شہباز شریف کی کفایت شعاری مہم
دنیا پر بھی ظاہر ہوگا کہ پاکستان کی حکومت معاشی مسائل حل کرنے میں سنجید ہ ہے
وزیر اعظم پاکستان نے موجود معاشی بحران کو سامنے رکھتے ہوئے کفایت شعاری کا ایک مربوط پلان قوم کے سامنے پیش کیا ہے۔
ان اقدمات سے دو سو ارب روپے کی بچت ہو گی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ابھی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائظ کے مطابق ملک میں 170ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں جب کہ کفایت شعاری کی اس مہم سے دو سو ارب روپے کی بچت ہوگی، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ کفایت شعاری کی اس مہم کی وجہ سے معاشی بحران میں کمی ہوگی۔
دنیا پر بھی ظاہر ہوگا کہ پاکستان کی حکومت معاشی مسائل حل کرنے میں سنجید ہ ہے۔ عوام کو بھی احساس ہوگا کہ حکومت معاشی مسائل کے حل میں سنجیدہ ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی کابینہ کی تنخواہیں بند کر دی ہیں اور واضح کر دیا ہے کہ ان کی کابینہ کا کوئی بھی رکن قومی خزانے سے تنخواہ نہیں لے گا۔
شہباز شریف پہلے ہی بطور وزیر اعظم کوئی تنخواہ نہیں لیتے بلکہ انھوں نے آج تک کسی بھی عہدہ کی تنخواہ نہیں لی ہے۔ وہ دس سال سے زائد پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔
لیکن انھوں نے تنخواہ نہیں لی۔ اس لیے جو کام شہباز شریف خود پہلے دن سے کر رہے تھے، اب کابینہ کو بھی اس کام پر لگا دیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان جن معاشی حالات سے گزر رہا ہے ، ایسے میں ملک اس بات کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا کہ ہم ان وزیروں اور مشیروں کو تنخواہ دے سکیں، اس لیے یہ ایک درست فیصلہ ہے۔ یہ وزیر مشیر غریب لوگ نہیں ہوتے، اس تنخواہ سے ان کا کچھ نہیں بنتا لیکن پاکستان کے خزانہ پر یہ تنخواہیں ضرور ایک بوجھ ہیں۔
شہباز شریف نے اپنی پوری کابینہ سے بڑی لگژری گاڑیاں واپس لے لی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ بھی ایک درست فیصلہ ہے۔ معاشی بحران میں سادگی کی مثال کابینہ سے ہی شروع ہونی چاہیے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیر مشیر تو بڑی بڑی سرکاری گاڑیاں استعمال کریں اور غریب کو سادگی کا درس دیا جائے۔ بڑی گاڑیاں وی آئی پی کلچر کی عکاس ہیں،اس کلچر کے خاتمہ کے لیے بڑی گاڑیوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔
اسی طرح بے جا سیکیورٹی کا بھی خاتمہ کیا گیا ہے۔ صرف ایک سیکیورٹی کی گاڑی کر دی گئی ہے۔ ورنہ وزیر مشیر تو سیکیورٹی کا ایک اسکواڈ ساتھ لیکر پھرتے ہیں، اس لیے یہ بھی اچھا فیصلہ ہے۔ سرکاری افسران سے سیکیورٹی کی گاڑیاں واپس لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
سیاستدانوں کی عیاشی اور مراعات کی بہت بات کی جاتی ہے حالانکہ سرکاری افسران کی عیاشیاں سیاستدانوں سے کم نہیں ہیں۔ اس لیے ان سے بھی بڑی سرکاری گاڑیاں اور سیکیورٹی کی گاڑیاں واپس لینے کا فیصلہ درست ہے۔
میں سمجھتا ہوں سیاستدان سے مراعات واپس لینا آسان ہے۔ لیکن سرکاری افسران سے مراعات واپس لینا زیادہ مشکل کام ہے۔ افسر بابو کی لابی سیاستدان سے زیادہ مضبوط ہے۔ سرکاری افسران سے گاڑیاں واپس لینا بھی ایک مستحسن اقدام ہے۔ جو افسر گاڑیوں کا الاؤنس لے رہے ہیں، ان سے سرکاری گاڑیاں واپس لینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
مجھے اندازہ ہے کہ یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں ہے۔ کابینہ سے اتنی مزاحمت نہیں سامنے آئے گی جتنی مزاحمت افسران سے سامنے آئے گی۔ شہباز شریف نے کابینہ کے بجلی گیس فون کے بل بھی بند کر دیے ہیں۔انھوں نے اعلان کیا ہے۔ کابینہ کے ارکان بجلی ،گیس اور فون کے بل اب اپنی جیب سے ادا کریں۔
اگر کسی کو ملک کی خدمات کا شوق ہے تو اپنی جیب سے پیسے خرچ کرے۔ یہ ملک اب وزیروں کے بجلی ،گیس فون کے بل دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ شاید تنخو اہ نہ لینے پر تو کابینہ کے ارکان مان ہی گئے ہوں۔ لیکن بجلی ،گیس اور فون کے بل بند کرنے پر یقینا سب نے احتجاج کیا ہوگا۔ لہذا اس فیصلہ کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔
شہباز شر یف نے تمام سرکاری تقریبات میں بھی سادگی کا اعلان کیا ہے۔ دفاتر میں صرف چائے دی جائے گی اور سرکاری تقریبات میں ون ڈش کو لاگو کر دیا گیا ہے۔ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی اب صرف چائے کی دی جائے گی۔ ویسے یہ شہباز شریف کا پرانا انداز ہے۔
جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تب بھی انھوں نے سرکاری تقریبات میں ون ڈش لاگو کی ہوئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے جانے کے بعد پنجاب میں یہ پالیسی ختم ہوگئی۔ اس لیے یہ شہباز شریف کی کوئی نئی سوچ نہیں ہے، صرف مرکز میں انھیں یہ لاگو کرنے کا اب موقع ملا ہے۔
وزیروں مشیروں اور اعلیٰ سرکاری افسران کے بیرون ملک سفر کو بھی محدود کر دیا گیا ہے۔ جہازوں میں سرکاری خرچ پرفرسٹ کلاس اور بزنس کلاس میں سفر پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ وزیروں کے اسٹاف کے بیرون ملک دورے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
وزیروں مشیروں کو فائیو اسٹار ہوٹلزمیں ٹھہرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ اگر فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرنا ہے تو اپنی جیب سے ٹھہریں۔ اکانومی کلاس میں سفر اور چھوٹے ہوٹلوں میں ٹھہرنے سے قومی خزانے کی بچت ہوگی۔
وی آئی پی کلچر کا بھی خاتمہ ہوگا۔ سادگی بھی آگے بڑھے گی۔ شہباز شریف تو شروع سے بیرونی دوروں میں ہوٹل کا بل اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔
وزارت اعلیٰ کے دس سالہ دور میں بھی شہباز شریف نے تمام سرکاری دورے اپنی جیب سے کیے تھے۔ حال ہی میں جب بطور وزیر اعظم وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے گئے تو تحریک انصاف نے بہت شور مچایا کہ وہ بہت مہنگے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔
لیکن بعد میں جب حقائق سامنے آئے ہیں تو یہ بات ریکارڈ پر آگئی کہ تمام اخراجات شہباز شریف نے اپنی جیب سے ادا کیے ہیں۔ حالانکہ تب کفایت شعاری کی کوئی مہم شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔ اب انھوں نے یہ اصول تما م کابینہ پر بھی لاگو کر دیا ہے جو قابل تحسین ہے۔
بڑے سرکاری گھر بھی بیچنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑے گھر پاکستان کے قومی خزانہ پر بوجھ ہیں۔ ہم اتنے بڑے گھروں کے اب متحمل ہی نہیں ہو سکتے۔ وزیروں کے بڑے بڑے گھر کیوں؟ سرکاری افسران کے بڑے بڑے گھر کیوں؟ شہباز شریف کا ایسے گھر بیچنے کا اعلان بھی خوش آئند ہے۔
ہمیں شہباز شریف کے اس فیصلے کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں اب بڑے گھر ختم ہو گئے ہیں۔ وزیر مشیر قوم کے سامنے مثال قائم رکھنے کے لیے چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس کلچر کو شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
شہباز شریف نے کفایت شعاری کا جو پلان پیش کیا ہے، اس پر تنقید کرنے کے بجائے اس کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ یہ پاکستان کے لیے مستبقل کی ایک راہ ہے۔
اگر آج ہم نے ملک سے وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کر دیا تو کل کوئی بھی دوبارہ اس وی آئی پی کلچر شروع کر نہیں سکے گا، اس لیے اس پر تنقید کرنے کے بجائے اس کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔