کوچۂ سخن

کون کہتا ہے یہ زخموں کی پذیرائی ہے؛<br /> آنکھ توآنکھ ہے بس ویسے ہی بھر آئی ہے

فوٹو: فائل

غزل
کون کہتا ہے یہ زخموں کی پذیرائی ہے
آنکھ توآنکھ ہے بس ویسے ہی بھر آئی ہے
تم تسلی سے مرے زخم کریدو وحشت
میں ہی ہوتا ہوں یہاں یا مری تنہائی ہے
ایک بھوکے نے اشاروں کی مدد سے طنزاً
کتنے لوگوں کو بتایا کہ مرا بھائی ہے
اب زمانے میں یہ زنجیر ہے پہچان مری
اُسکاممنون ہوں جس نے مجھے پہنائی ہے
ہم تومائل بہ کرم ہیں تبھی کچھ بولتے ہیں
عشق کے پاس کہاں قوتِ گویائی ہے
دونوں آنکھوں کو لگایا ہے الگ کاموں پر
اک تماشہ ہے یہاں ایک تماشائی ہے
(اسد رضا سحر۔ جھنگ )


۔۔۔
غزل
اِس کا یکسر الگ فسانہ ہے
یہ جو سانسوں کا کارخانہ ہے
میں تسلی سے خواب دیکھوں گا
اب یہی میرا آب و دانہ ہے
اس کو عجلت میں گا نہیں سکتے
زندگی کا عجب ترانہ ہے
پانیوں نے بدل لئے رستے
میرے پیڑوں نے سوکھ جانا ہے
خواب گاہوں میں رہ رہا ہوں میں
یہ مرا مستقل ٹھکانہ ہے
باغِ ہستی کی سیر کر اے دوست
خوشبوؤں کا حسیں زمانہ ہے
آگ اور پانیوں کا مستحسن
یہ تعلق بہت پرانا ہے
(مستحسن جامی۔ خوشاب)


۔۔۔
غزل
تیرے جیسا جو ہم نشین ملتا
بے یقینی کو پھر یقیں ملتا
جس جگہ اس نے ہاتھ چھوڑا تھا
کاش ، وہ پھر مجھے وہیں ملتا
میں نے نیکی اگر یہاں کی ہے
پھر صلہ بھی مجھے یہیں ملتا
یا خدا ہیں ، یا پھر فرشتے ہیں
آدمی ایک بھی نہیں ملتا
تو جسے ڈھونڈتا ہے سجدوں میں
وہ خدا اس طرح نہیں ملتا
(تاثیرجعفری ۔خانیوال)


۔۔۔
غزل
محبتوں کا نیا آسمان ڈھونڈتا ہوں
میں اپنے سر پہ کوئی سائبان ڈھونڈتا ہوں
ہوائے شہرِ بہاراں میں اُس کے لہجے میں
ترا یقین اور اپنا گمان ڈھونڈتا ہوں
میں اپنے خواب ہتھیلی پر لے کے پھرتا ہوں
سجا سکوں انہیں جس میں، دکان ڈھونڈتا ہوں
میں منحرف نہیں اپنے قبیلے والوں سے
انا پرست ہوں، اپنا نشان ڈھونڈتا ہوں
ہوائے دربدری یوں اڑائے پھرتی ہے
میں اپنے شہر میں اپنا مکان ڈھونڈتا ہوں
مرا وجود زمانے میں ہے تو بس اتنا ہے
میں قصّہ گو ہوں اور اک داستان ڈھونڈتا ہوں
(ریاض شاہد پنیاں۔ خانیوال)


۔۔۔
غزل
چھوڑ باتیں واعظوں کی گنگنا کر رقص کر
اپنی مستی میں جیے جا مسکرا کر رقص کر
اپنے خستہ حال کا ہر ایک پر نہ بھید کھول
صبر کر ہونٹوں پہ سارے غم سجا کر رقص کر
چھوڑ کر جانا ہے جس نے اُس نے جانا ہے ضرور
پھر تجھے کاہے کا ڈر ہے؟ خوش رہا کر،رقص کر
راہ میں کانٹے بچھانا دوسروں کا ظرف ہے
ہاں مگر تو پھول راہوں میں بچھا کر رقص کر
ساتھ تیرے نام اس کا جڑ نہیں سکتا کبھی
ساحلوں کی ریت پر یوں مت لکھا کر، رقص کر
تم نے کب دیکھی ہیں شافی ؔحسن کی رعنائیاں
ایک بار اس کی گلی میں دیکھ آ کر، رقص کر
(محسن رضا شافی۔ کبیر والا)


۔۔۔
غزل
ہلے اثبات میں سر اور دل آہ و فغاں میں ہو
پتہ تو چل ہی جاتا ہے اگر انکار ہاں میں ہو
وہاں ملتی ہے دریاوں کی خصلت چشمِ گریہ سے
کمی بیشی بہاؤ کی جہاں آبِ رواں میں ہو
میں اک ہی وقت میں دو موسموں کی زد میں ہوں جیسے
شجر آدھا بہارِ نو میں اور آدھا خزاں میں ہو
محبت خام ہے اب تک کسی کا کچھ نہیں بگڑا
یہیں سے ہی پلٹ جاؤابھی تم درمیاں میں ہو


کسی گوشے میں اکثر دھوپ بھی آتی ہے سستانے
ضروری تو نہیں ہے چھاؤں پورے سائباں میں ہو
روایت ہے یہ ماضی کے محبت کرنے والوں سے
کبوتر ضد کیا کرتے تھے خط اردو زباں میں ہو
حسن یہ لوگ تو خاموش بھی رہنے نہیں دیتے
نچا کر ہاتھ کہتے ہیں میاں تم کس جہاں میں ہو
(احتشام حسن ۔لاہور)


۔۔۔
غزل
غبارِ دشت ہوں، میرا ہے انتظار کسے
مرے وجود نے کرنا ہے بیقرار کسے
یہ دل سمجھتا ہے کس کس کے دل میں نفرت ہے
تمہارے ساتھ میں لگتا ہوں ناگوار کسے
یہ کس کی یاد میں کلیاں نہال ہوتی ہیں
تلاش کرتی ہے آنگن کی یہ بہار کسے
نظر سمجھتی نہیں ہے فریبِ دنیا کو
دکھائی دیتا ہے دھوکہ یہ بار بار کسے
خیال و خواب کی دنیا سجانے والی سن
ترے خیال پہ ہوتا ہے اختیار کسے
تمہارے عشق میں ڈوبا ہے کس کا دل احمد
تمہارے نام نے کر ڈالا اشکبار کسے
(احمد حجازی۔ لیاقت پور ، رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
بیٹھے بیٹھے اکثر سوچتی رہتی ہوں تنہائی میں
کچھ کچھ تیرا ہونا بھی ہے میری اس رعنائی میں
عقل اور شکل سے آگے تک کی دنیا دیکھ چکے ہیں ہم
کیا کیا رمز چھپی ہوتی ہے بوڑھوں کی دانائی میں
لیلی، مجنوں، سسی، پنوں، ہیر اور رانجھا کہتے تھے
ایک عجیب طرح کا نشہ ہوتا ہے رسوائی میں
پر اسرار جگہوں پر اکثر اک تہہ خانہ ہوتا ہے
گیرائی کی پرتیں ہوں گی دریا کی گہرائی میں
بس پروین کے شعروں تک ہی بات رہے تو اچھا ہے
ورنہ ایسی کوئی بات نہیں تھی اس ہرجائی میں
میں نے آج صبا تابش، کچھ اس کے علاوہ سوچا ہے
اتنی برائی کی گنجائش ہوتی ہے اچھائی میں؟
(صبا تابش ۔کولکتہ، بھارت)


۔۔۔
غزل
سند ضعیف سہی راویان جانتے ہیں
ہے اصل شجرہ کہاں، کاتبان جانتے ہیں
قرینِ موت ہے اَسپِ یقیں کی تیز روی
ہماری آنکھ میں اترے گمان جانتے ہیں
مماثلت ہے کسی کی تو اس کا مسئلہ ہے
سب اہلِ حرف ہماری اڑان جانتے ہیں
تمام درد مرے دَر پہ آئے بیٹھے ہیں
یہ میرے سینے کو دارالامان جانتے ہیں
خلا کے دکھ تو سمجھتی ہیں دل کی دیواریں
مری اداسی بھی خالی مکان جانتے ہیں!
میں آ گیا ہوں تو اب خیر لے کے جاؤں گا
مری طلب کو مرے میزبان جانتے ہیں
(شاکر خان۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
دو چار ہی ٹوٹے ہیں ابھی خواب ہمارے
بیکار سمجھ بیٹھے ہیں احباب ہمارے
مہتاب سے سیکھا ہے بھٹکنے کا سلیقہ
یہ رات بتا سکتی ہے آداب ہمارے
جس شوق سے پڑھتا ہے سلیبس کی کتابیں
کھل جائیں گے اُس دل پہ کبھی باب ہمارے
پہلے ہی کہا تھا کہ نہ ساحل سے پکارو
خشکی پہ نکل آئے ہیں گرداب ہمارے
اس طرح بکھرتے ہیں سبھی چاہنے والے
پھولوں سے بھرے رہتے ہیں تالاب ہمارے
مہتاب کہاں جائے گا دریا سے نکل کر
بن جائیں اگر نقش سرِ آب ہمارے
زائر کوئی پڑھ پاتا نہیں ٹھیک سے ہم کو
یہ کون بدل جاتا ہے اعراب ہمارے
(ریحان زائر ۔فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
محبت کی کہانی میں فقط کردار مارے گا
محبت مر نہیں سکتی تو کیسے یار مارے گا
میں پہلے کہہ چکا تم کومگر اے یار مت کرنا
تمہاری سات نسلوں کو اکیلا پیار مارے گا
ترے ملنے بچھڑنے سے یہی محسوس ہوتا ہے
ترا ملنا بچھڑنا ہی مجھے سرکار مارے گا
میں کیا اظہار کرتا جی مجھے معلوم تھا اک دن
مجھے اظہار کرنے سے ترا انکار مارے گا
محبت ہی نہیں کرتے مدثرؔ گر خبر ہوتی
کہ میرے ساتھ چلنے سے تجھے سنسار مارے گا
(مدثر اسیر۔ جوہر آباد، خوشاب)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story