بے یقینی
کیا جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کی اپنی جماعتوں میں جمہوریت ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں
کسی مفکر کا قول ہے کہ '' لوگوں میں طاقت کی اتنی کمی نہیں جتنی مستقل ارادے کی ہے۔'' امر واقعہ یہ ہے کہ اکثر لوگوں میں اگرچہ صلاحیت پوری طرح موجود ہوتی ہے مگر وہ اس کا فائدہ محض اس لیے نہیں اٹھا پاتے کہ وہ صبر و تحمل، برداشت، عزم و یقین اور مستقل مزاجی کے ساتھ دیر تک جدوجہد نہیں کرسکتے۔
جب کہ کسی حقیقی کامیابی کے حصول کے لیے ایک لمبی اور صبر آزما جد و جہد ضروری ہے ، اگر آپ اپنی کوششوں کا کوئی ٹھوس اور مفید نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے دن ہی یہ سوچ لیجیے کہ آپ کو طویل مدت تک ہر صورت انتظار کرنا پڑے گا ، اگر آپ کے اندر انتظارکرنے کی طاقت نہیں ہے تو آپ کو اپنے لیے کسی مستقل ، ٹھوس اور نتیجہ خیز کامیابی کی امید بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ زندگی کا راز صرف ایک مختصر سے جملے میں پوشیدہ ہے اور وہ ہے کہ ''جتنا زیادہ انتظاراتنی ہی زیادہ ترقی۔''
یاد رکھنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ قومی زندگی کی تعمیر کا کام تھوڑے عرصے میں ہو سکتا ہے اور اس کے لیے زیادہ طویل مدت بھی درکار ہوتی ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس قسم کی قومیت تعمیر کرنا چاہتے ہیں ، اگر قوم کے اندر فوری جوش پیدا کرنا مقصود ہے اور اگر محض منفی نوعیت کے کسی وقتی ابال کو آپ مقصد سمجھنے کی غلطی میں مبتلا ہیں۔
اسی طرح اگر آپ عوامی نفسیات کو اپیل کرنے والے نعرے لگا کر تھوڑی دیر کے لیے ایک بھیڑ جمع کر لینے کو آپ کام سمجھتے ہیں اور اگر جلسوں میں خالی گاڑیوں کی قطاریں آپ کے نزدیک ایک بڑی کامیابی اور قوم کی تعمیر کا نام ہے تو پھر اس قسم کی قومی تعمیر ، اگر اتفاق سے اس کے حالات بھی فراہم ہو گئے ہوں، آناً فاناً ہو سکتی ہے، مگر حقیقت حال یہ ہے کہ یہ قوم کی تعمیر سے زیادہ لیڈر کی تعمیر ہے کیوں کہ اس طرح کے شور و شر سے وقتی طور پر کچھ رہنماؤں کو ضرور فائدہ ہو جاتا ہے، مگر انسانیت کے اس مجموعی تسلسل کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا جس کو ہم قوم یا ملت کہتے ہیں۔
اگر دیانت داری، سچائی اور گہرائی میں جا کر دیکھیں، سوچیں اور سمجھیں تو اس قسم کے منفی رویے ایک قسم کا استحصال ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر ابن الوقت قسم کے لوگ اپنی قیادت کا سکہ جما لیتے ہیں۔ یہ سستی شہرت اور گھٹیا لیڈری حاصل کرنے کا ایک کامیاب نسخہ ہے جس کو سطحی قسم کے موقع پرست لوگ محض اپنی ذاتی تشہیر، انفرادی خواہشات کی تکمیل اور مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔
اگر ہم واقعی قوم کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم شاہ بلوط کا درخت اگانے کا عزم لے کر چلے ہیں نہ کہ ککڑی کی بیل جمانے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو لازمی طور پر طویل منصوبہ بندی چاہتا ہے۔ قوم کی تعمیر کا کام تھوڑی مدت میں ہرگز حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی لیڈر ایسے سطحی اور جذباتی نعرے لگا کر عوام کو پرجوش بنانے کی کوشش کرتا ہے تو مان لیں کہ وہ اپنی قوم کو دھوکا دے رہا ہے، عوام کا دانستہ استحصال کر رہا ہے اور انھیں سبز باغ دکھا کر دھوکا دے رہا ہے۔
ایسا لیڈر قوم کا حقیقی رہنما کہلانے کا ہرگز حق دار نہیں ہے۔ بعینہ اگر کوئی قوم بھی ایسی ہے کہ وہ لمبے عرصے انتظار کے بغیر اپنی تعمیر و ترقی کا حل پلک جھپکتے دیکھنا چاہتی ہے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ ایسے خیالی قلعے صرف ناپختہ کار ذہنوں ہی میں بنتے ہیں جنھیں عرف عام میں ہوائی قلعہ کہا جاتا ہے ، لیکن عالم واقعہ میں ایسا ممکن نہیں ہے۔
اس پس منظر میں جب ہم وطن عزیز کی سیاسی قیادت پر نظر ڈالیں تو یہ تلخ حقیقت منہ چڑاتی نظر آتی ہے کہ گزشتہ چار پانچ عشروں کے دوران سامنے آنے والے ہمارے سیاسی رہنماؤں نے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے سیاسی اصولوں، نظریات اور اقوال کی پاسداری کرنے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کو دنیا کی ترقی یافتہ قوم بنانے کے نہایت بلند و بانگ دعوے کیے۔
آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کے وعدے کیے، عوامی مسائل حل کرنے، لوگوں کو ان کے بنیادی آئینی حقوق فراہم کرنے، انصاف کی فراہمی، غربت، بے روزگاری، مہنگائی، بھوک، افلاس، جہالت اور پسماندگی سے نجات دلانے کی بلند آہنگ یقین دہانیاں کرائیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کوئی ایک بھی لیڈر ایسا نہیں ملا جس نے قائد اعظم کے سیاسی اصولوں کی پاسداری کی ہو، جس نے جمہوری اقدار کا تحفظ کیا ہو اور آئین و قانون کے احترام کی کوئی تابندہ مثال قائم کی ہو۔
کیا جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کی اپنی جماعتوں میں جمہوریت ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ وہاں خاندانی آمریت ہے، ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور (ن) لیگ کے اندر خاندانی سیاسی آمریت کا طوطی بولتا ہے۔ ان کی سیاست انھی کی نسلوں میں منتقل ہو رہی ہے،کچھ نوجوان آپ کے آج کے لیڈر بن گئے ہیں جو پرجوش کھوکھلے نعروں سے اس خستہ حال قوم کو روشن مستقبل کی نوید سنا رہے ہیں۔
خود کو قائد اعظم ثانی کہنے والے لندن میں بیٹھ کر حالات کے اپنے حق میں موافق ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اپوزیشن رہنما الگ اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں کہ صرف وہی قوم کے حقیقی لیڈر ہیں جو اس ملک کو ریاست مدینہ اور ایک عظیم قوم بنا سکتے ہیں۔ جب کہ ملک معاشی دیوالیہ کا شکار ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کا پھندا 130 ارب کے ٹیکس لگا کر قوم کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے۔
پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن کی 9 اپریل کی تاریخ کے صدر کی جانب سے اعلان نے ایک نیا آئینی تنازع کھڑا کردیا ہے۔ دونوں صوبوں کے اسپیکرز درخواست لے کر عدالت عظمیٰ چلے گئے ہیں۔ چیئرمین نیب مستعفی ہوگئے، نئے سوالات جنم لے رہے ہیں، گویا ہر طرف افراتفری کا عالم ہے، عوام مہنگائی کے آنسو پونچھ رہے ہیں، ملک عجیب قسم کی بے یقینی کا شکار ہے۔ ڈور الجھتی جا رہی ہے اور سرا نہیں مل رہا ہے۔
جب کہ کسی حقیقی کامیابی کے حصول کے لیے ایک لمبی اور صبر آزما جد و جہد ضروری ہے ، اگر آپ اپنی کوششوں کا کوئی ٹھوس اور مفید نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے دن ہی یہ سوچ لیجیے کہ آپ کو طویل مدت تک ہر صورت انتظار کرنا پڑے گا ، اگر آپ کے اندر انتظارکرنے کی طاقت نہیں ہے تو آپ کو اپنے لیے کسی مستقل ، ٹھوس اور نتیجہ خیز کامیابی کی امید بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ زندگی کا راز صرف ایک مختصر سے جملے میں پوشیدہ ہے اور وہ ہے کہ ''جتنا زیادہ انتظاراتنی ہی زیادہ ترقی۔''
یاد رکھنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ قومی زندگی کی تعمیر کا کام تھوڑے عرصے میں ہو سکتا ہے اور اس کے لیے زیادہ طویل مدت بھی درکار ہوتی ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس قسم کی قومیت تعمیر کرنا چاہتے ہیں ، اگر قوم کے اندر فوری جوش پیدا کرنا مقصود ہے اور اگر محض منفی نوعیت کے کسی وقتی ابال کو آپ مقصد سمجھنے کی غلطی میں مبتلا ہیں۔
اسی طرح اگر آپ عوامی نفسیات کو اپیل کرنے والے نعرے لگا کر تھوڑی دیر کے لیے ایک بھیڑ جمع کر لینے کو آپ کام سمجھتے ہیں اور اگر جلسوں میں خالی گاڑیوں کی قطاریں آپ کے نزدیک ایک بڑی کامیابی اور قوم کی تعمیر کا نام ہے تو پھر اس قسم کی قومی تعمیر ، اگر اتفاق سے اس کے حالات بھی فراہم ہو گئے ہوں، آناً فاناً ہو سکتی ہے، مگر حقیقت حال یہ ہے کہ یہ قوم کی تعمیر سے زیادہ لیڈر کی تعمیر ہے کیوں کہ اس طرح کے شور و شر سے وقتی طور پر کچھ رہنماؤں کو ضرور فائدہ ہو جاتا ہے، مگر انسانیت کے اس مجموعی تسلسل کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا جس کو ہم قوم یا ملت کہتے ہیں۔
اگر دیانت داری، سچائی اور گہرائی میں جا کر دیکھیں، سوچیں اور سمجھیں تو اس قسم کے منفی رویے ایک قسم کا استحصال ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر ابن الوقت قسم کے لوگ اپنی قیادت کا سکہ جما لیتے ہیں۔ یہ سستی شہرت اور گھٹیا لیڈری حاصل کرنے کا ایک کامیاب نسخہ ہے جس کو سطحی قسم کے موقع پرست لوگ محض اپنی ذاتی تشہیر، انفرادی خواہشات کی تکمیل اور مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔
اگر ہم واقعی قوم کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم شاہ بلوط کا درخت اگانے کا عزم لے کر چلے ہیں نہ کہ ککڑی کی بیل جمانے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو لازمی طور پر طویل منصوبہ بندی چاہتا ہے۔ قوم کی تعمیر کا کام تھوڑی مدت میں ہرگز حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی لیڈر ایسے سطحی اور جذباتی نعرے لگا کر عوام کو پرجوش بنانے کی کوشش کرتا ہے تو مان لیں کہ وہ اپنی قوم کو دھوکا دے رہا ہے، عوام کا دانستہ استحصال کر رہا ہے اور انھیں سبز باغ دکھا کر دھوکا دے رہا ہے۔
ایسا لیڈر قوم کا حقیقی رہنما کہلانے کا ہرگز حق دار نہیں ہے۔ بعینہ اگر کوئی قوم بھی ایسی ہے کہ وہ لمبے عرصے انتظار کے بغیر اپنی تعمیر و ترقی کا حل پلک جھپکتے دیکھنا چاہتی ہے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ ایسے خیالی قلعے صرف ناپختہ کار ذہنوں ہی میں بنتے ہیں جنھیں عرف عام میں ہوائی قلعہ کہا جاتا ہے ، لیکن عالم واقعہ میں ایسا ممکن نہیں ہے۔
اس پس منظر میں جب ہم وطن عزیز کی سیاسی قیادت پر نظر ڈالیں تو یہ تلخ حقیقت منہ چڑاتی نظر آتی ہے کہ گزشتہ چار پانچ عشروں کے دوران سامنے آنے والے ہمارے سیاسی رہنماؤں نے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے سیاسی اصولوں، نظریات اور اقوال کی پاسداری کرنے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کو دنیا کی ترقی یافتہ قوم بنانے کے نہایت بلند و بانگ دعوے کیے۔
آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کے وعدے کیے، عوامی مسائل حل کرنے، لوگوں کو ان کے بنیادی آئینی حقوق فراہم کرنے، انصاف کی فراہمی، غربت، بے روزگاری، مہنگائی، بھوک، افلاس، جہالت اور پسماندگی سے نجات دلانے کی بلند آہنگ یقین دہانیاں کرائیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کوئی ایک بھی لیڈر ایسا نہیں ملا جس نے قائد اعظم کے سیاسی اصولوں کی پاسداری کی ہو، جس نے جمہوری اقدار کا تحفظ کیا ہو اور آئین و قانون کے احترام کی کوئی تابندہ مثال قائم کی ہو۔
کیا جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کی اپنی جماعتوں میں جمہوریت ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ وہاں خاندانی آمریت ہے، ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور (ن) لیگ کے اندر خاندانی سیاسی آمریت کا طوطی بولتا ہے۔ ان کی سیاست انھی کی نسلوں میں منتقل ہو رہی ہے،کچھ نوجوان آپ کے آج کے لیڈر بن گئے ہیں جو پرجوش کھوکھلے نعروں سے اس خستہ حال قوم کو روشن مستقبل کی نوید سنا رہے ہیں۔
خود کو قائد اعظم ثانی کہنے والے لندن میں بیٹھ کر حالات کے اپنے حق میں موافق ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اپوزیشن رہنما الگ اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں کہ صرف وہی قوم کے حقیقی لیڈر ہیں جو اس ملک کو ریاست مدینہ اور ایک عظیم قوم بنا سکتے ہیں۔ جب کہ ملک معاشی دیوالیہ کا شکار ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کا پھندا 130 ارب کے ٹیکس لگا کر قوم کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے۔
پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن کی 9 اپریل کی تاریخ کے صدر کی جانب سے اعلان نے ایک نیا آئینی تنازع کھڑا کردیا ہے۔ دونوں صوبوں کے اسپیکرز درخواست لے کر عدالت عظمیٰ چلے گئے ہیں۔ چیئرمین نیب مستعفی ہوگئے، نئے سوالات جنم لے رہے ہیں، گویا ہر طرف افراتفری کا عالم ہے، عوام مہنگائی کے آنسو پونچھ رہے ہیں، ملک عجیب قسم کی بے یقینی کا شکار ہے۔ ڈور الجھتی جا رہی ہے اور سرا نہیں مل رہا ہے۔