کینیڈا میں الیکٹرک بس ڈرائیوروں کی غالب اکثریت بھارتی لڑکیوں پر مشتمل ہے
ریلوے اسٹیشنوں پر اے ٹی ایم مشینوں کی طرح کی مشینیں لگی ہیں جن میں پیسے ڈال کر ٹکٹ حاصل کی جاتی ہے۔
ساتویں قسط
سائمن فریزر یونیورسٹی میں ورکشاپ اور دیوِندر ملہانس
یکم نومبر کو بَلی نے سائمن فریزر یونیورسٹی میں Creative Writing کی ورکشاپ کرانی تھی۔ ڈائننگ ہال میں ناشتے کے لیے پہنچے۔ اُس روز وہاں Peach کی جگہ پر کوئی نیا Spanish سپروائزر تھا جس نے ہم دونوں کو قطعاً لفٹ نہ کرائی۔
وہ ناشتے کے واؤچر پر تحریر مینیو سے ہرگز اِدھر اُدھر ہونے کو تیار نہ تھا۔ میں نے اُسے پچھلے دِنوں کی مہمانداری کا بھی بتایا لیکن وہ کسی بھی صورت لچک دکھانے کے لیے تیار نہ تھا۔ خیر جتندر اُسی خوش اخلاق خاتون کو یاد کرتے رہے اور ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں اپنا غصہ بھی نکالتے رہے۔
ہماری باتوں کے دوران ہی دس بجے کے قریب جتندر کے بھائی دیوندر ملہانس بھی آ گئے۔ اُن کے ساتھ ایک دوست بھی تھے۔ دونوں بھائی گلے لگ کر مِلے۔ دیوِندر بھی اپنے بھائی کی طرح ایک کلین شیو اور خوبصورت انسان تھے۔
پہلی بار دیکھنے پر بوبی دیول کا گمان ہوتا تھا۔ میں اُن سے اجازت لے کر اپنے کمرے میں آگیا۔ جلدی جلدی فریش ہو کر کپڑے تبدیل کیے۔ تھوڑی دیر ہی میں جتندر کی کال آ گئی کہ وہ ہوٹل کے پچھلی جانب کی پارکنگ میں ہیں، میں وہیںآ جاؤں۔
میں ہوٹل کی پچھلی جانب کھڑی TAXI پر آیاجہاں ڈرائیونگ سیٹ پر بھارے بھرکم جثے اور خاص پنجابی انداز کی مونچھوں والے دیوندر ملہانس کے دوست ٹِیٹو دھالیوال (Titu Dhaliwal) بیٹھے تھے جو پچھلے سترہ برس سے کینیڈا میں آباد تھے۔
میں اور جتندر روز کی طرح پچھلی سیٹوں پر بیلٹ باندھ کر بیٹھ گئے۔ ہمیں ایک بار پھر SURREYمیں SFU کے کیمپس میں جانا تھا جہاں بلی اپنی کریٹیو رائٹنگ کی ورکشاپ کروا رہی تھیں۔ راستے میں ایک سڑک کے کنارے پٹرول پمپ کے ساتھ ٹم ہارٹنز کیفے میں گئے جہاں دیویندر نے پراٹھا رول نما کوئی شے لے کر دی جو کہ کھانے میں کافی مزیدار تھی۔
یہ سبزیوں سے بنی ہوئی کوئی چیز تھی۔ اس کے ساتھ میں نے چائے کا بڑا کپ لیا جس کے باعث جسم میںحرارت اور توانائی کا احساس جاگ اُٹھا۔ وہاں پر میں نے ایک ٹیبل پر دو پنجابی بھائیوں کو اونچی آواز میں اپنے مستقبل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سُنا۔ ہم لوگ اُن کی باتیں سُن کر ہنستے رہے۔
ایک خاص طرح کابرنچ (Brunch) لے کر ہم سب سائمن فریزر یونیورسٹی کے سامنے والے داخلی دروازے کی جانب سے بڑھے کیونکہ پچھلی بار بارج ہمیں یونیورسٹی کے عقب میں موجود پارکنگ سے لے کر آئے تھے۔
اتنی عظیم الشان عمارت جس کے دروازے پر ہمیں ہمارے دوست چھوڑ کر واپس چلے گئے تھے، ہم تینوں کے لیے یہ عمارت بالکل انجان تھی۔ہم لوگ اُس حصّے کے اندر چلے گئے جہاں انتظامی اور دیگر اداروں کے دفاتر تھے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ جتندر بلاجھجک کوئی بھی دروازہ کھول کر اندر گُھس جائیں ، میں اور دیوندر باہر کھڑے ہو کر ہنستے رہتے۔ اسی طرح ہم پانچویں فلور پر پہنچے لیکن جہاں ہمیں جانا تھا وہ عمارت کا کوئی دُوسرا حصہ تھا۔
اس فلور کے ایک دفتر میں بھی جتندر بے دھڑک داخل ہو گئے، جہاں زیادہ تر چینی تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ خود بھی ہنستے ہوئے باہر آگئے اور کہا:
''وِیرے اِک تاں ایہناں چینیاں دِیاں شکلاں وی اِکو جہیاں ہوندیاں نیں۔''
(''بھائی ایک تو ان چینیوں کی شکلیں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں'')
لیکن اُن کے پیچھے مدد کے لیے ایک چینی ہی اپنے دفتر سے نکلا جو ہمیں نہ صرف نیچے چھوڑ کر آیا بلکہ اشارے سے یہ بھی سمجھا دیا کہ سامنے والی بلڈنگ کی سیڑھیوں اور لفٹ کو استعمال کرتے ہوئے کیسے مقررہ مقام پر پہنچنا ہے۔
اب جتندر کے دماغ میں کیا آئی کہ انہوں نے کہہ دیا کہ لفٹ کی خجل خواری نہیں لینی، سیڑھیوں کے ذریعے ہی اُوپر جائیں گے۔ کینیڈا پہنچ کر جو عجیب و غریب واقعات پیش آ رہے تھے۔
اُن میں ایک اور کا اضافہ ہونے جا رہا تھا۔ میں نے بڑے ہی پیار سے اُن کو چھوٹا بھائی، بڑا بھائی کہہ کرلفٹ کے ذریعے چلنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی بھی صورت ماننے کو تیار نہ تھے۔ پھر دیوِندر نے بھی مجھے حوصلہ دیا۔
پہلے زمینی منزل پر ایک شاپنگ مال میں پھرایا۔ جتندر کچھ خریدنا بھی چاہ رہے تھے لیکن کچھ پسند نہ آیا اور پھر پانچویں فلور تک کی سیڑھیاں وہ ہنستے مسکراتے اور میں اپنے بھاری وجود کو سنبھالتے ہوئے چڑھتا گیا۔
Invitation Leaf پر چھپے ایڈریس پر ہم لوگ پہنچے تو اندر بَلی وائٹ بورڈ اور ہاتھ میں ایک مارکر لیے کھڑی دکھائی دیں۔ میں نے چند منٹ باہر کھڑے ہو کر لمبے لمبے سانس لیے، اپنے حواس بحال کیے اور اندر ہال میں پچھلی جانب جا پہنچے جہاں پر پہلے سے ہرِندر کور جی کی چھوٹی بہن اور اُن کے شوہر پانی، جوس اور کچھ کھانے کی اشیاء کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔
ہمیں بھی جوس کے ڈبے دیئے گئے اور میں خاموشی سے بَلی کی باتیں سننے لگا۔ ہال میں پچاس سے زائد طالب علم تھے جن کا تعلق مختلف ممالک سے تھا۔ وہ بڑے ہی انہماک سے تمام گفتگو سُن رہے تھے۔
بَلی کی گفتگو کے کچھ خاص نکات میں یہاں تحریر کرنا چاہوں گا جو کہ انہوں نے انتہائی Professional انداز میں اور آج کے عہد کی ضرورتوں کومدنظر رکھ کر طالب علموں کو بتائے۔اُن کی گفتگو کا مدعا یہ تھا کہ اچھا لکھاری کس طرح بنا جا سکتا ہے۔
ورکشاپ کے اختتام پر طالب علموں کی ایک بڑی تعداد میرے اور جتندر کے پاس آگئی۔ موبائل کیمروں سے تصاویر، سیلفیز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ان میں سے ایک سولہ سترہ برس کا سِکھ نوجوان ضد میں آگیا کہ آپ لاہور سے آئے ہیں، ہمیں کچھ بتا کر جائیے۔ پہلے میں نے بہت ٹالنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی صورت بھی ٹلتا دکھائی نہ دیا اور اُس کے اس طرح ضد کرنے کے دوران پچیس تیس طالب علم ایک دائرے کی شکل میں میر ے اور جتندر کے اردگرد اکٹھے ہوگئے ۔پھر جتندر نے بڑے ہی پیار سے میرا شانہ دبایا اور کہا:
''گورو جی کجھ دس ہی دیوو۔''
(''گورو جی کچھ بتا ہی دیں۔'')
میں نے بے بسی سے اُن کی جانب اور پھر طالب علموں کی جانب دیکھا۔ پھر میں اُن سے مخاطب ہوا۔
''دیکھو بھائی آپ لوگوں نے ایک انتہائی کامیاب لکھاری بننے کے گُر تو سیکھ لیے ہیں۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں اس طرح کی اپروچ چاہیے لیکن میں تو بس ایک لکھاری بننے پر ذاتی رائے دے سکتا ہوں بھلے وہ کامیاب لکھاری ہو نہ ہو۔ سب سے پہلے بس اپنے سے پہلے کے ناول نگاروں اور کہانی کاروں کو دھیان سے پڑھنا چاہیے۔ اُس کے بعد جو دل کرے، اُس کو بلاجھجک لکھنا چاہیے۔ سب سے پہلے اپنے دل کی تسلی اور سکون کے لیے لکھو۔
من کی شانتی سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس بات کو بالکل بھول جاؤ کہ آپ کا کام کوئی دیکھے گا، کوئی پڑھے گا یا نہیں، کوئی سراہے گا کہ نہیں۔ کسی بھی اور طبقے کو نہ دیکھو۔ عمر، دھرم، جغرافیائی حدود، سب کو بالائے طاق رکھو۔
اگر لکھنے کے بعد کوئی سکون اور خوشی ملتی ہے تو یہی کامیابی ہے۔ اگر ہم جرمن مصنف فرانز کافکا کی زندگی کو دیکھیں تو اُن کی حیات میں تو بس دو چار کہانیاں عام سے ادبی رسالوں میں چھپی تھیں۔ اُن کے اس جہان سے جانے کے بعد اُن کے ایک دوست نے اُن کی تمام تحریریں چھاپیں حالانکہ کافکا کی وصیت تھی کہ سب کچھ جلا دیا جائے۔ آج دیکھیں تو فکشن کافکا کے نام کے بغیر اُدھوری ہے۔''
مقامی ٹرین، سَری اور وینکوور
سائمن فریزر یونیورسٹی سے کوئی دس منٹ کے پیدل فاصلے پر ٹرین سٹیشن ہے۔ ہم لوگ باتیں کرتے اِس سٹیشن پر پہنچے۔ وہاں پرٹکٹوں کے لیے مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ ATM مشین جیسی اِن مشینوں سے اے ٹی ایم کارڈجیسے ٹکٹ نکلتے ہیں جنہیں دروازوں کے Sensors پر لگا کر آگے جایا جاتا ہے۔ دیوندر او رجتندر دونوںبھائی تو ایک دوسرے سے مذاق کرتے جا رہے تھے جبکہ میرا دھیان مکمل طور پر لاہور میں تھا۔
والدہ کی خراب طبیعت جو بعد ازاں بحال ہو چکی تھی، میرے لیے مسلسل باعثِ تشویش تھی۔ یونیورسٹی کے قریبی اسٹیشن سے وینکوور پہنچنے کے لیے راستے میں ایک اسٹیشن سے ایک دوسری ٹرین بھی پکڑنی تھی۔
بیس منٹ کے بعد ہم وینکوور پورٹ کے آخری ٹرین سٹاپ پر اُترے۔ یہ ساحل سمندر کا ایک دوسرا حصہ تھا جو کہ میں اور جتندر ایک روز پہلے بارج کے ساتھ دیکھ آئے تھے لیکن یہاں نیچے بڑی بڑی کارپارکنگ اور ملک کے دیگر علاقوں کو جانے والی ٹرینوں کے لیے بچھی ریل کی پٹڑیاں بھی دکھائی دیں۔ انتہائی ٹھنڈ کے باوجود میرا ماتھا پسینے سے بھیگا پڑا تھا۔
میں اُن دونوں کی نسبت چل بھی آہستہ رہا تھا۔ وہ دونوں گپیں ہانکتے آگے تھے اور میں آہستہ آہستہ پیچھے چل رہا تھا۔ میری اس طرح کی حالت دیکھ کر سکیورٹی میں موجود ایک چائنیز لڑکی نے آگے بڑھ کر کہا۔
''جنٹلمین میں کوئی خدمت کر سکتی ہوں۔''
میں نے اُسے ''نو تھینکس'' کہا اور آگے بڑھ گیا۔ لیکن انتہائی ہمدردی کا یہ رویہ میرے دل میں اُتر گیا۔ اسٹیشن کے ایک حصّے پر ایک بہت بڑا پُل تھا جس سے نیچے اُتر کر ہمیں دُوسری ٹرین لینی تھی۔ ہم لوگوں نے وہاں کھڑے ہو کر کچھ تصاویر لیںاور ساحل پر ایک بہت بڑا بحری جہاز دیکھا۔ دیوِندر نے ہنس کر جتندر کو کہا:
''ایہہ جہاز ساڈے پُورے پنڈ دے برابر ہوونا اے۔''
(یہ جہاز ہمارے پورے گاؤں کے برابر ہوگا)
اُس کی یہ بات سُن کر ہم سب ہنسنے لگے۔
ہم لوگ ا سٹیشن کے نچلے حصے میں پہنچے جو اپنی تعمیر کے لحاظ سے کمال کا بنا ہوا تھا۔ یہیں سے ہم نے اپنی منزل کے لیے ٹرین پکڑنا تھی۔ اسٹیشن کی مشرقی سیدھ کی دیوار کے اُوپر تقریباً ایک صدی پُرانا وال کلاک نصب تھا ۔
اس پر رومن Alphabet، i (1) سے xxii (12)تک تھے جبکہ 13سے 24 تک کو انگریزی ہندسوں میں ظاہر کیا گیا تھا۔ اس فلور پر موجود شوکیسوں میں طرح طرح کی قدیم اشیاء انتہائی قرینے کے ساتھ رکھی ہوئی تھیں۔ یہیں پر سینکڑوں کی تعداد میں سپورٹس سائیکلیں بھی موجود تھیں۔ دِل چاہا کہ اُن کی قیمت معلوم کروں لیکن سارے دن کی محنت نے تھکا کر رکھ دیا تھا۔
اب اگلا مرحلہ اس سے بھی زیادہ محنت طلب تھا کیونکہ سٹیشن سے ہمارا ہوٹل دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ دیوِندر نے گوگل میپ آن کیا ہوا تھا۔ ہم لوگ ٹرین کی پٹری کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے مختلف علاقوں سے گزرے جہاں پر زیادہ تر گاڑیوں کی ورکشاپس دکھائی دیں۔
ریل کی پٹڑیوں اور ورکشاپس کے گرد بھی مجھے پت جھڑ کے باعث گِرے پتے دکھائی دیئے۔ تمام علاقوں میں یہ پتے اپنا ایک الگ ہی جہان بسائے دکھائی دے رہے تھے۔ خیر آہستہ آہستہ چلتے اور دونوں بھائیوں کی گپیں سُنتے ہوٹل پہنچا۔ یہ دن شدید تھکن کا دن تھا۔ میں اپنے کمرے کو چل دیا کیونکہ اب دیوِندر اپنے بھائی جتندر کے لیے لفٹ آپریٹ کرنے کی خاطر موجود تھے۔ کمرے میں آتے ہی میں نے گرم پانی سے بھرپور شاور لیا اور اپنے کمرے کا ہیٹر آن کر کے سو گیا۔ چار بجے کا سویا چھ بجے اُٹھا۔ آج ہمیں ایک ڈنر پر جانا تھا۔
ہم تینوں پریم مان کی گاڑی میں بیٹھ گئے اور باتوں باتوں میں اُس علاقے میں پہنچ گئے جہاں یہ ڈِنر تھا۔ یہ علاقہ بھی اپنے بڑے بڑے گھروں کے باعث انتہائی پوش دکھائی دے رہا تھا۔میزبان کے گھر کا نمبر2688 تھا۔ جب ہم اُن کے گھر میںداخل ہوئے تو بارج کی اپنی فیملی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رگھبیر سنگھ اور اُن کی اہلیہ وہاں موجود تھے۔
اُن کے ساتھ موہن گِل بھی موجود تھے، انتہائی زندہ دل انسان اور بظاہر پچاس برس سے زائد ہرگزنہ دکھائی دیتے تھے لیکن مجھے جب یہ پتہ چلا کہ وہ ستّر (70) برس سے زائدکے ہیں تو اُن کی صحت کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ گھر میں دروازے کے بائیں جانب ایک چھوٹا سا ہال تھا جس میں میزبانوں نے ڈرنکس انتہائی قرینے کے ساتھ سجا کر رکھے ہوئے تھے اور ساتھ ایک ٹیبل پر گرم گرم پکوڑے، کچھ سموسے اور نمکو کی پلیٹیں تھیں۔
ڈرنکس کی ٹیبل پر چھوٹے، بڑے اور بہت چھوٹے شیشے کے گلاس بھی انتہائی خوبصورت دِکھائی دے رہے تھے۔ اس دوران ایک مزاحیہ واقعہ بھی پیش آیا کہ ڈاکٹر رگھبیر سنگھ صرف ایک پیگ کی اجازت کے لیے اپنی اہلیہ کے پاس گئے تو اُن سے اُنہیں مسکراتی جھاڑیں پڑیں جس پر قریب موجود لوگ ہنس دیئے۔
''آپ اپنی عمر اور صحت تو دیکھیں۔''
تھوڑی دیر بعد میرے پاس موہن گِل آ گئے او ر اپنی باتوں سے یہ احساس دلانے لگے کہ میں اپنے آپ کو ہرگز اس لیے اکیلا نہ سمجھوں کہ میں یہاں اس محفل میں اکیلا مسلمان اور پاکستانی تھا۔ وہ بس یہی بات کہہ رہے تھے کہ ہم سب پنجابی ہیں اور ادب کا آپس میں ایک سانجھا رشتہ ہے۔ چند لمحوں بعد کھانا بھی لگا دیا گیا۔
کھانے کی کچھ اشیاء ٹم ہارٹنز اورکچھ گھر کی تیار کردہ تھیں۔ ٹیبل کی ایک سائیڈ سے لوگوں نے کھانا شروع کیا اور دوسری جانب کو گھومتے گئے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار وہ ٹرے اُٹھائی جس میں چھوٹی چھوٹی سی سٹیل کی پیالیاں تھیں ۔ کچھ دیر میں اس کو محو ہو کر دیکھتا رہا کیوں کہ کھانے کی یہ ٹریز(Trays) میں نے ہندی فلموں میں ہی دیکھی تھیں ۔
دیو آنند کی اکثر فلموں میں وہ اپنے والد صاحب سے ناراض بھی ہوتے تھے اوران کی فلمی ماں یہ ڈائیلاگ ضرور بولتی تھیں:
''تیرے باپو دِل کے بُرے نہیں بس ایسے ہی غصہ کرتے ہیں ،لے میں تیرے لیے کھانا پروستی ہوں۔''
جس کے بعد ایسی ہی ٹرے میںکھانا آ جاتا تھا۔
میں کچھ دیر اپنے خاص لاہوری طریقے سے آگے بڑھا اور قطارجہاں پرختم ہو رہی تھی، ادھر سے ہی داخل ہو کر کھانا لینا شروع کیا اور جب غور کیا توپتا چلا کہ میں بالکل مخالف طرف سے جا رہا تھا۔ خیر مجھے وہاں پر سب نے ہنس کر جگہ دی۔ پردیس میں آ کر اس طرح لگ رہا تھا کہ جیسے بُھوک ختم ہی ہو گئی ہو۔
سو میں نے انتہائی مختصر سا کھانا لیا جس میں تھوڑے سے چنے، سلاد، نان کا چوتھائی حصہ اور کچھ گاجر کا حلوہ تھا۔ میری تھکن اتنی زیادہ تھی کہ میں کھانا لے کر ٹی وی لاؤنج کے ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔ گھرکی بزرگ خواتین میرے پاس بار بار آئیں اور لاہور کی باتیں کرتی رہیں۔ بارج کی بہن آئیں تو اُنہوں نے ایک انتہائی خوبصورت جملہ کہا:
''مدثر جی تُسیں تے بس چڑی جِنّا کھاون لِتا اے۔''
(''مدثر جی آپ نے تو چِڑیا کی خوراک کے برابر ہی کھانا لیا ہے۔''
کھانے کے دوران ہی ٹریول ایجنٹ گور پریت کور(رینو سنگھ) کی کال آئی کہ انہوں نے نئے ٹکٹ E-mail کر دیئے ہیں۔میری انعامی رقم میں سے تقریباً دو ہزار ڈالر مِنہا ہو چکے تھے، لیکن ٹکٹوں کو تبدیل کروانا میرے لیے بے حد ضروری تھا۔ میں اپنی ٹریول ایجنٹ کی محبت اور محنت کو کبھی نہ بُھلا سکوں گا۔
کھانے کے بعد بارج نے بَلی، جتندر اورمیرا مختصر سا تعارف اپنے تمام مہمانوں کے ساتھ کرایا اور ایوارڈز کے شروع کرنے سے کچھ عرصہ قبل کے واقعات دُہرائے۔ واپسی پرپریم مان جی کی گاڑی میں ڈاکٹر رگھبیر سنگھ بھی بیٹھ گئے ۔
باتوں باتوں میں دیوِندر نے بتایا کہ اُن کی اہلیہ الیکٹرک بس چلاتی ہیں۔ میرے لیے یہ اور بھی حیران کُن تھا کہ جب دیوِندر نے بتایا کہ الیکٹرک بسوں کی زیادہ ڈرائیورز ہندوستانی خواتین ہیں۔ اُنہوں نے مختلف ریاستوں میں لاگو ٹیکسوں کے بارے میں بھی بتایا کہ ہر ریاست کے اپنے ٹیکس کے نظام ہیں جو کہ زیادہ تر موسمی حالات کے باعث ہیں۔ خصوصاً برٹش کولمبیا میں بہت سی اشیاء اسی وجہ سے کیلگری کی بہ نسبت مہنگی ہیں۔
میں نے چرچ کی تصاویر لیتے ہوئے واقعہ کو دوہرایا تو ڈاکٹررگھبیر نے بتایاکہ صرف زیبرا کراسنگ سے پیدل چلنا ہی کافی نہیںبلکہ قریبی الیکٹرک پول کے ساتھ لگا ایک Clear کا بٹن بھی دبانا پڑتا ہے تاکہ باقی ٹریفک درست طریقے سے چل سکے۔ یوںباتیں کرتے ہم لوگ ہوٹل پہنچے۔
2 نومبر کا دن خاص اہمیت کا حامل تھا۔ شام کو Prize Distribution Ceremony ... اور دن کا تمام وقت مجھے نشا رائے کے ساتھ بِتانا تھا۔ روز کی طرح صبح کا آغاز جتندر کی کال پر گڈ مارننگ سے ہوا۔ میں جلدی جلدی سے فریش ہوا تو نیچے لابی میں دیوِندر اور جتندر دونوں پہلے سے میرا انتظار کر رہے تھے۔
ہم تینوں ناشتے کے لیے ڈائننگ ہال گئے تو اُس روز بھی سنجیدہ اور رنجیدہ قسم کے Spanish سپروائزر سے آمنا سامنا ہوا۔ اُس نے بغیر کسی تعاون کے مینیو پر درج ناشتہ ہماری میز پر بھجوا دیا۔ اُس کے اِس روئیے کے بعد جتندر، دیوِندر کو پچھلی خاتون سپروائزر کی خوبیاں گنواتے رہے کہ وہ کتنی مستعد اور برق رفتار تھی۔ اُس کی مسکراہٹ کتنا اچھا تاثر چھوڑتی تھی اور حاضر سپروائزر سے اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرتے رہے۔
اُن کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے مجھے نِشا کی کال آ گئی کہ وہ پہنچنے والی ہے۔ دس بجے کے قریب وہ میرے کمرے میں آ گئیں۔ آتے ہی مجھ سے اپنے غصّے کا اظہار کیا کہ میں اتنی جلدی واپس کیوں جا رہا ہوں اور پھر یہ بات اس طرح ختم ہوئی کہ میں جب اگلی بار آؤں گا تو امریکا کا ویزا بھی لگوا کر آؤں گا تاکہ وینکوور کے ساتھ ہی اُن کی ریاست واشنگٹن میں اُن کے گھر کچھ دن رہ سکوں۔
اُس کے بعد ہم دونوں لاہور میں گزرے لمحات، لوہاری دروازہ، حاجی نہاری اور کنور نونہال سنگھ کی حویلی کی سیر کو یاد کرنے لگے۔ اکرم وڑائچ کا بھی ذکر ہوا جنہیں وہ پیار سے ''بھائ'' کہتی تھیں۔ ہم ان معاملات پر محوِ گفتگو تھے کہ جتندر کی کال آئی کہ وہ پریم مان کے ساتھ سری کے لیے نکل رہے ہیں ۔میں جلدی سے فریش ہو کر نشا کے ساتھ باتیں کرتا نیچے اُن کی گاڑی کو چل دیا۔
میں جب سے آیا تھا تو میرے سری کے کئی چکر لگ چکے تھے اور آج آخری مرتبہ اُدھر جانا تھا۔ پھر ''یاقسمت یا نصیب'' کی بات تھی۔ سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ وینکوور کی کھلی سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی شاید ہفتے کے دن ہفتہ وار چھٹی ہونے کے باعث ایسا تھا۔ ہوا میں پچھلے دنوں کی نسبت تیزی کچھ زیادہ تھی۔
خزاں کے اس موسم میں کہیں تو بلند و بالا درخت اپنے رنگین پتوں کے ساتھ ایک عجب نظارہ پیش کر رہے تھے اور کہیں ایسے درخت بھی موجود تھے جن کو دیکھ کر گماں ہوتا تھا کہ شاید انہیں کبھی سبزے کا پیرہن مِلا ہی نہیں۔ اور اُن کے قدموں میں اُن کا پیرہن پتوں کی صورت میں دھرتی سے محوِ گفتگو تھا۔
سری شہر کے ساتھ ساتھ سڑک کے کچھ فاصلے پر سرسبزپہاڑیوں پر آبادیوںکا ایک خوبصورت سلسلہ تھا۔ ہم دونوں ایک مرتبہ پھر ہندوستانی کھانوں کے ہوٹل Spice 72 پہنچے۔ ہم سے پہلے ہی ڈاکٹر رگھبیر سنگھ، پریم مان، جتندر ہانس اور دیویندر ملہانس پہنچ چکے تھے۔ کھانے کی ایک بڑی میز اُنہوں نے مختص کروا لی تھی۔
وہاں ان مہمانوں کے ساتھ ساتھ دو خواتین اور بھی تھیں۔ ایک خاتون جو کہ اپنے آپ میں بالکل انگریز ہی دکھائی دیتی تھیں وہ نِشا ہی کی ریاست واشنگٹن سے اُدھر آئی تھیں، اُن کا نام پرویز سندھو تھا۔
وہ لکھاری پرویز جن کا ذکر میں جتندر اور دوِندر سے کئی مرتبہ سُن چکا تھا اور میرے گمان میں وہ کوئی مسلمان مرد لکھاری تھا اور جب تعارف ہوا تو وہ ایک ہندوستانی سکھ خاتون تھیں جو کئی برسوں سے وہاں آن کر بسی ہوئی تھیں۔ اُن کے ساتھ دوسری خاتون ہرکیرت کور چاہل تھیں۔ بے انتہا سادہ، ماتھے پر ایک گلابی رنگ کی بِندی اور سیدھی سیدھی پنجابی جو کہ رعب ڈالنے کے لیے قطعاً انگریزی استعمال نہیں کر رہی تھیں۔
مجھے اپنے دیہات کی وہ خواتین یاد آ گئیں جن کومیں نے اپنے بچپن میں ہر طرح کے تصنع اور بناوٹ سے پاک دیکھا تھا۔ وہیں پر مزید تعارف یہ ہوا کہ وہ ہرِندر کور جی کے ساتھ ایک سکول میں سائنس سبجیکٹ پڑھاتی رہی ہیں۔
اُن کا شمار اُبھرتی ہوئی خواتین ناول نگاروں میں کیا جاتا ہے۔ ناول نگاری کے ساتھ ساتھ وہ پنجابی گیت، شاعری کی دیگر اصناف اور کہانی پر بھی ملکہ رکھتی ہیں۔ اُن دنوں وہ اپنی سوانح حیات کا ایک حصہ ''میں اِنج پردیسن ہوئی''کے عنوان سے تحریر کر رہی تھیں۔
جس میں ان کے ہندوستان سے کینیڈا آن بسنے کا احوال درج ہے۔ اُن کی تحریروں کو ایک انتہائی سینئر بزرگ ناول نگار دلیپ کور ٹوانہ بھی بہت زیادہ سراہتی ہیں۔ ہر کیرت ایک قریبی شہر چِلی ویک (Chilliwack)میں رہتی تھیں۔ پریم مان کے تعارف کروانے کے دوران ہی پرویز اُن کی طرح کے مذاق کر چکی تھیں۔
میرے خیال میں پنجابی زبان کا لفظ ''جگتیں''زیادہ بہتر رہے گا۔ اس دوران ڈاکٹر رگھبیر کے کہنے پر کھانے کا آرڈر دے دیا گیا۔ جس کے ساتھ ہی میزبانی یعنی کہ بل بارے گفتگو شروع ہو گئی۔ سو میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ میزبان ڈاکٹر رگھبیر سنگھ تھے، پریم مان یا وہاں پر آئی وہ دونوں مہمان خواتین۔ میں نے اپنے ساتھ آئی نِشا کا تعارف کرایا تو ڈاکٹر رگھبیر سنگھ نے بتایا کہ وہ نِشا کے والد کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ایک زمانے میں وہ دونوں گہرے دوست رہے ہیں۔
گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا جس میں حاضرین مسلسل جتندر کی تحریروں کی تعریفوں کے پُل باندھ رہے تھے اور وہ جواب میں ہر ایک کو محض شرما کر دیکھ رہے تھے اور پریم مان ہر جملے کے بعد پرویز سندھو اور ہرکیرت کور چاہل کے کسی ذومعنی اور مزاحیہ جملے کے نشانے پر تھے۔
میرے ساتھ ایک مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے ہاں لاہو ر میں مذا ق کا ایک بڑا ہی خاص معیار موجود تھا اور مجھے یہ تمام باتیں روزمرہ کی دکھائی دے رہی تھیں۔ مجھے ان جملوں پر تو قطعاً کوئی ہنسی نہ آ رہی تھی بلکہ اپنے گرد بیٹھے ہنستے افراد پر بھی ہنسی آ رہی تھی۔
اس دوران کھانا میز پر لگا دیا گیا۔ ایک پلیٹ میں آلو والا پراٹھا آیا تو میں ایک بار پھر سے حیران ہوگیا کیونکہ میرے دماغ میں تو لاہور میں توؤں پر بنے پراٹھے تھے اور یہ تندو ر میں لگا ہوا ایک پراٹھا تھا جس کو اگر آلو والی تندوری روٹی کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔
میں اس پراٹھے کو دیکھ کر ہنسنے لگا اور میرے ساتھی سمجھ رہے تھے کہ میں پرویز کی کسی بات پر ہنس رہا ہوں۔ خیر میں نے اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کیا اور پہلی بار گفتگو میں حصّہ لے کر پرویز سندھو سے اُن کے نام کے بارے میں پوچھا کہ یہ ایک مردانہ اور مسلم نام کس طرح ہے۔ تو اس کے جواب میں اُنہوں نے مجھے مختصراً یہ بتایا کہ تقسیم سے قبل اُن کے والدین کراچی میں رہا کرتے تھے اور اُن کے ابا کے گہرے دوستوں میں سے ایک مسلمان صاحب بھی تھے جن کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام پرویز تھا۔ جب تقسیم کے دوران فسادات بڑھے تو وہ مسلمان خاندان اُن کو بحفاظت سرحد پار چھوڑ کر آیا۔
اُس وقت اُن کے والد نے نیت کر لی تھی کہ اگر کوئی بیٹا ہوا تو اُس کا نام پرویز رکھا جائے گا۔ بچے ہوئے مگر بیٹا نہ ہوا تو اُنہوں نے اپنے دوست کی یاد اور نیت کو نبھایا اور اپنی بیٹی کا نام پرویز سندھو رکھ دیا۔ کھانا ختم ہونے کے بعد میزبان اور مہمان سبھی آہستہ آہستہ باہر کو نکلے۔ ہرکیرت کور چاہل کے ہاتھ میں اُن کا گورمکھی میں لکھا ناول 'آدم گرہن' تھا۔
اُن کی سادگی نے مجھے مجبور کیا کہ میں اُن سے 'آدم گرہن' کی یہ کاپی مانگوں۔ مجھے گورمکھی رسم الخط بھی سیکھنا تھا۔ دل میں یہ بات آئی ، جب بھی یہ رسم الخط سیکھا تو سب سے پہلے یہ ناول ہی پڑھوں گا۔ میں نے اُن سے ناول کی درخواست کی جو اُنہوں نے بڑی خوشی سے قبول کی اور گورمکھی میں لکھ کر بھی دیا تو میں نے اُن سے ایک بار پھر درخواست کی کہ کچھ انگریزی میں لکھ کر دیں، یہ میں پڑھ نہیں سکتا تو اُنہوں نے پھر ایک جملہ لکھا اور دستخط کردیئے۔
اور یہ بھی بتایا کہ لاہور میں ہمارے ایک پنجابی پیارے آصف رضا نے اس ناول کو ''تیجی مخلوق'' کے نام سے شاہ مُکھی میں منتقل کیا ہے اور ساتھ ساتھ کہا کہ میں امجد سلیم منہاس سانجھ پبلی کیشنز والوں کو آج فون کر دوں گی کہ جب تک مدثر بشیر لاہور واپس نہ آئیں، اس کتاب کی رُونمائی نہ کی جائے۔
سائمن فریزر یونیورسٹی میں ورکشاپ اور دیوِندر ملہانس
یکم نومبر کو بَلی نے سائمن فریزر یونیورسٹی میں Creative Writing کی ورکشاپ کرانی تھی۔ ڈائننگ ہال میں ناشتے کے لیے پہنچے۔ اُس روز وہاں Peach کی جگہ پر کوئی نیا Spanish سپروائزر تھا جس نے ہم دونوں کو قطعاً لفٹ نہ کرائی۔
وہ ناشتے کے واؤچر پر تحریر مینیو سے ہرگز اِدھر اُدھر ہونے کو تیار نہ تھا۔ میں نے اُسے پچھلے دِنوں کی مہمانداری کا بھی بتایا لیکن وہ کسی بھی صورت لچک دکھانے کے لیے تیار نہ تھا۔ خیر جتندر اُسی خوش اخلاق خاتون کو یاد کرتے رہے اور ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں اپنا غصہ بھی نکالتے رہے۔
ہماری باتوں کے دوران ہی دس بجے کے قریب جتندر کے بھائی دیوندر ملہانس بھی آ گئے۔ اُن کے ساتھ ایک دوست بھی تھے۔ دونوں بھائی گلے لگ کر مِلے۔ دیوِندر بھی اپنے بھائی کی طرح ایک کلین شیو اور خوبصورت انسان تھے۔
پہلی بار دیکھنے پر بوبی دیول کا گمان ہوتا تھا۔ میں اُن سے اجازت لے کر اپنے کمرے میں آگیا۔ جلدی جلدی فریش ہو کر کپڑے تبدیل کیے۔ تھوڑی دیر ہی میں جتندر کی کال آ گئی کہ وہ ہوٹل کے پچھلی جانب کی پارکنگ میں ہیں، میں وہیںآ جاؤں۔
میں ہوٹل کی پچھلی جانب کھڑی TAXI پر آیاجہاں ڈرائیونگ سیٹ پر بھارے بھرکم جثے اور خاص پنجابی انداز کی مونچھوں والے دیوندر ملہانس کے دوست ٹِیٹو دھالیوال (Titu Dhaliwal) بیٹھے تھے جو پچھلے سترہ برس سے کینیڈا میں آباد تھے۔
میں اور جتندر روز کی طرح پچھلی سیٹوں پر بیلٹ باندھ کر بیٹھ گئے۔ ہمیں ایک بار پھر SURREYمیں SFU کے کیمپس میں جانا تھا جہاں بلی اپنی کریٹیو رائٹنگ کی ورکشاپ کروا رہی تھیں۔ راستے میں ایک سڑک کے کنارے پٹرول پمپ کے ساتھ ٹم ہارٹنز کیفے میں گئے جہاں دیویندر نے پراٹھا رول نما کوئی شے لے کر دی جو کہ کھانے میں کافی مزیدار تھی۔
یہ سبزیوں سے بنی ہوئی کوئی چیز تھی۔ اس کے ساتھ میں نے چائے کا بڑا کپ لیا جس کے باعث جسم میںحرارت اور توانائی کا احساس جاگ اُٹھا۔ وہاں پر میں نے ایک ٹیبل پر دو پنجابی بھائیوں کو اونچی آواز میں اپنے مستقبل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سُنا۔ ہم لوگ اُن کی باتیں سُن کر ہنستے رہے۔
ایک خاص طرح کابرنچ (Brunch) لے کر ہم سب سائمن فریزر یونیورسٹی کے سامنے والے داخلی دروازے کی جانب سے بڑھے کیونکہ پچھلی بار بارج ہمیں یونیورسٹی کے عقب میں موجود پارکنگ سے لے کر آئے تھے۔
اتنی عظیم الشان عمارت جس کے دروازے پر ہمیں ہمارے دوست چھوڑ کر واپس چلے گئے تھے، ہم تینوں کے لیے یہ عمارت بالکل انجان تھی۔ہم لوگ اُس حصّے کے اندر چلے گئے جہاں انتظامی اور دیگر اداروں کے دفاتر تھے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ جتندر بلاجھجک کوئی بھی دروازہ کھول کر اندر گُھس جائیں ، میں اور دیوندر باہر کھڑے ہو کر ہنستے رہتے۔ اسی طرح ہم پانچویں فلور پر پہنچے لیکن جہاں ہمیں جانا تھا وہ عمارت کا کوئی دُوسرا حصہ تھا۔
اس فلور کے ایک دفتر میں بھی جتندر بے دھڑک داخل ہو گئے، جہاں زیادہ تر چینی تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ خود بھی ہنستے ہوئے باہر آگئے اور کہا:
''وِیرے اِک تاں ایہناں چینیاں دِیاں شکلاں وی اِکو جہیاں ہوندیاں نیں۔''
(''بھائی ایک تو ان چینیوں کی شکلیں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں'')
لیکن اُن کے پیچھے مدد کے لیے ایک چینی ہی اپنے دفتر سے نکلا جو ہمیں نہ صرف نیچے چھوڑ کر آیا بلکہ اشارے سے یہ بھی سمجھا دیا کہ سامنے والی بلڈنگ کی سیڑھیوں اور لفٹ کو استعمال کرتے ہوئے کیسے مقررہ مقام پر پہنچنا ہے۔
اب جتندر کے دماغ میں کیا آئی کہ انہوں نے کہہ دیا کہ لفٹ کی خجل خواری نہیں لینی، سیڑھیوں کے ذریعے ہی اُوپر جائیں گے۔ کینیڈا پہنچ کر جو عجیب و غریب واقعات پیش آ رہے تھے۔
اُن میں ایک اور کا اضافہ ہونے جا رہا تھا۔ میں نے بڑے ہی پیار سے اُن کو چھوٹا بھائی، بڑا بھائی کہہ کرلفٹ کے ذریعے چلنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی بھی صورت ماننے کو تیار نہ تھے۔ پھر دیوِندر نے بھی مجھے حوصلہ دیا۔
پہلے زمینی منزل پر ایک شاپنگ مال میں پھرایا۔ جتندر کچھ خریدنا بھی چاہ رہے تھے لیکن کچھ پسند نہ آیا اور پھر پانچویں فلور تک کی سیڑھیاں وہ ہنستے مسکراتے اور میں اپنے بھاری وجود کو سنبھالتے ہوئے چڑھتا گیا۔
Invitation Leaf پر چھپے ایڈریس پر ہم لوگ پہنچے تو اندر بَلی وائٹ بورڈ اور ہاتھ میں ایک مارکر لیے کھڑی دکھائی دیں۔ میں نے چند منٹ باہر کھڑے ہو کر لمبے لمبے سانس لیے، اپنے حواس بحال کیے اور اندر ہال میں پچھلی جانب جا پہنچے جہاں پر پہلے سے ہرِندر کور جی کی چھوٹی بہن اور اُن کے شوہر پانی، جوس اور کچھ کھانے کی اشیاء کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔
ہمیں بھی جوس کے ڈبے دیئے گئے اور میں خاموشی سے بَلی کی باتیں سننے لگا۔ ہال میں پچاس سے زائد طالب علم تھے جن کا تعلق مختلف ممالک سے تھا۔ وہ بڑے ہی انہماک سے تمام گفتگو سُن رہے تھے۔
بَلی کی گفتگو کے کچھ خاص نکات میں یہاں تحریر کرنا چاہوں گا جو کہ انہوں نے انتہائی Professional انداز میں اور آج کے عہد کی ضرورتوں کومدنظر رکھ کر طالب علموں کو بتائے۔اُن کی گفتگو کا مدعا یہ تھا کہ اچھا لکھاری کس طرح بنا جا سکتا ہے۔
ورکشاپ کے اختتام پر طالب علموں کی ایک بڑی تعداد میرے اور جتندر کے پاس آگئی۔ موبائل کیمروں سے تصاویر، سیلفیز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ان میں سے ایک سولہ سترہ برس کا سِکھ نوجوان ضد میں آگیا کہ آپ لاہور سے آئے ہیں، ہمیں کچھ بتا کر جائیے۔ پہلے میں نے بہت ٹالنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی صورت بھی ٹلتا دکھائی نہ دیا اور اُس کے اس طرح ضد کرنے کے دوران پچیس تیس طالب علم ایک دائرے کی شکل میں میر ے اور جتندر کے اردگرد اکٹھے ہوگئے ۔پھر جتندر نے بڑے ہی پیار سے میرا شانہ دبایا اور کہا:
''گورو جی کجھ دس ہی دیوو۔''
(''گورو جی کچھ بتا ہی دیں۔'')
میں نے بے بسی سے اُن کی جانب اور پھر طالب علموں کی جانب دیکھا۔ پھر میں اُن سے مخاطب ہوا۔
''دیکھو بھائی آپ لوگوں نے ایک انتہائی کامیاب لکھاری بننے کے گُر تو سیکھ لیے ہیں۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں اس طرح کی اپروچ چاہیے لیکن میں تو بس ایک لکھاری بننے پر ذاتی رائے دے سکتا ہوں بھلے وہ کامیاب لکھاری ہو نہ ہو۔ سب سے پہلے بس اپنے سے پہلے کے ناول نگاروں اور کہانی کاروں کو دھیان سے پڑھنا چاہیے۔ اُس کے بعد جو دل کرے، اُس کو بلاجھجک لکھنا چاہیے۔ سب سے پہلے اپنے دل کی تسلی اور سکون کے لیے لکھو۔
من کی شانتی سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس بات کو بالکل بھول جاؤ کہ آپ کا کام کوئی دیکھے گا، کوئی پڑھے گا یا نہیں، کوئی سراہے گا کہ نہیں۔ کسی بھی اور طبقے کو نہ دیکھو۔ عمر، دھرم، جغرافیائی حدود، سب کو بالائے طاق رکھو۔
اگر لکھنے کے بعد کوئی سکون اور خوشی ملتی ہے تو یہی کامیابی ہے۔ اگر ہم جرمن مصنف فرانز کافکا کی زندگی کو دیکھیں تو اُن کی حیات میں تو بس دو چار کہانیاں عام سے ادبی رسالوں میں چھپی تھیں۔ اُن کے اس جہان سے جانے کے بعد اُن کے ایک دوست نے اُن کی تمام تحریریں چھاپیں حالانکہ کافکا کی وصیت تھی کہ سب کچھ جلا دیا جائے۔ آج دیکھیں تو فکشن کافکا کے نام کے بغیر اُدھوری ہے۔''
مقامی ٹرین، سَری اور وینکوور
سائمن فریزر یونیورسٹی سے کوئی دس منٹ کے پیدل فاصلے پر ٹرین سٹیشن ہے۔ ہم لوگ باتیں کرتے اِس سٹیشن پر پہنچے۔ وہاں پرٹکٹوں کے لیے مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ ATM مشین جیسی اِن مشینوں سے اے ٹی ایم کارڈجیسے ٹکٹ نکلتے ہیں جنہیں دروازوں کے Sensors پر لگا کر آگے جایا جاتا ہے۔ دیوندر او رجتندر دونوںبھائی تو ایک دوسرے سے مذاق کرتے جا رہے تھے جبکہ میرا دھیان مکمل طور پر لاہور میں تھا۔
والدہ کی خراب طبیعت جو بعد ازاں بحال ہو چکی تھی، میرے لیے مسلسل باعثِ تشویش تھی۔ یونیورسٹی کے قریبی اسٹیشن سے وینکوور پہنچنے کے لیے راستے میں ایک اسٹیشن سے ایک دوسری ٹرین بھی پکڑنی تھی۔
بیس منٹ کے بعد ہم وینکوور پورٹ کے آخری ٹرین سٹاپ پر اُترے۔ یہ ساحل سمندر کا ایک دوسرا حصہ تھا جو کہ میں اور جتندر ایک روز پہلے بارج کے ساتھ دیکھ آئے تھے لیکن یہاں نیچے بڑی بڑی کارپارکنگ اور ملک کے دیگر علاقوں کو جانے والی ٹرینوں کے لیے بچھی ریل کی پٹڑیاں بھی دکھائی دیں۔ انتہائی ٹھنڈ کے باوجود میرا ماتھا پسینے سے بھیگا پڑا تھا۔
میں اُن دونوں کی نسبت چل بھی آہستہ رہا تھا۔ وہ دونوں گپیں ہانکتے آگے تھے اور میں آہستہ آہستہ پیچھے چل رہا تھا۔ میری اس طرح کی حالت دیکھ کر سکیورٹی میں موجود ایک چائنیز لڑکی نے آگے بڑھ کر کہا۔
''جنٹلمین میں کوئی خدمت کر سکتی ہوں۔''
میں نے اُسے ''نو تھینکس'' کہا اور آگے بڑھ گیا۔ لیکن انتہائی ہمدردی کا یہ رویہ میرے دل میں اُتر گیا۔ اسٹیشن کے ایک حصّے پر ایک بہت بڑا پُل تھا جس سے نیچے اُتر کر ہمیں دُوسری ٹرین لینی تھی۔ ہم لوگوں نے وہاں کھڑے ہو کر کچھ تصاویر لیںاور ساحل پر ایک بہت بڑا بحری جہاز دیکھا۔ دیوِندر نے ہنس کر جتندر کو کہا:
''ایہہ جہاز ساڈے پُورے پنڈ دے برابر ہوونا اے۔''
(یہ جہاز ہمارے پورے گاؤں کے برابر ہوگا)
اُس کی یہ بات سُن کر ہم سب ہنسنے لگے۔
ہم لوگ ا سٹیشن کے نچلے حصے میں پہنچے جو اپنی تعمیر کے لحاظ سے کمال کا بنا ہوا تھا۔ یہیں سے ہم نے اپنی منزل کے لیے ٹرین پکڑنا تھی۔ اسٹیشن کی مشرقی سیدھ کی دیوار کے اُوپر تقریباً ایک صدی پُرانا وال کلاک نصب تھا ۔
اس پر رومن Alphabet، i (1) سے xxii (12)تک تھے جبکہ 13سے 24 تک کو انگریزی ہندسوں میں ظاہر کیا گیا تھا۔ اس فلور پر موجود شوکیسوں میں طرح طرح کی قدیم اشیاء انتہائی قرینے کے ساتھ رکھی ہوئی تھیں۔ یہیں پر سینکڑوں کی تعداد میں سپورٹس سائیکلیں بھی موجود تھیں۔ دِل چاہا کہ اُن کی قیمت معلوم کروں لیکن سارے دن کی محنت نے تھکا کر رکھ دیا تھا۔
اب اگلا مرحلہ اس سے بھی زیادہ محنت طلب تھا کیونکہ سٹیشن سے ہمارا ہوٹل دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ دیوِندر نے گوگل میپ آن کیا ہوا تھا۔ ہم لوگ ٹرین کی پٹری کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے مختلف علاقوں سے گزرے جہاں پر زیادہ تر گاڑیوں کی ورکشاپس دکھائی دیں۔
ریل کی پٹڑیوں اور ورکشاپس کے گرد بھی مجھے پت جھڑ کے باعث گِرے پتے دکھائی دیئے۔ تمام علاقوں میں یہ پتے اپنا ایک الگ ہی جہان بسائے دکھائی دے رہے تھے۔ خیر آہستہ آہستہ چلتے اور دونوں بھائیوں کی گپیں سُنتے ہوٹل پہنچا۔ یہ دن شدید تھکن کا دن تھا۔ میں اپنے کمرے کو چل دیا کیونکہ اب دیوِندر اپنے بھائی جتندر کے لیے لفٹ آپریٹ کرنے کی خاطر موجود تھے۔ کمرے میں آتے ہی میں نے گرم پانی سے بھرپور شاور لیا اور اپنے کمرے کا ہیٹر آن کر کے سو گیا۔ چار بجے کا سویا چھ بجے اُٹھا۔ آج ہمیں ایک ڈنر پر جانا تھا۔
ہم تینوں پریم مان کی گاڑی میں بیٹھ گئے اور باتوں باتوں میں اُس علاقے میں پہنچ گئے جہاں یہ ڈِنر تھا۔ یہ علاقہ بھی اپنے بڑے بڑے گھروں کے باعث انتہائی پوش دکھائی دے رہا تھا۔میزبان کے گھر کا نمبر2688 تھا۔ جب ہم اُن کے گھر میںداخل ہوئے تو بارج کی اپنی فیملی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رگھبیر سنگھ اور اُن کی اہلیہ وہاں موجود تھے۔
اُن کے ساتھ موہن گِل بھی موجود تھے، انتہائی زندہ دل انسان اور بظاہر پچاس برس سے زائد ہرگزنہ دکھائی دیتے تھے لیکن مجھے جب یہ پتہ چلا کہ وہ ستّر (70) برس سے زائدکے ہیں تو اُن کی صحت کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ گھر میں دروازے کے بائیں جانب ایک چھوٹا سا ہال تھا جس میں میزبانوں نے ڈرنکس انتہائی قرینے کے ساتھ سجا کر رکھے ہوئے تھے اور ساتھ ایک ٹیبل پر گرم گرم پکوڑے، کچھ سموسے اور نمکو کی پلیٹیں تھیں۔
ڈرنکس کی ٹیبل پر چھوٹے، بڑے اور بہت چھوٹے شیشے کے گلاس بھی انتہائی خوبصورت دِکھائی دے رہے تھے۔ اس دوران ایک مزاحیہ واقعہ بھی پیش آیا کہ ڈاکٹر رگھبیر سنگھ صرف ایک پیگ کی اجازت کے لیے اپنی اہلیہ کے پاس گئے تو اُن سے اُنہیں مسکراتی جھاڑیں پڑیں جس پر قریب موجود لوگ ہنس دیئے۔
''آپ اپنی عمر اور صحت تو دیکھیں۔''
تھوڑی دیر بعد میرے پاس موہن گِل آ گئے او ر اپنی باتوں سے یہ احساس دلانے لگے کہ میں اپنے آپ کو ہرگز اس لیے اکیلا نہ سمجھوں کہ میں یہاں اس محفل میں اکیلا مسلمان اور پاکستانی تھا۔ وہ بس یہی بات کہہ رہے تھے کہ ہم سب پنجابی ہیں اور ادب کا آپس میں ایک سانجھا رشتہ ہے۔ چند لمحوں بعد کھانا بھی لگا دیا گیا۔
کھانے کی کچھ اشیاء ٹم ہارٹنز اورکچھ گھر کی تیار کردہ تھیں۔ ٹیبل کی ایک سائیڈ سے لوگوں نے کھانا شروع کیا اور دوسری جانب کو گھومتے گئے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار وہ ٹرے اُٹھائی جس میں چھوٹی چھوٹی سی سٹیل کی پیالیاں تھیں ۔ کچھ دیر میں اس کو محو ہو کر دیکھتا رہا کیوں کہ کھانے کی یہ ٹریز(Trays) میں نے ہندی فلموں میں ہی دیکھی تھیں ۔
دیو آنند کی اکثر فلموں میں وہ اپنے والد صاحب سے ناراض بھی ہوتے تھے اوران کی فلمی ماں یہ ڈائیلاگ ضرور بولتی تھیں:
''تیرے باپو دِل کے بُرے نہیں بس ایسے ہی غصہ کرتے ہیں ،لے میں تیرے لیے کھانا پروستی ہوں۔''
جس کے بعد ایسی ہی ٹرے میںکھانا آ جاتا تھا۔
میں کچھ دیر اپنے خاص لاہوری طریقے سے آگے بڑھا اور قطارجہاں پرختم ہو رہی تھی، ادھر سے ہی داخل ہو کر کھانا لینا شروع کیا اور جب غور کیا توپتا چلا کہ میں بالکل مخالف طرف سے جا رہا تھا۔ خیر مجھے وہاں پر سب نے ہنس کر جگہ دی۔ پردیس میں آ کر اس طرح لگ رہا تھا کہ جیسے بُھوک ختم ہی ہو گئی ہو۔
سو میں نے انتہائی مختصر سا کھانا لیا جس میں تھوڑے سے چنے، سلاد، نان کا چوتھائی حصہ اور کچھ گاجر کا حلوہ تھا۔ میری تھکن اتنی زیادہ تھی کہ میں کھانا لے کر ٹی وی لاؤنج کے ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔ گھرکی بزرگ خواتین میرے پاس بار بار آئیں اور لاہور کی باتیں کرتی رہیں۔ بارج کی بہن آئیں تو اُنہوں نے ایک انتہائی خوبصورت جملہ کہا:
''مدثر جی تُسیں تے بس چڑی جِنّا کھاون لِتا اے۔''
(''مدثر جی آپ نے تو چِڑیا کی خوراک کے برابر ہی کھانا لیا ہے۔''
کھانے کے دوران ہی ٹریول ایجنٹ گور پریت کور(رینو سنگھ) کی کال آئی کہ انہوں نے نئے ٹکٹ E-mail کر دیئے ہیں۔میری انعامی رقم میں سے تقریباً دو ہزار ڈالر مِنہا ہو چکے تھے، لیکن ٹکٹوں کو تبدیل کروانا میرے لیے بے حد ضروری تھا۔ میں اپنی ٹریول ایجنٹ کی محبت اور محنت کو کبھی نہ بُھلا سکوں گا۔
کھانے کے بعد بارج نے بَلی، جتندر اورمیرا مختصر سا تعارف اپنے تمام مہمانوں کے ساتھ کرایا اور ایوارڈز کے شروع کرنے سے کچھ عرصہ قبل کے واقعات دُہرائے۔ واپسی پرپریم مان جی کی گاڑی میں ڈاکٹر رگھبیر سنگھ بھی بیٹھ گئے ۔
باتوں باتوں میں دیوِندر نے بتایا کہ اُن کی اہلیہ الیکٹرک بس چلاتی ہیں۔ میرے لیے یہ اور بھی حیران کُن تھا کہ جب دیوِندر نے بتایا کہ الیکٹرک بسوں کی زیادہ ڈرائیورز ہندوستانی خواتین ہیں۔ اُنہوں نے مختلف ریاستوں میں لاگو ٹیکسوں کے بارے میں بھی بتایا کہ ہر ریاست کے اپنے ٹیکس کے نظام ہیں جو کہ زیادہ تر موسمی حالات کے باعث ہیں۔ خصوصاً برٹش کولمبیا میں بہت سی اشیاء اسی وجہ سے کیلگری کی بہ نسبت مہنگی ہیں۔
میں نے چرچ کی تصاویر لیتے ہوئے واقعہ کو دوہرایا تو ڈاکٹررگھبیر نے بتایاکہ صرف زیبرا کراسنگ سے پیدل چلنا ہی کافی نہیںبلکہ قریبی الیکٹرک پول کے ساتھ لگا ایک Clear کا بٹن بھی دبانا پڑتا ہے تاکہ باقی ٹریفک درست طریقے سے چل سکے۔ یوںباتیں کرتے ہم لوگ ہوٹل پہنچے۔
2 نومبر کا دن خاص اہمیت کا حامل تھا۔ شام کو Prize Distribution Ceremony ... اور دن کا تمام وقت مجھے نشا رائے کے ساتھ بِتانا تھا۔ روز کی طرح صبح کا آغاز جتندر کی کال پر گڈ مارننگ سے ہوا۔ میں جلدی جلدی سے فریش ہوا تو نیچے لابی میں دیوِندر اور جتندر دونوں پہلے سے میرا انتظار کر رہے تھے۔
ہم تینوں ناشتے کے لیے ڈائننگ ہال گئے تو اُس روز بھی سنجیدہ اور رنجیدہ قسم کے Spanish سپروائزر سے آمنا سامنا ہوا۔ اُس نے بغیر کسی تعاون کے مینیو پر درج ناشتہ ہماری میز پر بھجوا دیا۔ اُس کے اِس روئیے کے بعد جتندر، دیوِندر کو پچھلی خاتون سپروائزر کی خوبیاں گنواتے رہے کہ وہ کتنی مستعد اور برق رفتار تھی۔ اُس کی مسکراہٹ کتنا اچھا تاثر چھوڑتی تھی اور حاضر سپروائزر سے اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرتے رہے۔
اُن کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے مجھے نِشا کی کال آ گئی کہ وہ پہنچنے والی ہے۔ دس بجے کے قریب وہ میرے کمرے میں آ گئیں۔ آتے ہی مجھ سے اپنے غصّے کا اظہار کیا کہ میں اتنی جلدی واپس کیوں جا رہا ہوں اور پھر یہ بات اس طرح ختم ہوئی کہ میں جب اگلی بار آؤں گا تو امریکا کا ویزا بھی لگوا کر آؤں گا تاکہ وینکوور کے ساتھ ہی اُن کی ریاست واشنگٹن میں اُن کے گھر کچھ دن رہ سکوں۔
اُس کے بعد ہم دونوں لاہور میں گزرے لمحات، لوہاری دروازہ، حاجی نہاری اور کنور نونہال سنگھ کی حویلی کی سیر کو یاد کرنے لگے۔ اکرم وڑائچ کا بھی ذکر ہوا جنہیں وہ پیار سے ''بھائ'' کہتی تھیں۔ ہم ان معاملات پر محوِ گفتگو تھے کہ جتندر کی کال آئی کہ وہ پریم مان کے ساتھ سری کے لیے نکل رہے ہیں ۔میں جلدی سے فریش ہو کر نشا کے ساتھ باتیں کرتا نیچے اُن کی گاڑی کو چل دیا۔
میں جب سے آیا تھا تو میرے سری کے کئی چکر لگ چکے تھے اور آج آخری مرتبہ اُدھر جانا تھا۔ پھر ''یاقسمت یا نصیب'' کی بات تھی۔ سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ وینکوور کی کھلی سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی شاید ہفتے کے دن ہفتہ وار چھٹی ہونے کے باعث ایسا تھا۔ ہوا میں پچھلے دنوں کی نسبت تیزی کچھ زیادہ تھی۔
خزاں کے اس موسم میں کہیں تو بلند و بالا درخت اپنے رنگین پتوں کے ساتھ ایک عجب نظارہ پیش کر رہے تھے اور کہیں ایسے درخت بھی موجود تھے جن کو دیکھ کر گماں ہوتا تھا کہ شاید انہیں کبھی سبزے کا پیرہن مِلا ہی نہیں۔ اور اُن کے قدموں میں اُن کا پیرہن پتوں کی صورت میں دھرتی سے محوِ گفتگو تھا۔
سری شہر کے ساتھ ساتھ سڑک کے کچھ فاصلے پر سرسبزپہاڑیوں پر آبادیوںکا ایک خوبصورت سلسلہ تھا۔ ہم دونوں ایک مرتبہ پھر ہندوستانی کھانوں کے ہوٹل Spice 72 پہنچے۔ ہم سے پہلے ہی ڈاکٹر رگھبیر سنگھ، پریم مان، جتندر ہانس اور دیویندر ملہانس پہنچ چکے تھے۔ کھانے کی ایک بڑی میز اُنہوں نے مختص کروا لی تھی۔
وہاں ان مہمانوں کے ساتھ ساتھ دو خواتین اور بھی تھیں۔ ایک خاتون جو کہ اپنے آپ میں بالکل انگریز ہی دکھائی دیتی تھیں وہ نِشا ہی کی ریاست واشنگٹن سے اُدھر آئی تھیں، اُن کا نام پرویز سندھو تھا۔
وہ لکھاری پرویز جن کا ذکر میں جتندر اور دوِندر سے کئی مرتبہ سُن چکا تھا اور میرے گمان میں وہ کوئی مسلمان مرد لکھاری تھا اور جب تعارف ہوا تو وہ ایک ہندوستانی سکھ خاتون تھیں جو کئی برسوں سے وہاں آن کر بسی ہوئی تھیں۔ اُن کے ساتھ دوسری خاتون ہرکیرت کور چاہل تھیں۔ بے انتہا سادہ، ماتھے پر ایک گلابی رنگ کی بِندی اور سیدھی سیدھی پنجابی جو کہ رعب ڈالنے کے لیے قطعاً انگریزی استعمال نہیں کر رہی تھیں۔
مجھے اپنے دیہات کی وہ خواتین یاد آ گئیں جن کومیں نے اپنے بچپن میں ہر طرح کے تصنع اور بناوٹ سے پاک دیکھا تھا۔ وہیں پر مزید تعارف یہ ہوا کہ وہ ہرِندر کور جی کے ساتھ ایک سکول میں سائنس سبجیکٹ پڑھاتی رہی ہیں۔
اُن کا شمار اُبھرتی ہوئی خواتین ناول نگاروں میں کیا جاتا ہے۔ ناول نگاری کے ساتھ ساتھ وہ پنجابی گیت، شاعری کی دیگر اصناف اور کہانی پر بھی ملکہ رکھتی ہیں۔ اُن دنوں وہ اپنی سوانح حیات کا ایک حصہ ''میں اِنج پردیسن ہوئی''کے عنوان سے تحریر کر رہی تھیں۔
جس میں ان کے ہندوستان سے کینیڈا آن بسنے کا احوال درج ہے۔ اُن کی تحریروں کو ایک انتہائی سینئر بزرگ ناول نگار دلیپ کور ٹوانہ بھی بہت زیادہ سراہتی ہیں۔ ہر کیرت ایک قریبی شہر چِلی ویک (Chilliwack)میں رہتی تھیں۔ پریم مان کے تعارف کروانے کے دوران ہی پرویز اُن کی طرح کے مذاق کر چکی تھیں۔
میرے خیال میں پنجابی زبان کا لفظ ''جگتیں''زیادہ بہتر رہے گا۔ اس دوران ڈاکٹر رگھبیر کے کہنے پر کھانے کا آرڈر دے دیا گیا۔ جس کے ساتھ ہی میزبانی یعنی کہ بل بارے گفتگو شروع ہو گئی۔ سو میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ میزبان ڈاکٹر رگھبیر سنگھ تھے، پریم مان یا وہاں پر آئی وہ دونوں مہمان خواتین۔ میں نے اپنے ساتھ آئی نِشا کا تعارف کرایا تو ڈاکٹر رگھبیر سنگھ نے بتایا کہ وہ نِشا کے والد کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ایک زمانے میں وہ دونوں گہرے دوست رہے ہیں۔
گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا جس میں حاضرین مسلسل جتندر کی تحریروں کی تعریفوں کے پُل باندھ رہے تھے اور وہ جواب میں ہر ایک کو محض شرما کر دیکھ رہے تھے اور پریم مان ہر جملے کے بعد پرویز سندھو اور ہرکیرت کور چاہل کے کسی ذومعنی اور مزاحیہ جملے کے نشانے پر تھے۔
میرے ساتھ ایک مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے ہاں لاہو ر میں مذا ق کا ایک بڑا ہی خاص معیار موجود تھا اور مجھے یہ تمام باتیں روزمرہ کی دکھائی دے رہی تھیں۔ مجھے ان جملوں پر تو قطعاً کوئی ہنسی نہ آ رہی تھی بلکہ اپنے گرد بیٹھے ہنستے افراد پر بھی ہنسی آ رہی تھی۔
اس دوران کھانا میز پر لگا دیا گیا۔ ایک پلیٹ میں آلو والا پراٹھا آیا تو میں ایک بار پھر سے حیران ہوگیا کیونکہ میرے دماغ میں تو لاہور میں توؤں پر بنے پراٹھے تھے اور یہ تندو ر میں لگا ہوا ایک پراٹھا تھا جس کو اگر آلو والی تندوری روٹی کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔
میں اس پراٹھے کو دیکھ کر ہنسنے لگا اور میرے ساتھی سمجھ رہے تھے کہ میں پرویز کی کسی بات پر ہنس رہا ہوں۔ خیر میں نے اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کیا اور پہلی بار گفتگو میں حصّہ لے کر پرویز سندھو سے اُن کے نام کے بارے میں پوچھا کہ یہ ایک مردانہ اور مسلم نام کس طرح ہے۔ تو اس کے جواب میں اُنہوں نے مجھے مختصراً یہ بتایا کہ تقسیم سے قبل اُن کے والدین کراچی میں رہا کرتے تھے اور اُن کے ابا کے گہرے دوستوں میں سے ایک مسلمان صاحب بھی تھے جن کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام پرویز تھا۔ جب تقسیم کے دوران فسادات بڑھے تو وہ مسلمان خاندان اُن کو بحفاظت سرحد پار چھوڑ کر آیا۔
اُس وقت اُن کے والد نے نیت کر لی تھی کہ اگر کوئی بیٹا ہوا تو اُس کا نام پرویز رکھا جائے گا۔ بچے ہوئے مگر بیٹا نہ ہوا تو اُنہوں نے اپنے دوست کی یاد اور نیت کو نبھایا اور اپنی بیٹی کا نام پرویز سندھو رکھ دیا۔ کھانا ختم ہونے کے بعد میزبان اور مہمان سبھی آہستہ آہستہ باہر کو نکلے۔ ہرکیرت کور چاہل کے ہاتھ میں اُن کا گورمکھی میں لکھا ناول 'آدم گرہن' تھا۔
اُن کی سادگی نے مجھے مجبور کیا کہ میں اُن سے 'آدم گرہن' کی یہ کاپی مانگوں۔ مجھے گورمکھی رسم الخط بھی سیکھنا تھا۔ دل میں یہ بات آئی ، جب بھی یہ رسم الخط سیکھا تو سب سے پہلے یہ ناول ہی پڑھوں گا۔ میں نے اُن سے ناول کی درخواست کی جو اُنہوں نے بڑی خوشی سے قبول کی اور گورمکھی میں لکھ کر بھی دیا تو میں نے اُن سے ایک بار پھر درخواست کی کہ کچھ انگریزی میں لکھ کر دیں، یہ میں پڑھ نہیں سکتا تو اُنہوں نے پھر ایک جملہ لکھا اور دستخط کردیئے۔
اور یہ بھی بتایا کہ لاہور میں ہمارے ایک پنجابی پیارے آصف رضا نے اس ناول کو ''تیجی مخلوق'' کے نام سے شاہ مُکھی میں منتقل کیا ہے اور ساتھ ساتھ کہا کہ میں امجد سلیم منہاس سانجھ پبلی کیشنز والوں کو آج فون کر دوں گی کہ جب تک مدثر بشیر لاہور واپس نہ آئیں، اس کتاب کی رُونمائی نہ کی جائے۔