کہیں دیر نہ ہو جائے
دنیا میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں ماں باپ نے اپنے بچوں کو بھوک سے بچانے کے لئے فروخت کردیا ۔
بھوک بڑی خوفناک ہوتی ہے یہ انسان کو انسانیت کی حدود سے بھی باہر نکال دیتی ہے اور اسے ایسے گھناؤنے کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جس کے بارے میں وہ معمول کی زندگی گزارتے ہوئے سوچ بھی نہیں سکتا۔
ایسے مہم جو افراد جو بے سرو سامانی کی حالت میں کسی مشکل میں پھنس گئے، جب ان میں سے چند بھوک کی اذیت سے دوچار ہو کر اپنی جان سے گزر گئے تو زندہ بچ جانے والوں نے بھوک کی اذیت ناک موت سے بچنے کے لئے اپنے ہی عزیز ساتھیوں کی لاشوں کو کاٹ کھایا، ان افراد نے اپنی آپ بیتیوں میں اس کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی یہ درندگی بھوک کی وجہ سے تھی جو انھیں آہستہ آہستہ موت کے منہ میں دھکیل رہی تھی۔ اس طرح کا ایک واقعہ 1972ء میں ایک پائلٹ مارٹن ہارٹ ویل کے ساتھ پیش آیا جب اس کا جہاز شمال مغربی کینیڈا کے ایک علاقے میں گر گیا ، جہاز میں تین مسافر تھے جو جاں بحق ہو گئے، ایک مہینے کے بعد جب ریسکیو ٹیم انھیں تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچی تومارٹن زندہ تھا جو جہاز میں موجود سامان کے ختم ہونے پر مرنے والوں کا گوشت کھا کر خود کو زندہ رکھے ہوئے تھا۔ دنیا میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں ماں باپ نے اپنے بچوں کو بھوک سے بچانے کے لئے فروخت کردیا ۔
بھوک و افلاس کی اسی خوفناکی کی وجہ سے دنیا کے تمام مذاہب میں بھوکے کو کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ کسی گھنائونے جرم میں مبتلا ہونے یا پھر انتہائی اقدام سے باز رہے ۔ دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کا فرمان ہے'' اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو اے عمرؓ قیامت کے روز تجھ سے اس بارے میں سوال کیا جائے گا۔''حضرت عمرؓ کا یہ معمول تھا کہ وہ رات کو بھیس بدل کر شہرکا گشت کیا کرتے تھے تاکہ عوام کے حال سے واقف ہو سکیں۔ دوسری طرف پاکستان کے حکمران ہیں جنھیں عوام تو ایک طرف رہے اپنے پڑوسیوں تک کے حالات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کس حال میں ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں عوام مہنگائی ، بیروزگاری، ناانصافی اور دیگر مسائل کی وجہ سے بہت تنگ تھے اور آئے روز خود کشیوں کے واقعات پیش آتے رہتے تھے، ایک رپورٹ کے مطابق 2000ء سے 2012ء تک 32762 افراد نے خود کشی کی، مدد گار نیشنل ہیلپ لائن کے مطابق جنوری 2012 سے جون 2012 تک یعنی صرف چھ مہینے میں 751 افراد نے خود کشی کی۔
خود کشی کرنے والوں میں سے نصف افراد نے بیروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ۔ حالیہ الیکشن میں عوام نے اس توقع کے ساتھ ووٹ دئیے کہ نئی حکومت ایسے اقدامات کرے جن سے ملک کے معاشی حالات بہتر اور روزگار کے وسیع مواقع میسر ہوں، مہنگائی میں کمی ہو اور عام آدمی عزت سے دووقت کی روٹی حاصل کر سکے۔ مگر ہوا اس کے بالکل برعکس، حکومت کے تمام تر دعوے اس وقت غلط ثابت ہوگئے جب جون میں بجٹ پیش کیا گیا جس میں عوام کو ریلیف دینے کا کوئی خاص بندوبست نہیں کیا گیا تھا ، پھر ملک چلانے کے بہانے آئی ایم ایف اور دیگر ذرائع سے قرضے حاصل کئے گئے، یوں ملک میں مہنگائی کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور بیروزگاری کی صورتحال ویسی ہی رہی جس سے عام آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے۔
اگر حکومت کے نو ماہ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جون 2013 میں مہنگائی کی شرح 5.85فیصد تھی جو بتدریج بڑھتی ہوئی نومبر میں 10.9فیصد ہو گئی اس کے بعد حکومت کو تھوڑا ہوش آیا اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فروری میں شرح آٹھ فیصد سے کم نہ ہو سکی ۔کنزیومر رائٹس فورم والوں کا کہنا ہے کہ حکومت مہنگائی کی شرح کو کم کر کے دکھا رہی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح میں اصل اضافہ سولہ فیصد کے قریب ہے ۔
دوسری طرف مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوا اور عدالتیں بھی عوام کو خاطر خواہ ریلیف فراہم نہ کرسکیں۔ اس ساری صورتحال میں مظفر گڑھ اور لالیاں میں زیادتی کی شکار خواتین کی طرف سے خودسوزی جیسے افسوسناک واقعات پیش آئے، جنھوں نے انصاف نہ ملنے پر احتجاجاً خود کو آگ لگا لی ۔ اسی طرح مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ لاہور کی ایک خاتون نے اپنے دوبچوں کو اپنے ہی ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیا اس کا کہنا تھا کہ اس کے بچے تین دن سے بھوکے تھے جبکہ اس کا خاوند بیروزگار اور نشے کا عادی تھا اور خاندان کے دوسرے افراد نے بھی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا تھا، یوں ایک ماں بچوں کی بھوک برداشت نہ کر سکی اور انھیں ابدی نیند سلا دیا۔
اسی طرح ایک خاتون نے انصاف نہ ملنے پر لاہور میں وزیر اعلیٰ ہاوس کے سامنے خود کو آگ لگا لی، اس کا کہنا تھا کہ اس کے دیوروں نے اسے خاندان سمیت گھر سے نکال دیا جبکہ اس کا شوہر بھی بیروزگار ہے مگر اسے کہیں سے انصاف نہیں مل سکا اور اسے وزیر اعلیٰ پنجاب سے بھی ملنے نہیں دیا جارہا تھا اس لئے وہ احتجاجاً خود سوزی پر مجبور ہو گئی۔ لاہور کے علاقے سنگھ پورہ کے رہائشی مزدور رشید نے بے روزگاری سے تنگ آ کر زہریلی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا جبکہ شمالی چھائونی میں رکشہ ڈرائیور جاوید نے غربت سے تنگ آ کر اپنی بیوی اور بچے کو قتل کر کے خود کشی کی کوشش کی۔
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون اور گلشن اقبال میں خود کشیوں کے دو واقعات پیش آئے۔ بلدیہ ٹائون میں افضل نامی شخص نے بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر بیوی سمیت خود کشی کر لی ، گلشن اقبال میں مچھلی فروش تمیز الدین نے غربت سے تنگ آ کر بیوی اور بچے کو موت کی نیند سلا کر پھانسی لے لی۔ یہ تمام سانحے مارچ کے مہینے میں پیش آئے جنھیں میڈیا نے پیش کیا مگر ایسے بہت سے سانحات ہیں جو میڈیا تک پہنچتے ہی نہیں ، اسی لئے انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھوک، افلاس ، مہنگائی، بیروزگاری اور ناانصافی کی وجہ سے ہونے والی اموات اور خودکشیوں کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے جو پیش کی جاتی ہے ۔
مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عام آدمی کے لئے دووقت کی روٹی حاصل کرنا کتنا مشکل ہو چکا ہے اس کا اندازہ فی سبیل اللہ چلنے والے دسترخوانوں اور لنگر خانوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے جہاں پر رش بڑھتا ہی جا رہا ہے ، اب وہاں صرف غریب یا مزدور طبقہ ہی نہیں سفید پوش افراد بھی لائن میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ بہت سی خواتین بچوں سمیت کھانے کے لئے وہاں پہنچی ہوتی ہیں۔ اگر یہ فی سبیل اللہ دسترخوان نہ ہوں تو خود اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروںافراد جو روزانہ یہاں سے کھانا حاصل کرتے ہیں کن حالات سے دوچار ہو سکتے ہیں ۔
دوسری طرف جب حکومت کی طرف سے عوام کی کھال اتارنے یعنی ٹیکسوں کے نفاذ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس پر ٹیکس نہ لگایا ہو، تاہم سرمایہ دار اپنے مخصوص ہتھکنڈوں کی وجہ سے بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انسان کے پیدا ہونے سے لے کر موت تک ہر فرد ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہے کیونکہ جنرل سیلز ٹیکس، ٹال ٹیکس اور ایسے ہی دوسرے ٹیکس بظاہر سرمایہ دار ادا کرتے ہیں مگر ان کا اصل بوجھ عوام ہی پر پڑتا ہے، اسی طرح بجلی ، پانی اور گیس کی قیمتوں میں آئے روز کیا جانے والا اضافہ بھی عام آدمی کے لئے سوہان روح ہے۔
کنزیومرز رائٹس فورم کے چیر مین محمد حنیف گورائیہ نے بھوک، افلاس اور ناانصافی کی وجہ سے کی جانے والی خود کشیوں اور ان کی وجوہات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''یہ بڑا حساس مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں ابھی تک طبقاتی نظام موجود ہے، حکمران طبقہ صرف بارہ سے تیرہ فیصد ہے جبکہ 80فیصد عوام غربت کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، ان میں 70فیصد ایسے ہیں جن کو فوڈ سکیورٹی کے مسئلے کا سامنا ہے، ان کی آمدن کا 80 فیصد خوراک کے حصول اور یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا ہے ۔ حکومت نے جس طرح سے مہنگائی بڑھائی ہے اس میں ہر خاندان کی آمدنی کم سے کم پچیس سے تیس ہزار روپے ہونی چاہیے، اگر اس خاندان کا مکان اپنا ہو تو اس کا گزارہ ہو سکتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف نظر دورائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اب بھی بہت سے افراد کی ماہانہ آمدن چھ سے سات ہزار روپے ہے، جو بے چارے بیروزگار ہیں ان کی تو ہم بات ہی نہیں کرتے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 58فیصد آبادی کی روزانہ آمدن ایک ڈالر فی کس ہے جبکہ 22فیصد افراد کی روزانہ آمدن دو ڈالر فی کس ہے، جہاں یہ صورتحال ہو گی وہاں جرائم کی شرح میں لازمی اضافہ ہو گا، ناانصافی ہو گی ، ڈرگ ایڈکشن بڑھے گی، لوگ نفسیاتی مریض بن جائیں گے، جو لوگ زیادہ حساس ہوتے ہیں وہ اس دبائوکو برداشت نہیں کر پاتے جس کا نتیجہ خودکشی اور اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دینے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ آئینی طور پر حکومت ہر شہری کو فوڈ سکیورٹی فراہم کرنے کی پابند ہے ، حکومت کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنا چاہئیں کہ ہر خاندان کی اتنی آمدن ہو کہ اس کا گزارہ ہو سکے، یا پھر غریبوں کے ریلیف کے لئے اقدامات کرنا چاہئیں، انھیں اشیاء پر سبسڈی دینا ہو گی۔ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے غربت اور افلاس بھی بڑھی ہے ، حکومت کو غربت میں کمی کے لئے بھرپور اقدامات کرنا ہوں گے۔ ''
حکومت کا دعویٰ ہے کہ معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں اس ڈھول کا پول ایشیائی بینک کی ایک رپورٹ نے کھول کر رکھ دیا ہے جس کے مطابق رواں سال جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان کی شرح نمو سب سے کم یعنی 3.4فیصد متوقع ہے جو افغانستان اور نیپال سے بھی کم ہے۔ اسی طرح سال کے آخر تک اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں نو فیصد اضافے کا خدشہ ہے۔ ان حالات کی وجہ سے عوام میں حکومت کے خلاف غم وغصہ اور نفرت بڑھ رہی ہے ، وہ لوگ جو غربت اور ناانٖصافی سے تنگ آ کر ہمت ہار جاتے ہیں وہ خود کشی کی راہ اپناتے ہیں باقی ماندہ یا تو برداشت کرتے ہیں یا پھرجرائم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، تاہم ابھی تک عوام کے غم و غصہ کا رخ ملک کے حکمرانوں اور اشرافیہ کی طرف نہیں ہوا ، اگر اسی نفرت نے حکومتی ایوانوں کا رخ کر لیا تو غضب ہو جائے گا ، حکمرانوں کو سب ٹھیک ہے کی رپورٹ دینے کی بجائے عملاً سب ٹھیک کرنا ہو گا ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
ایسے مہم جو افراد جو بے سرو سامانی کی حالت میں کسی مشکل میں پھنس گئے، جب ان میں سے چند بھوک کی اذیت سے دوچار ہو کر اپنی جان سے گزر گئے تو زندہ بچ جانے والوں نے بھوک کی اذیت ناک موت سے بچنے کے لئے اپنے ہی عزیز ساتھیوں کی لاشوں کو کاٹ کھایا، ان افراد نے اپنی آپ بیتیوں میں اس کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی یہ درندگی بھوک کی وجہ سے تھی جو انھیں آہستہ آہستہ موت کے منہ میں دھکیل رہی تھی۔ اس طرح کا ایک واقعہ 1972ء میں ایک پائلٹ مارٹن ہارٹ ویل کے ساتھ پیش آیا جب اس کا جہاز شمال مغربی کینیڈا کے ایک علاقے میں گر گیا ، جہاز میں تین مسافر تھے جو جاں بحق ہو گئے، ایک مہینے کے بعد جب ریسکیو ٹیم انھیں تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچی تومارٹن زندہ تھا جو جہاز میں موجود سامان کے ختم ہونے پر مرنے والوں کا گوشت کھا کر خود کو زندہ رکھے ہوئے تھا۔ دنیا میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں ماں باپ نے اپنے بچوں کو بھوک سے بچانے کے لئے فروخت کردیا ۔
بھوک و افلاس کی اسی خوفناکی کی وجہ سے دنیا کے تمام مذاہب میں بھوکے کو کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ کسی گھنائونے جرم میں مبتلا ہونے یا پھر انتہائی اقدام سے باز رہے ۔ دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کا فرمان ہے'' اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو اے عمرؓ قیامت کے روز تجھ سے اس بارے میں سوال کیا جائے گا۔''حضرت عمرؓ کا یہ معمول تھا کہ وہ رات کو بھیس بدل کر شہرکا گشت کیا کرتے تھے تاکہ عوام کے حال سے واقف ہو سکیں۔ دوسری طرف پاکستان کے حکمران ہیں جنھیں عوام تو ایک طرف رہے اپنے پڑوسیوں تک کے حالات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کس حال میں ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں عوام مہنگائی ، بیروزگاری، ناانصافی اور دیگر مسائل کی وجہ سے بہت تنگ تھے اور آئے روز خود کشیوں کے واقعات پیش آتے رہتے تھے، ایک رپورٹ کے مطابق 2000ء سے 2012ء تک 32762 افراد نے خود کشی کی، مدد گار نیشنل ہیلپ لائن کے مطابق جنوری 2012 سے جون 2012 تک یعنی صرف چھ مہینے میں 751 افراد نے خود کشی کی۔
خود کشی کرنے والوں میں سے نصف افراد نے بیروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ۔ حالیہ الیکشن میں عوام نے اس توقع کے ساتھ ووٹ دئیے کہ نئی حکومت ایسے اقدامات کرے جن سے ملک کے معاشی حالات بہتر اور روزگار کے وسیع مواقع میسر ہوں، مہنگائی میں کمی ہو اور عام آدمی عزت سے دووقت کی روٹی حاصل کر سکے۔ مگر ہوا اس کے بالکل برعکس، حکومت کے تمام تر دعوے اس وقت غلط ثابت ہوگئے جب جون میں بجٹ پیش کیا گیا جس میں عوام کو ریلیف دینے کا کوئی خاص بندوبست نہیں کیا گیا تھا ، پھر ملک چلانے کے بہانے آئی ایم ایف اور دیگر ذرائع سے قرضے حاصل کئے گئے، یوں ملک میں مہنگائی کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور بیروزگاری کی صورتحال ویسی ہی رہی جس سے عام آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے۔
اگر حکومت کے نو ماہ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جون 2013 میں مہنگائی کی شرح 5.85فیصد تھی جو بتدریج بڑھتی ہوئی نومبر میں 10.9فیصد ہو گئی اس کے بعد حکومت کو تھوڑا ہوش آیا اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فروری میں شرح آٹھ فیصد سے کم نہ ہو سکی ۔کنزیومر رائٹس فورم والوں کا کہنا ہے کہ حکومت مہنگائی کی شرح کو کم کر کے دکھا رہی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح میں اصل اضافہ سولہ فیصد کے قریب ہے ۔
دوسری طرف مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوا اور عدالتیں بھی عوام کو خاطر خواہ ریلیف فراہم نہ کرسکیں۔ اس ساری صورتحال میں مظفر گڑھ اور لالیاں میں زیادتی کی شکار خواتین کی طرف سے خودسوزی جیسے افسوسناک واقعات پیش آئے، جنھوں نے انصاف نہ ملنے پر احتجاجاً خود کو آگ لگا لی ۔ اسی طرح مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ لاہور کی ایک خاتون نے اپنے دوبچوں کو اپنے ہی ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیا اس کا کہنا تھا کہ اس کے بچے تین دن سے بھوکے تھے جبکہ اس کا خاوند بیروزگار اور نشے کا عادی تھا اور خاندان کے دوسرے افراد نے بھی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا تھا، یوں ایک ماں بچوں کی بھوک برداشت نہ کر سکی اور انھیں ابدی نیند سلا دیا۔
اسی طرح ایک خاتون نے انصاف نہ ملنے پر لاہور میں وزیر اعلیٰ ہاوس کے سامنے خود کو آگ لگا لی، اس کا کہنا تھا کہ اس کے دیوروں نے اسے خاندان سمیت گھر سے نکال دیا جبکہ اس کا شوہر بھی بیروزگار ہے مگر اسے کہیں سے انصاف نہیں مل سکا اور اسے وزیر اعلیٰ پنجاب سے بھی ملنے نہیں دیا جارہا تھا اس لئے وہ احتجاجاً خود سوزی پر مجبور ہو گئی۔ لاہور کے علاقے سنگھ پورہ کے رہائشی مزدور رشید نے بے روزگاری سے تنگ آ کر زہریلی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا جبکہ شمالی چھائونی میں رکشہ ڈرائیور جاوید نے غربت سے تنگ آ کر اپنی بیوی اور بچے کو قتل کر کے خود کشی کی کوشش کی۔
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون اور گلشن اقبال میں خود کشیوں کے دو واقعات پیش آئے۔ بلدیہ ٹائون میں افضل نامی شخص نے بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر بیوی سمیت خود کشی کر لی ، گلشن اقبال میں مچھلی فروش تمیز الدین نے غربت سے تنگ آ کر بیوی اور بچے کو موت کی نیند سلا کر پھانسی لے لی۔ یہ تمام سانحے مارچ کے مہینے میں پیش آئے جنھیں میڈیا نے پیش کیا مگر ایسے بہت سے سانحات ہیں جو میڈیا تک پہنچتے ہی نہیں ، اسی لئے انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھوک، افلاس ، مہنگائی، بیروزگاری اور ناانصافی کی وجہ سے ہونے والی اموات اور خودکشیوں کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے جو پیش کی جاتی ہے ۔
مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عام آدمی کے لئے دووقت کی روٹی حاصل کرنا کتنا مشکل ہو چکا ہے اس کا اندازہ فی سبیل اللہ چلنے والے دسترخوانوں اور لنگر خانوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے جہاں پر رش بڑھتا ہی جا رہا ہے ، اب وہاں صرف غریب یا مزدور طبقہ ہی نہیں سفید پوش افراد بھی لائن میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ بہت سی خواتین بچوں سمیت کھانے کے لئے وہاں پہنچی ہوتی ہیں۔ اگر یہ فی سبیل اللہ دسترخوان نہ ہوں تو خود اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروںافراد جو روزانہ یہاں سے کھانا حاصل کرتے ہیں کن حالات سے دوچار ہو سکتے ہیں ۔
دوسری طرف جب حکومت کی طرف سے عوام کی کھال اتارنے یعنی ٹیکسوں کے نفاذ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس پر ٹیکس نہ لگایا ہو، تاہم سرمایہ دار اپنے مخصوص ہتھکنڈوں کی وجہ سے بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انسان کے پیدا ہونے سے لے کر موت تک ہر فرد ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہے کیونکہ جنرل سیلز ٹیکس، ٹال ٹیکس اور ایسے ہی دوسرے ٹیکس بظاہر سرمایہ دار ادا کرتے ہیں مگر ان کا اصل بوجھ عوام ہی پر پڑتا ہے، اسی طرح بجلی ، پانی اور گیس کی قیمتوں میں آئے روز کیا جانے والا اضافہ بھی عام آدمی کے لئے سوہان روح ہے۔
کنزیومرز رائٹس فورم کے چیر مین محمد حنیف گورائیہ نے بھوک، افلاس اور ناانصافی کی وجہ سے کی جانے والی خود کشیوں اور ان کی وجوہات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''یہ بڑا حساس مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں ابھی تک طبقاتی نظام موجود ہے، حکمران طبقہ صرف بارہ سے تیرہ فیصد ہے جبکہ 80فیصد عوام غربت کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، ان میں 70فیصد ایسے ہیں جن کو فوڈ سکیورٹی کے مسئلے کا سامنا ہے، ان کی آمدن کا 80 فیصد خوراک کے حصول اور یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا ہے ۔ حکومت نے جس طرح سے مہنگائی بڑھائی ہے اس میں ہر خاندان کی آمدنی کم سے کم پچیس سے تیس ہزار روپے ہونی چاہیے، اگر اس خاندان کا مکان اپنا ہو تو اس کا گزارہ ہو سکتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف نظر دورائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اب بھی بہت سے افراد کی ماہانہ آمدن چھ سے سات ہزار روپے ہے، جو بے چارے بیروزگار ہیں ان کی تو ہم بات ہی نہیں کرتے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 58فیصد آبادی کی روزانہ آمدن ایک ڈالر فی کس ہے جبکہ 22فیصد افراد کی روزانہ آمدن دو ڈالر فی کس ہے، جہاں یہ صورتحال ہو گی وہاں جرائم کی شرح میں لازمی اضافہ ہو گا، ناانصافی ہو گی ، ڈرگ ایڈکشن بڑھے گی، لوگ نفسیاتی مریض بن جائیں گے، جو لوگ زیادہ حساس ہوتے ہیں وہ اس دبائوکو برداشت نہیں کر پاتے جس کا نتیجہ خودکشی اور اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دینے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ آئینی طور پر حکومت ہر شہری کو فوڈ سکیورٹی فراہم کرنے کی پابند ہے ، حکومت کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنا چاہئیں کہ ہر خاندان کی اتنی آمدن ہو کہ اس کا گزارہ ہو سکے، یا پھر غریبوں کے ریلیف کے لئے اقدامات کرنا چاہئیں، انھیں اشیاء پر سبسڈی دینا ہو گی۔ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے غربت اور افلاس بھی بڑھی ہے ، حکومت کو غربت میں کمی کے لئے بھرپور اقدامات کرنا ہوں گے۔ ''
حکومت کا دعویٰ ہے کہ معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں اس ڈھول کا پول ایشیائی بینک کی ایک رپورٹ نے کھول کر رکھ دیا ہے جس کے مطابق رواں سال جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان کی شرح نمو سب سے کم یعنی 3.4فیصد متوقع ہے جو افغانستان اور نیپال سے بھی کم ہے۔ اسی طرح سال کے آخر تک اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں نو فیصد اضافے کا خدشہ ہے۔ ان حالات کی وجہ سے عوام میں حکومت کے خلاف غم وغصہ اور نفرت بڑھ رہی ہے ، وہ لوگ جو غربت اور ناانٖصافی سے تنگ آ کر ہمت ہار جاتے ہیں وہ خود کشی کی راہ اپناتے ہیں باقی ماندہ یا تو برداشت کرتے ہیں یا پھرجرائم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، تاہم ابھی تک عوام کے غم و غصہ کا رخ ملک کے حکمرانوں اور اشرافیہ کی طرف نہیں ہوا ، اگر اسی نفرت نے حکومتی ایوانوں کا رخ کر لیا تو غضب ہو جائے گا ، حکمرانوں کو سب ٹھیک ہے کی رپورٹ دینے کی بجائے عملاً سب ٹھیک کرنا ہو گا ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔