چند گزارشات
وزیروں اور مشیروں کو چاہیے کہ وہ قوم کے لیے مسائل کے پہاڑوں کو توڑیں، بات جبھی بنے گی وہ اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے
گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے اختتام پر وفاقی وزرا کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ہم نے ایک پلان ترتیب دیا ہے اور اس پر عمل کرنے سے ہمیں 200 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
تقاضا تو یہی ہے آپ اس پر مکمل عملدرآمد کروائیں تاکہ اپوزیشن جماعتیں 3 ماہ کے بعد اسے پراپیگنڈا مہم کا نام نہ دے سکیں ۔ اگلے الیکشن تک ابھی آپ کے پاس وقت ہے مختلف شعبہ ہائے زندگی کو اپنے عمل سے متاثر کردیں ،لوگ یہی چاہتے ہیں انھیں کسی لیڈر سے کوئی مطلب نہیں وہ اپنے تکلیف دہ مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
قومی صوبائی اسمبلی کا ممبر ہو یا وزیر جب اس کی مراعات عام شہری کی طرح ہوں گی تو قوم اور اپوزیشن کی زبان پر تالے خودبخود پڑ جائیں گے۔ کچھ باتوں اور آپ کے احکامات پر مثبت روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اگر آپ اس پر عمل صرف اور صرف چند ہفتوں میں کروا دیں تو یقینا قوم اور تعلیم یافتہ افراد آپ کے لیے نرم گوشہ ضرور رکھیں گے، لہٰذا اپنے وعدے کے مطابق قوم کو بھنور سے نکالیں ۔ قوم سیاستدانوں سے مایوس ہے خاص طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ان تیکھے موضوعات سے معتبر جمہوری نظام کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہا۔
پی ڈی ایم میں پاکستان کی بڑی جماعتیں شامل ہیں مگر آپ کو سب کو اعتماد میں لے کر اچھے فیصلے کرنے ہوں گے جب ہی آپ عوامی پذیرائی کی آخری سیڑھی پر کھڑے ہوں گے آپ نے جو کفایت شعاری کا پلان قوم کے لیے تیار کیا ہے اس سے یقینا اربوں کی بچت ہوگی اور ہم پھر آئی ایم ایف سے اتنا قرضہ نہیں لیں گے جو لیتے رہے ہیں تمام وفاقی وزرا، مشیر، وزرائے مملکت اور معاونین تنخواہ نہ لیں، وزیر اعظم صاحب آپ ان کو تنخواہ دیں وہ ان کا حق ہے لوگ کام اس لیے کرتے ہیں کہ انھیں ضروریات زندگی کے لیے پیسے ملیں، رہا معاملہ گیس، بجلی، پانی کا بل وہ خود ادا کریں غیر ملکی دوروں پر پابندی عائد کی گئی ہے ضرورت کے تحت اور ملکی حوالے سے ضرور دورہ کریں مگر درجن افراد کو جانے کی ضرورت نہیں، دورہ کرنے والا شخص خود اور اپنے پرسنل سیکریٹری کے ساتھ غیر ملکی دورے پر جائے اور ایک عام سے ہوٹل میں قیام کریں غیر ممالک کے تو عام سے ہوٹل بھی ہمارے ملک کے ہوٹلوں سے بے حد بہتر ہوتے ہیں۔
رہا معاملہ ملک و بیرون ممالک کے دورے کا تو وہ اکانومی (عام کلاس) میں سفر کریں انھیں کوئی بھی مسائل کے حوالے سے تنگ نہیں کرے گا قوم کو پتا ہوگا کہ یہ اب ہماری کلاس میں سفر کر رہے ہیں بلکہ لوگ انھیں خوش آمدید کہیں گے۔ سرکاری تقریبات میں ون ڈش ہوگی اچھی روایت کا آغاز کیا گیا بلکہ ملک میں شادی کے کھانے پر بھی پابندی عائد کی جائے آج کل عام سا کھانا 300 افراد کا 3 لاکھ میں بنتا ہے اب غریب بیٹی کی شادی کرے گا اور وہ تو صرف کھانے کے بل میں لاغر اور ناتواں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے کھانوں پر پابندی تھی اس پابندی کو مشرف دور میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے ختم کیا۔
جناب وزیر اعظم جس نے کھانا کھلانا ہے وہ تو کھلائے گا کہ اس کی حفاظت کے لیے باہر سیکیورٹی موجود ہوگی سرکاری افسران کے پاس جو موجود سیکیورٹی ہوتی ہے اسے دیکھ کر قوم میں مایوسی پائی جاتی ہے ٹریفک روک دی جاتی ہے ان کے گزرنے کے انتظار میں قوم کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، کس بات کی سیکیورٹی انھیں صرف ان کا اسٹاف جانتا ہے قوم کو کیا لینا دینا، وزرا کو صرف اور صرف ایک پولیس موبائل دی جائے، گرمیوں میں دفاتر کے اوقات 8 بجے سے کیے جائیں کہ لوگوں کو گیس کی بہت تکلیف ہے سرکاری دفاتر میں اے سی کا سلسلہ ختم کیا جائے ایک کلرک بھی تو سارا دن پنکھے کے نیچے بیٹھ کر کام کرتا ہے شام 7 بجے دکانیں بند کی جائیں تاکہ بجلی کی بچت ہو اور گھریلو افراد کو بجلی ملے اس پر بزنس مین افراد بھی تعاون کریں ضد کرنے سے ملک کو نقصان ہوگا اور ملک ہی تو بچانا ہے۔
''دیا جلائے رکھنا ہے اس دیس کی خاطر سو دکھ جھیلیں گھر تو آخر اپنا ہے'' زیادہ تر ٹیکس پرتعیش اشیا پر لگائے گئے ہیں بلکہ صحیح لگائے گئے ہیں کتوں، بلیوں، شیروں، چیتوں، گھوڑوں سے جو اعلیٰ نسل کے ہیں اس کا غریب عوام سے کیا تعلق، ہاں سگریٹ ہمارے ہاں 60 فیصد افراد پیتے ہیں یا تو کراچی سے خیبر تک سگریٹ پر پابندی لگا دیں اگر ایسا ناممکن ہے تو سگریٹ جو مہنگا کیا گیا ہے وہ نامناسب ہے جس کی 25 ہزار تنخواہ ہے وہ بھی سستا سگریٹ پیتا ہے وہ شخص مجبور ہو گیا ہے ایک اچھے برانڈ کے سگریٹ کا پیکٹ 500 روپے تک ہو گیا ہے یہ زیادتی ہے انھیں پرانی قیمتوں پر بحال کیا جائے جنھوں نے یہ فیصلہ کیا ہے انھیں اس فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے لگژری گاڑیاں ختم کی جائیں۔ پاکستان میں بننے والی 1000 سی سی گاڑیاں دی جائیں۔
کابینہ کے اراکین یوٹیلیٹی بل خود دیں گے وزیر اعظم آپ نے یہ فیصلہ کرکے قوم کے دل جیت لیے ہیں یہ پلاٹ دینے کا سلسلہ بالکل ختم کیا جائے اگر یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا تو ریل کے سفر کے دوران جو کھلے میدان نظر آتے ہیں یہ بھی بٹ جائیں گے ۔زیادہ دور کی بات نہیں 2035 تک کی بات ہے جو زندہ رہے گا وہ دیکھے گا یہ سلسلہ ختم کیا جائے اگر یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا تو پھر کچی آبادیاں مسمار نہ کی جائیں سب پاکستانی ہیں ،جو تحائف بڑے لوگوں کے لیے آتے ہیں ان پر پابندی لگائی جائے تاکہ توشہ خانہ کا جھگڑا ختم ہو۔
انگریزوں کے دور کی بڑی حویلیاں فروخت کی جائیں اور اس رقم سے آئی ایم ایف کا قرضہ اتارنے کی کوشش کی جائے، تمام توشہ خانہ میں جو تحائف آتے ہیں وہ قوم کو بتائے جائیں، ماتحت دفاتر کے اخراجات میں 40 فیصد کمی کی جائے، چینل پر آن ایئر ہونے والے اجلاس دکھائے جاتے ہیں اخبارات میں پرنٹ ہوتے ہیں اجلاس میں منرل واٹر کی بوتلیں رکھی جاتی ہیں یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر اجلاس میں پھولوں کے گلدستے میز پر ہوتے ہیں یہ ہزاروں روپے کس مقصد کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں، کفایت شعاری کا آغاز صدر، وزیر اعظم ہاؤس سے کیجیے۔ محترم وزیر اعظم صاحب آپ سچے دل سے کفایت شعاری پر عمل کروائیں تو یقینا مایوس قوم پھر الیکشن کے وقت (ن) لیگ کے لیے یقینا نرم گوشہ رکھے گی کہ وہ اپنی آنکھوں سے بہتری دیکھنا چاہتی ہے۔
سوشل میڈیا نے انھیں روشنی میں لاکھڑا کیا ہے وزیروں اور مشیروں کو چاہیے کہ وہ قوم کے لیے مسائل کے پہاڑوں کو توڑیں، بات جبھی بنے گی وہ اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے، 50 فیصد جب آپ ان باتوں پر عملی کارکردگی دکھائیں گے تو پھر پریس کانفرنس کریں قوم یقینا آپ کو خراج تحسین پیش کرے گی بیانات کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے، عملی کام کرکے دکھائیں، مانا کہ آپ اور (ن) لیگ کے ساتھ دیگر پارٹیاں شامل سب نرم گوشہ رکھ کر آپ کے قافلے کا حصہ بنیں، قوم جو چاہتی ہے وہ کر دکھائیں جو اپوزیشن کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہوگا۔