تھے جن کا نظام حکومت بلا تفریق رنگ، نسل و مذہب ہر شہری کو ضروریات زندگی اور بنیادی خدمات فراہم کرتا رہا۔اسلامی اندلس کے اسی عوام دوست طرز حکومت کو دیکھ کر پڑوسی مملکتوں فرانس، جرمنی، برطانیہ جیسے یورپی ممالک میں آمرانہ شاہی حکومتوں کے خلاف عوامی تحریکیں شروع ہوئیں ۔وہاں کے عوام ایلیٹ طبقے سے مطالبہ کرنے لگے کہ انھیں بھی ان کے حقوق عطا کیے جائیں۔
اسلامی طرز حکومت کے اثرات
عوامی احتجاج ، تحریکوں اور انقلابات کے باعث آخر یورپی ایلیٹ طبقہ مجبور ہو گیا کہ وہ عوام کو بھی سہولیات زندگی اور مراعات فراہم کرے تاکہ اس کی حکمرانی برقرار رہ سکے۔یوں کئی مغربی ملکوں میں فلاحی حکومتی نظام وجود میں آئے اور ایلیٹ کلاس اپنی دولت اور ملکی وسائل کا کچھ حصہ عوام کو دینے پر آمادہ ہو گئی۔
اس نظام میں قانون کو بالادستی حاصل ہوئی جس سے یورپی معاشروں پر اچھے اثرات مرتب ہوئے۔وہاں عام آدمی کو انصاف ملنے لگا اور قومی اداروں پہ اعتماد بھی بحال ہو گیا۔
اس ارتقائی عمل نے ہر یورپی ملک میں مضبوط معاشرے کو جنم دیا اور مغربی ممالک ترقی یافتہ اور خوشحال بن گئے۔آج بھی وہاں ایلیٹ طبقہ ہی بالادست ہے تاہم عام آدمی کو بھی کئی حقوق میسّر ہیں اور وہ عمدہ زندگی گذار رہا ہے، اسی لیے طبقہ بالا کی عیش وعشرت دیکھ کر تنقید و احتجاج تو کرتا ہے مگر کھلم کھلا بغاوت نہیں۔
ترقی پذیر و پسماندہ ملکوں میں کہیں جہالت زیادہ تھی تو کسی ملک میں نوآبادیاتی طاقتوں یا آمروں نے قبضہ کر رکھا تھا۔وہاں عام آدمی اپنے حقوق سے واقف نہیں تھا۔پھر قانون کی حکمرانی بھی کمزور تھی۔
اسی لیے ان ملکوں میں ایلیٹ طبقے کو من پسند اور اپنے مفادات پورے کرنے والا نظام حکومت نافذ کرنے کا موقع مل گیا۔حکومتی نظام کا ڈھانچا اس طریق سے بنایا گیا کہ ملکی وسائل کا بیشتر حصہ ایلیٹ طبقے کے قبضے میں آ جائے جبکہ عوام اس کے مفادات پورے کرتے رہیں۔مثلاً پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک میں عوام ان گنت ٹیکس دیتے ہیں۔اور ٹیکسوں کی رقم سے حکمران ایلیٹ طبقہ آسائش کی زندگی گذارتا ہے۔
عوام کو مطیع کرنا مشن بن گیا
ہمارے بزرگوں نے ایک اسلامی فلاحی مملکت کی تشکیل کے لیے پاکستان بنایا تھا۔مسئلہ یہ ہوا کہ انگریز کے پروردہ مسلم ایلیٹ طبقے سے منسلک جاگیرداروں اور سرکاری افسروں نے بہت جلد نوزائیدہ ریاست کے نظام حکومت میں غلبہ حاصل کر لیا۔
انگریزان کی مدد سے ہندوستانی عوام کو اپنا مطیع بنائے رکھتا تھا۔انھیں حکومت ملی تو وہ پاکستانی عوام کو اپنا مطیع بنانے کی سعی کرنے لگے۔ملک وقوم کی ترقی وخوشحالی کے بجائے ذاتی مفادات کی تکمیل بیشتر ارکان ایلیٹ طبقہ کا مطمع نظر بن گیا۔
پھر جلد جاگیرداروں، سرکاری افسروں اور جرنیلوں کے مابین اختیارات واقتدار کی جنگ شروع ہو گئی جس نے معاشی ، سیاسی و معاشرتی طور پہ ملک کو نقصان پہنچایا۔خاص طور پہ قانون کی حکمرانی کمزور ہوئی اور اقربا پروری کے چلن نے جنم لیا۔قانون کا کمزور ہونا تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔
عوام دوست ایلیٹ افراد
حکمران ایلیٹ طبقے میں اچھے اور محب وطن سیاست داں، سرکاری افسر و جرنیل بھی شامل تھے۔انھوں نے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کئی سرکاری منصوبے بنائے۔ ہمارے جرنیلوں اور سرکاری افسروں کی پیشہ ورانہ قابلیت کو بیرون ملک سراہا گیا۔
مثلاً 1950ء کے عشرے میں نوآزاد جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں، جنوبی کوریا، ملائشیا، سنگاپور اور انڈونیشیا کی حکومتوں نے نظام حکومت بہتر بنانے کے لیے پاکستانی افسروں کے تجربے واستعداد سے استفادہ کیا تھا۔مگر یہ قابل پاکستانی کم تعداد میں تھے۔
پھر کرپٹ لوگوں نے انھیں کام بھی نہ کرنے دیا۔اس لیے وہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی مضبوط نہیںبنا سکے اور فلاحی نظام حکومت بھی کُلی طور پہ وجود میں نہ آ سکا۔
قرضوں کی پیتے تھے مے
ایک بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ حکمران ایلیٹ طبقے کو قرضوں اور غیر ملکی امداد کے سہارے حکومتی اخراجات کرنے کی لت پڑ گئی۔رفتہ رفتہ سرکاری خزانے کا ایک حصّہ کرپشن کی نذر ہونے لگا۔پھر ایلیٹ طبقے نے اپنی تنخواہوں ، مراعات و سہولیات میں اچھا خاصا اضافہ کر لیا اور شاہانہ طرز زندگی گذارنے لگا۔
عالیشان بنگلے، قیمتی گاڑیاں، امپورٹیڈ اشیا اور غیرملکی دورے اس طرز زندگی کے عناصر بن گئے۔مزید براں زر کثیر سے ایسے کئی سرکاری منصوبے بنائے گئے جن سے عوام کو تو خاص فائدہ نہیں ہوا مگر ایلیٹ طبقہ فائدے میں رہا ۔ان عوامل کی بنا پر ہی آج حکمران ایلیٹ طبقے پر الزام لگتا ہے کہ عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم سے اپنی آسائشوں بھری شاہانہ زندگی بسر کر رہا ہے۔
اور یہ کہ وہ کرپشن میں ملوث ہے۔جبکہ نجی ایلیٹ طبقے پر الزام لگتا ہے کہ وہ ٹیکس چوری کرتا ہے۔یہی نہیں حکومت سے سبسڈیاں لیتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ سرکاری و نجی ایلیٹ طبقہ اپنی دولت چوری چھپے بیرون ملک بھجواتا اور غیرملکی اکاؤنٹس میں رکھتا ہے۔
قومی معیشت کی حالت زار
حکمران ایلیٹ طبقے کی اچھی یا بُری کارکردگی جانچنے کا بہترین پیمانہ قومی معیشت کی حالت ہے۔اور پاکستانی معیشت کی موجودہ حالت ِزار عیاں کرتی ہے کہ ہمارا ایلیٹ طبقہ عمدہ طریقے سے حکمرانی نہیں کر سکا بلکہ اس نے ملک و قوم کو قرضوں کے جال میں پھنسا دیا۔جس ترقی پذیر و غریب ملک پہ جتنے زیادہ قرضے ہوں، وہاں اتنی ہی زیادہ مہنگائی اور غربت ہوتی ہے۔
وجہ یہی کہ حکومت نت نئے ٹیکس لگا اور ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر اپنی آمدن میں اضافہ کرتی ہے تاکہ قرض چکانے اور سود دینے کی خاطر رقم مل سکے۔
یہ عمل ملک میں مہنگائی بڑھاتا چلا جاتا ہے۔اعدادوشمار اور حقائق سے آشکارا ہے کہ پاکستانی حکمران ایلیٹ طبقہ ریاست کو معاشی طور پر اپنے پیروں پہ کھڑا کرنے میں ناکام رہا۔اس نے ملکی صنعت وحرفت کو فروغ دینے کی خاطر جامع منصوبے نہیں بنائے ۔غلط فیصلوں، ناقص پالیسیوں اور اپنے بڑھتے اخرجات کی وجہ سے اس نے پاکستان کوتقریباً'' 64 ہزار ارب روپے ''کا مقروض بنا دیا۔
اب حالت یہ ہو چکی کہ حکومت کو ماہانہ جو آمدن ہو، اس کا ''55 فیصد'' حصہ سود دینے اور قرض اتارنے پہ لگ جاتا ہے۔کثیر ڈالر بھی اسی مد پر خرچ ہوتے ہیں۔اسی لیے پاکستان کبھی ڈالر کے تسلی بخش ذخائر جمع نہیں کر پاتا اور دیوالیہ ہونے کا خطرہ تلوار بن کر سر پہ لٹکتا رہتا ہے۔
بوجھ عوام پر!
پچھلے پینتیس سال کے دوران ہی پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے آیا ۔1973ء میں پاکستان پر کل قرضہ صرف'' 50 ارب روپے'' تھا۔ یہ 1988ء میں بڑھ کر'' 521 ارب روپے'' تک پہنچ گیا۔اس کے بعد تو حکمران طبقہ دھڑا دھڑ قرضے لینے لگا ، چاہے حکومت ٹیکنو کریٹ کی ہو ، سیاست داں یا جرنیل کی! چناں چہ ملک وقوم پہ قرضوں کا پہاڑ کھڑا ہو گیا۔
اب حالت یہ ہو چکی کہ حکومت پاکستانی عوام کو سبسڈی دے کر ان کی زندگیاں آسان نہیں بنا سکتی...الٹا ٹیکسوں کی شرح بڑھا کے زندگی مزید اجیرن کر ڈالی۔
عوامی نمائندے اور ماہرین معاشیات چیخ رہے ہیں کہ حکمران و نجی ایلیٹ طبقے نے اپنا شاہانہ طرز زندگی ترک نہیں کیا بلکہ عام آدمی پہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر اسے ادھ موا کر ڈالا۔گویا قرضے حکمران ایلیٹ طبقہ لے اور انھیں اتارنے کا بوجھ عوام پہ ڈال دے ،یہ چلن ظلم کے مترادف ہے۔اس روش کی ایک انوکھی مثال ملاحظہ فرمائیے۔
کس قسم کا نظام حکومت؟
جون 2022ء میں تب کے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے اعلان کیا کہ وفاقی سیکرٹریٹ میں کام کرتے گریڈ 17 تا 22 کے سرکاری ملازمین کو ہر ماہ بنیادی تنخواہ کا 150 فیصد ''ایگزیکٹیو الاؤنس''ملے گا۔اگلے ماہ وزات خزانہ نے اس سلسلے میں نوٹیفیکشن جاری کیا تو اس میں درج تھا کہ صرف پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس اور آفس مینجمنٹ گروپ کے افسروں کو درج بالا الاؤنس ملے گا۔وفاقی سیکرٹریٹ میں تقریباً تئیس سو افسر کام کرتے ہیں۔
ان میں بارہ سو افسران کو تو ایگزیکٹیو الاؤنس مل گیا، بقیہ محروم رہے۔ان افسروں نے احتجاج کیا کہ انھیں بھی مجوزہ الاؤنس دیا جائے۔جب نئے وفاقی وزیر خزانہ ، اسحاق ڈار نے انکار کر دیا تو احتجاجی افسروں نے قلم چھوڑ ہڑتال شروع کر دی۔یہ ہڑتال وقفے وقفے سے جاری رہی۔اس دوران یہ بھی سننے کو ملا کہ ایگزیکٹیو الاؤنس کی شرح 100 فیصد کر دی جائے گی۔
1 فروری 2023ء کو وزیراعظم پاکستان نے آخر اعلان کیا کہ وفاقی (پاک) سیکرٹریٹ کے سبھی اعلی (17 تا 22 گریڈ کے)افسروں کو 150 فیصد ایگزیکٹیو الاؤنس ملے گا۔یوں افسران کی ناراضی و قلم چھوڑ ہڑتالوں کا دباؤ رنگ لایا اور حکومت انھیں مطلوبہ رقم فراہم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
سوال یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ حال ہے کہ پاکستانی حکومت سر تا پا ملکی وغیر ملکی قرضوں کے جال میں جکڑی ہوئی ہے۔اس کو ڈالروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ قومی معیشت کو رواں دواں رکھا جا سکے۔حکمران سوالی بنے کبھی سعودیہ و امارات جاتے ہیں۔
کبھی آئی ایم ایف کا در کھٹکاتے ہیں تاکہ رقم مل سکے۔گویا حکمران طبقے کو سرمایہ فوری درکار ہے کہ کاروبار ِمملکت جاری رہے۔
دوسری سمت شاہ خرچی کا یہ عالم ہے کہ ان افسران کو ایگزیکٹیو الاؤنس دیا جا رہا ہے جن کی تنخواہوں، مراعات و سہولتوں کا ماہانہ خرچ لاکھوں روپے میں ہے۔
خبروں کے مطابق اس ایگزیکٹیو الاؤنس کے باعث حکومت پر2.80 ارب روپے سالانہ کا نیا بوجھ پڑ گیا۔آخر یہ کس قسم کا نظام حکومت ہے؟ایسے غیر اخلاقی فیصلے وہی حکمران ایلیٹ طبقہ کر سکتا ہے عوام کے مسائل سے لاتعلق رہے اور صرف اپنے مفادات مقدم رکھے۔
عام آدمی ناراض ہے
ملکی وغیر ملکی ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اس وقت حکمران ایلیٹ طبقے کا شاہانہ طرز زندگی برقرار رکھنے کے لیے ہر سال حکومت ڈیرھ ہزار کھرب روپے خرچ کر رہی ہے۔یہ رقم پنشنوں، تنخواہوں، مراعات و سہولیات کے اخراجات اور دیگر اپنے خرچوں کی مد میں استعمال ہوتی ہے۔جبکہ حکومت نجی ایلیٹ طبقے کو بھی سالانہ کم ازکم پانچ سو ارب روپے کی سبسڈی دیتی ہے تاکہ وہ اپنے کام جاری رکھے۔
یہ دو ہزار ارب روپے عوام کی جیبوں ہی سے بذریعہ ٹیکس نکالے جاتے ہیں۔اسی باعث ہمارا ٹیکس نظام ظالمانہ ہے جو امیر کو امیرتر اور غریب کو غریب تر بنا رہا ہے۔اس سے مہنگائی بڑھنے کے باعث عام آدمی اب آٹا، سبزی اور پھل باآسانی نہیں خرید سکتا۔وہ پریشان، غصّیلا اور ناراض ہو چکا۔
یہ غیر منصفانہ ٹیکس نظام عوام پر تھوپنے میں حکمران ایلیٹ طبقے کا بنیادی کردار ہے۔اور یہ دعوی نہیں کیا جا سکتا کہ کسی حکمران نے یہ ظلم روکنے کے لیے ٹھوس کوششیں کیں۔تبدیلی لانے کا دعوی کرنے والوں کو بھی اقتدار ملا تو عوام پہ ٹیکسوں کا نیا بوجھ ڈال گئے۔
عام آدمی مہنگائی سے تنگ آیا اور انھیں گالیاں دینے لگا تو انھوں نے ٹیکسوں میں اضافے کا الزام طبقہ ایلیٹ کے دیگر ارکان پہ تھوپ دیا۔اللہ اللہ خیر سلا!اب وہ عوام کے ہمدرد بنے بیٹھے ہیں مگر پھر حکومت میں آئے تو فرعون بن جائیں گے۔
دو پاکستان
ایلیٹ کلاس کے لالچ وہوس اور اپنے مفادات کو ترجیح دینے کی وجہ سے پاکستان کا معاشرہ دو واضح حصّوں میں تقسیم ہو چکا۔ایک حصے میں اکیس بائیس کروڑ پاکستانی بستے ہیں۔اس پاکستان میں لوگ چھوٹے گھروں میں مقیم ہیں جہاں اکثر بجلی، گیس، پانی اور سیوریج نہیں ہوتا۔یہ لنڈے کے کپڑے پہنتے ہیں۔روزانہ بہ مشکل دو وقت کی روٹی کھاتے ہیں۔
بیمار ہوں تو گھریلو ٹوٹکوں سے علاج ہوتا ہے۔بچے محلے کے سستے اسکول میں پڑھتے ہیں جس کی تعلیم غیرمعیاری ہے۔
بیشتر آمدن کھانے پینے اور ٹرانسپورٹ پہ لگتی ہے۔بقیہ اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہوتے ہیں۔یہ کٹھن طرززندگی اکثر غریب نوجوانوں کو جرائم کی طرف راغب کر دیتا ہے۔وہ پھر غیر اخلاقی و غیر قانونی افعال اپنا کر راتوں رات امیر بننے کی سعی کرتے ہیں۔
وطن عزیز کے دوسرے حصے میں ڈیرھ دو کروڑ پاکستانی رہتے ہیں۔ان کے بھی تین ذیلی حصے ہیں: متوسط طبقہ، اپر کلاس اور ایلیٹ طبقہ۔ان طبقوں کے افراد بڑے گھروں میں رہتے ہیں جہاں بجلی، گیس، پانی اور سیوریج دستیاب ہے۔اچھے کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔
اچھا کھاتے پیتے ہیں۔علاج پرائیوٹ اسپتال سے کراتے ہیں۔بچے نجی اسکولوں میں عمدہ تعلیم پاتے ہیں۔زیادہ آمدن کے باعث بچت بھی ہوتی ہے۔اپر کلاس اور ایلیٹ طبقوں کو تو شاہانہ طرززندگی میّسر ہے۔ان کے کتے بلیاں بھی بڑ آرام دہ وقت گذارتے ہیں۔
کفایت شعار کمیٹی کی تجاویز
ایک ہی مملکت میں اس قسم کے معاشی ومعاشرتی طبقے کم ہی ملکوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ایسے ملک جنگوں و خانہ جنگی سے تباہ حال ہیں یا پھر وہاں نظام حکومت کرپٹ و ناکام ہو چکا۔بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے عمدہ نظام حکومت نہ پنپ سکا پھر وہ جغرافیائی، سیاسی و عسکری وجوہ کی بنا پر خانہ جنگی کا بھی نشانہ بن گیا۔
اس باعث ریاست کی معیشت کو نقصان پہنچا۔خصوصاً امیر اور غریب کے مابین واضح فرق نے جنم لیا۔ان دونوں طبقوں کے مابین خلیج بڑھ رہی ہے جو خطرناک امر ہے۔کیونکہ کسی مملکت میں عوام اپنے مسائل سے عاجز آ جائیں تو وہ آخرکار حکمران ایلیٹ طبقے کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں۔تب خوان خرابا ہوتا ہے اور سارا نظام بھی ملیامیٹ ہو جاتا ہے۔
نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے پاکستانی ایلیٹ طبقے کو بھی اپنا قبلہ درست کر لینا چاہیے۔اب بھی وقت ہے۔وہ سب سے پہلے عملی اقدامات سے ثابت کرے کہ بگڑی معیشت ِپاکستان درست کرنے کی خاطر وہ بھی قربانیاں دینے کو تیار ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے سرکاری اخراجات گھٹانے کے لیے طریقے تلاش کرنے کی ایک ''کفایت شعار کمیٹی''بنائی تھی جو اپنی سفارشات پیش کر چکی۔کمیٹی کی نمایاں تجاویز یہ ہیں:
٭...وفاقی و صوبائی کابینہ کا سائز 30وزرا ومشیروں تک محدود رہے۔
٭...غیر جنگی دفاعی بجٹ(non-combat defence budget) میں15 فیصد کمی لائی جائے۔(سیکرٹری دفاع نے اس تجویز سے اتفاق کیا)
٭...حکمران طبقہ کم سے کم غیر ملکی دورے کرے۔
٭...ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کو ترقیاتی منصوبوں کی خاطر رقم نہ دی جائے۔نیز ان کی تنخواہوں اور مراعات میں 15 فیصد کمی کی جائے۔
٭...سرکاری افسروں، ججوں، فوجی افسروں، سیاست دانوں کو حکومت صرف ایک پلاٹ دے۔اگر کسی کو دو پلاٹ مل چکے تو ایک پلاٹ واپس لے کر فروخت کیا جائے اور رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائی جائے۔
٭...تمام سرکاری افسروں کی تنخواہوں میں جون 2024ء تک 10 فیصد کمی کر دی جائے۔
٭...سرکاری محکموں میں ایندھن کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔نیز سرکاری افسروں کو قیمتی وشاہانہ گاڑیاں نہ دی جائیں۔مذید براں نئی گاڑیاں خریدنے پر پابندی لگا دی جائے۔
٭...حکومت میں کسی قسم کا کوئی اور سرکاری ادارہ یا تنظیم نہ بنائی جائے۔
٭...وزارتوں، سرکاری محکموں اور اداروں میں نئے عہدے تخلیق کر کے بیوروکریسی کو مذید نہ پھیلایا جائے۔
٭...غیر ملکی مہمانوں کے علاوہ حکومتی سطح پر ہر قسم کے سرکاری لنچ، ڈنر اور ہائی ٹی پر پابندی لگائی جائے۔
٭...کسی بھی سابق سرکاری افسر کو 5 لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن نہ دی جائے۔
٭...سابق سرکاری افسروں، فوجی افسروں اور ججوں کو جو مراعات وسہولیات حاصل ہیں، ان میں کمی لائی جائے۔
٭...بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی ختم کی جائے۔
کفایت شعار کمیٹی کے ارکان نے نوٹ کیا کہ فی الوقت پاکستان بڑے گھمبیر معاشی حالات سے گذر رہا ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو چکے اور سرکاری آمدن کا بیشتر حصہ قرضے کھا جاتے ہیں۔
اس صورت حال میں ضروری ہے کہ پاکستان پہ چڑھا قرض اتارا جائے۔یہ ایسے بھی ممکن ہے کہ حکمران ایلیٹ طبقہ اپنے اخراجات میں کمی لائے تاکہ بچ جانے والی رقم قرضے اتارنے میں کام آئے۔
انقلاب آ سکتا ہے
کفایت شعار کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر اس کی تمام تجاویز پر عمل ہو جائے تو پاکستانی حکومت ہر سال'' ایک ہزار کھرب روپے ''بچا سکتی ہے جو زرکثیر ہے۔سوال مگر یہی ہے کہ کیا حکمران ایلیٹ طبقہ کمیٹی کی سفارشات قبول کرنے کو تیار ہے؟حکومت کا طرزعمل دیکھتے ہوئے تو ایسا نہیں لگتا۔
مثال کے طور پر کمیٹی نے تجویز کیا کہ وفاقی و صوبائی کابینہ کا سائز 30 وزرا ومشیروں تک رکھا جائے۔مگر کمیٹی کی تجویز بالائے طاق رکھتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے اپنی کابینہ کے ارکان میں اضافہ کر دیا۔مذید سات خصوصی مشیر مقرر کیے گئے جن کا درجہ وزیر مملکت کے برابر ہو گا۔فی الوقت وفاقی کابینہ 34 وزرا، 48خصوصی مشیروں ،7 وزرائے مملکت اور 4 مشیروں پہ مشتمل ہے۔
گویا ارکان وفاقی کابینہ کی کل تعداد 85 ہو گئی جو نیا ریکارڈ ہے۔اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی وفاقی کابینہ نہیں بنائی گئی۔حالات سے واضح ہے کہ پاکستانی ایلیٹ طبقے نے فرانس، روس، فلپائن، رومانیہ وغیرہ میں بالائی طبقوں کے خلاف برپا ہونے والے خونی عوامی انقلابوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔گویا اس نے اپنا کھوٹا راستہ ترک نہ کیا تو اسے پاکستانی عوام کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بھارت کا ایلیٹ طبقہ
دیپانکر گپتا بھارت کے ممتاز عمرانیات داں اور سابق پروفیسر جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی ہیں۔کہتے ہیں:''عام طور پہ ایلیٹ طبقے کے لوگ خود کو ایلیٹ کہلوانا پسند نہیں کرتے۔برطانیہ میں وہ ''شرفا''(nobility)کہلاتے ہیں۔امریکا میں انھیں ''ملازمتیں دینے والے''( job creators)کہلوانا پسند ہے۔
جبکہ بھارت میں ''مڈل کلاس''کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ ان تینوں ممالک میں ایلیٹ طبقہ ٹیکس چھوٹ پانے کی خاطر مختلف جتن کرتا ہے۔مثلاً امریکی ایلیٹ کہتے ہیں کہ ملازمتیں دینے والوں کی حیثیت سے انھیں ٹیکس چھوٹیں دی جائیں۔اسی طرح بھارت میں امیر طبقہ ایندھن ، خوراک، تعلیم اور دیگر اخراجات میں ٹیکس چھوٹیں پاتا ہے اور عموماً اس عمل سے کروڑوں غریب بھارتیوں کو معاشی نقصان پہنچتا ہے۔''
سابق وزیراعظم، شاہد خاقان عباسی، سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین اور سابق سربراہ ایف بی آر، شبر علی زیدی بھی وقتاً فوقتاً اسی نقطہ نظر کا اظہار کر چکے۔
یہ معاملہ دراصل اتنا سادہ نہیں جتنا لگتا ہے۔اگر کسی پاکستانی نے اپنی محنت، ذہانت، قابلیت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر دولت، عزت اور شہرت پائی یا کسی اعلی سرکاری و نجی عہدے پر براجمان ہوا تو دنیاوی آسائشیں پانا اس کا حق ہے۔اور یہ بھی کہ اسے اچھی تنخواہ ملے نیز مراعات وسہولیات بھی!ظاہر ہے، جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہو سکتے۔
مگر کامیابیاں پا کر کوئی فرد اپنی حیثیت یا عہدے سے غیر اخلاقی، غیر قانونی اور ناجائز فوائد پانے لگے، ام ِاخلاقی امراض... لالچ و ہوس میں مبتلا ہو جائے تو یہ غلط ہے۔تب وہ ملک وقوم و معاشرے کے لیے مفید نہیں رہتا بلکہ بوجھ بن جاتا ہے۔پھر کہا جائے گا کہ ایلیٹ کلاس کا یہ رکن ناجائز طور پہ ملکی وسائل سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
دو حصے
لغت کی رو سے ایلیٹ طبقہ جسے اردو میں ''اشرافیہ'' یا ''طبقہ بالا'' کہتے ہیں، انسانوں کا ایسا گروہ ہے جو اپنی صلاحیتیوں اور قابلیت کی بنا پر دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جائے۔ماہرین ِسیاسیات و عمرانیات کی رو سے ایک ریاست میں ایلیٹ طبقہ ان گنے چنے افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو زیادہ طاقت ، دولت اور اثرورسوخ رکھتے ہوں۔
ماہرین کی رو سے اس طبقے کے دو حصے ہیں: اول حصہ حکمران، وزیروں مشیروں،جرنیلوں، سرکاری افسروں، ججوں اور سیاست دانوں پر مشتمل ہے۔دوسرے حصے میں نجی طبقے کی بارسوخ شخصیات شامل ہیں جیسے جاگیردار، صنعت کار، کاروباری ، تاجر اور مذہبی رہنما۔
ایلیٹ طبقہ بہرحال دور جدید کا عجوبہ نہیں، سات آٹھ ہزار سال پہلے وادی دجلہ وفرات میں اولیّں شہری ریاستیں وجود میں آئیں تو اس نے بھی جنم لیا۔تب بھی حکومت کے عناصر(بادشاہ، وزیر مشیر، جرنیل، انتظامیہ یعنی سرکاری افسر ، جج)اور نجی شعبے کے امرا نیز پروہت و پنڈت اس کا حصہ تھے۔
یہ ایلیٹ طبقہ حکومت کرتا اور ملکی وسائل سے مستفید ہوتا تھا۔وہ عموماً خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا جبکہ عوام پاؤں کی جوتی سمجھے جاتے۔قانون توڑنا اور مروڑنا اس کا وصف خاص تھا۔
مثلاً ہندوستان میں برہمن مت(المعروف بہ ہندومت)کاطبقہ بالا اچھوت کو انسان نہیں جانور سمجھتا تھا۔چناں چہ کوئی برہمن کسی شودر کو قتل بھی کر دیتا تو اس سے کوئی بازپرس نہ ہوتی۔مصر، بابل، ایران، روم اور یونان کی تہذیبوں کا بھی یہی حال تھا جہاں ایلیٹ کلاس عام آدمی کو محض زندہ رہنے کا حق دے کر سمجھتی تھی کہ اس پہ بڑا احسان کر ڈالا۔
تبدیلی کی ہوا
ایلیٹ طبقے کے طرز حکمرانی یا ''اسٹیٹس کو''میں تبدیلی تب آتی جب کوئی عوام دوست حکمران برسراقتدار آ جاتا۔وہ پھر عام آدمی کی فلاح وبہبود کے کام بھی کرتااور عوام کی زندگیوں میں آسانیاں لے آتا۔ماضی کے ایسے حکمرانوں میں حمورابی (بابل)، ملکہ ہشاپشت (مصر)، سائرس اعظم (ایران)، نوشیرواں عادل (ایران)، اشوک اعظم(ہندوستان) اور پرسیلیز (یونان) قابل ذکر ہیں۔
مگر یہ استثنی تھے، بیشتر بادشاہ اپنے جرنیلوں ، بیوروکریسی اور عدلیہ کی مدد سے جابرانہ انداز میں عوام پر حکومت کرتے اور انھیں ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا کر رکھتے۔اسی طرزعمل سے ''وی آئی پی کلچر''نے جنم لیا جو ایلیٹ طبقے کو معاشرے میں بے جا مراعات و مرتبہ دینے کا سبب بن گیا۔
دنیا کی پہلی فلاحی ریاست
نبی کریم ﷺ بہ حیثیت بادشاہ نبی دنیا کے پہلے حکمران ہیں جنھوں نے عوام کی فلاح وبہبود کو حکومت کی بنیادی ذمے داری اور فرض قرار دیا۔چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست مدینہ میں حکومتی ڈھانچا عوام پر حکمران نہیں اس کے تابع تھا۔
اس حکومت کا ہر اعلی وادنی رکن عوام کی خدمت کرتا اور اپنی ذمے داریاں بجا لاتا تھا۔ریاست میں ٹیکس بہت کم تھے۔اسی لیے ریاست مدینہ کے عام لوگ بھی خوشحال ہو گئے اور پُرسکون انداز میں زندگی گذارنے لگے۔اس ریاست میں بوڑھوں اور معذوروں کو بھی حقوق حاصل تھے چاہے وہ غیر مسلم ہی ہوں۔
بدقسمتی سے رحمت اللعالمینﷺ اور خلفائے راشدین کے بعد یہ عوام دوست حکومتی نظام مکمل صورت میں برقرار نہ رہ سکا۔اس میں ایلیٹ طبقے نے دوبارہ طاقت اور اثرورسوخ حاصل کر لیا۔گو بیشتر مسلم حکمرانوں نے سنت نبویﷺ پہ عمل کرتے ہوئے عوام کی فلاح وبہبود کو کسی نہ کسی طور مدنظر ضرور رکھا۔
اس امر کی بہترین مثال اندلس کے حکمران تھے جن کا نظام حکومت بلا تفریق رنگ، نسل و مذہب ہر شہری کو ضروریات زندگی اور بنیادی خدمات فراہم کرتا رہا۔اسلامی اندلس کے اسی عوام دوست طرز حکومت کو دیکھ کر پڑوسی مملکتوں فرانس، جرمنی، برطانیہ جیسے یورپی ممالک میں آمرانہ شاہی حکومتوں کے خلاف عوامی تحریکیں شروع ہوئیں ۔وہاں کے عوام ایلیٹ طبقے سے مطالبہ کرنے لگے کہ انھیں بھی ان کے حقوق عطا کیے جائیں۔
اسلامی طرز حکومت کے اثرات
عوامی احتجاج ، تحریکوں اور انقلابات کے باعث آخر یورپی ایلیٹ طبقہ مجبور ہو گیا کہ وہ عوام کو بھی سہولیات زندگی اور مراعات فراہم کرے تاکہ اس کی حکمرانی برقرار رہ سکے۔یوں کئی مغربی ملکوں میں فلاحی حکومتی نظام وجود میں آئے اور ایلیٹ کلاس اپنی دولت اور ملکی وسائل کا کچھ حصہ عوام کو دینے پر آمادہ ہو گئی۔
اس نظام میں قانون کو بالادستی حاصل ہوئی جس سے یورپی معاشروں پر اچھے اثرات مرتب ہوئے۔وہاں عام آدمی کو انصاف ملنے لگا اور قومی اداروں پہ اعتماد بھی بحال ہو گیا۔
اس ارتقائی عمل نے ہر یورپی ملک میں مضبوط معاشرے کو جنم دیا اور مغربی ممالک ترقی یافتہ اور خوشحال بن گئے۔آج بھی وہاں ایلیٹ طبقہ ہی بالادست ہے تاہم عام آدمی کو بھی کئی حقوق میسّر ہیں اور وہ عمدہ زندگی گذار رہا ہے، اسی لیے طبقہ بالا کی عیش وعشرت دیکھ کر تنقید و احتجاج تو کرتا ہے مگر کھلم کھلا بغاوت نہیں۔
ترقی پذیر و پسماندہ ملکوں میں کہیں جہالت زیادہ تھی تو کسی ملک میں نوآبادیاتی طاقتوں یا آمروں نے قبضہ کر رکھا تھا۔وہاں عام آدمی اپنے حقوق سے واقف نہیں تھا۔پھر قانون کی حکمرانی بھی کمزور تھی۔
اسی لیے ان ملکوں میں ایلیٹ طبقے کو من پسند اور اپنے مفادات پورے کرنے والا نظام حکومت نافذ کرنے کا موقع مل گیا۔حکومتی نظام کا ڈھانچا اس طریق سے بنایا گیا کہ ملکی وسائل کا بیشتر حصہ ایلیٹ طبقے کے قبضے میں آ جائے جبکہ عوام اس کے مفادات پورے کرتے رہیں۔مثلاً پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک میں عوام ان گنت ٹیکس دیتے ہیں۔اور ٹیکسوں کی رقم سے حکمران ایلیٹ طبقہ آسائش کی زندگی گذارتا ہے۔
عوام کو مطیع کرنا مشن بن گیا
ہمارے بزرگوں نے ایک اسلامی فلاحی مملکت کی تشکیل کے لیے پاکستان بنایا تھا۔مسئلہ یہ ہوا کہ انگریز کے پروردہ مسلم ایلیٹ طبقے سے منسلک جاگیرداروں اور سرکاری افسروں نے بہت جلد نوزائیدہ ریاست کے نظام حکومت میں غلبہ حاصل کر لیا۔
انگریزان کی مدد سے ہندوستانی عوام کو اپنا مطیع بنائے رکھتا تھا۔انھیں حکومت ملی تو وہ پاکستانی عوام کو اپنا مطیع بنانے کی سعی کرنے لگے۔ملک وقوم کی ترقی وخوشحالی کے بجائے ذاتی مفادات کی تکمیل بیشتر ارکان ایلیٹ طبقہ کا مطمع نظر بن گیا۔
پھر جلد جاگیرداروں، سرکاری افسروں اور جرنیلوں کے مابین اختیارات واقتدار کی جنگ شروع ہو گئی جس نے معاشی ، سیاسی و معاشرتی طور پہ ملک کو نقصان پہنچایا۔خاص طور پہ قانون کی حکمرانی کمزور ہوئی اور اقربا پروری کے چلن نے جنم لیا۔قانون کا کمزور ہونا تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔
عوام دوست ایلیٹ افراد
حکمران ایلیٹ طبقے میں اچھے اور محب وطن سیاست داں، سرکاری افسر و جرنیل بھی شامل تھے۔انھوں نے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کئی سرکاری منصوبے بنائے۔ ہمارے جرنیلوں اور سرکاری افسروں کی پیشہ ورانہ قابلیت کو بیرون ملک سراہا گیا۔
مثلاً 1950ء کے عشرے میں نوآزاد جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں، جنوبی کوریا، ملائشیا، سنگاپور اور انڈونیشیا کی حکومتوں نے نظام حکومت بہتر بنانے کے لیے پاکستانی افسروں کے تجربے واستعداد سے استفادہ کیا تھا۔مگر یہ قابل پاکستانی کم تعداد میں تھے۔
پھر کرپٹ لوگوں نے انھیں کام بھی نہ کرنے دیا۔اس لیے وہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی مضبوط نہیںبنا سکے اور فلاحی نظام حکومت بھی کُلی طور پہ وجود میں نہ آ سکا۔
قرضوں کی پیتے تھے مے
ایک بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ حکمران ایلیٹ طبقے کو قرضوں اور غیر ملکی امداد کے سہارے حکومتی اخراجات کرنے کی لت پڑ گئی۔رفتہ رفتہ سرکاری خزانے کا ایک حصّہ کرپشن کی نذر ہونے لگا۔پھر ایلیٹ طبقے نے اپنی تنخواہوں ، مراعات و سہولیات میں اچھا خاصا اضافہ کر لیا اور شاہانہ طرز زندگی گذارنے لگا۔
عالیشان بنگلے، قیمتی گاڑیاں، امپورٹیڈ اشیا اور غیرملکی دورے اس طرز زندگی کے عناصر بن گئے۔مزید براں زر کثیر سے ایسے کئی سرکاری منصوبے بنائے گئے جن سے عوام کو تو خاص فائدہ نہیں ہوا مگر ایلیٹ طبقہ فائدے میں رہا ۔ان عوامل کی بنا پر ہی آج حکمران ایلیٹ طبقے پر الزام لگتا ہے کہ عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم سے اپنی آسائشوں بھری شاہانہ زندگی بسر کر رہا ہے۔
اور یہ کہ وہ کرپشن میں ملوث ہے۔جبکہ نجی ایلیٹ طبقے پر الزام لگتا ہے کہ وہ ٹیکس چوری کرتا ہے۔یہی نہیں حکومت سے سبسڈیاں لیتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ سرکاری و نجی ایلیٹ طبقہ اپنی دولت چوری چھپے بیرون ملک بھجواتا اور غیرملکی اکاؤنٹس میں رکھتا ہے۔
قومی معیشت کی حالت زار
حکمران ایلیٹ طبقے کی اچھی یا بُری کارکردگی جانچنے کا بہترین پیمانہ قومی معیشت کی حالت ہے۔اور پاکستانی معیشت کی موجودہ حالت ِزار عیاں کرتی ہے کہ ہمارا ایلیٹ طبقہ عمدہ طریقے سے حکمرانی نہیں کر سکا بلکہ اس نے ملک و قوم کو قرضوں کے جال میں پھنسا دیا۔جس ترقی پذیر و غریب ملک پہ جتنے زیادہ قرضے ہوں، وہاں اتنی ہی زیادہ مہنگائی اور غربت ہوتی ہے۔
وجہ یہی کہ حکومت نت نئے ٹیکس لگا اور ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر اپنی آمدن میں اضافہ کرتی ہے تاکہ قرض چکانے اور سود دینے کی خاطر رقم مل سکے۔
یہ عمل ملک میں مہنگائی بڑھاتا چلا جاتا ہے۔اعدادوشمار اور حقائق سے آشکارا ہے کہ پاکستانی حکمران ایلیٹ طبقہ ریاست کو معاشی طور پر اپنے پیروں پہ کھڑا کرنے میں ناکام رہا۔اس نے ملکی صنعت وحرفت کو فروغ دینے کی خاطر جامع منصوبے نہیں بنائے ۔غلط فیصلوں، ناقص پالیسیوں اور اپنے بڑھتے اخرجات کی وجہ سے اس نے پاکستان کوتقریباً'' 64 ہزار ارب روپے ''کا مقروض بنا دیا۔
اب حالت یہ ہو چکی کہ حکومت کو ماہانہ جو آمدن ہو، اس کا ''55 فیصد'' حصہ سود دینے اور قرض اتارنے پہ لگ جاتا ہے۔کثیر ڈالر بھی اسی مد پر خرچ ہوتے ہیں۔اسی لیے پاکستان کبھی ڈالر کے تسلی بخش ذخائر جمع نہیں کر پاتا اور دیوالیہ ہونے کا خطرہ تلوار بن کر سر پہ لٹکتا رہتا ہے۔
بوجھ عوام پر!
پچھلے پینتیس سال کے دوران ہی پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے آیا ۔1973ء میں پاکستان پر کل قرضہ صرف'' 50 ارب روپے'' تھا۔ یہ 1988ء میں بڑھ کر'' 521 ارب روپے'' تک پہنچ گیا۔اس کے بعد تو حکمران طبقہ دھڑا دھڑ قرضے لینے لگا ، چاہے حکومت ٹیکنو کریٹ کی ہو ، سیاست داں یا جرنیل کی! چناں چہ ملک وقوم پہ قرضوں کا پہاڑ کھڑا ہو گیا۔
اب حالت یہ ہو چکی کہ حکومت پاکستانی عوام کو سبسڈی دے کر ان کی زندگیاں آسان نہیں بنا سکتی...الٹا ٹیکسوں کی شرح بڑھا کے زندگی مزید اجیرن کر ڈالی۔
عوامی نمائندے اور ماہرین معاشیات چیخ رہے ہیں کہ حکمران و نجی ایلیٹ طبقے نے اپنا شاہانہ طرز زندگی ترک نہیں کیا بلکہ عام آدمی پہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر اسے ادھ موا کر ڈالا۔گویا قرضے حکمران ایلیٹ طبقہ لے اور انھیں اتارنے کا بوجھ عوام پہ ڈال دے ،یہ چلن ظلم کے مترادف ہے۔اس روش کی ایک انوکھی مثال ملاحظہ فرمائیے۔
کس قسم کا نظام حکومت؟
جون 2022ء میں تب کے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے اعلان کیا کہ وفاقی سیکرٹریٹ میں کام کرتے گریڈ 17 تا 22 کے سرکاری ملازمین کو ہر ماہ بنیادی تنخواہ کا 150 فیصد ''ایگزیکٹیو الاؤنس''ملے گا۔اگلے ماہ وزات خزانہ نے اس سلسلے میں نوٹیفیکشن جاری کیا تو اس میں درج تھا کہ صرف پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس اور آفس مینجمنٹ گروپ کے افسروں کو درج بالا الاؤنس ملے گا۔وفاقی سیکرٹریٹ میں تقریباً تئیس سو افسر کام کرتے ہیں۔
ان میں بارہ سو افسران کو تو ایگزیکٹیو الاؤنس مل گیا، بقیہ محروم رہے۔ان افسروں نے احتجاج کیا کہ انھیں بھی مجوزہ الاؤنس دیا جائے۔جب نئے وفاقی وزیر خزانہ ، اسحاق ڈار نے انکار کر دیا تو احتجاجی افسروں نے قلم چھوڑ ہڑتال شروع کر دی۔یہ ہڑتال وقفے وقفے سے جاری رہی۔اس دوران یہ بھی سننے کو ملا کہ ایگزیکٹیو الاؤنس کی شرح 100 فیصد کر دی جائے گی۔
1 فروری 2023ء کو وزیراعظم پاکستان نے آخر اعلان کیا کہ وفاقی (پاک) سیکرٹریٹ کے سبھی اعلی (17 تا 22 گریڈ کے)افسروں کو 150 فیصد ایگزیکٹیو الاؤنس ملے گا۔یوں افسران کی ناراضی و قلم چھوڑ ہڑتالوں کا دباؤ رنگ لایا اور حکومت انھیں مطلوبہ رقم فراہم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
سوال یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ حال ہے کہ پاکستانی حکومت سر تا پا ملکی وغیر ملکی قرضوں کے جال میں جکڑی ہوئی ہے۔اس کو ڈالروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ قومی معیشت کو رواں دواں رکھا جا سکے۔حکمران سوالی بنے کبھی سعودیہ و امارات جاتے ہیں۔
کبھی آئی ایم ایف کا در کھٹکاتے ہیں تاکہ رقم مل سکے۔گویا حکمران طبقے کو سرمایہ فوری درکار ہے کہ کاروبار ِمملکت جاری رہے۔
دوسری سمت شاہ خرچی کا یہ عالم ہے کہ ان افسران کو ایگزیکٹیو الاؤنس دیا جا رہا ہے جن کی تنخواہوں، مراعات و سہولتوں کا ماہانہ خرچ لاکھوں روپے میں ہے۔
خبروں کے مطابق اس ایگزیکٹیو الاؤنس کے باعث حکومت پر2.80 ارب روپے سالانہ کا نیا بوجھ پڑ گیا۔آخر یہ کس قسم کا نظام حکومت ہے؟ایسے غیر اخلاقی فیصلے وہی حکمران ایلیٹ طبقہ کر سکتا ہے عوام کے مسائل سے لاتعلق رہے اور صرف اپنے مفادات مقدم رکھے۔
عام آدمی ناراض ہے
ملکی وغیر ملکی ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اس وقت حکمران ایلیٹ طبقے کا شاہانہ طرز زندگی برقرار رکھنے کے لیے ہر سال حکومت ڈیرھ ہزار کھرب روپے خرچ کر رہی ہے۔یہ رقم پنشنوں، تنخواہوں، مراعات و سہولیات کے اخراجات اور دیگر اپنے خرچوں کی مد میں استعمال ہوتی ہے۔جبکہ حکومت نجی ایلیٹ طبقے کو بھی سالانہ کم ازکم پانچ سو ارب روپے کی سبسڈی دیتی ہے تاکہ وہ اپنے کام جاری رکھے۔
یہ دو ہزار ارب روپے عوام کی جیبوں ہی سے بذریعہ ٹیکس نکالے جاتے ہیں۔اسی باعث ہمارا ٹیکس نظام ظالمانہ ہے جو امیر کو امیرتر اور غریب کو غریب تر بنا رہا ہے۔اس سے مہنگائی بڑھنے کے باعث عام آدمی اب آٹا، سبزی اور پھل باآسانی نہیں خرید سکتا۔وہ پریشان، غصّیلا اور ناراض ہو چکا۔
یہ غیر منصفانہ ٹیکس نظام عوام پر تھوپنے میں حکمران ایلیٹ طبقے کا بنیادی کردار ہے۔اور یہ دعوی نہیں کیا جا سکتا کہ کسی حکمران نے یہ ظلم روکنے کے لیے ٹھوس کوششیں کیں۔تبدیلی لانے کا دعوی کرنے والوں کو بھی اقتدار ملا تو عوام پہ ٹیکسوں کا نیا بوجھ ڈال گئے۔
عام آدمی مہنگائی سے تنگ آیا اور انھیں گالیاں دینے لگا تو انھوں نے ٹیکسوں میں اضافے کا الزام طبقہ ایلیٹ کے دیگر ارکان پہ تھوپ دیا۔اللہ اللہ خیر سلا!اب وہ عوام کے ہمدرد بنے بیٹھے ہیں مگر پھر حکومت میں آئے تو فرعون بن جائیں گے۔
دو پاکستان
ایلیٹ کلاس کے لالچ وہوس اور اپنے مفادات کو ترجیح دینے کی وجہ سے پاکستان کا معاشرہ دو واضح حصّوں میں تقسیم ہو چکا۔ایک حصے میں اکیس بائیس کروڑ پاکستانی بستے ہیں۔اس پاکستان میں لوگ چھوٹے گھروں میں مقیم ہیں جہاں اکثر بجلی، گیس، پانی اور سیوریج نہیں ہوتا۔یہ لنڈے کے کپڑے پہنتے ہیں۔روزانہ بہ مشکل دو وقت کی روٹی کھاتے ہیں۔
بیمار ہوں تو گھریلو ٹوٹکوں سے علاج ہوتا ہے۔بچے محلے کے سستے اسکول میں پڑھتے ہیں جس کی تعلیم غیرمعیاری ہے۔
بیشتر آمدن کھانے پینے اور ٹرانسپورٹ پہ لگتی ہے۔بقیہ اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہوتے ہیں۔یہ کٹھن طرززندگی اکثر غریب نوجوانوں کو جرائم کی طرف راغب کر دیتا ہے۔وہ پھر غیر اخلاقی و غیر قانونی افعال اپنا کر راتوں رات امیر بننے کی سعی کرتے ہیں۔
وطن عزیز کے دوسرے حصے میں ڈیرھ دو کروڑ پاکستانی رہتے ہیں۔ان کے بھی تین ذیلی حصے ہیں: متوسط طبقہ، اپر کلاس اور ایلیٹ طبقہ۔ان طبقوں کے افراد بڑے گھروں میں رہتے ہیں جہاں بجلی، گیس، پانی اور سیوریج دستیاب ہے۔اچھے کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔
اچھا کھاتے پیتے ہیں۔علاج پرائیوٹ اسپتال سے کراتے ہیں۔بچے نجی اسکولوں میں عمدہ تعلیم پاتے ہیں۔زیادہ آمدن کے باعث بچت بھی ہوتی ہے۔اپر کلاس اور ایلیٹ طبقوں کو تو شاہانہ طرززندگی میّسر ہے۔ان کے کتے بلیاں بھی بڑ آرام دہ وقت گذارتے ہیں۔
کفایت شعار کمیٹی کی تجاویز
ایک ہی مملکت میں اس قسم کے معاشی ومعاشرتی طبقے کم ہی ملکوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ایسے ملک جنگوں و خانہ جنگی سے تباہ حال ہیں یا پھر وہاں نظام حکومت کرپٹ و ناکام ہو چکا۔بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے عمدہ نظام حکومت نہ پنپ سکا پھر وہ جغرافیائی، سیاسی و عسکری وجوہ کی بنا پر خانہ جنگی کا بھی نشانہ بن گیا۔
اس باعث ریاست کی معیشت کو نقصان پہنچا۔خصوصاً امیر اور غریب کے مابین واضح فرق نے جنم لیا۔ان دونوں طبقوں کے مابین خلیج بڑھ رہی ہے جو خطرناک امر ہے۔کیونکہ کسی مملکت میں عوام اپنے مسائل سے عاجز آ جائیں تو وہ آخرکار حکمران ایلیٹ طبقے کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں۔تب خوان خرابا ہوتا ہے اور سارا نظام بھی ملیامیٹ ہو جاتا ہے۔
نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے پاکستانی ایلیٹ طبقے کو بھی اپنا قبلہ درست کر لینا چاہیے۔اب بھی وقت ہے۔وہ سب سے پہلے عملی اقدامات سے ثابت کرے کہ بگڑی معیشت ِپاکستان درست کرنے کی خاطر وہ بھی قربانیاں دینے کو تیار ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے سرکاری اخراجات گھٹانے کے لیے طریقے تلاش کرنے کی ایک ''کفایت شعار کمیٹی''بنائی تھی جو اپنی سفارشات پیش کر چکی۔کمیٹی کی نمایاں تجاویز یہ ہیں:
٭...وفاقی و صوبائی کابینہ کا سائز 30وزرا ومشیروں تک محدود رہے۔
٭...غیر جنگی دفاعی بجٹ(non-combat defence budget) میں15 فیصد کمی لائی جائے۔(سیکرٹری دفاع نے اس تجویز سے اتفاق کیا)
٭...حکمران طبقہ کم سے کم غیر ملکی دورے کرے۔
٭...ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کو ترقیاتی منصوبوں کی خاطر رقم نہ دی جائے۔نیز ان کی تنخواہوں اور مراعات میں 15 فیصد کمی کی جائے۔
٭...سرکاری افسروں، ججوں، فوجی افسروں، سیاست دانوں کو حکومت صرف ایک پلاٹ دے۔اگر کسی کو دو پلاٹ مل چکے تو ایک پلاٹ واپس لے کر فروخت کیا جائے اور رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائی جائے۔
٭...تمام سرکاری افسروں کی تنخواہوں میں جون 2024ء تک 10 فیصد کمی کر دی جائے۔
٭...سرکاری محکموں میں ایندھن کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔نیز سرکاری افسروں کو قیمتی وشاہانہ گاڑیاں نہ دی جائیں۔مذید براں نئی گاڑیاں خریدنے پر پابندی لگا دی جائے۔
٭...حکومت میں کسی قسم کا کوئی اور سرکاری ادارہ یا تنظیم نہ بنائی جائے۔
٭...وزارتوں، سرکاری محکموں اور اداروں میں نئے عہدے تخلیق کر کے بیوروکریسی کو مذید نہ پھیلایا جائے۔
٭...غیر ملکی مہمانوں کے علاوہ حکومتی سطح پر ہر قسم کے سرکاری لنچ، ڈنر اور ہائی ٹی پر پابندی لگائی جائے۔
٭...کسی بھی سابق سرکاری افسر کو 5 لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن نہ دی جائے۔
٭...سابق سرکاری افسروں، فوجی افسروں اور ججوں کو جو مراعات وسہولیات حاصل ہیں، ان میں کمی لائی جائے۔
٭...بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی ختم کی جائے۔
کفایت شعار کمیٹی کے ارکان نے نوٹ کیا کہ فی الوقت پاکستان بڑے گھمبیر معاشی حالات سے گذر رہا ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو چکے اور سرکاری آمدن کا بیشتر حصہ قرضے کھا جاتے ہیں۔
اس صورت حال میں ضروری ہے کہ پاکستان پہ چڑھا قرض اتارا جائے۔یہ ایسے بھی ممکن ہے کہ حکمران ایلیٹ طبقہ اپنے اخراجات میں کمی لائے تاکہ بچ جانے والی رقم قرضے اتارنے میں کام آئے۔
انقلاب آ سکتا ہے
کفایت شعار کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر اس کی تمام تجاویز پر عمل ہو جائے تو پاکستانی حکومت ہر سال'' ایک ہزار کھرب روپے ''بچا سکتی ہے جو زرکثیر ہے۔سوال مگر یہی ہے کہ کیا حکمران ایلیٹ طبقہ کمیٹی کی سفارشات قبول کرنے کو تیار ہے؟حکومت کا طرزعمل دیکھتے ہوئے تو ایسا نہیں لگتا۔
مثال کے طور پر کمیٹی نے تجویز کیا کہ وفاقی و صوبائی کابینہ کا سائز 30 وزرا ومشیروں تک رکھا جائے۔مگر کمیٹی کی تجویز بالائے طاق رکھتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے اپنی کابینہ کے ارکان میں اضافہ کر دیا۔مذید سات خصوصی مشیر مقرر کیے گئے جن کا درجہ وزیر مملکت کے برابر ہو گا۔فی الوقت وفاقی کابینہ 34 وزرا، 48خصوصی مشیروں ،7 وزرائے مملکت اور 4 مشیروں پہ مشتمل ہے۔
گویا ارکان وفاقی کابینہ کی کل تعداد 85 ہو گئی جو نیا ریکارڈ ہے۔اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی وفاقی کابینہ نہیں بنائی گئی۔حالات سے واضح ہے کہ پاکستانی ایلیٹ طبقے نے فرانس، روس، فلپائن، رومانیہ وغیرہ میں بالائی طبقوں کے خلاف برپا ہونے والے خونی عوامی انقلابوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔گویا اس نے اپنا کھوٹا راستہ ترک نہ کیا تو اسے پاکستانی عوام کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بھارت کا ایلیٹ طبقہ
دیپانکر گپتا بھارت کے ممتاز عمرانیات داں اور سابق پروفیسر جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی ہیں۔کہتے ہیں:''عام طور پہ ایلیٹ طبقے کے لوگ خود کو ایلیٹ کہلوانا پسند نہیں کرتے۔برطانیہ میں وہ ''شرفا''(nobility)کہلاتے ہیں۔امریکا میں انھیں ''ملازمتیں دینے والے''( job creators)کہلوانا پسند ہے۔
جبکہ بھارت میں ''مڈل کلاس''کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ ان تینوں ممالک میں ایلیٹ طبقہ ٹیکس چھوٹ پانے کی خاطر مختلف جتن کرتا ہے۔مثلاً امریکی ایلیٹ کہتے ہیں کہ ملازمتیں دینے والوں کی حیثیت سے انھیں ٹیکس چھوٹیں دی جائیں۔اسی طرح بھارت میں امیر طبقہ ایندھن ، خوراک، تعلیم اور دیگر اخراجات میں ٹیکس چھوٹیں پاتا ہے اور عموماً اس عمل سے کروڑوں غریب بھارتیوں کو معاشی نقصان پہنچتا ہے۔''