کمر توڑ مہنگائی یا قیامت
ہمارے ملک میں جب بھی کوئی تہوار آتا ہے تو ہر چیز کے دام بڑھا دیے جاتے ہیں
بیان کرنیوالے نے اس کہاوت کو کچھ ان الفاظ میں ہی بیان کیا تھا کہ شکاری ایک بندوق اور دیگر شکار کا ضروری سامان لے کر اپنے گھر سے شکار کی غرض سے روانہ ہوا اور ایک طویل مسافت کے بعد ایک جنگل میں داخل ہو گیا، وہ شکاری کافی دیر تک جنگل میں شکار کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکتا رہا بالآخر اس شکاری کو ایک ہرن نظر آیا۔
ادھر شکاری کو ہرن نے بھی دیکھ لیا ، ہرن نے پوری رفتار سے دوڑ لگا دی۔ اب کیفیت یہ تھی آگے آگے ہرن اور پیچھے شکاری۔ دونوں جنگل میں خوب دوڑ رہے تھے دونوں کا دوڑنا بے مقصد تو تھا نہیں کیونکہ شکاری شکار کے حصول کے لیے بھاگ رہا تھا تو ہرن کے لیے موت و زیست کا سوال تھا۔ چنانچہ طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد بالآخر شکاری نے ہرن کو گھیر لیا۔
قبل اس کے کہ شکاری گولی چلاتا ہرن نے اپنی جان بچانے کے لیے آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے شکاری سے پوری قوت سے چلاتے ہوئے کہا '' گولی مت چلانا ورنہ قیامت آجائے گی۔'' ہرن کی بات سن کر شکاری سوچ میں پڑ گیا کہ میں اگر گولی چلاؤں تو گولی تو ہرن کو لگے گی اور میں ہرن کا شکار کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا مگر اس سارے عمل کا قیامت سے کیا واسطہ؟
چنانچہ آخرکار سوچ بچار کے بعد ہرن پر گولی چلا دی، نشانہ سیدھا جا کر ہرن کی ٹانگ میں لگا، ہرن درد کی شدت سے زمین پر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا کہ شکاری نے ہرن سے کہا ''دیکھو میں نے تیرے جسم پر نشانہ لے کر گولی بھی چلا دی اور نشانہ سیدھا جا کر تیری ٹانگ پر لگا اور تو زخمی بھی ہو گیا ہے مگر جیسے کہ تو نے مجھے خبر دار کیا تھا میرے گولی چلانے سے قیامت آجائے گی ایسا نہیں ہوا، کوئی قیامت تو نہیں آئی۔''
ہرن اگرچہ شدید درد کے باعث بے حال ہو رہا تھا اس کے باوجود شکاری کو ہرن نے جواب دیا کہ '' میرے لیے تو قیامت آگئی ہے اول تو اب تم مجھے چھوڑو گے نہیں اس صورت میں میری جان جائے گی اور اگر فرض کریں تم نے مجھے چھوڑ بھی دیا تو پھر آنے والی تمام زندگی مجھے تین ٹانگوں پر گزارنا ہوگی گویا ایک ٹانگ سے محرومی کے ساتھ ، گویا دونوں صورتوں میں میرے لیے تو قیامت ہی کی صورت حال ہے۔''
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہر دل عزیز حکمران یقین کریں یا نہ کریں عام آدمی کے لیے ہمارے سماج میں قیامت برپا ہو چکی ہے اور یہ قیامت برپا ہوئی ہے کمر توڑ مہنگائی کے باعث۔
اگرچہ مہنگائی ہم گزشتہ تمام عمر سے دیکھ و برداشت کر رہے ہیں ، البتہ عصر حاضر میں صداقت تو یہی ہے کہ جب سے موجودہ پی ڈی ایم و اس کے اتحادی حکومت میں آئے ہیں ہر روز مہنگائی کا ایک طوفان پاکستانی عوام کا منتظر ہوتا ہے حد تو یہ ہے کہ جو بھی مہنگائی کا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے اس کا کئی روز پہلے ہی چرچہ کردیا جاتا ہے چنانچہ کافی روز پہلے یہ اعلان کردیا گیا کہ حکومت بحالت مجبوری ایک منی بجٹ لا رہی ہے، اثر اس اعلان کا یہ ہوا کہ مارکیٹ سے اشیائے ضروریہ غائب ہونا و گوداموں میں اسٹاک ہونا شروع ہوگئیں۔
بات صاف ہے ہر کوئی اپنے مفادات کے لیے کاروبار کرتا ہے جب حکومت کوئی چیز مہنگی ہونے کا عندیہ دیتی ہے تو یہ سنتے ہی منافع خور ناجائز منافع کے لیے سرگرم ہو جاتے ہیں نتیجہ یہ کہ مارکیٹ میں اشیائے ضروریہ کی قلت جوکہ مصنوعی قلت ہوتی ہے ، جس کے باعث اشیائے ضروریہ مہنگی ہو جاتی ہیں۔
بہرکیف کئی روز قبل ہی مہنگائی کا عندیہ دینے والی موجودہ حکومت نے 15 فروری کو منی بجٹ کا اعلان کردیا، یہ اعلان کیا تھا گویا مہنگائی کا بم تھا جوکہ عوام پر گرا دیا گیا اس بجٹ میں کہا تو یہ گیا کہ عوام پر 170 ارب روپے کے ٹیکسز لگائے جا رہے ہیں مگر حقیقت میں اس کے برعکس ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق دعویٰ تو حکومت کا 170 ارب روپے ٹیکسز لگانے کا ہے مگر درحقیقت یہ ٹیکسز5 سو 10 ارب روپے کے لگائے گئے ہیں اس منی بجٹ کا اعلان ہوتے ہی ہر چیز کے دام دگنے ہوگئے ہیں۔ یہ اعلان سنتے ہی گویا منافع خور لوگ اپنے ہتھیار تیز کرکے میدان عمل میں کود پڑے، خریداری کرتے ہوئے جس چیز کے دام معلوم کرو سنتے ہی پاؤں تلے سے زمین سرک جاتی ہے۔
گویا جب ہم گزشتہ اتوار سستے بازار میں گئے تو معلوم ہوا یہ سستے بازار بھی خوب ہیں کیونکہ سب مہنگا سامان تو ان نام نہاد بازاروں میں دستیاب ہوتا جب ہم نے سبزیوں کے بھاؤ معلوم کیے تو جو کیفیت ہمارے سامنے آئی وہ یہ تھی مٹر، شلجم، گوبھی، میتھی، کریلے، ساگ، پالک، شملہ مرچ، لوکی، ٹینڈے، بینگن غرض کہ کوئی بھی سبزی ایسی نہ تھی جس کے فی کلو بھاؤ ایک سو پچاس روپے سے 250 روپے سے کم ہوں۔
دھنیا، پودینہ، ادرک، لہسن، پیاز سب مہنگا۔ پیاز پر تھوڑے بھاؤ کم ہوئے تھے پھر بھی دو سو روپے فی کلو دستیاب تھی جب کہ بھنڈی 400 روپے کلو جب بھنڈی کے دام معلوم کیے تو پتا چلا کہ ایک سو روپے پاؤ۔ دریافت کیا کہ ایک پاؤ کے دام کیوں؟ صاف صاف کلو کے دام بتاؤ، جواب دیا جب چار سو روپے فی کلو بتائیں گے تو چار سو کا نام سنتے ہی خریدار لعنت ملامت کرتا ہوا آگے بڑھ جائے گا۔
یہ ضرور عرض کرتے چلیں کہ 1970 تک اکثر چیزوں کے دام پانچ سیر کے حساب سے بتائے جاتے تھے پھر 2 سیر کے دام بتائے جاتے تھے، پھر دنیا بھر میں اعشاری نظام کا نظام نافذ ہوا تو سیر کی جگہ کلو نے لے لی یوں فی کلو کے بھاؤ بتائے جاتے رہے پھر جب مہنگائی کو پر لگ گئے تو اب خوردنی اشیا کے بھاؤ آدھا کلو و ایک پاؤ میں بتائے جانے لگے۔ چنانچہ ہم نے گزشتہ رمضان میں خربوزے کے دام معلوم کیے تو وہ صاحب بتا رہے تھے آدھا کلو کے حساب سے اب خدا خیر کرے۔
دنوں کی بات ہے جب رمضان شروع ہوں گے تو کیا ہوگا، گوکہ رمضان میں اشیا کثرت سے ہوتی ہیں مگر رمضان کے مہینے میں ہر خوردنی چیز کے دام ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں، سننے میں تو یہی آتا ہے کہ یورپی و دیگر ممالک میں جب بھی کوئی تہوار آتا ہے تو تاجران حضرات تمام قسم کی اشیا ضروریہ کے دام کم کردیتے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں جب بھی کوئی تہوار آتا ہے تو ہر چیز کے دام بڑھا دیے جاتے ہیں۔
جب عام آدمی اس کیفیت میں زندگی گزار رہا ہے کہ گزشتہ برس اپنے ایک عزیز کے ہاں عید کے دوسرے روز عید ملنے کی غرض سے جانا ہوا تو وہ صاحب بتانے لگے کہ ہمارے پڑوس میں یہ صورتحال ہے کہ خاتون خانہ ہمارے گھر آئیں اور آ کر افسوس کا اظہار کرنے لگیں کہ ہمارے گھر کسی بھی فرد کے نئے کپڑے تیار نہیں ہوئے، سب سے زیادہ فکر اپنی سب سے چھوٹی معصوم بیٹی کی ہے اس کے لیے نئے کپڑوں کا انتظام نہیں ہوگا، سوچتی ہوں اس کے دل پر کیا گزرے گی؟
ہمارے میزبان بتا رہے تھے کہ ہم بھی مالی طور سے مستحکم نہ تھے سو غور و فکر کے بعد اپنی صاحب زادی کے دو پرانے کپڑوں کے جوڑے نکالے اور کسی بہانے سے اس معصوم بچی کا ناپ اور اس کے ناپ کے مطابق کانٹ چھانٹ کرکے کپڑوں کی سلائی کرکے استری وغیرہ کرکے نئے کپڑوں کا نام دے کر اس بچی کو پہنا دیے گئے۔ اپنے ان عزیز کی بات ہمیں آج بھی یاد ہے ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ تو گزشتہ برسوں کی باتیں ہیں، آج کے دور میں جب کہ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے اس سال عام لوگ عید کیسے گزاریں گے؟
ہم نے ہرن اور شکاری کا قصہ بیان کیا، سبزیوں کا ذکر کیا اب ہم اگر دالوں کی بات کریں تو کوئی بھی دال تین سو پچاس روپے فی کلو سے کم میں دستیاب نہیں۔ دال ماش کی قیمت تو فی کلو پانچ سو روپے میں بک رہی ہے گویا عام آدمی دال کھانے سے بھی گیا۔ عام آدمی اگر بیمار ہو جائے تو محلے کے ڈاکٹر سے بھی ایک یوم کی دوائی ایک ہزار روپے میں پڑتی ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ کل ہی ہمارے دل پسند وزیر اعظم مزید مہنگائی کی نوید سنا رہے تھے اب آنے والے دنوں میں غریب عوام کا کیا ہوگا، لمحہ فکریہ تو ہے۔