پاکستانی ٹریننگ انڈسٹری کا لعل فلپس ایس لال

عالمی سطح پر پاکستان کے بہترین مینجمنٹ کنسلٹنٹ اور کارپوریٹ ٹرینر، ایک سچے اور کھرے پاکستانی کی داستان


ایاز مورس February 26, 2023
عالمی سطح پر پاکستان کے بہترین مینجمنٹ کنسلٹنٹ اور کارپوریٹ ٹرینر، ایک سچے اور کھرے پاکستانی کی داستان ۔ فوٹو : فائل

پڑھانے اور لکھنے کے بعدموٹیویشنل اسپیکر اور ٹرینر بننے کا شوق سر چڑ کر بولنے لگا تو پاکستانی ٹریننگ انڈسٹری اور ٹرینر کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔

عالمی شہرت یافتہ سیلف ہیلپ گروڈیل کارنیگی سے واقفیت کالج کے زمانے میں 2005 میں ان کی کتاب ''How to Stop Worrying and Start Living'' سے ہوئی۔

پھر نیولپن ہل، جم راہن، ڈاکٹر وائن ڈائر، زگ زگلر، اسٹفن آرکوئی، جان سی مسیکوئیل، برین ٹریسی، ٹونی رابنز، کین بلیکن کارڈ، لیس برؤان، ایڈورڈ ڈی بونو، جیمس آرتھر رائے، ڈیرن ہارڈی، میلکم گلڈویل، وکٹر انتنو Victor( Antonio) نک وجوائک (Nick Vujicic) اور کئی دیگر ناموں سے واقفیت ہوئی اُن کی تحریریں پڑھنے، ویڈیوز دیکھنے اور حالات زندگی کو جاننے کا موقع ملا۔

لیکن ذہن میں ہمیشہ ایک سوال ضرور پیدا ہوتا تھا کہ کیا کوئی اس معیار اور پائے کا پاکستانی ٹرینر اور اسپیکر ہے جس کا حوالہ دیا جا سکے؟ یہ تلاش جاری رہی کئی نام سامنے آئے جن میں ایک نام پر ذہن، دِل اور رُوح کو ہلکا سا اشارہ ملا۔ جستجو جاری رکھی تو آخرکار متحرم فلپ ایس لال کا رابطہ مل گیا اور ان سے بات ہوگئی۔

وہ لاہور میں مقیم تھے اور میں کراچی میں قیام پذیر تھا۔ میری خوش قسمتی کہ مجھے لاہور جانے کا موقع ملا اور اُن سے ایک نہیں تین مرتبہ ملاقات کرنے، تفصیل سے مختلف موضوعات پر بات کرنے اور اُن کے انٹرویو کا شرف ملا۔ اس کے بعد کئی دفعہ اُن سے فون پر بات ہوئی لیکن میرے لاہور میں ہونے کے باوجود اُن سے ملاقات نہ ہو سکی۔

6 ستمبر2021 کو لاہور میں اُن کا انتقال ہوا تو احساس ہوا کہ پاکستان میں اس وقت تمام نام ور ٹرینر اُن کے شاگرد رہے اور وہ ایک حقیقی گرو تھے۔

بے شک میں نے جن مختلف شخصیات کی زندگی اور خدمات کے بارے میں مضامین لکھے ہیں، وہ سب اپنے کام اور مقام کی وجہ سے منفرد ہیں۔

کئی لوگوں کے ساتھ براہ راست تعلق نہ رہا لیکن جن کے ساتھ میرا تعلق رہا ان میں سے ایک شخصیت فلپ ایس لال ہیں، جن کی شخصیت، کام اور انداز کی میں دل سے قدر کرتا ہوں۔ وہ ایک حقیقی، سچے اور کھرے انسان تھے جن کی زندگی اور خدمات کے بارے میں نئی نسل کو بتاتے ہوئے مجھے انتہائی خوشی محسوس ہو رہی ہے۔

اُن کے بارے میں کئی ماہ سے کوشش کررہا تھا کہ کچھ لکھ سکوں لیکن الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔

ویسے بھی فلپ لال جیسی شخصیات کے بارے میں لکھنے کے لیے صرف الفاظ کو جمع ہی نہیں کرنا ہوتا بلکہ اُن میں احساسات، جذبات اور رُوح کو سینچنا ہوتا ہے۔ ایک ایسا انسان جو الفاظ کی قید اور قد سے بالا تر تھا جس کی سوچ معاشرتی ناہمواریوں، تعصب اور پس ماندگی سے بہت بلند تھی جو صر ف انسانیت کا پرچم سر بلند کیے ہوئے تھا۔

اُن کے بارے میں بس یہ کہنا کافی ہوگا کہ کوئلے کی کان سے ایک ہیرا ڈھونڈ کر لایا ہوں، آدمیوں کی بستی سے اک انسان ڈھونڈ کر آیا ہوں۔

فلپ لال ہمارا فخر، اثاثہ اور سرمایہ ہیں جن کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ فلپ لال پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر کے اعلیٰ اداروں میں خاص طور پر خاندان کے زیر انتظام کمپنیوں میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور عالمی معیشت کے چیلینجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اور تنظیموں میں تبدیلی کے فلسفے کے لیے معروف اور قابل احترام ٹرینر سمجھے جاتے تھے۔

ان کے پاس مارکیٹنگ، مشاورت اور تعلیم وتربیت کا 50 سال کا وسیع اور منفرد تجربہ تھا، جس میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کے ساتھ 24 سال بھی شامل ہیں، ان کی آخری پوزیشن PIM کے لاہور آفس میں بطور جنرل منیجر تھی۔ فلپ لال نے ''جنرل مینیجر کی قابلیت'' نیشنل سیل کے انتظام اور حکمت عملی پر کانفرنس، ''انٹرپرینیورئل ڈیولپمنٹ پروگرام''، ''بلڈنگ مینیجری اسکلز'' اور ''بہتر فیلڈ سیلز مینجمنٹ'' جیسے پروگرام تیار کرنے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ۔

اس کے علاوہ اُن کے بین الاقوامی اسائنمنٹس میں EDI ورلڈ بینک، سنٹرل بینک آف گھانا، USAID AED، نیدرلینڈ فنانس کمپنی، سارک، سوئس گورنمنٹ S.D.C کے ساتھ ساتھ دبئی، لبنان، سنگاپور اور سری لنکا میں بین الاقوامی تربیتی تجربے بھی شامل رہا۔ اُنہوں نے کیمبرج، بوسٹن اور نیدرلینڈ کی یونیورسٹیوں سے بہت سے ٹریننگ کورسز میں بھی شرکت کی تھی۔

پاکستان ٹریننگ انڈسٹری کے معروف ٹریننگ گرو کامران زیڈرضوی کا کہنا ہے کہ جب وہ 1990کی دہائی میں بیرون ملک سے واپس پاکستان آئے تو اُنہوں نے ٹریننگ انڈسٹری میں کام شروع کرنے سے قبل ایک سروے کیا جس میں بہترین اور قابل احترام ٹرینرز کے نام شامل کئے گئے جس میں فلپ ایس لال کا نام سرفہرست تھا۔

ادارے اُن کے کام کی قدر کرتے تھے اور لوگ یہ کہتے تھے وہ جی جان سے ٹریننگ کرواتے ہیں۔ وہ پاکستانی ٹریننگ انڈسٹری کے لیجنڈ تھے۔ اُن کی اپنی ایک منفرد پہچان تھی۔ وہ واقعی ایک خالص انسان تھے۔

18 نومبر 1940 کو لاہور میں پیدا ہونے والے فلپ ایس لال کی ابتدائی زندگی مشکلات سے دوچار رہی۔ والد کی والدہ سے علیحدگی کی وجہ سے فلپ ایس لال باپ کی شفقت اور محبت سے محروم رہے۔ اُن کی والدہ ایسمی کھنہ (Esme Khanna ) نے تنہا فلپ اور اُن کی بہن ریشمی کی کفالت کی۔ فلپ سندر کو والدہ نے اپنا فیملی نام ''لال'' دیا۔

فلپ سندرلال نے بچپن میں جن مشکلات کا سامنا کیا۔ اُنہوں نے کوشش کی کہ وہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دے سکیں۔

24اپریل 1976 کو اُن کی شادی ہوئی۔ خُدا نے اُنہیں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا عطا کیا۔ فلپ ایس لال نے ابتدائی تعلیم کتھیڈرل سکول لاہور سے حا صل کی۔ بعدازآں اُنہوں نے فارمن کرسچین کالج، لاہور سے گریجویشن کی اور IBA کراچی سے ایم بی اے کیا۔ بہت جلد پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ، کراچی میں اپنی خدمات سرانجام دینے لگے۔

پاکستان کے نامور ٹرینر اور اُن کے دیرینہ ساتھی نسیم ظفر اقبال نے اُن کی وفات میں اُنہیں ان زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔

''میرے سرپرست، کوچ، عزیز دوست، اور والد جیسی شخصیت، فلپ ایس لال کے انتقال کا مجھے شدید دُکھ ہوا ہے۔ فلپ لال، چیئرمین، بی او ڈی، ٹریننگ امپیکٹ لمیٹڈ بھی تھے۔

وہ پاکستان میں ٹریننگ انڈسٹری کے بانیوں اور گروؤں میں سے ایک تھے، جنہوں نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کے پلیٹ فارم سے اور بعد میں ٹریننگ امپیکٹ لمیٹڈ کے پلیٹ فارم سے بہت سے نئے اقدامات اور ٹریننگ ٹرینڈ متعارف کروائے تھے۔

میں نے پاکستان اور اس کے نظریہ سے اتنی گہری محبت اور یقین رکھنے والے بہت کم لوگ دیکھے ہیں۔

وہ مجھے اکثر تقسیم کے وقت اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان آنے کی کہانیاں سنایا کرتے تھے، اور ان کی اور ان کے خاندان کی ان کے مسلمان پڑوسیوں نے کس طرح دیکھ بھال اور حفاظت کی تھی۔ پاکستان کے سیاسی منظرناموں میں مختلف آزمائشی حالات میں انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اپنے یقین اور عزم کا اعادہ کیا اور کبھی بھی اپنے پیارے ملک کو چھوڑنا نہیں چاہا تھا۔

گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران وہ بہت بیمار ہوگئے۔ اُنہیں سہارے اور مدد کی ضرورت تھی اور ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، سوائے اس کے کہ وہ اپنی بیٹیوں اور بیٹے کے پاس امریکا چلے جائیں۔

میں اکثر ان سے ملنے جاتا تھا اور وہ اکثر پاکستان چھوڑنے کے امکانات کے بارے میں اپنا دُکھ شیئر کرتے تھے، لیکن آخر کار، اُنہوں نے اس ملک میں آخری سانس لی جس سے وہ بہت پیار کرتے تھے۔

مجھے اس عظیم انسان، ایک مکمل پیشہ ور اور ایک محب وطن پاکستانی کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھنے کا اعزاز اور خوشی حاصل ہوئی ہے۔

فلپ لال صاحب کے ساتھ میری وابستگی کی آخری دو دہائیوں نے زندگی، مذہب، سیاست اور قیادت کے بارے میں میرے خیالات اور نظریات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔''

پاکستان کے ایک اور عالمی شہرت یافتہ ٹرینر اور کوچ قیصر عباس کا کہنا ہے کہ فلپ ایس لال صاحب پاکستان میں ٹریننگ انڈسٹری کے حقیقی اور اصلی گرو تھے جنہوں نے عالمی سطح پر اپنا لوہا منوایا اور پاکستان میں کئی اہم اور نئے رجحان متعارف کروائے۔

وہ اپنی نوعیت کے الگ اور واحد ٹرینر تھے اُن کی مانند واقعی ہی کوئی دوسرا نہیں تھا۔ اُنہوں نے میری ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کلیدی کردار ادا کیا میں اُن کی دل سے عزت کرتا ہوں۔

اُن کے اور قریبی دوست اور ساتھی فادر آرنلڈ ہیریڈا (Arnonld Heredia) کا کہنا ہے کہ فلپ لال ایک شان دار شخصیت کے حامل انسان تھے، وہ بلا درجے کے ذہن اور انتہائی سخت پروفیشنل تھے۔ میں ایک مذہبی رہنما تھا اس کے باوجود اُنہوں نے مجھے اور میرے اسٹاف کو کئی ٹریننگ کروائیں اور پروفیشنلزم کی جانب راغب کیا۔

پاکستان میں ٹریننگ انڈسٹری میں فلپ لال کا کردار اور مقام بے حد بلند ہے۔ وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے جنہوں نے صرف انسانیت سے پیار کیا۔

اُن کی بیوی ڈاکٹر پرسکلہ فلپ کا کہنا ہے کہ وہ ایک بہترین انسان، مہربان شوہر اور شفیق باپ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کھرے ،سچے اور عملی مسیحی انسان تھے، جنہوں نے ساری زندگی اپنے کام مکمل ذمے داری، ایمان داری اور 100فی صد شفاقیت سے سرانجام دیے۔

بے شک فلپ لال مجھے اس دُنیا میں اکیلے چھوڑ کر چلے گئے ہیں لیکن وہ اپنے بعد میرا خیال رکھنے کے لیے مجھے تین قیمتی نایاب ہیرے دے گئے ہیں۔

اُن کی بڑی بیٹی سندھیا (Sandhya) نے بتایا کہ اُن کا اور پاپا کا ایک خاص رشتہ تھا۔ وہ باپ سے بڑھ کر ایک دوست اور راہ نما تھے، جنہوں نے ہمیشہ بیٹی ہونے کے ناتے مجھے خوداعتمادی اور حوصلہ دیا۔ وہ گھر میں بالکل ایک منفرد بلکہ بہت مختلف انسان تھے۔ وہ تلقین کی بجائے تقلید کو ترجیح دیتے تھے۔

ان کے بیٹے تمہران (Timhran) کا کہنا ہے کہ وہ میرے لیے ایک باپ کی طرح رول ماڈل سے بڑھ کر ہیں۔ اُنہوں نے مجھے پروفیشنل لائف میں بہت جلد متعارف کروا دیا۔ سنیئر لوگوں سے رابطہ اور ملاقات کروانا، لوگوں سے کیسے بات کرنی ہے اور پروفیشنل زندگی میں کیسے لوگوں سے پیش آنا ہے، اُنہوں نے یہ سب مجھے بہت جلدی سکھا دیا تھا۔

وہ بہت نرم مزاج اور شفیق باپ تھے۔ مجھے اُن کا بیٹا ہونے پر فخر ہے۔ اُن کی وفات کے بعد جس طرح لوگوں نے ہمیں اُن کے بارے میں بتایا وہ ہمارے لیے ایک نیا انکشاف تھا۔ اُن کی چھوٹی بیٹی ریتنا ( Ratna) کا کہنا ہے اُس نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہیومین ریسورس مینجمنٹ میں ایم بی اے کیا اور ٹریننگ اور کنلسٹنسی کا شعبہ اپنایا۔ ریتنا کا کہنا ہے کہ اُن کے والد نے اُنہیں ہمیشہ اعتماد اور بھروسا دیا۔

وہ ایک باپ سے بڑھ کر ایک دوست کی حیثیت سے میری زندگی میں مشکلات کو سمجھنے اور حالات کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیتے تھے۔ کبھی کبھی بس دل کرتا کہ پاپا سے فون پر بات ہوجائے تو دل کو سکون مل جاتا تھا۔ آخری وقت میں اُن کے ساتھ کچھ وقت گزار کر بہت خوش گوار احساس ہوا تھا۔

فلپ لال کے تینوں بچے بیرون ملک اچھی جگہوں پر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اُن کے والدین بھی اُن کے ساتھ رہیں، لیکن فلپ ایس لال کا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا تھا، اُن کی رُوح میں مٹی کی خوشبو اور وطن پرستی کا جذبہ کھوٹ کھوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

اس لیے اُنہوں نے اپنی سرزمین کی مٹی میں مل جانے کو ترجیح دی۔ فلپ لال واقعی ایک ہیرا جیسے انسان تھے جن کی قدر، ایک قدرشناس کو ہی ہوگی۔

میں نے جب اُن کا انٹرویو کیا تو اُنہوں نے مجھے سے پوچھا ایازصاحب! آپ یہ سب کیوں کرتے ہیں؟ میں نے جواب دیا، سر! جس طرح آپ وطن کی محبت میں کام کرتے ہیں، اسی جذبے کے تحت میں بھی لوگوں کی مدد وراہ نمائی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

اس مرتبہ لاہور ماڈل ٹاؤن کی شام میں اُن کے گھر کے قریب سے گزر رہا تھا تو ایسا محسوس ہوا جیسے فلپ ایس لال اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اپنے آفس میں اپنی فائلوں میں گم کسی کلائنٹ کی مدد کررہے ہیں۔

مجھے نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ فلپ لال صاحب ہم سے جدا سے نہیں ہوئے بلکہ وہ اپنی سوچ، فکر اور خدمات کی بدولت ہمارے اردگرد ہی موجود ہیں، صرف ہمیں دیکھنا نئی نظر سے ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایسے نایاب اور کم یاب لوگوں کی قدر کریں اور معاشرے میں اُن کی خدمات کو اُجاگر کریں، تاکہ نئی نسل کو اُن کے کام سے روشناس کروایا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں