ادارے انتہائی قابل احترام

اچھے اساتذہ اور اچھے تعلیمی اداروں کی غیر موجودگی میں قابل اور اہل امیدوار کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں

gfhlb169@gmail.com

ملکوں کی بقا کا انحصار عوام کی کمٹمنٹ، مضبوط معیشت اور بہترین تربیت یافتہ افواج پر ہوتا ہے، ریاست صرف اس صورت میں ترقی کرتی اور خوش اسلوبی سے چلتی ہے جب ریاست کے ادارے مضبوط ہوں اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنا کام صحیح کر رہے ہوں۔

اگر ایسا ہو رہا ہو تو عوام کا اپنی ریاست پر یقین پختہ ہوتا ہے اور وہ اس کی بقا کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اداروں کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ ان میں کام کرنے والے افراد محنتی، دیانت دار، مخلص اور اہل ہوں۔

ایسے افراد درختوں پر نہیں اُگتے،اس کے لیے تعلیمی اور بہترین تربیتی اداروں میں آبیاری کرنی پڑتی ہے۔اساتذہ اور اچھے تعلیمی و تربیتی ادارے وہ پہلی نرسری ہوتے ہیں۔

جہاں سے اہل، مخلص اور محنتی افراد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر ملک کے اداروں میں اپنی جگہ بناتے ہیں اور ان کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہم نے اپنے تعلیمی نظام کو اپنی ضروریات اور امنگوں کے مطابق استوار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جس کے بھیانک نتائج سامنے آ رہے ہیں۔

ریاست کو جو مشینری چلاتی ہے اسے ہم بیوروکریسی کہتے ہیں۔ بیوروکریسی میں اگر بہت اچھے، مخلص دیانت دار اور محنتی افراد ہوں گے تو حکومت کو بہت اچھی ایڈوائس ملے گی، کام بھی خوب ہوگا اور حکومتی فیصلے بھی بہت اچھی طرح نافذ ہوں گے۔

پاکستان میں بیوروکریسی کی ریکروٹمنٹ کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور صوبوں میں صوبائی کمیشن قائم ہیں۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن)ایف پی ایس سی( ایک بہت اچھا ادارہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے اور بہت مخدوش حالات میں بھی اچھا کام کر رہا ہے لیکن اس کے چیئرمین اور ممبران کے انتخاب کے لیے کوئی چیک لسٹ نہیں،کوئی معیار نہیں۔جو بھی صدر اور وزیرِ اعظم تک اپنا نام پہنچانے میں کامیاب ہو جائے۔

اس کو جاب مل جاتی ہے۔گو ایسے تمام افراد اچھے سروس ریکارڈ کے حامل ہوتے ہیں لیکن پاکستان کی مستقبل کی انتظامیہ چننے کے لیے صرف اچھا سروس ریکارڈ ہی کافی نہیں،اس کے لیے اُن دور بین اور دور رس نگاہوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر امیدوار کو مستقبل میں رکھ کر دیکھ سکے۔

اچھے اساتذہ اور اچھے تعلیمی اداروں کی غیر موجودگی میں قابل اور اہل امیدوار کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر معیارِ تعلیم ہی پست ہو گا تو اچھے امیدوار نہیں آئیں گے،یوں سیلیکشن کا معیار بھی خود بخود عامیانہ ہوتا جائے گا۔

چند دہائیاں پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے بیوروکریسی کو جوائن کرنے والاڈائریکٹ آفیسر بہترین کردار اور استعداد کا حامل ہو گا اور وہ Go Getterبھی ہو گا۔

وہ سفارش پر نہیں بلکہ میرٹ پر کام کرے گا۔شروع میں ہمارے افسران کی اکثریت ایسی ہی ہوتی تھی لیکن اب نہ جانے سلیکشن کی غلطی ہے یا خراب ماحول نے اتنا برا اثر ڈال دیا ہے کہ اپنی پہلی ہی پوسٹنگ کے دوران پیسے اور جائیداد بنانے کا ایجنڈا حاوی ہوتا ہے۔

عدلیہ ملک کے اندر انصاف کی فراہمی اور لاقانونیت کے آگے بند باندھنے کا واحد ذمے وار ادارہ ہے۔ ایک لمبے عرصے سے اعلیٰ عدلیہ میں صرف وہ وکلاء لائے جا رہے ہیں جن کا کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے تعلق ہوتا ہے۔


قانون کے اوپر ان کی کتنی گرفت ہے،وہ کس کردار کے حامل ہیں ،اس سے قطع نظر منظورِ نظر وکلاء کو عدالتی انصاف کے منصب پر بٹھا دیا جاتا ہے،اس پریکٹس کو تبدیل کرنے کا وقت آگیا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 25 کی نظر میں سب پاکستانی برابر ہیںلیکن ہو یہ رہا ہے کہ غریب آدمی کامقدمہ عدالت میں لگنے کی نوبت آتے آتے برسوں بیت جاتے ہیں، اس کے مقابلے میں جب بڑے لوگوں کی بات آتی ہے تو عدالت پٹیشن دائر کرنے والے کا رات تک انتظار کرتی ہے، اگر وہ پھر بھی نہیں آتا تو اگلے ورکنگ ڈے کو بھی اس کا انتظار کیا جاتا ہے۔

ایسے ریمارک دیے جاتے ہیںکہ فلاں فرد کوئی عام آدمی تو نہیں، ہمارے وکلاء کی وکلاء گردی سب کے سامنے ہے۔

اسی لیے ہماری عدلیہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ایک سو چالیسویں نمبر پر ہے حالانکہ ہمارے ملک میں ججز کی تنخواہیں،مراعات اور پنشن بہت زیادہ ہے۔اگر ججز کی ریکروٹمنٹ کا یہی طریقہ کار رہا تو نظام انصاف کا معیار ایسا ہی رہے گا جو چل رہا ہے ۔وکیلوں میں سے ریکروٹمنٹ کا سلسلہ فوری طور پر بندکرنا ہو گا۔

ٹی وی چینلز کو ابتدا میں وہ تربیت یافتہ افراد اور سہولتیں میسر نہیں تھیں جو از بس ضروری ہوتی ہیں، ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا۔یوں ایک گیپ آیا جس کو ریٹنگ کے چکر میں کبھی زیرِ غور نہیں لایا گیا۔

سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر نکال دی اور اب سوشل میڈیا میں صرف پروپیگنڈا ہو رہا ہے۔خبر کے بجائے فیک نیوز اور مس رپورٹنگ ہے۔ٹی وی اینکرز بھی پارٹی بن جاتے ہیں حالانکہ ان کا کام صرف سوال کرنا ہوتا ہے اور پروگرام کے شرکاء کو ڈسپلن میں رکھ کرپروگرام کو آگے لے کرچلنا ہوتا ہے۔پروگرام کے شرکاء کے ساتھ تکرار کرنااینکر کا کام نہیں ہوتا ہے۔

ٹیلی میڈیا کو اپنی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے تربیت یافتہ اینکرز کی ضرورت ہے جو اپنے فرائض کو سمجھتا ہو، سوالات کا جواب دینے والے شرکاء کا معیار، علم اور فہم دیکھ کر ان سے تجزیہ لینا چاہیے۔

آجکل سیاسی ٹاک شوز میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ایسے چہروں کو بلایا جاتا ہے، جن کی اپنی پارٹی میں کوئی حیثیت نہیں ہے، انھیں پارٹی کی ٹاپ مینٹگ میں بھی نہیں بلایا جاتا، وہ صرف ربڑ سٹمپ ہوتے ہیں، پرنٹ میڈیا میں ان کی خبر یا بیان چھتا ہی نہیں ، اگر چھپے گا تو چند سطری بیان اور وہ کہیں اندر کے صفحات پرجب کہ ٹی وی اسکرین میں وہ ایک گھنٹہ تک جلوہ افروز رہتا ہے، ایسے میں سیاسی ٹاک شوز کی کیا وقعت ہوگی۔

یہ وہ چند ادارے ہیں جو صحیح کام کریں تو فوری طور پر اچھے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ورنہ چھوٹے بڑے سارے ہی ادارے اہم ہوتے ہیں۔بارہا ایسا ہوا کہ جنگ کی ہولناکیوں،قدرتی آفات یا کسی حکمران کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کوئی ملک تباہی سے دوچار ہو گیا لیکن ایک فردِ واحد کی سیاسی سوجھ بوجھ،عملی استعداد اور قابلیت کی بدولت تباہ شدہ ریاست نہ صرف پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی بلکہ تیز ترین ترقی کرنے لگی۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان تباہ ہوا لیکن آج جاپان دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے۔

چین کو جناب ماؤزے تنگ نے ترقی کے راستے پر ڈال دیا۔سنگاپور کولی کوان یو ،مہاتر محمد نے ملائیشیا کو ترقی کی مثال بنا دیا۔ فرانس نے چارلس ڈیگال کی قیادت میں مثالی ترقی کی۔

پاکستان میں اداروں کی طرف دیکھا جائے تو اندھیرے ہیں، سیاسی قیادت بھی بصیرت سے محروم ہے، کوئی بھی ایسا نہیں جو پاکستان کو ٹوٹ کر چاہتا بھی ہو اور اس کے اندر اتنی صلاحیت اور قابلیت بھی ہو کہ وہ اداروں کو ٹھیک کر کے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کر سکے،بڑائی کے جتنے بھی اظہاری چشمے ہیں سب کے سوتے خشک پڑے ہیں۔

اداروں کی تباہی اور نا اہل سیاسی قیادت کی وجہ سے پاکستان کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہیں۔اﷲ اس ملک کی حفاطت کرے ۔
Load Next Story