میں اپنے جہل کو جانتا ہوں…
یہ بھی روایت ہے کہ اْردو شارٹ ہینڈ اور اردو ٹائپ رائٹنگ انھیں کے دماغ کی اْپج ہے
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بہت مشہور قول ہے کہ'' بولو تاکہ پہچانے جاؤ'' اورعلی ابن ابو طالب ہی یہ بھی فرماتے ہیں ''جب علم کامل ہوجاتا ہے تو کلام گھٹ جاتا ہے۔ ''کچھ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنا جہل چھپانا جانتے ہیں اور اکثر ایسے بھی ملیں گے کہ جو اپنے علم پر اِتراتے پِھرتے ہیں۔
حیرت ہے کہ جس کے لیے کہا گیا ہے: (مفہوم)علم ایک سمندر ہے اور تم(انسان ) کو جو علم دِیا گیا ہے وہ قطرے کے مصداق ہے۔ اس جملے پر جب سوچتے ہیں تو شدید احساس ہوتا ہے کہ انسان کو یہ کب زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے علم پر اِتراتا پھرے مگر وہ جو کہا گیا ہے کہ خالی ظرف خوب آواز دیتا ہے۔
ذرا ڈھولک اور طبلے بھی آپکی توجہ کے طالب ہیں کہ ان سے کیسی کیسی آوازیں نکلتی ہیں کہ جو سنتا ہے وہ مسحور ہوجاتا ہے مگر یہ سب ہماری طرح اندر سے خالی ہوتے ہیں۔ وہ افراد کیسے ہوتے ہونگے جو واقعی کچھ ہوں اور خموشی پر اختیار رکھتے ہوں مگر جب وقت آتا ہو تب بولتے بھی ہوں دراصل یہی دانش ہے کہ ''کہاں پر کیا ہو اور کہاں کیا نہ ہو۔'' بولنا ہی کمال نہیں نہ بولنا بھی ایک عمل ہے مگر وہی کہ کہاں بولنا ضروری ہے اور کہاں نہ بولنا ہی زندگی ہے۔
ذرا یاد کیجیے وہ حکایت : شکاری، جنگل میں چڑیوں کی تلاش میں تھا کسی جہاں دیدہ چڑیا نے شکاری کو دیکھ لیا اور اپنی ساتھی چڑیوں کو آگاہ کیا کہ کوئی آواز نہ نکالے مگر ایک شامت کی ماری چڑیا چہچہا اْٹھی۔
بس کیا تھا شکاری کو شکار مل گیا اور یہ قولِ دانش وجود پا گیا کہ'' جو بولا وہ ماراگیا۔'' زندگی عجب متضادات واقعات اور اعمال کے ظہور کا نام ہے اور اسی تضاد و اختلاف سے سب کچھ ہے ، اس دنیا میں ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ دن ،رات سے صبح ،شام سے ،آگ ، پانی سے، خموشی، شور سے، اور سکوت، گویائی سے وغیرہ وغیرہ۔ اسی تضاد سے آگاہی کا ایک نام علم ہے مگر جس آدمی نے کہا کہ ''میں جانتا ہوں وہ اپنے جہل کو عیاں کر گیا اور جس نے وقت پر خموشی اختیار کی وہ فلاح پاگیا۔''
جنابِ ِرَگھووِیر سَرَن دِواکر راہی نے کم لفظوں میں، شعر کی صورت کیسی بڑی بات ہم تک پہنچا دی:
زندگی میں بڑا ضروری ہے،یہ سمجھناکہ کیا 'ضروری ہے'
کسی دانشور سے پوچھا گیا کہ علم کیا ہے ۔ سائل کو جواب ملا'' جس نے اپنے جہل کو پہچانا۔''
ایک ہم ہیں کہ ہر وقت اپنے'' علم ''پر گردن اکڑائے پِھر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عمر بھر کیلیے گردن اکڑ کر رہ جاتی ہے۔کیسے لوگ تھے جو اپنے علم پر خنداں رہتے تھے۔
آئیے ایک مثالی عالم کو یاد کریں۔ ادب دوستوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو مرزا ہادی رْسوا( آمد: 1857تا 1931) کے نام سے نا واقف ہو۔ ذرا سوچیے کہ' محمد ہادی' تواْن کے والدین نے نام رکھا ہوگا مگر جب انھوں نے ہوش سنبھالا یعنی علم نے انھیں سْجھایا کہ' رْسوا' ہوجا، پھر پورے اْردو اد ب میں اْن جیسا دوسرا کوئی 'رْسوا 'نہیں ہوا مگر پھر وہی تضاد ِزندگی سامنے آیا کہ ْانھوں نے اپنے اِس نام کے بر خلاف ہندوستانی تاریخ میں اپنا نام اپنے کام سے ایسے درج کروادیا کہ ' رسوا' نہیں بلکہ آج تک اْن کا 'شہرہ' ہے اور آثار و قرائن بھی یہی ہیں کہ'' شہرہ'' تو، کل بھی رہے گا۔ کیا ہماری نئی نسل کے لوگ جانتے ہیں کہ یہ مرزا ہادی محض ادیب نہیں تھے ذرا اِن کے علم پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے۔ تاریخ میں درج ہے کہ وہ لکھنو کے اوّلین مسلم گریجویٹ تھے۔
اس کارنامے پراہلِ لکھنو شاداں و فرحاں تھے، جشن منایا گیا تو اْس دور کا انگریز حاکم بھی اس جشن میں شریک تھا۔ وہ اْردو ،فارسی اور عربی کے ساتھ عبرانی جیسی زبان میں بھی مہارت رکھتے تھے ان کی شعری صلاحیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب انھیں کوئی بات یاد رکھنی ہوتی تھی تو وہ اْس بات کو نظم کر لیتے تھے جو شعر کی صورت یاد رہ جاتی تھی۔
انھوں نے گریجویشن تو آرٹس میں کیا تھا مگر دیگر مضامین مثلاً علم ِریاضی، علم فلکیات ، علمِ کیمیا وغیرہ پر ان کی دسترس ایسی تھی کہ لکھنو کے کرسچین کالج میں جہاں وہ لکچردیتے تھے اس کا انگریز پرنسپل اْن کی عزت و تکریم میں کوئی دقیقہ اْٹھا نہیں رکھتا تھا۔ مصدقہ روایت ہے کہ یہی مرزا ہادی ہیں جنہوں نے تھامس انجینئرنگ کالج سے، اْس دور میں انجینئرنگ کی سند لی اور انگریزوں کے (یعنی غیر منقسم ) ہندوستان میں بلوچستان کی ایک انتہائی پیچیدہ پہاڑی پر ریلوے لائن بنائی۔ ہم توانھیں صرف اْردو کے ممتاز ترین ناول '' امراؤ جان '' کے خالق ہی کے طور پر جانتے ہیں۔
(واضح رہے کہ رسوا کا یہ ناول1905میں شائع ہوا تھا۔) ہم جیسوں کو تو تب پتہ چلا جب اس ناول پر(ممتازہندستانی فلم ساز) مظفر علی نے فلم بنائی ورنہ کیا پڑی تھی کہ ہم مرزا ہادی رْسوآ کے بارے میں جانیں۔ یہ بھی روایت ہے کہ اْردو شارٹ ہینڈ اور اردو ٹائپ رائٹنگ انھیں کے دماغ کی اْپج ہے۔ ابتدا میں انھوں نے اس زمانے کا'' منشی فاضل'' جیسا امتحان پاس کیا تھا مگر بغیر کسی اْستاد کے انگریزی میں رسوا نے خاصی استعداد پیدا کر لی۔
امراؤ جان ادا جیسے ناول کو تو آج سب جانتے ہیں مگر کم افراد کو یہ پتہ ہوگا کہ فلسفہ قدیم پر انھوں نے انگریزی میں بھی ایک کتاب لکھی تھی۔اب ہمارے دور کا حال یہ ہے کہ اْردو ہائی اسکول میں پڑھاتے ہوئے 'جناب' کو دو دَہے گزر رہے ہیں مگر وہ '' فرد'' اور '' لوگ'' جیسے الفاظ کے فرق کو بھی نہیں جانتے، واحد اور جمع کے صیغے سے نابلد ہیں۔ ان کی گفتگو سنیے، یعنی وہ زبانِ مبارک کھولیں اور ان کے مبلغِ علم سے آپ ' لطف اندوز' ہوں۔ کہنے لگے کہ اسکول میں اْس وقت سات 'لوگ' تھے اور کھانا صرف تین لوگوں کا تھا۔ ہم نے کہا:'' ایک لوگ'' آپ تھے دوسرے'' لوگ فلاں اور'تیسرے لوگ'' وہ حضرتِ والا تھے وغیرہ۔
ہم نے پوچھا: اْستاد! ذرا لفظ...'' لوگ'' ... کے معنیٰ تو بتا ئیے۔ جواب ملا:
لوگ کے معنی ... لوگ!...
ہم نے ذرا ترش لہجے میں کہا: جناب ! آپ فرد اور لوگ میں کوئی فرق روا رکھتے ہیں یا نہیں...؟... اب وہ کچھ سنجیدہ ہوئے مگر نتیجے تک پہنچنے میں پھر بھی ناکام رہے۔ ہم نے سمجھایا کہ'' افراد'' کو لوگ کہیں گے نہ کہ...
دو لوگ، چار لوگ یا پانچ لوگ۔!
اب جواب ملا:'' ارے آپ تو بہت باریکی میں جاتے ہیں۔''
اور پھر انھوں نے زور دار ایک قہقہہ لگایا۔
ہم اب تک نہیں سمجھ پائے کہ قہقہے میں وہ کیا چھپانا چاہتے تھے...!
اس کے بعد ہم نے Facebook پر نظرڈ الی تو سقراط کے حوالے سے ایک قول ہمارا منتظر ملا کہ'' میں بھی جاہل ہوں اور میرے اِرد گرد بھی جاہل ہیں مگر فرق یہ ہے میں اپنے جہل کو جانتا ہوں اور وہ نہیں جانتے۔''