سادگی کے مشورے اور حکمرانوں کی عیاشیاں

ملک سے وی آئی پی کلچر اور پروٹوکول کا خاتمہ کردیا جائے تو معاشی بحران سے باہر نکلا جاسکتا ہے


میمونہ حسین February 24, 2023
ایک ایک وزیر، مشیر اور بیوروکریٹ کے پاس دس، دس گاڑیاں کھڑی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

جمہوری ادوار کا اگر ہم بغور جائزہ لیں تو ہمیں ہر دور میں، خواہ کوئی بھی سیاسی جماعت برسر اقتدار ہو، مختلف طریقوں سے حیلے بہانے کرتے ہی دکھائی دے گی۔ اپنی شاہ خرچیاں اور زندگی گزارنے کا ڈھنگ کبھی نہیں بدلا، اگر بدلا کچھ تو عوام کے ہی طور طریقے۔ یہ اپنے کپڑے بیچنے کی بات تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ اتنے بے حس ہیں کہ اگر اختیار میں ہو تو عوام کی چمڑی اور ہڈیوں تک کو بیچ ڈالیں۔ یہ سب ان کی لفاظی اور حیلے بہانے ہر دور میں رہے ہیں مگر چھری ہمیشہ عوام کی گردن پر ہی چلی ہے۔

ہمارے سیاستدان عوام کی گردن پر چھری چلانے کا بہانہ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ اگر عوام ان تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف متحد ہوجائیں اور ہر مہنگی چیز کا بائیکاٹ کردیں تو ان کی عقل خودبخود ٹھکانے آجائے گی۔ یہ وزیر و مشیر عوام کو تو کفایت شعاری کا درس دیتے ہیں مگر خود اپنی ذات کو ان تمام چیزوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔

قومی اسمبلی سے 170 ارب روپے کی منظوری کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی قسط کے اجرا کی راہ ہموار ہوچکی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس منظوری کے وقت کیا اُن لوگوں کے بارے میں سوچا گیا جو ماہانہ 15 سے 20 ہزار کماتے ہیں، اُن کا گزر بسر کیسے ہوگا؟ گیس کے نرخوں میں اضافے کے بعد جو بل آئے گا عوام کے چاروں طبق روشن ہوجائیں گے۔ گیس کے یونٹ میں فی یونٹ 14 روپے کا مزید اضافہ ہوجائے گا۔ بجلی کی قیمت میں اضافے کے بعد گرمیوں میں پنکھوں کا بل اے سی کے بلوں کے برابر ہوگا۔ لوڈشیڈنگ کا الگ سامنا رہے گا۔ انرجی کرائسز کا ایک فیکٹر یہ بھی ہے کہ ہم تین ہزار ارب روپے کی بجلی بناتے ہیں لیکن صرف 1550 ارب روپے اکٹھا کرپاتے ہیں۔

پاور سیکٹر کو بجلی چوری اور لائن لاسز جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کو آئی ایم ایف کا سالانہ ہدف پورا کرنے کےلیے وصولیابی کا نظام بہتر بنانے اور کفایت شعاری سمیت کئی اقدامات پر خاص توجہ دینا ہوگی، کیونکہ عام آدمی کےلیے مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ پہلے ہی جان لیوا ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کا بچت پلان، جو کل پریس کانفرنس میں پیش کیا گیا، وہ عوام کو لالی پاپ دینے کے سوا کچھ نہیں، جو یونہی بے سود ثابت ہوگا، کیونکہ نہ تو یہ لگژری گاڑیوں کے بنا رہ سکتے ہیں اور نہ ہی پروٹوکول کے۔

اسی طرح ہمارے قرضوں کا حجم مجموعی ملکی پیداوار کے 90 فیصد سے تجاوز کرچکا ہے۔ قرضوں کے اس بوجھ نے ہمارے ملک کو ان ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے، جنہیں حالیہ کچھ عرصے کے دوران اپنے واجبات کی ادائیگی کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر سری لنکا، ارجنٹائن اور کئی افریکی ممالک شامل ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کےلیے قومی سطح پر بچت ضروری ہے اور ساتھ پلاننگ کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ ہر بار ملک قرضوں سے نہیں چلے گا۔

اگر قرض لینے کی شرح اتنی ہی تیزی سے رہے گی تو وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے۔ خانہ جنگی کےلیے کسی بارود یا توپ کے گولے کی ضرورت نہیں، اُس کےلیے بھوک ہی کافی ہے۔

یہ حکمران جو بھاگ بھاگ کر آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں، میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ ان کے گھروں کی تلاشی لی جائے تو اربوں ڈالرز ان کے گھروں سے ہی برآمد ہوجائیں گے، ان کے بینک لاکرز کی تلاشی لی جائے تو وہاں سے بہت کچھ ملے گا۔

اگر ملک و قوم سے اتنی ہی ہمدردی ہے ان لوگوں کو تو وہ چھپایا ہوا مال نکالیں۔ اگر یہ سیاستدان بیرون ملک جاکر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرسکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں کرسکتے؟ بند کریں یہ پروٹوکول، ایک ایک وزیر، مشیر اور بیوروکریٹ کے پاس دس، دس گاڑیاں کھڑی ہیں۔ کیوں یہ اشرافیہ ملک کےلیے قربانی نہیں دے سکتی۔

ہمارے ملکی معیشت کی تباہی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہماری زراعت کی پالیسی بزنس مین یا انڈسٹریلسٹ بناتا ہے، غریب کی پالیسی امیر بناتے ہیں، جس نے کبھی غربت نہیں دیکھی ہوتی، جو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ پھر کیسی درستگی، کیسی تبدیلی اور کیسا غریب کا درد؟ یہ صرف اور صرف عوامی گفتگو کا موضوع بنے ہوئے ہیں، مگر اس کے باوجود روز بہ روز مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ کابینہ کا غیر معمولی حجم بھی اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ اگر وزیراعظم کو عوام کا اتنا ہی خیال ہے تو سب سے پہلے کابینہ چھوٹی کرتے، وزرا کی عیاشیاں ختم کراتے اور ملک سے پروٹوکول کا خاتمہ کرتے۔ آج ہم معاشی تنگی کا شکار ہیں۔ کفایت شعاری کو ایک مستقل قومی رویہ بنانے کی ضرورت ہے۔ کفایت شعاری کی موسمی مہموں سے صرف وقتی افاقہ ہی ہوگا جبکہ ہمیں اسراف اور قومی دولت کے ضیاع کا دیرینہ عارضہ لاحق ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں