نیکسٹ جنریشن تھری جی اور فور ٹیکنالوجی امکانات کا ایک جہاں کھلنے کو ہے

پاکستان میں انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال سماجی رابطوں اور تفریح کے لیے ہورہا ہے


Kashif Hussain April 13, 2014
جدید ٹیکنالوجی ہمارے ہاں کن کن شعبوں میں ترقی، تیزرفتاری اور آسانی لاسکتی ہے؟۔ فوٹو: فائل

JOHANNESBURG: گذشتہ تین دہائیوں کے دوران انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی میں ہونے والی ایجادات اور اختراعات نے دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔

تیس سال قبل اور آج کی دنیا انتہائی مختلف ہیں۔ جدید انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کی مجموعی معیشت، سماجیات اور ثقافت کو بھی تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ پاکستان میں موبائل فون ٹیکنالوجی کمیونی کیشن کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال سماجی رابطوں اور تفریح کے لیے ہورہا ہے۔ ملک میں ''نیکسٹ جنریشن تھری جی'' اور ''فور جی'' ٹیکنالوجی کی آمدآمد ہے۔ ہر طرف نئی ٹیکنالوجی کا شور مچا ہوا ہے۔ ٹیلی کام آپریٹرز اس نئی ٹیکنالوجی کو انڈسٹری کا ریونیو بڑھانے کا اہم ذریعہ قرار دے رہے ہیں۔ حکومت کو اس نئی ٹیکنالوجی کے لائسنس کی نیلامی سے بھاری زرمبادلہ حاصل ہونے کی توقع ہے۔

ٹیلی کام ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی پاکستان کے سماجی شعبے بالخصوص بنیادی سہولتوں صحت اور تعلیم کی فراہمی میں معاون ثابت ہوسکتی ہے، لیکن اس کے لیے قومی سطح پر منصوبہ بندی اور اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ نیکسٹ جنریشن ٹیکنالوجی کے ذریعے موبائل فون پر تیز رفتار ڈیٹا ٹرانسفر کی سہولت میسر ہوگی، جس کے ذریعے زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ دنیا بھر میں انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی تفریح کے ساتھ ساتھ وسائل کے موثر استعمال کے لیے بھی استعمال ہورہی ہے۔ زراعت اور لائیواسٹاک کے بعد واٹر منیجمنٹ ایک اہم ترین شعبہ ہے، جہاں انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے پانی کو ضایع ہونے سے بچاتے ہوئے ذخائر کو موثر انداز میں استعمال کیا جارہا ہے۔

موبائل فون کے ذریعے موسم سے متعلق بروقت معلومات اور وارننگ نے قدرتی آفات یا موسم کی سختیوں سے مقابلہ کسی حد تک آسان کردیا ہے۔ آئی سی ٹی نے بینکاری کو جدت سے آراستہ کرکے بینکنگ کو اسمارٹ کردیا۔ اسی طرح ترقی یافتہ ملکوں کے بڑے شہروں کا پورا نظام اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ ان شہروں کو اسمارٹ سٹی قرار دیا جاتا ہے ، تعلیم کے شعبے میں آئی سی ٹی کی جدید سہولتوں سے استفادے کو اسمارٹ ایجوکیشن کا نام دیا گیا۔ اسی طرح پانی کو ضایع ہونے سے بچاتے ہوئے آبی وسائل بالخصوص تازہ پانی کو موثر انداز میں استعمال کرنے کے لیے جدید انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کا استعمال ''اسمارٹ واٹر منیجمنٹ'' کہلاتا ہے۔

دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، زرعی اور صنعتی شعبے میں تیزرفتار ترقی، فرسودہ انفرااسٹرکچر، ادارہ جاتی خامیاں، کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کا فقدان، غربت، سرمایہ کاری میں کمی، کوالٹی آف سروس اور (ڈیٹا) معلومات کی عدم فراہمی واٹر سیکٹر کے بنیادی مسائل ہیں۔ ایک جانب یہ مسائل ہیں۔ دوسری جانب گلوبل وارمنگ اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے پینے کے پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ ایسے میں انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو آبادی میں اضافے اور پانی کے ذخائر میں کمی کے دہرے دبائو سے نمٹنے کے لیے کارآمد ثابت ہورہی ہے۔



اسمارٹ واٹر منیجمنٹ کے ذریعے پانی کے نظام کی منیجمنٹ اور ترقیاتی کاموں میں آسانی پیدا کرکے واٹر سیکٹر کے چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے۔ انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے سلوشنز اور سسٹمز کے انضمام سے پائیدار بنیادوں پر پانی کی دست یابی اور کفایت بخش استعمال یقینی بنایا جاسکتا ہے اور پانی سے جُڑے زیادہ سے زیادہ معاشی اور سماجی فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں۔ نظام کے ذریعے پانی کے نظام کی خامیوں، مسائل اور تیکنیکی رکاوٹوں کی ہر لمحہ نگرانی ممکن ہے جس کے ذریعے فوری مرمت اور نظام کی بحالی کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح پانی کی دست یابی اور استعمال سے متعلق تفصیلی ڈیٹا کی بنیاد پر پانی کی تقسیم کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

اسمارٹ واٹر میٹرنگ اور موبائل بینکنگ کو باہم منسلک کرکے پانی کے تقسیم کار ادارے اور صارف کے درمیان رابطہ استوار کیا جاسکتا ہے۔ یہ رابطہ کے بل کی ادائیگیوں، شکایات کے ازالے سمیت معلومات کی دوطرفہ منتقلی کے لیے موثر، شفاف اور قابل اعتبار میڈیم بن سکتا ہے۔ انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی بیسڈ اس طریقے کے استعمال سے ایک جانب پانی کے بلوں کی ادائیگی کی لاگت (ٹرانزیکشن کاسٹ) کم ہوگی، وہیں پانی فراہم کرنے والے ادارے کی آپریٹنگ کاسٹ میں کمی اور ریونیو میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یوٹلیٹی کمپنی اور صارف دونوں کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے پانی کے موثر استعمال اور عوام تک اس بنیادی سہولت کی منظم انداز میں فراہمی کی ایک بہترین مثال پڑوسی ملک بھارت سے ملتی ہے، جہاں بھارتی این جی او ''سرجوال '' نے اسمارٹ واٹر منیجمنٹ سسٹم کے تحت پانی کے اے ٹی ایم متعارف کرائے ہیں۔ بھارت کا شمار بھی پانی کی قلت اور پینے کے صاف پانی سے محروم بڑی آبادی پر مشتمل ملکوں میں ہوتا ہے۔ بھارت میں 15کروڑ سے زاید آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے اور 21 ریاستیں اپنی دیہی آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ بھارت میں زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے اور بہت سی ریاستوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اس صورت حال میں سرجوال نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ''پانی سب کے لیے'' نامی مہم چلائی ہے، جس سے سماجی تبدیلی کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔

دل چسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود پانی کی شدید قلت سے دوچار بھارت کے راجستھان جیسے صحرائی علاقے میں عوام کو پینے کا صاف پانی ایک امریکی سینٹ فی لیٹر کے انتہائی کم نرخ پر مہیا کیا جارہا ہے۔ سرجوال چھوٹے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس، پانی کے اے ٹی ایم اور SEMSکے ذریعے پانی کو ترسے ہوئے عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا کررہا ہے۔ اس مقصد کے لیے جدید کلائوڈ کمپیوٹنگ اور موبائل ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کفایت بخش ہونے کے ساتھ مالی لحاظ سے بھی فائدہ مند ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پانی کی ایک ایک بوند کا حساب رکھا جاتا ہے اور پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے دور دراز علاقوں میں بھی جدید نظام اور حساس سینسرز کے ذریعے لمحہ لمحہ نگرانی کی جاتی ہے۔



پانی کی فراہمی کے لیے جدید فلٹر سینٹر قائم کیے گئے ہیں جو ریورس آسموسس اور الٹر فلٹریشن کے ذریعے پانی مہیا کرتے ہیں۔ یہ فلٹریشن سینٹر جدید اور حساس سینسرز، کلائوڈ بیسڈ ریموٹ مانیٹرنگ سسٹم سے لیس ہیں جن کے ذریعے رئیل ٹائم بنیادوں پر پانی کے معیار اور مقدار کی نگرانی کی جاتی ہے، جس سے نہ صرف پانی کا کفایت بخش استعمال ممکن ہوتا ہے، بل کہ فلٹریشن کی لاگت (آپریشنل کاسٹ) بھی محدود رہتی ہے۔ سرجوال کے واٹر اے ٹی ایم ایک منفرد اور کام یاب آئیڈیا ثابت ہوا ہے، جس کے ذریعے پینے کے صاف پانی سے محروم علاقوں کے افراد انتہائی ارزاں قیمت پر صاف پانی حاصل کرتے ہیں۔ یہ اے ٹی ایم ہفتے میں سات روز چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں جن کی نگرانی جدید سینسرز سے کی جاتی ہے، تمام اے ٹی ایمز مرکزی نگرانی اور کنٹرول سسٹم سے منسلک ہیں۔

اے ٹی ایم پر نصب آلات رئیل ٹائم بنیادوں پر مرکزی کمانڈ سینٹر کو موبائل نیٹ ورک کے ذریعے اے ٹی ایم میں پانی کی مقدار سے مطلع کرتے رہتے ہیں۔ پانی کے اے ٹی ایم اور فلٹریشن سینٹر کسٹمائزڈ انٹرپرائز ریسورس پلان سسٹم سے منسلک ہیں۔ یہ نظام پانی کی دست یابی، پلانٹ اور اے ٹی ایم کی مرمت اور سپلائی چین آپریشنز کو جاری و ساری رکھتا ہے۔ ساتھ ہی پانی کے معیار اور استعمال کی گئی مقدار کا حساب بھی رکھتا ہے۔ اس پورے نظام کو چلانے کے لیے ایک مربوط نیٹ ورک قائم ہے جو موبائل نیٹ ورک پر مشتمل ہے۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا یہ نظام مقامی افراد فرنچائزز کے تحت چلایا جاتا ہے۔ مقامی افراد اپنی کمیونٹی کے لیے ''رسدکار یا منتظم رسد'' کا کام کرتے ہیں، جب کہ سروجال واٹر فٹر پلانٹس اور اے ٹی ایم تیار کرنے کے ساتھ مرکزی نظام کے ذریعے واٹر اے ٹی ایم اور فلٹریشن پلانٹس سے پانی کی سپلائی کی مانیٹرنگ اور کنٹرول کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

مقامی افراد پر مشتمل رسد کار یا منتظم رسد پانی حاصل کرنے والے کسٹمرز سے ریونیو وصول کرکے اس نظام کو جاری رکھتے ہیں اب تک یہ نظام راجستھان کے دیہی علاقوں میں 127فرنچائزز تک وسیع ہوچکا ہے، جس کے ذریعے 7ہزار سے زاید کسٹمرز ماہانہ 3ڈالر خرچ کرکے مہینے بھر کے لیے پینے کے صاف پانی کی ضرورت پوری کررہے ہیں۔ اے ٹی ایم سے پانی حاصل کرنے کے لیے فرنچائزز پری پیڈ کارڈ جاری کرتے ہیں جن میں ضرورت کے مطابق بیلنس لوڈ کیا جاسکتا ہے واٹر پری پیڈ کارڈز میں بیلنس موبائل فون کے ذریعے بھی لوڈ کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ اے ٹی ایم میں براہ راست سکے ڈال کر بھی مطلوبہ مقدار میں پانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

واٹر اے ٹی ایم موبائل نیٹ ورک کے ذریعے سروجال کے مرکزی نیٹ ورک سے منسلک ہیں۔ اس لیے اے ٹی ایم سے پانی کے رسائو یا اے ٹی ایم میں فنی خرابی کے سبب پانی کی فراہمی رکنے پر فوری طور پر مرکزی کمانڈ سینٹر کو بذریعہ ایس ایم ایس اطلاع موصول ہوجاتی ہے، تاکہ متاثرہ اے ٹی ایم کی فوری مرمت کی جاسکے۔ یہ اے ٹی ایم پانی کی قلت والے علاقوں میں کم لاگت سے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا اہم اور سستا ذریعہ ثابت ہورہے ہیں۔ سروجال کے اس منصوبے سے ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح مسائل کے حل کے لیے انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی اور کمیونٹی کے اشتراک سے کاروباری مقاصد پورے کرتے ہوئے تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں بھی اس طرز پر کے منصوبے پانی سے محروم آبادیوں کو سیراب کرتے ہوئے کاروبار کے نئے مواقع مہیا کیے جاسکتے ہیں۔



افریقہ کے اسمارٹ ہینڈ پمپس:جدید انفارمیشن اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجی افریقہ کے پسماندہ ملکوں میں بھی پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور کفایت بخش استعمال کو ممکن بنارہے ہیں۔ اگرچہ انٹرنیشنل کمیونٹی کے تعاون سے افریقہ میں پینے کے پانی کی فراہمی میں 1990سے 2010کے دوران 10فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔ پینے کے قابل پانی کا کوریج ایریا 56 فی صد سے بڑھ کر 66 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ تاہم اب بھی آبادی کا بڑا حصہ پینے کے صاف پانی سے محروم ہے AMCOWکی 2012کی رپورٹ کے مطابق افریقہ میں 115ملین افراد اب بھی سطح زمین پر موجود غیرمحفوظ اور آلودہ پانی پر گزربسر کررہے ہیں۔ افریقہ کے دیہی علاقوں کی صورت حال اس سے بھی زیادہ خراب ہے جہاں زیرزمین پانی کو ہینڈ پمپس کے ذریعے کھینچ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ہینڈ پمپس کثرت استعمال کے سبب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ناکارہ ہوجاتے ہیں، جس سے متعلقہ آبادی کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

برطانوی ڈپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کے تعاون سے آکسفورڈ یونیورسٹی نے ایک ریسرچ فار ڈیولپمنٹ پراجیکٹ کے طور پر افریقہ کے دیہی علاقوں میں اسمارٹ ہینڈ پمپس نصب کیے ہیں ۔ کینیا Kyusoڈسٹرکٹ میں پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر اسمارٹ ہینڈ پمپس کی تنصیب کا تجربہ انتہائی کام یاب رہا، جس کے بعد دیگر علاقوں میں بھی اس طریقے سے پینے کے صاف پانی کی سہولت مہیا کی جارہی ہے۔ یہ طریقہ دنیا کے دیگر ترقی پذیر ملکوں خود پاکستان میں بھی انتہائی کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ اسمارٹ ہینڈ پمپس بھی موبائل نیٹ ورک کے ذریعے پانی کے کفایت بخش استعمال کو یقینی بناتے ہیں، جس کے نتیجے میں واٹر سیکیوریٹی کے ساتھ ان علاقوں میں غربت اور بیماریوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

کینیا کے جس ڈسٹرکٹ میں یہ منصوبہ شروع کیا گیا، اس علاقے کا شمار فی کس آمدن کے لحاظ سے انتہائی پست آمدن والے علاقوں میں کیا جاتا ہے، جہاں فی کس آمدنی ایک ڈالر کی خط غربت سے کافی کم ہے۔ اس علاقے میں پائلٹ پراجیکٹ کے آغاز سے قبل کیے گئے سروے میں 1/6ہینڈ پمپس ناکارہ اور ناقابل استعمال پائے گئے۔ ہینڈ پمپس کی خرابی کے سبب مقامی افراد کو پانی کے حصول میں گھنٹوں طویل قطار میں لگ کر پانی حاصل کرنا پڑتا اور کثرت استعمال کے سبب ہینڈ پمپس کی خرابی کی شکایات بھی بڑھ جاتیں۔ اس علاقے میں پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر اس ڈسٹرکٹ کے 70دیہات میں ہینڈ پمپس کے ہینڈلز میں واٹر پوائنٹ ڈیٹا ٹرانسمیٹر (WDT)نصب کردیے گئے، جو ہینڈ پمپس کی حرکت کے ساتھ پانی کی مقدار کا گھنٹہ وار ریکارڈ ایس ایم ایس کے ذریعے مرکزی سسٹم کو مہیا کرتے ہیں۔

اس سسٹم کے ذریعے ہینڈ پمپس کی کارکردگی اور پانی کی مقدار کی ریئل ٹائم بنیادوں پر نگرانی ممکن ہوگئی اور کسی خرابی کی صورت میں فوری طور پر ہینڈ پمپ کی مرمت اور درستی کا کام کیا جانے لگا۔ تمام ہینڈ پمپس کو ایک مرکزی ڈیٹا بیس سے بھی منسلک کردیا گیا ایک آسان یوزر انٹرفیس کی مدد سے انفرادی طور پر پانی کے استعمال کا ڈیٹا مرتب کرنا ممکن ہوگیا۔ اس طرح ان علاقوں میں نصب ہینڈ پمپس کی مدد سے پانی کے استعمال کے پیٹرن جمع کرکے گراف کی شکل میں تخمینے مرتب کرنے میں آسانی ہوگئی۔ یہ تخمینے مقامی آبادی کے لیے پانی کی ضرورت اور کفایت بخش استعمال کے لیے انتہائی معاون ثابت ہوئے۔



٭یوگنڈا میں موبائل فون کے ذریعے موسمیاتی معلومات حاصل کرنے کا نظام: موبائل نیٹ ورک اور جدید کمیونی کیشن سہولیات موسم کی سختیوں سے مقابلہ کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کی پیشگی اطلاعات کی فراہمی کے لیے بھی انتہائی معاون ثابت ہورہی ہیں۔ بالخصوص افریقہ جیسے خطے میں جہاں انسان کی بقا کا زیادہ تر انحصار فطرت پر ہوتا ہے، بارشوں کی آمد، تیز ہوائیں، طوفان اور سخت گرمی کے نتیجے میں ممکنہ خشک سالی جیسے چیلینجز سے پیشگی مطلع ہونے کی صورت میں ان چیلینجز سے نمٹنے یا نقصان کو کم سے کم رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایسا ہی ایک نظام افریقہ کے ملک یوگنڈا میں وضع کیا گیا، جسے ورلڈ میٹرلاجیکل آرگنائزیشن، ناروے اور ورلڈ بینک کی سپورٹ حاصل تھی۔ اس منصوبے کا مقصد مقامی افراد کو موبائل فون کے ذریعے موسم اور کلائمٹ سے متعلق فوری اطلاعات فراہم کرنا تھا۔

اس منصوبے کے تحت یوگنڈا کے Kasese ڈسٹرکٹ کے کاشت کاروں اور جھیل وکٹوریہ کے ماہی گیروں کو موسم سے متعلق معلومات اور ان کے فیڈ بیک وصول کرکے کمیونٹی کو موسمیاتی تغیر سے آگاہ رکھنے کا پائلٹ پراجیکٹ متعارف کرایا گیا۔ یہ پراجیکٹ بھی اپنے نتائج کے لحاظ سے انتہائی کارگر رہا۔ وکٹوریا جھیل کا شمار دنیا کی بڑی جھیلوں میں ہوتا ہے۔ یہ جھیل کینیا، تنزانیہ اور یوگنڈا کی سرحدوں کو چھوتی ہے اور افریقہ کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ اس جھیل سے سالانہ 8لاکھ ٹن سے زاید مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں۔ 35 لاکھ افراد کا روزگار اور گزربسر اس جھیل سے وابستہ ہے۔ اپنی وسعت کی وجہ سے اس جھیل کا اپنا ایکو سسٹم ہے، جہاں موسم کسی بھی وقت خوف ناک مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔

ورلڈ میٹرلاجیکل آرگنائزیشن کی 2012کی رپورٹ کے مطابق اس جھیل میں اٹھنے والے طوفانوں کے سبب ہر سال 5ہزار سے زاید ماہی گیر لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ماہی گیروں کو موسم میں تبدیلی سے متعلق فوری اور پیشگی معلومات کی فراہمی سے حادثات اور شرح اموات میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے متعارف کرائے گئے اس نظام کے تحت مقامی کمیونٹی سے حاصل شدہ معلومات جدید سیٹلائٹ سے حاصل شدہ موسمیاتی پیشن گوئیاں اور موبائل ٹیکنالوجی کو یکجا کرکے موسمیاتی الرٹ انفارمیشن جاری کی جاتی ہیں۔ اس نظام کے ذریعے رنگوں کے کوڈز پر مشتمل وارننگ جاری کی جاتی ہے اور مختلف علاقوں میں تیز ہوائوں طوفان بارش اور اونچی لہروں کی نشان دہی رنگوں کے ذریعے کی جاتی ہے، جسے ناخواندہ افراد کے لیے بھی سمجھنا آسان ہے۔ یہ معلومات بلامعاوضہ فراہم کی جاتی ہیں۔

معلومات کے حصول کے لیے کوئی بھی ماہی گیر خود کو اپنے موبائل فون کے ذریعے رجسٹرڈ کراسکتا ہے۔ رجسٹرڈ ماہی گیروں کو معلومات مقامی زبان میں بذریعہ ایس ایم ایس فراہم کی جاتی ہیں اور ماہی گیر شکار پر جانے سے قبل موسم کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے سفر کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ یہ سروس گذشتہ تین سال سے جاری ہے اور اب تک ہزاروں ماہی گیر اس سروس سے مستفید ہونے کے لیے رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔

٭ترقی یافتہ ملکوں میں اسمارٹ واٹر منیجمنٹ:جدید انفارمیشن اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجی پسماندہ خطوں کے ساتھ جدید بڑے شہروں میں پانی کے کفایت بخش اور محفوظ استعمال کو یقینی بنانے میں بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔ سنگاپور میں پانی کی فراہمی کا پورا نظام ''واٹر وائز'' جدی آئی سی ٹی ٹیکنالوجی پر مشتمل ہے۔ شہر کے قدیم انفرااسٹرکچر کے ساتھ پانی کا رسائو اس شہر کے منتظمین کے لیے ایک بڑا چیلینج تھا۔ عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والا یہ شہر پانی کی فراہمی کی کسی پائپ لائن سے بڑے اخراج پائپ لائن پھٹنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پرانے انفرااسٹرکچر کے ذریعے اس شہر کے مکینوں کے لیے پانی کی بلا تعطل اور محفوظ طریقے سے فراہمی کے لیے 2008 میں ایک جدید نظام وائرلیس واٹر سینٹینل (WaterWiSe) بطور پائلٹ پراجیکٹ متعارف کرایا گیا۔



سنگاپور کے نیشنل ریسرچ فائونڈیشن کا یہ منصوبہ سنگاپور کا پبلک یوٹلیٹی بورڈ، سنگاپور کا سینٹر فار انوائرمنٹل سیسنگ اینڈ ماڈلنگ، سنگاپور ایم آئی ٹی الائنس فار ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس سسٹم سینٹر اور اسکول آف کمپیوٹر انجینئرنگ، نان یانگ ٹیکنالوجی یونیورسٹی نے مل کر تشکیل دیا۔ کلائوڈ بیسڈ یہ نظام پانی کی تقسیم کی ریئل ٹائم بنیادوں پر نگرانی کرتا ہے۔ یہ نظام منیجمنٹ اور انالیسس کے انٹرفیس کے ذریعے خودکار طریقے سے کام کرتا ہے۔ اس نظام کو واٹر یوٹلیٹی کے پہلے سے موجود جی آئی ایس پلیٹ فارم سے منسلک کیا گیا ہے۔ یہ نظام پانی کے ڈسٹری بیوشن سسٹم میں جگہ جگہ نصب کردہ وائرلیس سینسرز کے ذریعے پانی کی تقسیم کے ساتھ پانی کے معیار کا ڈیٹا مرتب کرتا ہے۔

پانی کی تقسیم کے ساتھ بہائو کی رفتار اور پریشر اور پانی کے معیار سے متعلق پی ایچ ویلیو اور ORPکنڈکٹیویٹی کا بھی ریئل ٹائم بنیادوں پر جائزہ لیتے ہوئے مرکزی نظام کو ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔ اس ڈیٹا منیجمنٹ اور ٹرانسمیشن کے ساتھ الیکٹرانک الرٹ سسٹم اور فیصلہ سازی کے لیے سپورٹ ٹوٹ موڈیول بھی WaterWiSe کا حصہ ہیں۔ پانی کی فراہمی رکنے، رسائو یا بھاری اخراج کے علاوہ پانی کی کمیت میں کمی بیشی کی صورت میں وارننگ سسٹم حرکت میں آتا ہے۔ اس نظام کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نظام لاگت کے لحاظ سے کم اور کارکردگی کے لحاظ سے بہترین ہے اس نظام میں کم قیمت وائر لیس سینسرز استعمال کیے گئے، سینسرز کو موبائل نیٹ ورک سے منسلک کیا گیا۔ ریئل ٹائم بنیادوں پر پانی کے بہائو کی رفتار اور پریشر کے ساتھ پانی کے معیار کی بھی نگرانی کی گئی۔ اس طرح ایک بین الاقوامی شہر میں پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کو انتہائی موثر انداز میں بروئے کار لایا گیا۔

٭ریاست ہائے متحدہ امریکا، انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کا واٹر سیکیوریٹی اقدام : واٹر سیکیوریٹی کے لیے پانی کی دست یابی کے ساتھ مقدار اور معیار کو برقرار رکھنا بھی بہت ضروری ہے، پانی کی تقسیم کے نظام کی موثر نگرانی اور کنٹرول کے ذریعے پانی میں کسی قسم کی بیماری یا وبائی امراض کے وائرس، حادثے یا دہشت گردی کے حملے کی روک تھام بھی ممکن ہے۔ ان ہی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے امریکا کی انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی سخت اصول و ضوابط پر کاربند ہے۔ امریکا کی ہوم لینڈ سیکیوریٹی صدارتی احکامات نمبر 9کے تحت بھی پانی کی تقسیم کے نظام کو محفوظ بنانے پر زور دیا گیا ہے امریکا کا واٹر سیکیوریٹی سسٹم ایک مکمل اور مربوط سسٹم ہے، جس کے تحت آن لائن واٹر کوالٹی مانیٹرنگ، صارف شکایات، نگرانی، پبلک ہیلتھ سرویلنس، معمول کی سیمپلنگ اور تجزیہ سمیت سیکیوریٹی مقاصد کے لیے نگرانی شامل ہے۔

امریکا کا واٹر سیکیوریٹی نظام تین مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلہ پانی میں مضر اجزا کی آمیزش کے لیے وارننگ سسٹم کے تصوراتی ڈیزائن سے متعلق ہے۔ اس مرحلے میں صحت عامہ اور اس سے متعلق معاشی نقصانات سے بچنے کے لیے کسی قسم کی آلودگی یا مضر اجزا کی آمیزش کی بروقت نشان دہی اور فوری رسپانس کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ دوسرا مرحلہ ٹیسٹنگ اور ویلی ڈیشن سے متعلق ہے۔ اس مرحلے میں پینے کے پانی کی سہولتوں اور میونسپلٹیز میں نصب پائلٹ سے ملنے والی وارننگ کی بنیاد پر ڈیزائن کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے، تیسرے مرحلے پر کام جاری ہے جس کے تحت قومی سطح پر پینے کے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے رضاکارانہ وارننگ سسٹم کی تشکیل کے لیے پریکٹیکل گائڈینس ڈیولپ کی جارہی ہیں۔

تھری جی ٹیکنالوجی اور پاکستان میں پانی کی صورت حال:

پاکستان کا شمار پانی کی کمی کا شکار ملکوں میں کیا جاتا ہے، جہاں 90 فی صد دست یاب پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پینے کے لیے صرف 10فی صد پانی مہیا ہوتا ہے۔ پاکستان میں صاف پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش بھی انتہائی کم ہے۔ عمومی طور پر کسی ملک میں 120روز تک کی ضرورت کا پانی اسٹور کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ پاکستان میں پانی کی اسٹوریج کی گنجائش عالمی اوسط 40فی صد کے مقابلے میں صرف 9فی صد ہے۔ پاکستان کے دریائوں سندھ، جہلم، چناب سے پانی کا بہائو 135ملین ایکڑ فٹ ہے، جس میں سے بہت ہی قلیل مقدار ذخیرہ کی جاتی ہے۔ پاکستان میں 100روز کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے، جب کہ بھارت اپنی 120روز کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔ امریکا میں یہ گنجائش 900روز، آسٹریلیا میں 600 روز اور جنوبی افریقہ میں 500 روز ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک مستقبل کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پانی کی نئی ذخیرہ گاہیں تعمیر کررہے ہیں، چین میں 95 بڑے ڈیم تعمیر کیے جارہے ہیں۔ ترکی میں 51، ایران میں 48، جاپان میں 40 اور پڑوسی ملک بھارت میں 10بڑے ڈیم زیرتعمیر ہیں۔ پاکستان میں قابل استعمال پانی کی فی کس دست یابی بھی تیزی سے کم ہورہی ہے۔ پاکستان میں پانی کی دست یابی تیزی سے محدود ہورہی ہے۔ قیام پاکستان سے 2013 تک پانی کی دست یابی میں 400 فی صد تک کمی ہوچکی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت 34 ملین آبادی کے لیے 5260کیوبک میٹر پانی دست یاب تھا، جو 2013 تک کم ہوکر 1038کیوبک میٹرز تک آچکا ہے۔ سطح پانی کی قلت کی حد سمجھی جاتی ہے۔ ایک ہزار کیوسک فی کس سے کم پانی کی دست یابی والے ملکوں کو پانی کی قلت کا شکار ملک قرار دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں تیزی سے بڑھتی آبادی دوسری جانب موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کی قلت روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک کی ایک تہائی آبادی محفوظ اور صاف پینے کے پانی سے محروم ہے اور آلودہ پانی کے استعمال سے یومیہ 630بچے ڈائریا کا شکار ہورہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی میں سالانہ 3 فی صد تک اضافہ ہورہا ہے، یعنی ہر سال 40لاکھ افراد کے لیے پینے کے صاف پانی کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کی معیشت کا تمام تردارومدار پانی پر ہے اور حیرت انگیز طور پر پاکستان میں پانی کی دست یابی کا زیادہ انحصار پڑوسی ملکوں سے آنے والے دریائوں پر کیا جاتا ہے۔ دریائوں میں پانی کی سطح کم ہونے کے سبب سمندر تیزی سے قابل کاشت اراضی کو ہڑپ کررہا ہے سالانہ 100کلو میٹر قابل کاشت رقبہ سمندر کے پانی کی وجہ سے ناکارہ ہورہا ہے۔

پاکستان میں آبی ذخیرہ گاہیں نہ ہونے کے سبب سمندر میں گر کر ضایع ہونے والے پانی کی اکنامک ویلیو 45 سے 60 ارب ڈالر لگائی گئی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار اور ماہرین کی رائے کے مطابق پاکستان میں سمندر کی نذر ہونے والے پانی سے معیشت کو 60ارب ڈالر تک کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان میں اوپر تلے ڈیمز اور بجلی گھر بناکر متعدد بار بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ضایع ہونے والے پانی سے زراعت اور صنعت کو فیض یاب کرکے ملک و قوم کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔ کوٹری بیراج سے بہہ کر سالانہ 30.35 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گر رہا ہے۔ ایک ملین ایکڑ فٹ پانی کی معاشی قیمت 2ارب ڈالر ہے۔ پاکستان ایک ملین ایکڑ فٹ پانی سے ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا معاشی فائدہ اٹھاسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں 70کی دہائی کے بعد سے بڑے ڈیمز تعمیر نہ کیے جانے سے اب تک 43سال کے دوران مجموعی طور پر 1426 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر ہوچکا ہے، جس کی معاشی قیمت 2140 ارب ڈالر ہے۔ یعنی 43 سال کے دوران پاکستان نے 2140 ارب ڈالر مالیت کا پانی ضایع کردیا ہے (ایک ملین ایکڑ فٹ مساوی 1.5ارب ڈالر)۔ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک اپنے جائزوں میں پاکستان میں پانی کی دست یابی کے مستقبل کو تشویش ناک قرار دے چکے ہیں۔

عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانی کی کمی کے لیے موثر اقدامات نہ کیے گئے تو پانی کی کمی زراعت اور صنعت کو بری طرح متاثر کرے گی، جس سے زرعی و صنعتی پیداوار، برآمدات میں کمی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان میں پانی کی کمی اور آبی ذخیرہ گاہیں نہ ہونے سے زراعت کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ زرعی معیشت ہونے کے باوجود پاکستان کو گندم، چینی، کپاس درآمد کرنا پڑیں۔ پاکستان کا شمار دریائوں کا پانی ضایع کرنے والے سرفہرست ملکوں میں کیا جاتا ہے، جہاں دریا کا 35 فی صد پانی استعمال ہوتا ہے اور 65 فی صد تک پانی ضایع ہوجاتا ہے۔ درحقیقت یہ زراعت اور صنعت کا وہ نقصان ہے جسے ویلیو ایڈیشن کے ذریعے کئی گنا فائدے میں بدلا جاسکتا ہے۔

ہم اگر تھری جی ٹیکنالوجی کے ذریعے ''اسمارٹ واٹر مینیجمینٹ'' ممکن بنائیں تو پاکستان میں پانی کاضیاع روکا جاسکتا ہے اور قدرت کی اس نعمت سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔