دو روزہ چاک اردو کانفرنس آخری حصہ
اس دور کے تخلیقی ادب کو بالعموم ایک گہرے دکھ، اضطراب اور محرومی کا ترجمان بنا دیا
جب ہم اردو ادب میں افسانے کے خد و خال کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس کے آثار بیسویں صدی میں نمایاں ہوتے ہیں ،اس صدی کے ابتدائی پندرہ سالوں کا دور نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
ان دنوں افسانہ ارتقا کی طرف بڑھ رہا تھا اس وقت کے افسانہ نگار نہ صرف یہ کہ فنی و فکری خوبیوں کے حامل تھے بلکہ سماجی مصلح کا کردار ادا کرنا گویا ان کے ضمیر کی آواز تھی، انھی افسانہ نگاروں میں ڈپٹی نذیر احمد، منشی پریم چند اور راشد الخیری کے نام بام عروج پر نظر آتے ہیں۔ راشد الخیری نے علی گڑھ تحریک کے زیر اثر اردو افسانے میں اصلاح پسندی کو اجاگر کیا۔
بقول ڈاکٹر حامد بیگ انھوں نے حب الوطنی اور انگریز دشمنی کے غیر منصفانہ اور ظالمانہ روش پر بھی افسانے تخلیق کیے ان کا افسانہ ''سیاہ داغ'' جلیانوالہ باغ کے افسوس ناک اور دل خراش واقعے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ناقدین نے افسانہ نگاری میں شامل تبدیلیوں اور نئے نئے رجحانات کے تحت فن افسانہ کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
1915 سے 1936کے دور کو افسانہ نگاری کا دوسرا دور شمار کیا جاتا ہے اس دور میں یلدرم کی تقلید کرتے ہوئے رومانی افسانہ نگاروں نے اپنی اہمیت کو ثابت کیا ہے۔
ان ادیبوں میں نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھ پوری، قاضی عبدالغفار شامل ہیں جب کہ پریم چند کے طرز نگارش پر چلنے والوں میں علی عباس ، اعظم کریوی اور دوسرے کئی افسانہ نگاروں کے نام سامنے آتے ہیں۔ 1936 سے افسانے کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے جس کی ابتدا ترقی پسند تحریک سے ہوئی، اس کے روح رواں سجاد ظہیر تھے۔
ساتھ میں محمود اظفر اور رشید جہاں کے نام نمایاں ہیں۔ انھوں نے لندن میں ترقی پسند تحریک کا اعلان کیا جس میں سائنسی اور عقلیت پسندی کو فروغ دیا گیا اور ''انگارے'' کے نام سے ایک مجموعہ بھی شایع ہوا اس کی آج ادبی اہمیت تو کچھ بھی نہیں ہے لیکن اس کی تاریخی حیثیت مسلم ہے۔
اردو افسانے کا چوتھا دور 1947 قیام پاکستان سے شروع ہوتا ہے مسلمانوں کی پاکستان ہجرت کے دوران درندگی کے بے شمار واقعات سامنے آئے۔
ان واقعات کا قلم کاروں کی زندگیوں پر اثرانداز ہوا، ان کی آنکھوں نے لٹتے ہوئے خاندان اور مسلمانوں سے بھری ہوئی ٹرینوں میں انسانوں کو کٹتے، تڑپتے اور سسکتے ہوئے دیکھا، جناب شمیم حنفی نے اس واقعے کی ترجمانی اس طرح کی ہے ''یہ تقسیم جدید ہندوستان کی تاریخ اور ہماری اجتماعی زندگی میں وحشت اور ابتری کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔'' اس دور کے تخلیقی ادب کو بالعموم ایک گہرے دکھ، اضطراب اور محرومی کا ترجمان بنا دیا۔
فسادات کے تناظر میں افسانے، ناول اور شاعری تخلیق ہوئی۔ کرشن چندر نے فسادات پر جو افسانے تخلیق کیے انھیں کتا بی شکل میں ''ہم وحشی ہیں'' کے عنوان سے یکجا کردیا گیا۔ سعادت حسن منٹو کے افسانوں میں اعتدال کا رنگ نمایاں تھا۔
غیر انسانی فعل، قتل و غارت کے احساس کے نتیجے میں ان کے کئی اہم افسانے شایع ہوئے۔ ان میں ''ٹھنڈا گوشت، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، جیسے افسانے منظر عام پر آئے۔ 1958 کے مارشل لا نے ادیبوں کو اس قدر متاثر کیا کہ انھوں نے علامتوں کا سہارا لے کر افسانے تخلیق کیے۔
یہ وہ دور تھا جب انتظار حسین نے آخری آدمی، زرد کتا، ہڈیوں کا ڈھانچہ، جیسے افسانوں کو تخلیق کیا، ان افسانوں میں سیاسی و معاشرتی انتشار اور خوف و دہشت کا احساس فرد کی شناخت کا مسئلہ اور لاحاصل کا دکھ بھی شامل تھا۔
سقوط ڈھاکہ 16 دسمبر 1971 کا دن مسلمانوں خصوصاً پاکستان کے لیے وہ شرم ناک اور عبرت ناک دن تھا جب مسلمان، مسلمان کے ہی ہاتھ اپنے ہی خون میں نہا گئے اس قومی المیے کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا، اقتدار کی ہوس اور بھارت کی گھناؤنی سازش کے تحت پاکستان کو دولخت کیا گیا، ان خونی واقعات کے تناظر میں افسانے اور ناول لکھے گئے۔
زاہدہ حنا، پروفیسر علی حیدر ملک، شہناز پروین، احمد زین الدین اور دوسرے شعرا و ادبا جنھوں نے ڈھاکہ کی سرزمین پر بہنے والا خون اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں، جوانوں کی لاشوں کے ڈھیر دیکھے، گھر میں لگی ہوئی آگ اور سربریدہ، برہنہ مردہ اجسام، اس المیے کے تناظر میں جو تخلیقات سامنے آئیں ان میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس بخوبی اجاگر ہوا۔
شہناز پروین کے افسانوں کا مجموعہ سناٹا بولتا ہے، ''کتنی برساتوں کے بعد'' ناول ہے جو حال ہی میں شایع ہوا ہے، پروفیسر علی حیدر ملک کے افسانوں کا مجموعہ ''بے زمین بے آسمان'' اس عصری آشوب اور جنگی جنون کا عکاس ہے۔
زاہدہ حنا کے بارے میں احمد سلیم لکھتے ہیں ''زاہدہ حنا کی کہانیاں زمین اور آسمان کی دھڑکنیں ہیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ''قیدی سانس لیتا ہے'' اپنے موضوع اور افسانوں کے فکری لب و لہجے اور اظہاریت میں فردی بے بسی اور عصری آشوب کا ترجمان ہے۔آصف فرخی کے افسانے ان کے عمیق تجربات و مشاہدات کے مظہر ہیں۔
ان کے پہلے افسانوی مجموعے ''آتشاں فشاں میں کھلے گلاب'' ہے اس مجموعے کے افسانے مظلومیت اور عدم تحفظ کے احساس کو نمایاں کرتے ہیں۔
مبین مرزا کا پہلا افسانوں کا مجموعہ ''خوف کے آسمان تلے'' 2004 میں شایع ہوا تھا، مصنف نے نائن الیون کے بعد پیش آنے والے واقعات افغانستان میں امریکی تسلط، عراق میں امریکا کے ہاتھوں ہونے والی دہشت گردی کو اپنے افسانے ''یہی تو ہے زندگی'' میں موثر انداز میں پیش کیا ہے۔
تقریباً تین عشرے قبل سے ہمارا اپنا ملک خصوصاً کراچی سیاسی و لسانی نفرت کا شکار رہا ہے اور آج بھی لاشیں گرانے اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
معصوم بچیوں اور خواتین کے اغوا اور بہیمانہ تشدد کے ذریعے جان لینے کے عمل نے معاشرے کی فضا کو زہر آلود کردیا ہے اس کی وجہ غیر منصفانہ عمل ہے جو قاتل کو کٹہرے میں تو لے آتا ہے لیکن اسے عبرت ناک سزا سے بچا لیتا ہے یہ رویہ غیر اسلامی اور غیر قانونی ہے۔
اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ہمارے ادیبوں نے اندوہناک قتل و غارت پر افسانے، ناول اور شاعری تخلیق کی ہے راقم السطور کے کئی افسانے بعنوان قتل کی رات، اور گنتی بدل گئی، جنگل میں منگل، ''سوئے مقتل'' شایع ہو چکے ہیں، جو ظلم و تشدد کے اس ماحول کو عیاں کرتے ہیں جب بوریوں میں بند لاشیں چوراہوں، گلیوں اور شاہراہوں پر اپنے تعفن کے ساتھ بربریت کی داستان سناتی ہوئی اپنے مدفن کی تلاش میں تھیں اس صورت حال کو محمود شام نے کرب ناکی کے ساتھ شاعری کے پیکر میں ڈھالا ہے۔
سائرن سے فضائیں گونجتی ہیں
گولیاں زندگی کو ڈھونڈتی ہیں
شام آتی ہے بوکھلائی ہوئی
اپنے ہی خون میں نہائی ہوئی
چاند جیسے حسین جوان کتنے
ڈوب جاتے ہیں سورج کے ساتھ
ہاتھ پاؤں بندھی جواں لاشیں
پیش کرتی ہیں اپنی شہ راہیں
80 اور 90 کی دہائی میں کراچی میں دہشت گردی کی فضا مسلط کردی گئی اس میں فرقہ واریت کے علاوہ سیاسی جماعتوں، جہادی تنظیموں نے کراچی میں دہشت گردی، گینگ وار، خون ریزی کو پروان چڑھایا۔
ان حالات کی منظر کشی ادیبوں نے اپنی تحریروں میں کی، حسن منظر کا افسانہ ''25 شمالی 67 مشرق'' ، اسد محمد خان کا افسانہ ''طوفان کے مرکز میں''، آصف فرخی کے دو افسانوں کے مجموعے ''شہر بیتی'' اور ''شہر ماجرا'' میں شہر کی خوفناک تصویریں نظر آتی ہیں۔ اسی تناظر میں نعیم آروی، سلطان جمیل نسیم، انور احمد زئی اور فہمیدہ ریاض کے افسانے نسلی منافرت کو اجاگر کرتے ہیں۔
ان دنوں افسانہ ارتقا کی طرف بڑھ رہا تھا اس وقت کے افسانہ نگار نہ صرف یہ کہ فنی و فکری خوبیوں کے حامل تھے بلکہ سماجی مصلح کا کردار ادا کرنا گویا ان کے ضمیر کی آواز تھی، انھی افسانہ نگاروں میں ڈپٹی نذیر احمد، منشی پریم چند اور راشد الخیری کے نام بام عروج پر نظر آتے ہیں۔ راشد الخیری نے علی گڑھ تحریک کے زیر اثر اردو افسانے میں اصلاح پسندی کو اجاگر کیا۔
بقول ڈاکٹر حامد بیگ انھوں نے حب الوطنی اور انگریز دشمنی کے غیر منصفانہ اور ظالمانہ روش پر بھی افسانے تخلیق کیے ان کا افسانہ ''سیاہ داغ'' جلیانوالہ باغ کے افسوس ناک اور دل خراش واقعے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ناقدین نے افسانہ نگاری میں شامل تبدیلیوں اور نئے نئے رجحانات کے تحت فن افسانہ کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
1915 سے 1936کے دور کو افسانہ نگاری کا دوسرا دور شمار کیا جاتا ہے اس دور میں یلدرم کی تقلید کرتے ہوئے رومانی افسانہ نگاروں نے اپنی اہمیت کو ثابت کیا ہے۔
ان ادیبوں میں نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھ پوری، قاضی عبدالغفار شامل ہیں جب کہ پریم چند کے طرز نگارش پر چلنے والوں میں علی عباس ، اعظم کریوی اور دوسرے کئی افسانہ نگاروں کے نام سامنے آتے ہیں۔ 1936 سے افسانے کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے جس کی ابتدا ترقی پسند تحریک سے ہوئی، اس کے روح رواں سجاد ظہیر تھے۔
ساتھ میں محمود اظفر اور رشید جہاں کے نام نمایاں ہیں۔ انھوں نے لندن میں ترقی پسند تحریک کا اعلان کیا جس میں سائنسی اور عقلیت پسندی کو فروغ دیا گیا اور ''انگارے'' کے نام سے ایک مجموعہ بھی شایع ہوا اس کی آج ادبی اہمیت تو کچھ بھی نہیں ہے لیکن اس کی تاریخی حیثیت مسلم ہے۔
اردو افسانے کا چوتھا دور 1947 قیام پاکستان سے شروع ہوتا ہے مسلمانوں کی پاکستان ہجرت کے دوران درندگی کے بے شمار واقعات سامنے آئے۔
ان واقعات کا قلم کاروں کی زندگیوں پر اثرانداز ہوا، ان کی آنکھوں نے لٹتے ہوئے خاندان اور مسلمانوں سے بھری ہوئی ٹرینوں میں انسانوں کو کٹتے، تڑپتے اور سسکتے ہوئے دیکھا، جناب شمیم حنفی نے اس واقعے کی ترجمانی اس طرح کی ہے ''یہ تقسیم جدید ہندوستان کی تاریخ اور ہماری اجتماعی زندگی میں وحشت اور ابتری کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔'' اس دور کے تخلیقی ادب کو بالعموم ایک گہرے دکھ، اضطراب اور محرومی کا ترجمان بنا دیا۔
فسادات کے تناظر میں افسانے، ناول اور شاعری تخلیق ہوئی۔ کرشن چندر نے فسادات پر جو افسانے تخلیق کیے انھیں کتا بی شکل میں ''ہم وحشی ہیں'' کے عنوان سے یکجا کردیا گیا۔ سعادت حسن منٹو کے افسانوں میں اعتدال کا رنگ نمایاں تھا۔
غیر انسانی فعل، قتل و غارت کے احساس کے نتیجے میں ان کے کئی اہم افسانے شایع ہوئے۔ ان میں ''ٹھنڈا گوشت، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، جیسے افسانے منظر عام پر آئے۔ 1958 کے مارشل لا نے ادیبوں کو اس قدر متاثر کیا کہ انھوں نے علامتوں کا سہارا لے کر افسانے تخلیق کیے۔
یہ وہ دور تھا جب انتظار حسین نے آخری آدمی، زرد کتا، ہڈیوں کا ڈھانچہ، جیسے افسانوں کو تخلیق کیا، ان افسانوں میں سیاسی و معاشرتی انتشار اور خوف و دہشت کا احساس فرد کی شناخت کا مسئلہ اور لاحاصل کا دکھ بھی شامل تھا۔
سقوط ڈھاکہ 16 دسمبر 1971 کا دن مسلمانوں خصوصاً پاکستان کے لیے وہ شرم ناک اور عبرت ناک دن تھا جب مسلمان، مسلمان کے ہی ہاتھ اپنے ہی خون میں نہا گئے اس قومی المیے کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا، اقتدار کی ہوس اور بھارت کی گھناؤنی سازش کے تحت پاکستان کو دولخت کیا گیا، ان خونی واقعات کے تناظر میں افسانے اور ناول لکھے گئے۔
زاہدہ حنا، پروفیسر علی حیدر ملک، شہناز پروین، احمد زین الدین اور دوسرے شعرا و ادبا جنھوں نے ڈھاکہ کی سرزمین پر بہنے والا خون اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں، جوانوں کی لاشوں کے ڈھیر دیکھے، گھر میں لگی ہوئی آگ اور سربریدہ، برہنہ مردہ اجسام، اس المیے کے تناظر میں جو تخلیقات سامنے آئیں ان میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس بخوبی اجاگر ہوا۔
شہناز پروین کے افسانوں کا مجموعہ سناٹا بولتا ہے، ''کتنی برساتوں کے بعد'' ناول ہے جو حال ہی میں شایع ہوا ہے، پروفیسر علی حیدر ملک کے افسانوں کا مجموعہ ''بے زمین بے آسمان'' اس عصری آشوب اور جنگی جنون کا عکاس ہے۔
زاہدہ حنا کے بارے میں احمد سلیم لکھتے ہیں ''زاہدہ حنا کی کہانیاں زمین اور آسمان کی دھڑکنیں ہیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ''قیدی سانس لیتا ہے'' اپنے موضوع اور افسانوں کے فکری لب و لہجے اور اظہاریت میں فردی بے بسی اور عصری آشوب کا ترجمان ہے۔آصف فرخی کے افسانے ان کے عمیق تجربات و مشاہدات کے مظہر ہیں۔
ان کے پہلے افسانوی مجموعے ''آتشاں فشاں میں کھلے گلاب'' ہے اس مجموعے کے افسانے مظلومیت اور عدم تحفظ کے احساس کو نمایاں کرتے ہیں۔
مبین مرزا کا پہلا افسانوں کا مجموعہ ''خوف کے آسمان تلے'' 2004 میں شایع ہوا تھا، مصنف نے نائن الیون کے بعد پیش آنے والے واقعات افغانستان میں امریکی تسلط، عراق میں امریکا کے ہاتھوں ہونے والی دہشت گردی کو اپنے افسانے ''یہی تو ہے زندگی'' میں موثر انداز میں پیش کیا ہے۔
تقریباً تین عشرے قبل سے ہمارا اپنا ملک خصوصاً کراچی سیاسی و لسانی نفرت کا شکار رہا ہے اور آج بھی لاشیں گرانے اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
معصوم بچیوں اور خواتین کے اغوا اور بہیمانہ تشدد کے ذریعے جان لینے کے عمل نے معاشرے کی فضا کو زہر آلود کردیا ہے اس کی وجہ غیر منصفانہ عمل ہے جو قاتل کو کٹہرے میں تو لے آتا ہے لیکن اسے عبرت ناک سزا سے بچا لیتا ہے یہ رویہ غیر اسلامی اور غیر قانونی ہے۔
اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ہمارے ادیبوں نے اندوہناک قتل و غارت پر افسانے، ناول اور شاعری تخلیق کی ہے راقم السطور کے کئی افسانے بعنوان قتل کی رات، اور گنتی بدل گئی، جنگل میں منگل، ''سوئے مقتل'' شایع ہو چکے ہیں، جو ظلم و تشدد کے اس ماحول کو عیاں کرتے ہیں جب بوریوں میں بند لاشیں چوراہوں، گلیوں اور شاہراہوں پر اپنے تعفن کے ساتھ بربریت کی داستان سناتی ہوئی اپنے مدفن کی تلاش میں تھیں اس صورت حال کو محمود شام نے کرب ناکی کے ساتھ شاعری کے پیکر میں ڈھالا ہے۔
سائرن سے فضائیں گونجتی ہیں
گولیاں زندگی کو ڈھونڈتی ہیں
شام آتی ہے بوکھلائی ہوئی
اپنے ہی خون میں نہائی ہوئی
چاند جیسے حسین جوان کتنے
ڈوب جاتے ہیں سورج کے ساتھ
ہاتھ پاؤں بندھی جواں لاشیں
پیش کرتی ہیں اپنی شہ راہیں
80 اور 90 کی دہائی میں کراچی میں دہشت گردی کی فضا مسلط کردی گئی اس میں فرقہ واریت کے علاوہ سیاسی جماعتوں، جہادی تنظیموں نے کراچی میں دہشت گردی، گینگ وار، خون ریزی کو پروان چڑھایا۔
ان حالات کی منظر کشی ادیبوں نے اپنی تحریروں میں کی، حسن منظر کا افسانہ ''25 شمالی 67 مشرق'' ، اسد محمد خان کا افسانہ ''طوفان کے مرکز میں''، آصف فرخی کے دو افسانوں کے مجموعے ''شہر بیتی'' اور ''شہر ماجرا'' میں شہر کی خوفناک تصویریں نظر آتی ہیں۔ اسی تناظر میں نعیم آروی، سلطان جمیل نسیم، انور احمد زئی اور فہمیدہ ریاض کے افسانے نسلی منافرت کو اجاگر کرتے ہیں۔