افغانستان کی صورت حال ایک نظر
نواب چھتاری کی یاد داشت کے پہلو اب بھی بازگشت بن کر گونج رہے ہیں
ایک عام سی صورت حال جو بہ ظاہر نظر آ رہی ہے کہ افغانستان میں حالات بہتر ہو رہے ہیں یقیناً یہ ایک خوش آیند خبر ہے لیکن حالات اب بھی وہاں کے شہریوں کے لیے مسائل کا انبار لیے امداد کے منتظر ہیں۔
یوکرین پر روس کے حملے نے جنوبی ایشیا کے ممالک کے لیے ویسے ہی معاملات کو عجیب سی راہ پر لا کھڑا کیا ہے، یہ نازک صورت حال پیوٹن کے مناسب رویوں کی بدولت بہتری کی جانب چل سکتی ہے۔
کہا جا رہا ہے روس اور یوکرین کے تنازع نے جہاں بہت سے مسائل کو دنیا کے لیے جنم دیا ہے وہیں افغانستان کے لیے بھی ایک گمبھیر صورت پیدا کردی۔ عالمی توجہ اب افغانستان کے انسانی بحران سے ہٹ گئی ہے۔ اقوام متحدہ پہلے ہی چار اعشاریہ چار ارب ڈالرز کی اپیل کو پورا کرنے کے لیے جد و جہد کر رہی ہے۔ یہ اعلان انسانی بنیادوں پر امداد کے لیے کیا گیا تھا۔
حالیہ صورت حال کیا ہے، ہم اس بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں؟ افغانستان اب محفوظ ہے یا اب بھی کسی خطرے کے سگنل وہاں منتظر ہیں یہ سب کیا ہے؟برطانوی پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کی رپورٹ نے ایک انکشاف کیا ہے جس کے مطابق افغانستان ایک بار پھر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ رپورٹ کن حقائق پر مبنی ہے، کیا یہ سب من گھڑت ہے یا واقعی کہانی کچھ اور ہی ہے۔
اس رپورٹ کے جواب میں برطانیہ کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے محفوظ انخلا کو یقینی بنانے کے لیے انتھک محنت کر رہی ہے۔ اس وزارت کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہم ان افغان شہریوں کے مقروض ہیں جنھوں نے افغانستان میں برطانوی مسلح افواج کے لیے یا ان کے ساتھ کام کیا ہے اور ہم نے ایک منصوبے کے ذریعے آج تک بارہ ہزار ایک سو سے زائد افراد کو برطانیہ منتقل کیا ہے۔
وزرا کا اندازہ ہے کہ تقریباً تین سو اہل افغان اور ان کے خاندان ہیں جنھیں حکومت برطانیہ منتقل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ ممبران کی رپورٹ کا جواب مناسب وقت آنے پر دیا جائے گا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں بیس سال تک برطانوی فوج کی موجودگی پر تقریباً تیس ارب پاؤنڈ لاگت آئی اور اس دوران چار سو ستاون برطانوی فوجی ہلاک ہوئے۔
برطانوی پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین ٹوبیاس ایل ووڈ نے 2021 کے موسم گرما میں افغانستان سے برطانیہ کے انخلا کو نہ صرف وہاں خدمات انجام دینے والے فوجیوں کے لیے بلکہ ان افغانوں کے لیے بھی برطانوی فوجی تاریخ کا ایک سیاہ باب قرار دیا جنھوں نے ان کی مدد کی۔ کمیٹی کی تیس صفحات پر مشتمل رپورٹ میں دلیل دی گئی کہ جس تیزی سے افغان حکومت کا خاتمہ ہوا وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ سے بھی بڑھ کر حیران کن تھا۔
رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ برطانیہ نے افغانستان میں اپنی موجودگی کے دوران جو فیصلے کیے ہیں ان کا واضح، دیانت دارانہ اور تفصیلی جائزہ لیا جائے جب کہ اراکین پارلیمنٹ نے 2021 کے انخلا کی کوششوں کی تعریف کی ہے جس سے پندرہ ہزار افراد برطانیہ آئے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہتر طریقے سے منصوبہ بندی کی جانی چاہیے تھی۔ ان کا موقف ہے کہ موثر تعاون کی کمی کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے تکلیف دہ انسانی نتائج برآمد ہوئے، انخلا کی معقول توقع تھی لیکن وہ نہیں ہوا۔
ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ نقل کے اہل کئی ہزار افغان اب بھی باقی ہیں اور حفاظت کے لیے انھیں برطانیہ لانا چاہیے۔ٹوبیاس ایل ووڈ نے سابق فوجیوں کے لیے مالی امداد کا خیرمقدم کیا اور افغانستان میں کام کرنے والے فوجیوں کی بہادری کی تعریف کی۔ایک طویل رپورٹ اور پھر اس کا جواب انتہائی توجہ طلب صورت حال ہے جس کا ہم اور بہت سے لوگ ظاہری، حالی تناظر میں کر رہے ہیں، اس کے دوررس نتائج کیا نکل سکتے ہیں، یہ ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔
یہ ایک بڑی المناک حقیقت ہے کہ افغانستان نے 1980 سے شروع ہونے والی جنگوں، لڑائیوں اور خودکش حملوں میں بہت نقصان اٹھایا، مالی، جانی، معاشی اور معاشرتی حوالوں سے بہت سے مسائل میں گھرا رہا اور اب پھر سے بہ ظاہر جو حالات نظر آ رہے ہیں کیا وہ بھی صرف تصویری معاملات ہیں یا اندر کی کہانی کچھ اور ہے۔
ایک ملک جس کی جڑوں سے بڑے بڑے شہنشاہ نکل کر بڑے بڑے خطوں کو فتح کرگئے اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ گویا وہ سرزمین شعلوں سے گھری ہوئی ہے اور اس جگہ سے انسانوں کا انخلا بہت ضروری ہے ورنہ شعلے انھیں نگل لیں گے۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک خطے سے انسانوں کو دوسری جگہ منتقل کرتے رہنا ہی بہتر ہے کیا؟ اس منتقلی سے ان انسانی روایات، مذہبی تشخص پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
ایک رپورٹ کہیں پڑھی تھی کسی مغربی ملک کے متعلق جہاں ہجرت کرنے والے مسلمان حضرات کی نسلیں اب کن حالوں میں ہیں تو یہ جان کر سخت تشویش اور اذیت ہوئی کہ ان میں سے بہت سے نواسے اور پوتے اب مسلمان نہیں رہے بلکہ زیادہ تر اپنا مذہب تبدیل کرچکے ہیں یا دوسرے مذاہب کی ماؤں کے باعث ایسا ہوتا چلا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کی مسلمان نسل اب دو تین فی صد ہی رہ گئی۔ اسی طرح کی ایک خبر شہزادی ڈیانا کے سلسلے میں سنی گئی تھی کہ ان کا تعلق پچھلی نسلوں میں شہنشاہ بابر سے جا ملتا تھا لیکن وہ پرنس چارلس کی شہزادی بن گئی تھیں۔ یہ سب جتنا خوب صورت اور رنگین نظر آتا ہے اس کے اندر حقیقت کس قدر تلخ اور بدصورت ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ اور اس کے ارکان اور افغانی انسانوں کے لیے اس قدر گراں قدر خدمات یقیناً قابل تحسین ہیں لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سترہویں صدی میں فرنگی کی برصغیر آمد کے بعد سے اس سرزمین پر کیا کچھ حالات رونما ہوئے کیا کچھ تبدیلیاں آئیں، کیا کچھ فتنوں نے سر ابھارا ، ان کو کس نام سے پکاریں کہ یاد داشت میں بہت کچھ محفوظ ہے۔
نواب چھتاری کی یاد داشت کے پہلو اب بھی بازگشت بن کر گونج رہے ہیں۔ ایک ایسی سرزمین جو سنگلاخ پہاڑوں سے گھری ہے کسی کے لیے کیا کچھ بن سکتی ہے، ہماری سوچ کی محدود سمتیں سفر نہیں کر سکتیں کہ ہم آج میں رہنے کے عادی ہیں۔ ہمارے اپنے ملک میں بہت سے شناسا اور اجنبی چہرے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں پھر بھی یہ سوچ کر سمجھ تو آ ہی جاتی ہے کہ ہجرت کرنا کوئی برا عمل نہیں ہے لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
کسی بھی خطے کو ناقابل رہائش بنانے اور دکھانے کا عمل کیوں جاری و ساری ہے ، اگر یہ رپورٹ اور اس طرح کی اور بھی رپورٹوں کی صداقت پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیا جائے تو بہت سے ملکوں کی اس جنگ پارٹی کا حصہ افغانستان ہی کیوں ٹھہرا کہ اس سے منسلک وہ طاقتیں بھی بستی ہیں جن کو براہ راست بالواسطہ اس جنگ سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے نے جنوبی ایشیا کے ممالک کے لیے ویسے ہی معاملات کو عجیب سی راہ پر لا کھڑا کیا ہے، یہ نازک صورت حال پیوٹن کے مناسب رویوں کی بدولت بہتری کی جانب چل سکتی ہے۔
کہا جا رہا ہے روس اور یوکرین کے تنازع نے جہاں بہت سے مسائل کو دنیا کے لیے جنم دیا ہے وہیں افغانستان کے لیے بھی ایک گمبھیر صورت پیدا کردی۔ عالمی توجہ اب افغانستان کے انسانی بحران سے ہٹ گئی ہے۔ اقوام متحدہ پہلے ہی چار اعشاریہ چار ارب ڈالرز کی اپیل کو پورا کرنے کے لیے جد و جہد کر رہی ہے۔ یہ اعلان انسانی بنیادوں پر امداد کے لیے کیا گیا تھا۔
حالیہ صورت حال کیا ہے، ہم اس بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں؟ افغانستان اب محفوظ ہے یا اب بھی کسی خطرے کے سگنل وہاں منتظر ہیں یہ سب کیا ہے؟برطانوی پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کی رپورٹ نے ایک انکشاف کیا ہے جس کے مطابق افغانستان ایک بار پھر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ رپورٹ کن حقائق پر مبنی ہے، کیا یہ سب من گھڑت ہے یا واقعی کہانی کچھ اور ہی ہے۔
اس رپورٹ کے جواب میں برطانیہ کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے محفوظ انخلا کو یقینی بنانے کے لیے انتھک محنت کر رہی ہے۔ اس وزارت کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہم ان افغان شہریوں کے مقروض ہیں جنھوں نے افغانستان میں برطانوی مسلح افواج کے لیے یا ان کے ساتھ کام کیا ہے اور ہم نے ایک منصوبے کے ذریعے آج تک بارہ ہزار ایک سو سے زائد افراد کو برطانیہ منتقل کیا ہے۔
وزرا کا اندازہ ہے کہ تقریباً تین سو اہل افغان اور ان کے خاندان ہیں جنھیں حکومت برطانیہ منتقل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ ممبران کی رپورٹ کا جواب مناسب وقت آنے پر دیا جائے گا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں بیس سال تک برطانوی فوج کی موجودگی پر تقریباً تیس ارب پاؤنڈ لاگت آئی اور اس دوران چار سو ستاون برطانوی فوجی ہلاک ہوئے۔
برطانوی پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین ٹوبیاس ایل ووڈ نے 2021 کے موسم گرما میں افغانستان سے برطانیہ کے انخلا کو نہ صرف وہاں خدمات انجام دینے والے فوجیوں کے لیے بلکہ ان افغانوں کے لیے بھی برطانوی فوجی تاریخ کا ایک سیاہ باب قرار دیا جنھوں نے ان کی مدد کی۔ کمیٹی کی تیس صفحات پر مشتمل رپورٹ میں دلیل دی گئی کہ جس تیزی سے افغان حکومت کا خاتمہ ہوا وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ سے بھی بڑھ کر حیران کن تھا۔
رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ برطانیہ نے افغانستان میں اپنی موجودگی کے دوران جو فیصلے کیے ہیں ان کا واضح، دیانت دارانہ اور تفصیلی جائزہ لیا جائے جب کہ اراکین پارلیمنٹ نے 2021 کے انخلا کی کوششوں کی تعریف کی ہے جس سے پندرہ ہزار افراد برطانیہ آئے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہتر طریقے سے منصوبہ بندی کی جانی چاہیے تھی۔ ان کا موقف ہے کہ موثر تعاون کی کمی کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے تکلیف دہ انسانی نتائج برآمد ہوئے، انخلا کی معقول توقع تھی لیکن وہ نہیں ہوا۔
ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ نقل کے اہل کئی ہزار افغان اب بھی باقی ہیں اور حفاظت کے لیے انھیں برطانیہ لانا چاہیے۔ٹوبیاس ایل ووڈ نے سابق فوجیوں کے لیے مالی امداد کا خیرمقدم کیا اور افغانستان میں کام کرنے والے فوجیوں کی بہادری کی تعریف کی۔ایک طویل رپورٹ اور پھر اس کا جواب انتہائی توجہ طلب صورت حال ہے جس کا ہم اور بہت سے لوگ ظاہری، حالی تناظر میں کر رہے ہیں، اس کے دوررس نتائج کیا نکل سکتے ہیں، یہ ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔
یہ ایک بڑی المناک حقیقت ہے کہ افغانستان نے 1980 سے شروع ہونے والی جنگوں، لڑائیوں اور خودکش حملوں میں بہت نقصان اٹھایا، مالی، جانی، معاشی اور معاشرتی حوالوں سے بہت سے مسائل میں گھرا رہا اور اب پھر سے بہ ظاہر جو حالات نظر آ رہے ہیں کیا وہ بھی صرف تصویری معاملات ہیں یا اندر کی کہانی کچھ اور ہے۔
ایک ملک جس کی جڑوں سے بڑے بڑے شہنشاہ نکل کر بڑے بڑے خطوں کو فتح کرگئے اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ گویا وہ سرزمین شعلوں سے گھری ہوئی ہے اور اس جگہ سے انسانوں کا انخلا بہت ضروری ہے ورنہ شعلے انھیں نگل لیں گے۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک خطے سے انسانوں کو دوسری جگہ منتقل کرتے رہنا ہی بہتر ہے کیا؟ اس منتقلی سے ان انسانی روایات، مذہبی تشخص پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
ایک رپورٹ کہیں پڑھی تھی کسی مغربی ملک کے متعلق جہاں ہجرت کرنے والے مسلمان حضرات کی نسلیں اب کن حالوں میں ہیں تو یہ جان کر سخت تشویش اور اذیت ہوئی کہ ان میں سے بہت سے نواسے اور پوتے اب مسلمان نہیں رہے بلکہ زیادہ تر اپنا مذہب تبدیل کرچکے ہیں یا دوسرے مذاہب کی ماؤں کے باعث ایسا ہوتا چلا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کی مسلمان نسل اب دو تین فی صد ہی رہ گئی۔ اسی طرح کی ایک خبر شہزادی ڈیانا کے سلسلے میں سنی گئی تھی کہ ان کا تعلق پچھلی نسلوں میں شہنشاہ بابر سے جا ملتا تھا لیکن وہ پرنس چارلس کی شہزادی بن گئی تھیں۔ یہ سب جتنا خوب صورت اور رنگین نظر آتا ہے اس کے اندر حقیقت کس قدر تلخ اور بدصورت ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ اور اس کے ارکان اور افغانی انسانوں کے لیے اس قدر گراں قدر خدمات یقیناً قابل تحسین ہیں لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سترہویں صدی میں فرنگی کی برصغیر آمد کے بعد سے اس سرزمین پر کیا کچھ حالات رونما ہوئے کیا کچھ تبدیلیاں آئیں، کیا کچھ فتنوں نے سر ابھارا ، ان کو کس نام سے پکاریں کہ یاد داشت میں بہت کچھ محفوظ ہے۔
نواب چھتاری کی یاد داشت کے پہلو اب بھی بازگشت بن کر گونج رہے ہیں۔ ایک ایسی سرزمین جو سنگلاخ پہاڑوں سے گھری ہے کسی کے لیے کیا کچھ بن سکتی ہے، ہماری سوچ کی محدود سمتیں سفر نہیں کر سکتیں کہ ہم آج میں رہنے کے عادی ہیں۔ ہمارے اپنے ملک میں بہت سے شناسا اور اجنبی چہرے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں پھر بھی یہ سوچ کر سمجھ تو آ ہی جاتی ہے کہ ہجرت کرنا کوئی برا عمل نہیں ہے لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
کسی بھی خطے کو ناقابل رہائش بنانے اور دکھانے کا عمل کیوں جاری و ساری ہے ، اگر یہ رپورٹ اور اس طرح کی اور بھی رپورٹوں کی صداقت پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیا جائے تو بہت سے ملکوں کی اس جنگ پارٹی کا حصہ افغانستان ہی کیوں ٹھہرا کہ اس سے منسلک وہ طاقتیں بھی بستی ہیں جن کو براہ راست بالواسطہ اس جنگ سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔