خوراک کی درآمد اور قطعہ اراضی

قطعہ اراضی کو چھوٹے بڑے پارک میں تبدیل کیا جائے یا وہاں پر درختوں کا جنگل لگا دیا جائے

وفاقی ادارہ شماریات نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ رواں مالی سال جس کا آغاز جولائی 2022 سے ہوا تھا اور جنوری کے اختتام تک ان 7 ماہ کے دوران 13کھرب 47 ارب مالیت کی اشیائے خور و نوش درآمد ہوئی ہیں۔

میں اس بات کا بارہا ذکر کر چکا ہوں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ پاکستان کے دو اہم ترین پیداواری خطے سندھ اور پنجاب زمانہ قدیم سے اپنی زرعی پیداوار کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور تھے۔

قیام پاکستان سے قبل برصغیر کا اناج گھر انھی علاقوں کو کہا جاتا تھا، لیکن جدید ٹیکنالوجی کے دور کی آمد کے باوجود پاکستان فی ایکڑ پیداوار کے معاملے میں دنیا کے بہت سے ملکوں سے پیچھے ہے۔

ملکی آبادی میں اضافے کے باعث ایسا دور شروع ہوا کہ ہماری گندم کی پیداوار ملکی کفالت کے لیے ناکافی ہو چکی تھی۔ اسی طرح دیگر خوراکی فصلوں کے معاملے میں ہم دنیا سے پیچھے رہ کر امپورٹ کرنے لگ گئے۔ بڑے ملکی صنعت کاروں کو مالی مفادات کی راہ نظر آئی تو اپنی ہی کپاس کی فصل کو محدود کردیا، کپاس کے زیر کاشت رقبے پر گنے کی فصل اگا دی۔

جس سے گنے کی مجموعی پیداوار تو 7 سے 8 کروڑ ٹن جا پہنچی لیکن فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہ کر سکے۔

اسی طرح کپاس کی پیداوار میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک تو قرار پا گئے لیکن یہاں بھی فی ایکڑ پیداوار کم ہی حاصل رہی۔ کہیں 800 کلو گرام فی ہیکٹر اور کسی علاقے میں ہزار کلو گرام فی ہیکٹر۔ جب کہ دیگر کئی ممالک ایسے ہیں جہاں دگنی تگنی پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔

پاکستان کا کوئی بھی زرعی سائنسی ادارہ اس بات کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتا کہ کس طرح ملکی زرعی پیداوار بھی دنیا کے بہت سے ملکوں کے برابر پیداوار حاصل کرنی چاہیے۔

البتہ آج کے ایک اخبار میں اس خبر پر نظر پڑی تو دل شاد ہو گیا۔ بتایا گیا کہ پاکستان کے ریسرچ کے ادارے اور پروگریسیو فارمز نے لہسن کی پیداوار میں خودکفیل ہونے کی حکمت عملی پر کام شروع کردیا ہے۔

یہ 90 کی دہائی کی بات ہے جب صدر فاروق لغاری ایوان صدر کے مکین تھے۔ انھوں نے پاکستان کے بہت سے زرعی سائنسی اداروں کا تفصیل سے دورہ کیا۔ مختلف اداروں کے تمام حالات کا جائزہ لیا۔ بہت سی کوتاہیوں، خامیوں، کمیوں کی نشان دہی کی۔ اصل مقصد یہ تھا کہ یہ ادارے جو حکومتی نگرانی میں چل رہے ہیں۔

اپنے تئیں بھرپور کوشش کریں تاکہ پاکستان کی ہر زرعی فصل و پیداوار میں دنیا کے مقابلے کے لحاظ سے بھرپور فی ایکڑ پیداوار ہو۔ ربع صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا، حکومت اس بات کا جائزہ لے کہ مرحوم صدر کے دورے کے دوران کن باتوں کی نشان دہی کی گئی تھی اور اب تک پاکستان کی ہر فصل کی پیداوار دنیا کے مقابلے میں کیوں کم ہے؟

اگر ایسا ہم کر چکے ہوتے تو ان 7 ماہ کے دوران صرف اور صرف خوراک کی درآمد پر 6 ارب ڈالر نہ خرچ کر ڈالتے۔ چلیے مانا کہ کئی درآمدات ایسی ناگزیر ہیں جن کا درآمد کرنا ضروری تھا، پھر بھی 6ارب ڈالر کے اخراجات نہ آتے۔ ہر زرعی پیداوار کے بارے میں یہ فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ کسی نہ کسی طرح زرعی پیداوار کے علاوہ دودھ، گوشت اور دیگر اشیا کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔

حکومت نے کفایت شعاری پلان کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں دیکھنا یہ ہوگا کہ اس پر کس حد تک عمل درآمد کیا جاتا ہے اور کہاں تک کامیابی حاصل ہوتی ہے۔


جہاں تک وزیروں مشیروں کے تنخواہ نہ لینے کی بات ہے یہ ایک خوش آیند اقدام ہوگا، اس کا دائرہ کار تمام ممبران قومی و صوبائی اور سینیٹ تک بڑھانے کی ضرورت ہے اور ٹیکس دینے میں بھی ان کی طرف سے قربانی کی ضرورت ہے۔

البتہ کچھ ایسے ممبران ہو سکتے ہیں جو امیر کبیر نہ ہوں لہٰذا ان کو گزارے کے طور پر کچھ تنخواہ دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح پنشن کا معاملہ جسے گھٹا کر کم ازکم 5 لاکھ کرنے کی بات کی گئی ہے اس میں مزید کمی کی گنجائش موجود ہے۔

پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق کھانے پینے کی اشیا کی درآمدات کا حجم جوکہ 13 کھرب 47 ارب روپے بنتا ہے اس کا موازنہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت سے کیا جائے تو روپے کی سخت ترین بے قدری کے باعث یہ 40 فیصد اضافہ بنتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ایسا کچھ اسی لیے ہوا ہے کہ پاکستانی کرنسی اب دنیا کی کمزور ترین کرنسی بن کر رہ گئی ہے۔ حکومت نے اندازہ لگایا ہے کہ کفایت شعاری مہم پر عملدرآمد کے نتیجے میں 200 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ اگر اس پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں مزید رقم بچائی جاسکتی ہے۔ توانائی بچت کی خاطر اور روشنی میں کام کے اوقات کو مدنظر رکھتے ہوئے صبح ساڑھے سات بجے سے دفتروں پر کام کا آغاز ہوگا۔

اس سلسلے کو ملک بھر کی مارکیٹوں، دکانوں، بازاروں پر بھی لاگو کرنے کی ضرورت ہوگی، اگر صبح جلد مارکیٹیں اور دکانیں کھل جاتی ہیں تو یقینا ایک طویل وقت کے باعث وہ بھی رات حکومتی اوقات کی اس لیے پابندی کرلیں گے کہ دوسرے دن صبح پھر 7 یا 8 بجے دکان کھولنی ہے۔

ملک میں بہت سی بڑی مارکیٹیں وغیرہ ایسی بھی ہیں جہاں جلد کاروبار کا آغاز ہوتا ہے اور کئی بازار اور مارکیٹیں ایسی بھی ہیں جہاں دن کے گیارہ بارہ بجے سے کام کا آغاز ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جس کی دکان ہی دن کے بارہ بجے کھلے گی وہ تو اس بات کا خواہاں ہوگا کہ رات کے گیارہ بارہ بجے تک اس کی دکان کھلی رہے۔

لہٰذا حکومت صبح جلد دکان کھولنے پر زور دے اور اس پر عمل درآمد پر بھی نظر رکھے۔بہت سے تاجر حضرات جو اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد تلاوت قرآن مجید سے فراغت پا کر ناشتہ کرنے کے بعد اپنی دکان کھول لیتے ہیں۔؎

ان کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ پشت در پشت چلا آ رہا ہے اور اسی میں رزق میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ البتہ سردیوں کے اوقات کار میں کچھ اضافہ ہو سکتا ہے۔

ملک کے دیہی علاقوں میں شام ہوتے ہی دکانیں بند کرنے کا رواج ہے۔ لیکن کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں کے تاجر رات دیر سے دکانیں بند کرتے ہیں۔حکومت نے بڑے سرکاری بنگلے فروخت کرنے کا ارادہ کیا ہے تو یہ نہایت ہی خوش آیند اقدام ہوگا۔

اس سلسلے میں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ کئی بڑے قطعہ اراضی جوکہ بنگلوں کی حدود میں آ رہے ہیں، ان سے دیگر مفید کام لیے جاسکتے ہیں، بڑے بڑے شہروں میں یہ بنگلے واقع ہیں۔ شہری مسائل کے حل کو ترجیح دینی چاہیے۔

ان میں سے کہیں صرف عمارت فروخت کریں اور قطعہ اراضی کو چھوٹے بڑے پارک میں تبدیل کیا جائے یا وہاں پر درختوں کا جنگل لگا دیا جائے۔ اس طرح بڑے بڑے شہروں کو خاص طور پر کراچی کو ہرا بھرا کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہاں پر چپے چپے پر تعمیرات ہو چکی ہیں۔

البتہ پارک یا درخت لگانے کے لیے خالی زمینیں اسی طرح حاصل کی جاسکتی ہیں جس طرح کسی وقت کراچی کی پرانی سبزی منڈی کو بیرون شہر منتقل کیا گیا تو خالی جگہ پر اس وقت کی فوجی حکومت نے ہر صورت میں پارک قائم کرکے دکھا دیا۔
Load Next Story