بھارتی میڈیا کی دم توڑتی آزادی
بھارت نے پریس کی آزادی کے لیے کچھ خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے اور پریس کی آزادی کو بڑھانے کی کوشش نہیں کی
ایک عام خیال یہی ہے کہ میڈیا معاشرے میں شعور، آگہی، معلومات کی فراہمی کے ساتھ تفریح بھی فراہم کرتا ہے اور مختلف انداز سے معاشرے اور ریاست کی خامیوں اور غلطیوں کو اجاگر کرتا ہے کہ معاشرہ روشن خیالی کے سفر کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔
اس حوالے سے اگر ہم ہند کی آزادی کے بعد، بھارت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ بھارتی فلم انڈسٹری اپنی فلموں کے موضوعات کے اعتبار سے کسی حد تک معاشرے کو جوڑنے اور روشن خیال بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے، لیکن دوسری جانب جب ہم بھارت میں ہونے والے اہم واقعات کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آزادی کے وقت ہندو مسلم کشید گی کا ماحول تھا وہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس کشیدگی میں اضافہ ہی ہوتا نظر آیا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ قوتیں تو اس کشیدہ ماحول کو زندہ رکھے ہوئے ہیں کہ اس کی بدولت ان کی ذاتی اور ان کی سیاسی زندگی کو بھی آکسیجن فراہم ہو رہی ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ میڈیا جوکہ آج دنیا بھر میں ہر شخص کی ذہن سازی کر تا نظر آرہا ہے اس کا بھارت میں کیا کردار ہے؟ آیا اس کا کردار بھارت کے اس گھٹن زدہ ماحول کو ختم کرنے میں کوشش کررہا ہے یا کہ اس کو بڑھاوا دے رہا ہے؟
اس حوالے سے جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی میڈیا اس ماحول کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے اس میں اضافے کا باعث بن رہا ہے اور بھارت میں میڈیا کا کردار اور آزادی کی صورتحال یہ باور کراتی ہے کہ جو صحافی اس ضمن میں ایک بہتر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا بہتر کردار ادا کررہے ہیں، ان کے لیے اب میڈیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
اس کی دو بڑی وجوہات سامنے آرہی ہیں ایک یہ کہ بھارتی میڈیا میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی اکثریت ہے جو مذہبی معاملات میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی خبروں میں بھی معروضیت کے صحافتی اصول کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں تو بھلا مسلمانوں کے معاملات میں غیر جانبدار کیسے رہ سکتی ہے۔
دوسرے یہ کہ بھارت میں بھی سیکولر ازم کے نعرے لگانے کے باوجود عملاً معاملات سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہیں یعنی بھارتی میڈیا کارپوریٹ سیکٹر کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے اور اس عمل میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ مثلاً این ڈی ٹی وی (نیو دہلی ٹی وی لمیٹڈ) جس کے بارے میں یہ خیال کیا جا تا تھا کہ وہ صحافتی اقدار کا دیگر ٹی وی چینلز کے مقابلے میں زیادہ خیال رکھتا ہے، یہ چینل بھی کارپوریٹ طبقے کی نذر ہوگیا جس کے بعد ظاہر ہے کہ اس میں کام کرنے والے اچھی شہرت کے حامل اور قدرے غیر جانبدارکردار رکھنے والے صحافیوں کے لیے کام کرنا ممکن نہ رہا چنانچہ ایک معروف صحافی و اینکر روش کمار کے مستعفیٰ ہونے کی خبر بھی آگئی۔
صحافیوں کا خیال ہے کہ روش کمار کے چلے جانے کے بعد این ڈی ٹی وی کا غیر جانبدرانہ کردار بھی اب ماضی کا قصہ بن جائے گا۔ یہ معاملات ایک دم یوں ہی رونما نہیں ہوتے، میڈیا کی پاور کو دیکھتے ہوئے اب بڑے بڑے کاروباری ادارے بھی میڈیا کو ایک اچھا منافع بخش ادارہ سمجھ کر اس طرف آرہے ہیں۔ این ڈی ٹی وی کے شیئر خریدنے والے گوتم اڈانی ایشیا کے امیر ترین اور دنیا کے چند امیر ترین افراد میں شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ روش کمار مین اسٹریم میڈیا کے وہ واحد صحافی ہیں جنھوں نے پرائم ٹائم میں ہمیشہ اہم معاملوں کو بحث کا موضوع بنایا جن میں مہنگائی، بیروزگاری اور مختلف ضروری موضوعات پر ارباب اقتدار سے سخت سوالات کیے۔ سخت سوالات کی پاداش میں انھیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سوشل میڈیا کی طرف سے خوب ٹرول کیا گیا نیز جان سے مار دینے کی دھمکیاں تک دی گئیں۔
روش کمار کا یہ موقف کہ ساری جنگیں جیتنے کے لیے نہیں لڑی جاتیں، میں اس لیے ڈٹ کے کھڑا ہوں تاکہ جب مورخ تاریخ لکھے تو وہ یہ نہ لکھے کہ سارا میڈیا ہی مودی کے سامنے سر نگوں تھا، اس حقیقت کی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ بھارت کا تمام میڈیا سیکولر ، روشن خیال یا غیر جانبدار نہیں ہے۔
ان کی اس بات میں وزن ہے اور یہ بات وہ تمام ناظرین بخوبی جانتے ہیں کہ جن کی نظر سے صبح و شام بھارتی میڈیا گزرتا ہے اور انھیں وہ ایشو نظر نہیں آتے کہ جن میں مودی سرکار یا حکمرانوں پر تنقید کی گئی ہو اور نہ ہی ایسے موضوعات نظر آتے ہیں جو عوام کے حقیقی مسائل سے متعلق ہوں، جب کہ ایسے ایشو جن میں مسلمانوں یا پاکستان کا کوئی لفظ شامل ہو سکتا ہو، خوب دھواں دھار طریقے سے نمایاں ایشو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مثلا بھارتی میڈیا میں ایک گرما گرم خبر چلی اور ایسی چلی کہ تمام بھارتی میڈیا پر چھاگئی۔
خبر تھی کہ گلوکاری کے ایک معروف مقابلے ' انڈین آئیڈول' میں بھارتی ریاست آسام سے تعلق رکھنے والی پندرہ سالہ گلوکارہ ناہید آفرین کے خلاف چھیالیس کے قریب علما نے فتویٰ دے دیا ہے۔ فتویٰ اس بات پر دیا گیا ہے کہ وہ آیندہ قبرستان کے قریب منعقد ہونے والے پروگرام میں حصہ نہ لے کیونکہ یہ مذہبی لحاظ سے درست نہیں ہے۔
بھارت میں ٹی وی چینلز نے طوفان سر پر اٹھا لیا، ٹائمز نائو چینل نے اپنے پروگرام ''نیو آوور ڈیبیٹ نمبر ون'' میں تسلیمہ نسرین اور اس جیسی دیگر اسلام مخالف نظریات رکھنے والی خواتین کو مدعو کر کے اس فتویٰ پر کہ مساجد اور مقبروں کے قریب گانا درست نہیں، خوب گرما گرم بحث کی اور ساتھ ہی چند اسلامی پس منظر رکھنے والے مولوی حضرات کو شامل کرکے ماحول کو اور بھی گرمانے کی بھر پور کوشش کی اور اسلامی تعلیمات اور نظریات کے خلاف دل کی خوب بھڑاس نکالی۔
بی بی سی نے اپنی خبر میں بتایا کہ بھارتی میڈیا جس گلوکارہ لڑکی کے خلاف چھیالیس کے قریب علما کے فتوے کا شور مچا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ لڑکی کو مساجد یا قبرستان کے قریب گلوکاری نہیں کرنی چاہیے، دراصل کسی بھی عالم نے ایسا کوئی فتویٰ دیا ہی نہیں ہے اور اس سلسلے میں جب لڑکی اور اس کے والدین سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بھی ایسے کسی فتوے کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا، بلکہ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی قبرستان میں گانے کا مسئلہ ہوتا تو وہ خود ہی اپنی بیٹی کو منع کردیتے۔
والدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں کسی بھی تنظیم کی جانب سے کوئی فون یا اطلاع نہیں آئی ، نہ ہی کسی تنظیم کی جانب سے اس قسم کے فتویٰ کو تسلیم کرنے کا کہا گیا یا دھمکی دی گئی۔ یوں دیکھا جائے تو بھارتی میڈیا کی آزادی اب پہلے سے بھی مزید کم تر ہوگئی ہے۔
پریس کی آزادی کے حوالے سے 2021 میں دنیا بھر میں بھارت کے 142 ویں نمبر پر آنے کے بعد بھی حالات و واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت نے پریس کی آزادی کے لیے کچھ خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے اور پریس کی آزادی کو بڑھانے کی کوشش نہیں کی اور بھارتی آنجہانی صحافی کلدیپ نائر کی یہ بات بھی درست ثابت ہو رہی ہے جو انھوں نے اپنے ایک کالم میں لکھی تھی کہ بھارتی میڈیا بھی اب کارپوریٹ سیکٹر کی نذر ہوتا جا رہا ہے اور اس سے وابستہ امیدیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ روش کمار کا استعفیٰ بھی بھارتی میڈیا کی دم توڑتی آزادی صحافت کی نشاندہی کر رہا ہے۔
اس حوالے سے اگر ہم ہند کی آزادی کے بعد، بھارت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ بھارتی فلم انڈسٹری اپنی فلموں کے موضوعات کے اعتبار سے کسی حد تک معاشرے کو جوڑنے اور روشن خیال بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے، لیکن دوسری جانب جب ہم بھارت میں ہونے والے اہم واقعات کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آزادی کے وقت ہندو مسلم کشید گی کا ماحول تھا وہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس کشیدگی میں اضافہ ہی ہوتا نظر آیا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ قوتیں تو اس کشیدہ ماحول کو زندہ رکھے ہوئے ہیں کہ اس کی بدولت ان کی ذاتی اور ان کی سیاسی زندگی کو بھی آکسیجن فراہم ہو رہی ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ میڈیا جوکہ آج دنیا بھر میں ہر شخص کی ذہن سازی کر تا نظر آرہا ہے اس کا بھارت میں کیا کردار ہے؟ آیا اس کا کردار بھارت کے اس گھٹن زدہ ماحول کو ختم کرنے میں کوشش کررہا ہے یا کہ اس کو بڑھاوا دے رہا ہے؟
اس حوالے سے جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی میڈیا اس ماحول کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے اس میں اضافے کا باعث بن رہا ہے اور بھارت میں میڈیا کا کردار اور آزادی کی صورتحال یہ باور کراتی ہے کہ جو صحافی اس ضمن میں ایک بہتر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا بہتر کردار ادا کررہے ہیں، ان کے لیے اب میڈیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
اس کی دو بڑی وجوہات سامنے آرہی ہیں ایک یہ کہ بھارتی میڈیا میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی اکثریت ہے جو مذہبی معاملات میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی خبروں میں بھی معروضیت کے صحافتی اصول کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں تو بھلا مسلمانوں کے معاملات میں غیر جانبدار کیسے رہ سکتی ہے۔
دوسرے یہ کہ بھارت میں بھی سیکولر ازم کے نعرے لگانے کے باوجود عملاً معاملات سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہیں یعنی بھارتی میڈیا کارپوریٹ سیکٹر کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے اور اس عمل میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ مثلاً این ڈی ٹی وی (نیو دہلی ٹی وی لمیٹڈ) جس کے بارے میں یہ خیال کیا جا تا تھا کہ وہ صحافتی اقدار کا دیگر ٹی وی چینلز کے مقابلے میں زیادہ خیال رکھتا ہے، یہ چینل بھی کارپوریٹ طبقے کی نذر ہوگیا جس کے بعد ظاہر ہے کہ اس میں کام کرنے والے اچھی شہرت کے حامل اور قدرے غیر جانبدارکردار رکھنے والے صحافیوں کے لیے کام کرنا ممکن نہ رہا چنانچہ ایک معروف صحافی و اینکر روش کمار کے مستعفیٰ ہونے کی خبر بھی آگئی۔
صحافیوں کا خیال ہے کہ روش کمار کے چلے جانے کے بعد این ڈی ٹی وی کا غیر جانبدرانہ کردار بھی اب ماضی کا قصہ بن جائے گا۔ یہ معاملات ایک دم یوں ہی رونما نہیں ہوتے، میڈیا کی پاور کو دیکھتے ہوئے اب بڑے بڑے کاروباری ادارے بھی میڈیا کو ایک اچھا منافع بخش ادارہ سمجھ کر اس طرف آرہے ہیں۔ این ڈی ٹی وی کے شیئر خریدنے والے گوتم اڈانی ایشیا کے امیر ترین اور دنیا کے چند امیر ترین افراد میں شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ روش کمار مین اسٹریم میڈیا کے وہ واحد صحافی ہیں جنھوں نے پرائم ٹائم میں ہمیشہ اہم معاملوں کو بحث کا موضوع بنایا جن میں مہنگائی، بیروزگاری اور مختلف ضروری موضوعات پر ارباب اقتدار سے سخت سوالات کیے۔ سخت سوالات کی پاداش میں انھیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سوشل میڈیا کی طرف سے خوب ٹرول کیا گیا نیز جان سے مار دینے کی دھمکیاں تک دی گئیں۔
روش کمار کا یہ موقف کہ ساری جنگیں جیتنے کے لیے نہیں لڑی جاتیں، میں اس لیے ڈٹ کے کھڑا ہوں تاکہ جب مورخ تاریخ لکھے تو وہ یہ نہ لکھے کہ سارا میڈیا ہی مودی کے سامنے سر نگوں تھا، اس حقیقت کی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ بھارت کا تمام میڈیا سیکولر ، روشن خیال یا غیر جانبدار نہیں ہے۔
ان کی اس بات میں وزن ہے اور یہ بات وہ تمام ناظرین بخوبی جانتے ہیں کہ جن کی نظر سے صبح و شام بھارتی میڈیا گزرتا ہے اور انھیں وہ ایشو نظر نہیں آتے کہ جن میں مودی سرکار یا حکمرانوں پر تنقید کی گئی ہو اور نہ ہی ایسے موضوعات نظر آتے ہیں جو عوام کے حقیقی مسائل سے متعلق ہوں، جب کہ ایسے ایشو جن میں مسلمانوں یا پاکستان کا کوئی لفظ شامل ہو سکتا ہو، خوب دھواں دھار طریقے سے نمایاں ایشو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مثلا بھارتی میڈیا میں ایک گرما گرم خبر چلی اور ایسی چلی کہ تمام بھارتی میڈیا پر چھاگئی۔
خبر تھی کہ گلوکاری کے ایک معروف مقابلے ' انڈین آئیڈول' میں بھارتی ریاست آسام سے تعلق رکھنے والی پندرہ سالہ گلوکارہ ناہید آفرین کے خلاف چھیالیس کے قریب علما نے فتویٰ دے دیا ہے۔ فتویٰ اس بات پر دیا گیا ہے کہ وہ آیندہ قبرستان کے قریب منعقد ہونے والے پروگرام میں حصہ نہ لے کیونکہ یہ مذہبی لحاظ سے درست نہیں ہے۔
بھارت میں ٹی وی چینلز نے طوفان سر پر اٹھا لیا، ٹائمز نائو چینل نے اپنے پروگرام ''نیو آوور ڈیبیٹ نمبر ون'' میں تسلیمہ نسرین اور اس جیسی دیگر اسلام مخالف نظریات رکھنے والی خواتین کو مدعو کر کے اس فتویٰ پر کہ مساجد اور مقبروں کے قریب گانا درست نہیں، خوب گرما گرم بحث کی اور ساتھ ہی چند اسلامی پس منظر رکھنے والے مولوی حضرات کو شامل کرکے ماحول کو اور بھی گرمانے کی بھر پور کوشش کی اور اسلامی تعلیمات اور نظریات کے خلاف دل کی خوب بھڑاس نکالی۔
بی بی سی نے اپنی خبر میں بتایا کہ بھارتی میڈیا جس گلوکارہ لڑکی کے خلاف چھیالیس کے قریب علما کے فتوے کا شور مچا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ لڑکی کو مساجد یا قبرستان کے قریب گلوکاری نہیں کرنی چاہیے، دراصل کسی بھی عالم نے ایسا کوئی فتویٰ دیا ہی نہیں ہے اور اس سلسلے میں جب لڑکی اور اس کے والدین سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بھی ایسے کسی فتوے کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا، بلکہ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی قبرستان میں گانے کا مسئلہ ہوتا تو وہ خود ہی اپنی بیٹی کو منع کردیتے۔
والدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں کسی بھی تنظیم کی جانب سے کوئی فون یا اطلاع نہیں آئی ، نہ ہی کسی تنظیم کی جانب سے اس قسم کے فتویٰ کو تسلیم کرنے کا کہا گیا یا دھمکی دی گئی۔ یوں دیکھا جائے تو بھارتی میڈیا کی آزادی اب پہلے سے بھی مزید کم تر ہوگئی ہے۔
پریس کی آزادی کے حوالے سے 2021 میں دنیا بھر میں بھارت کے 142 ویں نمبر پر آنے کے بعد بھی حالات و واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت نے پریس کی آزادی کے لیے کچھ خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے اور پریس کی آزادی کو بڑھانے کی کوشش نہیں کی اور بھارتی آنجہانی صحافی کلدیپ نائر کی یہ بات بھی درست ثابت ہو رہی ہے جو انھوں نے اپنے ایک کالم میں لکھی تھی کہ بھارتی میڈیا بھی اب کارپوریٹ سیکٹر کی نذر ہوتا جا رہا ہے اور اس سے وابستہ امیدیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ روش کمار کا استعفیٰ بھی بھارتی میڈیا کی دم توڑتی آزادی صحافت کی نشاندہی کر رہا ہے۔