معیشت کی مضبوطی کفایت شعاری میں مضمر
ایک طرف مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے تو دوسری طرف عوام اپنی زندگی میں میانہ روی سے محروم
موجودہ اتحادی حکومت ملک کے معاشی اور اقتصادی حالات سدھارنے اور قرضوں سے بچنے کے لیے کفایت شعاری اور بچت مہم کا آغاز کر رہی ہے کیونکہ ہم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرض لینا اپنی قوم کو جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔
گیس، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والا ہوش ربا اضافہ ایک جانب، شرح کرنسی میں روپے کی بے قدری تو دوسری بڑی یہ شرائط ہیں جن کی بناء پر حکومت کو قرض ملتا ہے۔
فی الوقت حکومتی اقدامات اور تیل، گیس، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، شرح کرنسی میں روپے کی قدر میں کمی اور ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد ہو شربا مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقہ کا بجٹ بری طرح متاثر کردیا ہے اور وقتی طور پر بالخصوص غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے عوام حکومت سے ناخوش نظر آرہے ہیں کیونکہ آمدن کے ذرایع محدود ہونے کے بعد اخراجات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور ایسے حالات میں کفایت شعاری مجبوری بن جاتی ہے، یہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے اور خزانہ خالی ہے۔
سابق حکمرانوں کی جانب سے کرپشن اور لوٹ مار ہوئی، جس کی وجہ سے حکومت چلانا انتہائی مشکل ہے اور بیرونی ممالک سے کڑی شرائط پر قرض کی صورت میں امداد کے لیے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ٹیکس نہ دینے کا رونا رویا جاتاہے حالانکہ سب سے زیادہ ٹیکس غریب اور متوسط طبقہ دیتا ہے کیونکہ وہ ٹیکس دہندگان کی لسٹ میں نہیں ہیں۔
انھیں آمدنی کے گوشوارے نہیں بھرنے پڑتے' اس لیے وہ ٹیکس چوری سے بچے ہوئے ہیں لیکن اس کے برعکس ماچس، کولڈ ڈرنک، جوسز، دودھ کے ڈبے' مصالحے، گھی، کوکنگ آئل سمیت درآمد شدہ دوائیاں ہوں یا کاسمیٹکس ہر استعمال کنندہ ٹیکس ادا کرتا ہے جب کہ روز بروز ٹیکس دہندگان کا دائرہ وسیع کرنے کے باوجود ٹیکس وصولی کے اہداف پورے نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے حکومت چلانے میں حکمرانوں کو کڑے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے مارک اپ کے ساتھ ساتھ کڑی شرائط پر قرض لیا جاتا ہے۔
ملک کا یہ عجب المیہ ہے کہ یہاں کے عوام غیر ذمے دار نوکر شاہی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے جب کہ افسران کے لامحدود اختیارات اور فضول خرچی بھی ملک کے مالیاتی نظام کو کسی نہ کسی طرح مجروح کرتی ہے، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتیں بدل جاتی ہیں، افسران اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔
لہٰذا سرکاری دفاتر میں ورک کلچر پیدا کرکے کام کرنے کی صحت مند فضا تیار ہونا چاہیے، جس کے مطابق وقت پر کام ہو، بابوؤں کی حاضری مقررہ وقت کے مطابق ہوتی رہے۔ حکومت کم خرچ بالا نشیں کا فارمولہ اپنائے اور سرکاری افسران اپنے دفاتر کے اخراجات میں کفایت شعاری کو اپناتے ہوئے رضاکارانہ تخفیف کی شروعات کریں ، خاص طور پر غیر منصوبہ بند بجٹ میں کچھ فیصد کی کمی ضرور لائیں۔
دنیا کے امیر ترین شخص فیس بک کے مالک ذکر بک کا کہنا ہے کہ ہنی مون کے دوران اٹلی میں سستے برگر کھا کر بچت کرتا رہا ، بل گیٹس کا شمار بھی دنیا کے امیر ترین اشخاص میں ہوتا ہے مگر ان کی کلائی میں گھڑی کی قیمت صرف 10ڈالرز ہے،جیک ماکی علی بابا گروپ کے بانی و چیئرمین جیک ما بھی امیر ترین شخصیت کے مالک ہیں مگر نمود و نمائش کے مخالف ہیں اور اپنی ذاتی زندگی کو لوگوں کی نگاہوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب اب عوام نے اپنی ان مختصر اور سادہ ضروریات کو کھینچ تان کر بہت پھیلا لیا ہے۔ انواع واقسام کے کھانے ، طرح طرح کے سالن ،پلاؤ ، قورمہ ،بریانی ،کوفتے ،کباب ، جیلی ، جام ، مکھن ، پھر انڈا کئی طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے انسان ان سب چیزوں کو بیک وقت استعمال نہیں کرتا۔ اسی طرح مختلف ڈیزائنوں اور فیشنوں کے کپڑوں کے سیکڑوں اور بیسیوں جوڑے ، صبح کا لباس الگ ، شام کا لباس الگ دفتر کا الگ ، گھر کا لباس الگ، رات کو سونے کا لباس الگ طرح طرح کے جوتوں کے ڈھیروں جوڑے ، مکان وسیع وعریض ، ضروریات اور آرام سے آگے بڑھ کر تعیشات کا استعمال ، خود کار دروازے اورمشینیں ، وی سی آر، ڈی وی ڈی وغیرہ آمدورفت کے لیے موٹر سائیکل اور کئی کئی انواع واقسام کی کاریں۔ یہ طرز زندگی فضول خرچی کا غماز ہے اور کفایت شعاری کے طریقے کے بالکل برعکس ہے۔
انسان کی دولت خواہ کتنی ہو اور اس کے وسائل خواہ کیسے ہی بے حد و بے حساب ہوں ، بہرحال یہ دولت اور وسائل ایک نہ ایک دن ختم ہونے والے ہیں۔
درحقیقت فضول خرچی ، سادہ طرز زندگی سے انحراف کا نتیجہ ہے جدید دور میں اشتہار بازی نے ہماری زندگیوں سے سادگی کو ختم کردیا ہے ، نئے فیشن ، نئے ڈیزائن ، نئی نئی چیزوں کی کثرت نے ہماری زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔ ہم نئی چیزوں اور فیشنوں کے شوق میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں ، پھر قرض لیتے ہیں اور کچھ نہیں تو قرض پر چیزیں لے کر قسطوں میں ادائیگیاں کرتے ہیں۔
ہمارے بزرگوں اور بڑوں نے ہمارے لیے زندگی اور معاشرت کا جو نمونہ چھوڑا ، وہ انتہا درجے کی سادگی پر مبنی تھا۔ ہم نے سادگی کے اس راستے کو چھوڑ کر خود کو مشکل میں مبتلا کرلیا ہے کفایت شعاری ہماری اپنی ضرورت بھی ہے کم روپیہ خرچ کریں گے، غیر ضروری اخراجات سے بچیں گے توہم کچھ پس انداز اور بچت کرنے کے لائق ہوسکیں گے۔
یہ بچایا ہوا روپیہ کل کسی مشکل یا مصیبت کے وقت ہمارے ہی کام آئے گا یوں انفرادی سطح پر کفایت شعاری ہمیں تحفظ مہیا کرتی ہے اجتماعی حیثیت سے دیکھیں تو یہ بچایا ہوا روپیہ ملک کی ترقیاتی اسکیموں میں استعمال ہوگا اور اس کا فائدہ پورے ملک اور پوری قوم کو پہنچے گا کفایت شعاری سے مہنگائی کو روکنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
معاشیات کا اصول ہے کہ خریداری جتنی ہوگی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اگر ہم بے تحاشہ خریداری سے اجتناب کریں گے تو قیمتوں میں اضافے کا رجحان کم ہوگا ، قیمتیں اعتدال پر رہیں گی اور یوں مہنگائی سے خاصی حد تک چھٹکارا ملے گا۔ مثل مشہور ہے کہ ''چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں'' یعنی عقلمندی یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کے مطابق زندگی گزاریں۔
نمود و نمائش سے پرہیز کریں شاندارعمارات ، آرائشی ساز وسامان، اشیائے تعیش اور فیشن پرستی کی دوڑ میں شریک ہونے کے بجائے اپنی ضروریات کو محدود رکھیں۔ اے سی کے تھرمو اسٹیٹ میں چند ڈگری کی تبدیلی آپ کے بجلی کے بل میں نمایاں کمی لاسکتی ہے۔ اے سی کو 20 سے اوپر کسی لیول پر رکھ کر پیسے کی بچت کی جا سکتی ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں بجلی کا بل ہی عام طور پر متوسط طبقے کی بچت کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے اور اس سے بچنے کے لیے غیر ضروری روشنیوں یا مصنوعات کو بند رکھنا ضروری ہے، خاص طور پر گھر سے نکلتے وقت بجلی کی مصنوعات بند کر دینا پیسے اور حادثات دونوں سے بچت ہوتی ہے۔
پاکستان میں بجلی کے پیک اور آف گھنٹے بھی ہوتے ہیں یعنی پیک وہ گھنٹے جب بجلی کا ریٹ زیادہ ہوتا ہے، تو اگر آپ اپنی مصنوعات کو ہر وقت چلانے کے بجائے آف پیک گھنٹوں میں چلائیں تو کافی بچت کی جاسکتی ہے۔ ان گھنٹوں کے بارے میں آپ یوٹیلیٹی کمپنی سے معلوم کرسکتے ہیں۔
بازار جاتے وقت یہ سوچ کر نکلیں کہ کھانے کے لیے کیا کچھ لینا ہے ، اگر آپ بازار میں خریداری کے لیے یہ سوچے بغیر جائیں گے تو خوامخواہ ایسی چیزیں بھی گھر لے آئیں گے جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بازار میں جاکر کسی ایک جگہ کے بجائے دو یا3 دکانوں پر جاکر ایک چیز کی قیمت دیکھیں اور پھر ان میں سے قیمت کے لحاظ سے بہترین آپشن کا انتخاب کریں۔
آج کل باہر کھانے کا رجحان ایک عادت بن چکا ہے جس پر لوگ ہزاروں روپے اڑا دیتے ہیں جو کہ باآسانی بچائے جاسکتے ہیں، مثال کے طور پر دفتر جانے والے افراد باہر کی غذا کے بجائے گھر سے کھانا لے جانا شروع کردیں تو ان کی کافی بچت ہوسکتی ہے۔
ایک طرف مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے تو دوسری طرف عوام اپنی زندگی میں میانہ روی سے محروم اور بے اعتدالی کا شکار ہیں۔ عیاشی کا سامان زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ '' اسٹیٹس'' برقرار رکھنے کی ہوس زور پکڑنے لگی ہے، جب کہ افراط و تفریط اور بے اعتدالی وہ معاشرتی اور اخلاقی خامیاں ہیں، جنھیں کبھی اور کہیں بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا۔ اس کے برعکس میانہ روی اور اعتدال کو ہمیشہ قابل تعریف قرار دیا گیا ہے۔
افراط و تفریط اور بے اعتدالی چاہے زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہو اور کسی بھی کام میں ہو، اس کے نتائج اور اثرات نقصان دہ اور مایوس کن ہوتے ہیں۔
برے اعمال تو ایک طرف رہے اچھے اعمال میں بھی بے اعتدالی پسندیدہ نہیں ہے۔ ظاہر پرستی کا رویہ چھوڑ کر سادہ روش اپنائیں۔ اس طرح نہ صرف ہم مالی طور پر آسودہ حال ہوں گے بلکہ سادگی اور کفایت شعاری ہمیں خوش حال بنائے گی،اس کا اثر ہماری ملکی معیشت پر مرتب ہوگا۔
گیس، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والا ہوش ربا اضافہ ایک جانب، شرح کرنسی میں روپے کی بے قدری تو دوسری بڑی یہ شرائط ہیں جن کی بناء پر حکومت کو قرض ملتا ہے۔
فی الوقت حکومتی اقدامات اور تیل، گیس، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، شرح کرنسی میں روپے کی قدر میں کمی اور ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد ہو شربا مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقہ کا بجٹ بری طرح متاثر کردیا ہے اور وقتی طور پر بالخصوص غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے عوام حکومت سے ناخوش نظر آرہے ہیں کیونکہ آمدن کے ذرایع محدود ہونے کے بعد اخراجات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور ایسے حالات میں کفایت شعاری مجبوری بن جاتی ہے، یہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے اور خزانہ خالی ہے۔
سابق حکمرانوں کی جانب سے کرپشن اور لوٹ مار ہوئی، جس کی وجہ سے حکومت چلانا انتہائی مشکل ہے اور بیرونی ممالک سے کڑی شرائط پر قرض کی صورت میں امداد کے لیے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ٹیکس نہ دینے کا رونا رویا جاتاہے حالانکہ سب سے زیادہ ٹیکس غریب اور متوسط طبقہ دیتا ہے کیونکہ وہ ٹیکس دہندگان کی لسٹ میں نہیں ہیں۔
انھیں آمدنی کے گوشوارے نہیں بھرنے پڑتے' اس لیے وہ ٹیکس چوری سے بچے ہوئے ہیں لیکن اس کے برعکس ماچس، کولڈ ڈرنک، جوسز، دودھ کے ڈبے' مصالحے، گھی، کوکنگ آئل سمیت درآمد شدہ دوائیاں ہوں یا کاسمیٹکس ہر استعمال کنندہ ٹیکس ادا کرتا ہے جب کہ روز بروز ٹیکس دہندگان کا دائرہ وسیع کرنے کے باوجود ٹیکس وصولی کے اہداف پورے نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے حکومت چلانے میں حکمرانوں کو کڑے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے مارک اپ کے ساتھ ساتھ کڑی شرائط پر قرض لیا جاتا ہے۔
ملک کا یہ عجب المیہ ہے کہ یہاں کے عوام غیر ذمے دار نوکر شاہی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے جب کہ افسران کے لامحدود اختیارات اور فضول خرچی بھی ملک کے مالیاتی نظام کو کسی نہ کسی طرح مجروح کرتی ہے، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتیں بدل جاتی ہیں، افسران اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔
لہٰذا سرکاری دفاتر میں ورک کلچر پیدا کرکے کام کرنے کی صحت مند فضا تیار ہونا چاہیے، جس کے مطابق وقت پر کام ہو، بابوؤں کی حاضری مقررہ وقت کے مطابق ہوتی رہے۔ حکومت کم خرچ بالا نشیں کا فارمولہ اپنائے اور سرکاری افسران اپنے دفاتر کے اخراجات میں کفایت شعاری کو اپناتے ہوئے رضاکارانہ تخفیف کی شروعات کریں ، خاص طور پر غیر منصوبہ بند بجٹ میں کچھ فیصد کی کمی ضرور لائیں۔
دنیا کے امیر ترین شخص فیس بک کے مالک ذکر بک کا کہنا ہے کہ ہنی مون کے دوران اٹلی میں سستے برگر کھا کر بچت کرتا رہا ، بل گیٹس کا شمار بھی دنیا کے امیر ترین اشخاص میں ہوتا ہے مگر ان کی کلائی میں گھڑی کی قیمت صرف 10ڈالرز ہے،جیک ماکی علی بابا گروپ کے بانی و چیئرمین جیک ما بھی امیر ترین شخصیت کے مالک ہیں مگر نمود و نمائش کے مخالف ہیں اور اپنی ذاتی زندگی کو لوگوں کی نگاہوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب اب عوام نے اپنی ان مختصر اور سادہ ضروریات کو کھینچ تان کر بہت پھیلا لیا ہے۔ انواع واقسام کے کھانے ، طرح طرح کے سالن ،پلاؤ ، قورمہ ،بریانی ،کوفتے ،کباب ، جیلی ، جام ، مکھن ، پھر انڈا کئی طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے انسان ان سب چیزوں کو بیک وقت استعمال نہیں کرتا۔ اسی طرح مختلف ڈیزائنوں اور فیشنوں کے کپڑوں کے سیکڑوں اور بیسیوں جوڑے ، صبح کا لباس الگ ، شام کا لباس الگ دفتر کا الگ ، گھر کا لباس الگ، رات کو سونے کا لباس الگ طرح طرح کے جوتوں کے ڈھیروں جوڑے ، مکان وسیع وعریض ، ضروریات اور آرام سے آگے بڑھ کر تعیشات کا استعمال ، خود کار دروازے اورمشینیں ، وی سی آر، ڈی وی ڈی وغیرہ آمدورفت کے لیے موٹر سائیکل اور کئی کئی انواع واقسام کی کاریں۔ یہ طرز زندگی فضول خرچی کا غماز ہے اور کفایت شعاری کے طریقے کے بالکل برعکس ہے۔
انسان کی دولت خواہ کتنی ہو اور اس کے وسائل خواہ کیسے ہی بے حد و بے حساب ہوں ، بہرحال یہ دولت اور وسائل ایک نہ ایک دن ختم ہونے والے ہیں۔
درحقیقت فضول خرچی ، سادہ طرز زندگی سے انحراف کا نتیجہ ہے جدید دور میں اشتہار بازی نے ہماری زندگیوں سے سادگی کو ختم کردیا ہے ، نئے فیشن ، نئے ڈیزائن ، نئی نئی چیزوں کی کثرت نے ہماری زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔ ہم نئی چیزوں اور فیشنوں کے شوق میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں ، پھر قرض لیتے ہیں اور کچھ نہیں تو قرض پر چیزیں لے کر قسطوں میں ادائیگیاں کرتے ہیں۔
ہمارے بزرگوں اور بڑوں نے ہمارے لیے زندگی اور معاشرت کا جو نمونہ چھوڑا ، وہ انتہا درجے کی سادگی پر مبنی تھا۔ ہم نے سادگی کے اس راستے کو چھوڑ کر خود کو مشکل میں مبتلا کرلیا ہے کفایت شعاری ہماری اپنی ضرورت بھی ہے کم روپیہ خرچ کریں گے، غیر ضروری اخراجات سے بچیں گے توہم کچھ پس انداز اور بچت کرنے کے لائق ہوسکیں گے۔
یہ بچایا ہوا روپیہ کل کسی مشکل یا مصیبت کے وقت ہمارے ہی کام آئے گا یوں انفرادی سطح پر کفایت شعاری ہمیں تحفظ مہیا کرتی ہے اجتماعی حیثیت سے دیکھیں تو یہ بچایا ہوا روپیہ ملک کی ترقیاتی اسکیموں میں استعمال ہوگا اور اس کا فائدہ پورے ملک اور پوری قوم کو پہنچے گا کفایت شعاری سے مہنگائی کو روکنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
معاشیات کا اصول ہے کہ خریداری جتنی ہوگی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اگر ہم بے تحاشہ خریداری سے اجتناب کریں گے تو قیمتوں میں اضافے کا رجحان کم ہوگا ، قیمتیں اعتدال پر رہیں گی اور یوں مہنگائی سے خاصی حد تک چھٹکارا ملے گا۔ مثل مشہور ہے کہ ''چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں'' یعنی عقلمندی یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کے مطابق زندگی گزاریں۔
نمود و نمائش سے پرہیز کریں شاندارعمارات ، آرائشی ساز وسامان، اشیائے تعیش اور فیشن پرستی کی دوڑ میں شریک ہونے کے بجائے اپنی ضروریات کو محدود رکھیں۔ اے سی کے تھرمو اسٹیٹ میں چند ڈگری کی تبدیلی آپ کے بجلی کے بل میں نمایاں کمی لاسکتی ہے۔ اے سی کو 20 سے اوپر کسی لیول پر رکھ کر پیسے کی بچت کی جا سکتی ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں بجلی کا بل ہی عام طور پر متوسط طبقے کی بچت کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے اور اس سے بچنے کے لیے غیر ضروری روشنیوں یا مصنوعات کو بند رکھنا ضروری ہے، خاص طور پر گھر سے نکلتے وقت بجلی کی مصنوعات بند کر دینا پیسے اور حادثات دونوں سے بچت ہوتی ہے۔
پاکستان میں بجلی کے پیک اور آف گھنٹے بھی ہوتے ہیں یعنی پیک وہ گھنٹے جب بجلی کا ریٹ زیادہ ہوتا ہے، تو اگر آپ اپنی مصنوعات کو ہر وقت چلانے کے بجائے آف پیک گھنٹوں میں چلائیں تو کافی بچت کی جاسکتی ہے۔ ان گھنٹوں کے بارے میں آپ یوٹیلیٹی کمپنی سے معلوم کرسکتے ہیں۔
بازار جاتے وقت یہ سوچ کر نکلیں کہ کھانے کے لیے کیا کچھ لینا ہے ، اگر آپ بازار میں خریداری کے لیے یہ سوچے بغیر جائیں گے تو خوامخواہ ایسی چیزیں بھی گھر لے آئیں گے جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بازار میں جاکر کسی ایک جگہ کے بجائے دو یا3 دکانوں پر جاکر ایک چیز کی قیمت دیکھیں اور پھر ان میں سے قیمت کے لحاظ سے بہترین آپشن کا انتخاب کریں۔
آج کل باہر کھانے کا رجحان ایک عادت بن چکا ہے جس پر لوگ ہزاروں روپے اڑا دیتے ہیں جو کہ باآسانی بچائے جاسکتے ہیں، مثال کے طور پر دفتر جانے والے افراد باہر کی غذا کے بجائے گھر سے کھانا لے جانا شروع کردیں تو ان کی کافی بچت ہوسکتی ہے۔
ایک طرف مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے تو دوسری طرف عوام اپنی زندگی میں میانہ روی سے محروم اور بے اعتدالی کا شکار ہیں۔ عیاشی کا سامان زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ '' اسٹیٹس'' برقرار رکھنے کی ہوس زور پکڑنے لگی ہے، جب کہ افراط و تفریط اور بے اعتدالی وہ معاشرتی اور اخلاقی خامیاں ہیں، جنھیں کبھی اور کہیں بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا۔ اس کے برعکس میانہ روی اور اعتدال کو ہمیشہ قابل تعریف قرار دیا گیا ہے۔
افراط و تفریط اور بے اعتدالی چاہے زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہو اور کسی بھی کام میں ہو، اس کے نتائج اور اثرات نقصان دہ اور مایوس کن ہوتے ہیں۔
برے اعمال تو ایک طرف رہے اچھے اعمال میں بھی بے اعتدالی پسندیدہ نہیں ہے۔ ظاہر پرستی کا رویہ چھوڑ کر سادہ روش اپنائیں۔ اس طرح نہ صرف ہم مالی طور پر آسودہ حال ہوں گے بلکہ سادگی اور کفایت شعاری ہمیں خوش حال بنائے گی،اس کا اثر ہماری ملکی معیشت پر مرتب ہوگا۔