دہشت گردی کا سیاسی المیہ
دہشت گردی کی جنگ کے تناظر میں ہمارا ملک عملی طور پر ’’غیر معمولی حالات ‘‘سے گزررہا ہے
دہشت گردی کا ایک قومی مسئلہ ہے ۔ اس کے تانے بانے داخلی سیاست اور خارجہ پالیسی سے جوڑ کر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ پولیس لائنز پشاور سانحہ نے ایک بار پھر ہمیں قومی سطح پر جھنجھوڑا ہے۔
ریاستی و حکومتی اداروں کی کارکردگی اور صلاحیتوں پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم دہشت گرد عناصر کے حوالے سے داخلی تضادات یا ابہام کا شکار ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر دہشت گردوں نے ابہام کا فائدہ اٹھا کر خود کو منظم کیااور دہشت گردی کی وارداتیں بھی شروع کردی ہیں ۔
ہم نے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ایک سے زیادہ بار اداروں کی تشکیل نو بھی کی ہے لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ سیاسی جماعتیں چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں ان کی سیاسی ترجیحات میں دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے ابہام، تضاد اور ٹکراو کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔نیشنل ایکشن پلان ، پیغام پاکستان ، دختران پاکستان ، نیشنل سیکیورٹی پالیسی ، نیکٹا سمیت پولیس اور دیگر انٹیلی جنس اداروں کی تشکیل نو اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا جیسی پالیسیاں ، قانون سازی یا اقدامات پر مجموعی طور پر ایک سنجیدہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
جب ہم نے نیشنل سیکیورٹی پالیسی ترتیب دی تو اسی نقطہ کو بنیاد بنایا گیا تھا کہ اس میں اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعادہ کرکے آگے بڑھنے کا عندیہ دیا تھا ۔ پہلی بار ایک جامع سطح پر نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا بننا اور اس میں دہشت گردی کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کے بجائے ایک جامع تناظر میں گورننس ، ادارہ سازی ، عدالتی نظام ، معیشت او رانسانی ترقی کو بنیاد بنایا گیاتھا لیکن اس پالیسی پر سنجیدگی سے عمل درآمد کے بجائے ہم نے خود کو سیاسی مسائل میں الجھا کر رکھ دیا ہے اور دہشت گردی جیسے معاملات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے ایک انتظامی نوعیت کے اقدامات ہیں جو بالخصوص ہماری انٹیلی جنس اداروں ، پولیس اور فوج کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے کافی حد تک کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں لیکن اس کے برعکس سیاسی قیادت وہ کچھ نہیں کرسکی جو کرنے چاہیے تھے۔
سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان رابطہ سازی ، حکمت عملی اور فیصلہ سازی کا فقدان ہے ۔سیاسی قیادت عسکری فورم پر ہاں میں ہاں ملاتی ہے مگر باہر نکل کر وہ اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کرلیتی ہیں ۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنا،انھیں واپس آنے کی سہولت فراہم کرنا بھی مسائل پیدا کرنے کا سبب ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں افغان طالبان حکومت کا رویہ ہماری توقعات کے برعکس ہے ۔ یہ نقطہ کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی مگر اس پر عملدرآمد کا فقدان ہے۔
اگر کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوجائے تو ہم فوری ردعمل دیتے ہیں ۔لیکن دہشت گردی سے جڑے معاملات سے نمٹنے کے لیے ہمیںجو لانگ ٹرم یا مڈٹرم یا شارٹ ٹرم پالیسی یا روڈ میپ درکار ہے اس کو حل کیے بغیر ہم کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
ہماری خارجہ پالیسی میں اس کمزوری کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے کہ جو کچھ دوحہ مزاکرات میں امریکا اور افغان طالبان میں طے ہوا اور پاکستان کی سیکیورٹی کے حوالے سے بھی جو وہاں کمٹمنٹ ہوئی اس پر کیونکر عمل نہیں ہوسکا کی جوابدہی بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ جنگ کوئی بھی فریق تن تنہا نہیں جیت سکتا۔ یہ جنگ ریاست کی جنگ ہے اورریاست میں موجود ہر فرد یا ادارے کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس جنگ کی ملکیت لیں ، یہاں دوہرا معیار نہیں چل سکتا۔
ہمیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے لفاظی پر مبنی بیانیہ ، خوش نما نعرے ، مصنوعی سطح کے اقدامات یادنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بجائے کچھ واقعی کرکے دکھانا ہے ۔دہشت گردی سے نمٹنے کی جنگ میں دنیا اور خود ملکی سطح پر اہل دانش کی سطح پر سوالات موجود ہیں اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم کیسے ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
دہشت گردی کی جنگ کے تناظر میں ہمارا ملک عملی طور پر ''غیر معمولی حالات ''سے گزررہا ہے او رایسے میں ہمیں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ''غیر معمولی اقدامات ''درکار ہیں ۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا او رکیسے ریاست اور حکومت سمیت ادارے خود کو جوابدہ بنائیں گے اور ساتھ دوسروں کو بھی جوابدہ بنایا جائے گا۔لیکن کیا یہ سب کچھ ہم کرسکیں گے خو دایک بڑا سوال ہے او راس کا جواب ہمیں شفافیت کی بنیاد پر ملنا چاہیے۔
ریاستی و حکومتی اداروں کی کارکردگی اور صلاحیتوں پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم دہشت گرد عناصر کے حوالے سے داخلی تضادات یا ابہام کا شکار ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر دہشت گردوں نے ابہام کا فائدہ اٹھا کر خود کو منظم کیااور دہشت گردی کی وارداتیں بھی شروع کردی ہیں ۔
ہم نے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ایک سے زیادہ بار اداروں کی تشکیل نو بھی کی ہے لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ سیاسی جماعتیں چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں ان کی سیاسی ترجیحات میں دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے ابہام، تضاد اور ٹکراو کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔نیشنل ایکشن پلان ، پیغام پاکستان ، دختران پاکستان ، نیشنل سیکیورٹی پالیسی ، نیکٹا سمیت پولیس اور دیگر انٹیلی جنس اداروں کی تشکیل نو اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا جیسی پالیسیاں ، قانون سازی یا اقدامات پر مجموعی طور پر ایک سنجیدہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
جب ہم نے نیشنل سیکیورٹی پالیسی ترتیب دی تو اسی نقطہ کو بنیاد بنایا گیا تھا کہ اس میں اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعادہ کرکے آگے بڑھنے کا عندیہ دیا تھا ۔ پہلی بار ایک جامع سطح پر نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا بننا اور اس میں دہشت گردی کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کے بجائے ایک جامع تناظر میں گورننس ، ادارہ سازی ، عدالتی نظام ، معیشت او رانسانی ترقی کو بنیاد بنایا گیاتھا لیکن اس پالیسی پر سنجیدگی سے عمل درآمد کے بجائے ہم نے خود کو سیاسی مسائل میں الجھا کر رکھ دیا ہے اور دہشت گردی جیسے معاملات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے ایک انتظامی نوعیت کے اقدامات ہیں جو بالخصوص ہماری انٹیلی جنس اداروں ، پولیس اور فوج کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے کافی حد تک کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں لیکن اس کے برعکس سیاسی قیادت وہ کچھ نہیں کرسکی جو کرنے چاہیے تھے۔
سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان رابطہ سازی ، حکمت عملی اور فیصلہ سازی کا فقدان ہے ۔سیاسی قیادت عسکری فورم پر ہاں میں ہاں ملاتی ہے مگر باہر نکل کر وہ اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کرلیتی ہیں ۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنا،انھیں واپس آنے کی سہولت فراہم کرنا بھی مسائل پیدا کرنے کا سبب ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں افغان طالبان حکومت کا رویہ ہماری توقعات کے برعکس ہے ۔ یہ نقطہ کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی مگر اس پر عملدرآمد کا فقدان ہے۔
اگر کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوجائے تو ہم فوری ردعمل دیتے ہیں ۔لیکن دہشت گردی سے جڑے معاملات سے نمٹنے کے لیے ہمیںجو لانگ ٹرم یا مڈٹرم یا شارٹ ٹرم پالیسی یا روڈ میپ درکار ہے اس کو حل کیے بغیر ہم کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
ہماری خارجہ پالیسی میں اس کمزوری کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے کہ جو کچھ دوحہ مزاکرات میں امریکا اور افغان طالبان میں طے ہوا اور پاکستان کی سیکیورٹی کے حوالے سے بھی جو وہاں کمٹمنٹ ہوئی اس پر کیونکر عمل نہیں ہوسکا کی جوابدہی بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ جنگ کوئی بھی فریق تن تنہا نہیں جیت سکتا۔ یہ جنگ ریاست کی جنگ ہے اورریاست میں موجود ہر فرد یا ادارے کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس جنگ کی ملکیت لیں ، یہاں دوہرا معیار نہیں چل سکتا۔
ہمیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے لفاظی پر مبنی بیانیہ ، خوش نما نعرے ، مصنوعی سطح کے اقدامات یادنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بجائے کچھ واقعی کرکے دکھانا ہے ۔دہشت گردی سے نمٹنے کی جنگ میں دنیا اور خود ملکی سطح پر اہل دانش کی سطح پر سوالات موجود ہیں اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم کیسے ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
دہشت گردی کی جنگ کے تناظر میں ہمارا ملک عملی طور پر ''غیر معمولی حالات ''سے گزررہا ہے او رایسے میں ہمیں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ''غیر معمولی اقدامات ''درکار ہیں ۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا او رکیسے ریاست اور حکومت سمیت ادارے خود کو جوابدہ بنائیں گے اور ساتھ دوسروں کو بھی جوابدہ بنایا جائے گا۔لیکن کیا یہ سب کچھ ہم کرسکیں گے خو دایک بڑا سوال ہے او راس کا جواب ہمیں شفافیت کی بنیاد پر ملنا چاہیے۔