’’جیل بھرو تحریک‘‘ سے کیا ہوگا
اگر عمران خان اس تحریک میں ناکام ہوجاتے ہیں تو مستقبل میں کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے؟
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو جب جب اپنے اقتدار کے لالے پڑے ہیں، تب تب انہوں نے 'جیل بھرو' اور 'سول نافرمانی' جیسی تحریکوں کا سہارا لے کر خود کو بچانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان بھی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے 4 فروری کو ''جیل بھرو اور خوف کے بت توڑو'' جیسی تحریک کا علان کرچکے ہیں۔ اس تحریک کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے اور رضاکارانہ طور پر گرفتاریاں بھی دی جارہی ہیں۔
جیل بھرو تحریک کی شروعات قیام پاکستان سے قبل کانگریس کے رہنما موہن داس گاندھی نے کی تھی۔ انہوں نے سول نافرمانی اور ''ہندوستان چھوڑ دو'' تحریک چلا کر اجتماعی گرفتاریوں کا طریقہ متعارف کروایا۔ اس تحریک کے دوران بغیر کسی مقدمے کے تقریباً 60 ہزار گرفتاریاں ہوئیں۔ وہ تحریک تو ناکام ہوگئی، مگر یہ روایت پاکستان کو وراثت میں مل گئی۔ گاندھی پاکستان کو اور تو کچھ نہ دے سکے مگر یہ تحریک تحفے میں دے گئے، جس کا استعمال پاکستانی سیاست دان چھہتر سال سے کرتے آرہے ہیں۔ آئیے پاکستان میں جیل بھرو تحریک کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔
1947 میں مسلم لیگ نے خضر حیات ٹوانہ کی یونیسف وزارت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کی اور اس طرح اس سلسلے کا آغاز ہوگیا۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی بات کی جائے تو ان کو بھی PNA کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا، جس کے دوران بھی بہت سی گرفتاریاں ہوئیں مگر کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک اگر کوئی جیل بھرو تحریک کسی حد تک کامیاب ہوسکی ہے تو وہ ''تحریکِ بحالی جمہوریت'' ہے، جو ایم آر ڈی کے نام سے معروف تھی۔ یہ تحریک مارشل لاء کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کی مزاحمتی جدوجہد میں شدت لانے کےلیے شروع کی گئی تھی۔ ضیاالحق کے خلاف 1981 میں شروع ہونے والی ایم آر ڈی کی تحریک کا زیادہ زور صرف صوبہ سندھ کی طرف تھا اور پنجاب کی طرف سے شمولیت نہایت کم تھی، جس میں صرف 15 ہزار افراد گرفتار ہوسکے تھے۔ ایم آر ڈی نے پانچ سال بعد دوبارہ ضیاء الحق کی حکومت کے خاتمے کےلیے یہ تحریک شروع کی اور اس بار بھی ناکام رہی مگر اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ اس نے ضیاالحق کے آمرانہ دور حکومت کو عوامی طور پر غیر مقبول کردیا۔
اسی طرح 6 نومبر 2007 کو خیبرپختونخوا کے وکیلوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کےلیے بھی جیل بھرو تحریک شروع کی۔ 13 نومبر 2007 کو پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اسی رسم کو نبھاتے ہوئے بینظیر بھٹو کی نظربندی کے خلاف احتجاج شروع کیا، جس میں سو سے زائد لوگ گرفتار بھی ہوئے۔ تحریک لبیک پاکستان کے مولانا اشرف جلالی نے بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوئے 15 جنوری 2018 کو رانا ثناء اللہ سے استعفیٰ لینے اور اپنے مطالبات کی منظوری کےلیے اس تحریک کا اعلان کیا۔ چنانچہ ہر دور میں اس طرح کی تحریکیں سامنے آتی رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اس سے قبل 8 اکتوبر 2022 کو بھی میانوالی کے جلسے میں پارٹی کارکنوں سے جیل بھرو تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا، جس کو بعد ازاں بغیر کسی عملدرآمد کے بھلا دیا گیا اور اب ایک بار پھر عمران خان نے اپنی پارٹی کے لوگوں کی گرفتاریوں کے خلاف جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے اور اسے 90 روز میں الیکشن کے اعلان سے مشروط کردیا ہے۔
پاکستان اس وقت قیدیوں سے متعلق دنیا کا اڑتیسواں ملک ہے اور وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت صرف ایک سو سولہ جیلیں ہیں، جن میں اٹھاسی ہزار کے قریب قیدی ہیں، جبکہ کل گنجائش صرف پینسٹھ ہزار ہے۔
یہ تحریکیں صرف عوام میں مقبولیت بڑھانے اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کےلیے چلائی جاتی ہیں جو زیادہ تر کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر عمران خان اس تحریک میں ناکام ہوجاتے ہیں تو مستقبل میں کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے؟ اور اگر عمران خان اس تحریک میں کامیاب ہوتے ہیں تو حکومت جو پہلے ہی تنزلی کی طرف رواں ہے، اس سے کس طرح نبرد آزما ہوگی اور آنے والے دنوں میں کیا حکمت عملی اختیار کرے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جیل بھرو تحریک کی شروعات قیام پاکستان سے قبل کانگریس کے رہنما موہن داس گاندھی نے کی تھی۔ انہوں نے سول نافرمانی اور ''ہندوستان چھوڑ دو'' تحریک چلا کر اجتماعی گرفتاریوں کا طریقہ متعارف کروایا۔ اس تحریک کے دوران بغیر کسی مقدمے کے تقریباً 60 ہزار گرفتاریاں ہوئیں۔ وہ تحریک تو ناکام ہوگئی، مگر یہ روایت پاکستان کو وراثت میں مل گئی۔ گاندھی پاکستان کو اور تو کچھ نہ دے سکے مگر یہ تحریک تحفے میں دے گئے، جس کا استعمال پاکستانی سیاست دان چھہتر سال سے کرتے آرہے ہیں۔ آئیے پاکستان میں جیل بھرو تحریک کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔
1947 میں مسلم لیگ نے خضر حیات ٹوانہ کی یونیسف وزارت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کی اور اس طرح اس سلسلے کا آغاز ہوگیا۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی بات کی جائے تو ان کو بھی PNA کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا، جس کے دوران بھی بہت سی گرفتاریاں ہوئیں مگر کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک اگر کوئی جیل بھرو تحریک کسی حد تک کامیاب ہوسکی ہے تو وہ ''تحریکِ بحالی جمہوریت'' ہے، جو ایم آر ڈی کے نام سے معروف تھی۔ یہ تحریک مارشل لاء کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کی مزاحمتی جدوجہد میں شدت لانے کےلیے شروع کی گئی تھی۔ ضیاالحق کے خلاف 1981 میں شروع ہونے والی ایم آر ڈی کی تحریک کا زیادہ زور صرف صوبہ سندھ کی طرف تھا اور پنجاب کی طرف سے شمولیت نہایت کم تھی، جس میں صرف 15 ہزار افراد گرفتار ہوسکے تھے۔ ایم آر ڈی نے پانچ سال بعد دوبارہ ضیاء الحق کی حکومت کے خاتمے کےلیے یہ تحریک شروع کی اور اس بار بھی ناکام رہی مگر اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ اس نے ضیاالحق کے آمرانہ دور حکومت کو عوامی طور پر غیر مقبول کردیا۔
اسی طرح 6 نومبر 2007 کو خیبرپختونخوا کے وکیلوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کےلیے بھی جیل بھرو تحریک شروع کی۔ 13 نومبر 2007 کو پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اسی رسم کو نبھاتے ہوئے بینظیر بھٹو کی نظربندی کے خلاف احتجاج شروع کیا، جس میں سو سے زائد لوگ گرفتار بھی ہوئے۔ تحریک لبیک پاکستان کے مولانا اشرف جلالی نے بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوئے 15 جنوری 2018 کو رانا ثناء اللہ سے استعفیٰ لینے اور اپنے مطالبات کی منظوری کےلیے اس تحریک کا اعلان کیا۔ چنانچہ ہر دور میں اس طرح کی تحریکیں سامنے آتی رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اس سے قبل 8 اکتوبر 2022 کو بھی میانوالی کے جلسے میں پارٹی کارکنوں سے جیل بھرو تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا، جس کو بعد ازاں بغیر کسی عملدرآمد کے بھلا دیا گیا اور اب ایک بار پھر عمران خان نے اپنی پارٹی کے لوگوں کی گرفتاریوں کے خلاف جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے اور اسے 90 روز میں الیکشن کے اعلان سے مشروط کردیا ہے۔
پاکستان اس وقت قیدیوں سے متعلق دنیا کا اڑتیسواں ملک ہے اور وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت صرف ایک سو سولہ جیلیں ہیں، جن میں اٹھاسی ہزار کے قریب قیدی ہیں، جبکہ کل گنجائش صرف پینسٹھ ہزار ہے۔
یہ تحریکیں صرف عوام میں مقبولیت بڑھانے اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کےلیے چلائی جاتی ہیں جو زیادہ تر کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر عمران خان اس تحریک میں ناکام ہوجاتے ہیں تو مستقبل میں کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے؟ اور اگر عمران خان اس تحریک میں کامیاب ہوتے ہیں تو حکومت جو پہلے ہی تنزلی کی طرف رواں ہے، اس سے کس طرح نبرد آزما ہوگی اور آنے والے دنوں میں کیا حکمت عملی اختیار کرے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔