’’جیل بھرو‘‘ کارڈ بھی ناکام عمران خان اب کیا کریں گے

عمران خان کا ’’جیل بھرو تحریک‘‘ کا کارڈ بھی بری طرح ناکامی سے دوچار ہوا ہے

عمران خان کا یہ زعم بھی ٹوٹ رہا ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ (فوٹو: فائل)

جیل بھرو تحریک کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی پارٹی یا لیڈر کی کال پر عوام جوق در جوق باہر نکل آئیں، یہ پولیس کو اپنی رضاکارانہ گرفتاری پیش کریں۔ پولیس کے پاس حوالات میں کوئی جگہ نہ بچے، یہ ان کو جیل بھیجنے پر مجبور ہوجائے اور جیلوں میں بھی جگہ کم پڑ جائے۔ یوں جیل کا سسٹم کام نہ کرسکے۔

جب عوام کی بہت بڑی تعداد جیلوں میں ہوگی تو اس کا اثر روزمرہ معاملات و کاروبار پر بھی پڑے گا اور یوں کچھ عرصے میں معاشرتی سسٹم پریشر برداشت نہیں کرسکے گا، جس کے بعد حکومت اسی پریشر میں مطالبات ماننے پر مجبور ہوجائے گی۔ پاکستان کی جیلوں میں ویسے بھی جگہ کی کمی ہے، بلکہ کئی جیلیں تو اوورکپیسٹی پر کام کررہی ہیں۔ تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں ایسی کسی تحریک کے کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔

تحریک انصاف نے بھی شاید یہی سوچتے ہوئے کال دی تھی کہ لاکھوں لوگ جب گرفتاریاں دیں گے تو حکومت ان کی بات سننے پر مجبور ہوجائے گی۔ مجھے دستیاب معلومات کے مطابق لاکھوں تو چھوڑیں، ہزاروں نے بھی گرفتاری نہیں دی۔ اس کال کے جواب میں جو گرفتاریاں اب تک سامنے آئی ہیں وہ سات سو سے بھی کم ہیں۔ وہ خیبرپختونخوا جہاں گزشتہ ایک دہائی سے تحریک انصاف کی حکومت ہے، وہاں تو لاہور سے بھی زیادہ مایوس کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس کھڑی اعلان کرتی رہی کہ اگر آپ نے گرفتاری دینی ہے تو قیدیوں کی وین میں جاکر بیٹھ جائیں لیکن وہ وینز بھر نہ سکیں۔ ان کے سیاسی قائدین نے فوٹو سیشن تو کروایا لیکن فوراً ہی بھاگ جاتے تھے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جو گنتی کے چند لوگ گرفتار ہوئے تھے، ان کی ضمانتوں کےلیے عدالتوں میں جایا جارہا ہے۔ وہاں منتیں کی جارہی ہیں کہ ان کو رہا کردیا جائے۔ کل ملا کر تحریک انصاف کو یہاں بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

خان صاحب کو ایک زعم ہے کہ وہ شاید کوئی بہت بڑے لیڈر ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر کوئی مسیحا یا اس سے بڑھ کر کوئی اوتار ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی اٹھان بھی درپردہ قوتوں کی وجہ سے تھی اور اب جب ان کی حرکتوں سے تنگ آکر ان کے بڑوں نے پی ٹی آئی کو عاق کردیا ہے تو پی ٹی آئی کے غبارے سے ہوا نکلنا شروع ہوچکی ہے۔ خان صاحب نے مختلف ایشوز کی آڑ میں سڑکیں ناپ کر دیکھ لی ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد کا دورہ بھی کرکے دیکھ لیا اور اب انہوں نے جیل بھرو تحریک کا کارڈ بھی کھیل کر دیکھ لیا، ان کو نتائج نہیں ملے۔


اس تحریک میں اگر لیڈر خود زمان پارک، جس کو اب پیار سے ضمانت پارک بھی کہا جاتا ہے، وہاں بیٹھا ہو تو تیسرے درجے کی مقامی قیادت بھی گرفتاری نہیں دے گی۔ اگر لیڈر کا پلستر نہ کھل رہا ہو تو تیسرے درجے کی قیادت جو کہ عوام کو براہ راست جواب دہ ہوتی ہے، وہ کوئی جواب نہیں دے پاتی ہے تو پھر وہ سائیڈ پر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ خان صاحب کا پلستر گھر میں بند رہنے کا بہانہ بن چکا ہے، یہ پلستر اب کسی وجہ سے ہی کھلے گا۔ پھر اس کے بعد جو گنتی کے چند نام گرفتار ہوئے تھے، وہ اپنی ضمانتوں میں پڑگئے ہیں تو کہاں سے ورکر موٹیویٹ ہوگا؟ کیسے وہ چارج ہوگا؟ وہ کیوں اپنی گرفتاری دے گا؟

اس جیل بھرو تحریک نے تو پی ڈی ایم کو مضبوط کیا ہے۔ خان صاحب کا جو ایک زعم تھا وہ اب ٹوٹ رہا ہے۔ یہ زعم یہی تھا کہ میرے ساتھ عوامی طاقت ہے اور وہ اس کارڈ کو کھیلتے بھی رہے ہیں لیکن اس جیل بھرو تحریک نے ان کا یہ زعم بھی توڑ دیا ہے۔ اس ناکامی نے پی ڈی ایم کو بھی قوت دی ہے اور اسٹبلشمنٹ کو سکھ کا سانس دیا ہے۔ اب حکومت اور تمام حلقوں کی مستقبل کی کیلکولیشن اسی بنیاد پر ہوگی۔ اسی بنیاد پر بہت سے دیگر ادارے بھی خوف سے آزاد ہوچکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کتنے لوگ آپ کی ویڈیوز کو دیکھتے ہیں، اس سے اب کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ آپ کے ساتھ کون کھڑا ہے، اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔

اس تحریک کی ناکامی نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اس سال الیکشن نہیں ہوں گے۔ الیکشن شاید اب اگلے سال فروری یا مارچ میں ہی ہوں گے۔ عمران خان نے پہلی غلطی اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر کی، دوسری غلطی انہوں نے صوبائی اسمبلیاں توڑ کر کی اور تیسری غلطی انہوں نے جیل بھرو تحریک لانچ کرکے کی ہے۔ ان تمام اقدامات کے نتائج عمران خان کے خلاف گئے ہیں۔ خان صاحب کے پاس اب غلطی کا کوئی چانس نہیں ہے۔ انہیں اب اگلے دس ماہ یا ایک سال بہت محتاط ہوکر چلنا ہوگا۔

تاہم، ان تمام سوالات سے بڑا بھی ایک سوال ہے جو شاید ابھی کسی کی ترجیح نہیں ہے۔ عمران خان کی جیل بھرو تحریک ناکام ہوگئی، ایک حلقے کو الیکشن کی جلدی ہے اور وہ اس کےلیے شاید بہت سی لائن بھی کراس کرنے کی کوشش کریں گے۔ حکومت کے مطابق وہ حالات سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے۔ آخر کب تک یہ لائن پیٹتے رہیں گے کہ پچھلے برباد کرگئے۔ آپ نے کب آباد کرنا ہے؟ غریب کےلیے آٹا، چاول، دال، دودھ، پتی سب کچھ ناقابل رسائی ہورہا ہے، اس کا کون سوچے گا؟ غریب کےلیے زندہ رہنا ناممکن ہورہا ہے، اس کا کون سوچے گا؟ اس سیاسی سرکس میں نقصان صرف غریب کا ہورہا ہے۔ پہلے اگر 50 ہزار کمانے والا غریب تھا، آج 80 ہزار کمانے والا بھی غریب ہے۔ میں یا آپ اس کا بجٹ نہیں بناسکتے۔ ان خطوط پر کب سوچیں گے؟ غریب کسی جماعت کا نہیں ہوتا، یہ سب کا ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں کون سوچے گا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story