’’اوئے موٹے‘‘
آپ انھیں موقع دیں گے تو یقینا امپیکٹ نظر آئے گا،ٹیم کو ایک اچھا پاور ہٹر بھی مل جائے گا
''کون سی چکی کا آٹا کھاتے ہو ہمیں بھی بتا دو''
''تم تو گھر کا سارا راشن اکیلے ہی ختم کر دیتے ہو گے''
''ایکسرسائز کیا کرو،کیا حال کر لیا ہے اپنا''
''تمہارے سائز کے کپڑے مل جاتے ہیں کیا''
یہ اور اس قسم کی کئی باتیں میں بچپن سے سنتا چلا آ رہا ہوں اس لیے ''موٹا'' ہونے کے نقصانات سے اچھی طرح واقف ہوں،لوگوں کو لگتا ہے کہ ہمارے جیسے لوگ ہر وقت کچھ کھاتے رہتے ہیں،واک یا ایکسرسائز بالکل نہیں کرتے،ہم صبح پراٹھے،دوپہر کو میک ڈونلڈ اور رات کو کے ایف سی کھاتے ہیں،ہمیں اچھا لگتا ہے کہ ایسے نظر آئیں لیکن حقیقت میں ایسا قطعی نہیں ہوتا۔
ہم بھی چاہتے ہیں اسمارٹ دکھائی دیں لیکن شاید قدرتی طور پر جسم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوشش کے باوجود وزن زیادہ کم نہیں ہو پاتا، جب کبھی تھوڑا وزن کم کریں تو کچھ عرصے میں واپس پرانی ڈگر پر آ جاتے ہیں،بعض اوقات ریجیکشن بھی سہنا پڑتی ہے،یار آپ کا کام بہترین ہے لیکن وزن زیادہ ہے ٹی وی پر اچھے نہیں لگیں گے۔
صحافیوں کو لفافہ کہہ کر چھیڑا جاتا ہے مجھے ایک بار پی ایس ایل فرنچائز اونر نے کہا کہ میٹنگ میں ''موٹا '' کہہ کر ذکر کیا گیا تھا،یہ تہمید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ اعظم خان کے ساتھ جو بیت رہی ہے میں اس سے بخوبی واقف ہوں،شاید اگر وہ معین خان کے بیٹے نہ ہوتے تو ٹیلنٹ گھر کی چھت یا محلے کی گلی تک ہی محدود رہتا لیکن والد کی وجہ سے مواقع ملے اور انھوں نے ثابت کر دیا کہ وزن زیادہ ہونے کے باوجود کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔
اعظم جب قومی ٹیم میں آئے تو مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے اعتراض کیا کہ چونکہ چچا ندیم خان ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس سینٹر ہیں اس لیے موقع ملا،حقیقت میں بھی شاید کسی حد تک ایسا ہو لیکن ان کے ٹیلنٹ سے کوئی انکار نہیں کر سکتا،کئی برس قبل جب ندیم عمر نے اعظم کی بیٹنگ کو کرس گیل سے تشبیہ دی تو سب نے بات ہنسی میں اڑا دی تھی،پھر انھیں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جانب سے پی ایس ایل میں کھلایا گیا تو ابتدا میں محدود مواقع ملے،کارکردگی بھی اچھی نہ رہی،ساتھ والد کے کوچ ہونے کی وجہ سے سفارشی کے طعنے بھی ملتے رہے۔
ایک نوجوان کو ہر وقت ایسی باتیں سہنا پڑیں تو وہ سب کچھ چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتا ہے لیکن اعظم کے والد معین خان ذہنی طور پر بہت مضبوط شخصیت کے مالک ہیں، یقینا انہی سے یہ خوبی ان میں آئی ہو گی،تمام تر تنقید سہنے کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور محنت کرتے رہے،ایک وقت ایسا بھی آیا جب وزن تھوڑا کم کرلیا لیکن اب پھر پرانی ڈگر پر لوٹ آئے ہیں،گذشتہ دنوں میں ''مووان پک'' ہوٹل کے پول سائیڈ پر کسی دوست کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ اچانک وہاں اعظم خان آ گئے۔
ہمیں دیکھ کر رک گئے اور سلام کیا،اس وقت میں نے انھیں غور سے دیکھا تو محسوس کیا کہ میری طرح پھر سے وزن بڑھا لیا ہے۔ خیرقومی ٹیم کی سلیکشن میں فٹنس کا یقینا بہت اہم کردار ہوتا ہے،ٹی ٹوئنٹی میں آپ کو رنز بنانے کے ساتھ رنز بچانے بھی پڑتے ہیں،اگر وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے آپ آزادانہ موو نہیں کر سکتے تو بیٹنگ میں جتنے بڑے طرم خان ہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا،شاید یہی وجہ ہے کہ اعظم اپنے والد کی طرح وکٹ کیپر ہیں،انھوں نے ڈائیو لگا کر بھی کئی شاندار کیچز لیے ہیں،بطور فیلڈر بھی وہ جب کھیلے بہتر ہی پرفارم کیا۔
جس طرح پی ایس ایل میں انھوں نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے چھکے چھڑائے وہ قابل دید تھا،97رنز کی اننگز نے ایونٹ میں شائقین کی دلچسپی مزید بڑھا دی،حسنین کو ایک چھکے نے تو ان کے والد کی یاد دلا دی وہ بھی ایسے شاٹس کھیلا کرتے تھے، دنیا بھر کی دیگر لیگز میں بھی اعظم اچھا پرفارم کر رہے ہیں،ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش میں وہ ہیرو ہیں،کوئٹہ کو افسوس ہوتا ہوگا کہ کیوں اسلام آباد یونائٹیڈ میں جانے دیا،مسئلہ یہ تھا کہ وہ اور سرفراز احمد دونوں وکٹ کیپرز ہیں،کپتان کو تو ڈراپ نہیں کیا جا سکتا۔
اعظم کو کم مواقع مل رہے تھے،کوچ کے ساتھ بطور باپ بھی معین خان کو محسوس ہو رہا تھا کہ اس طرح اعظم کا ٹیلنٹ ضائع ہو جائے گا اس لیے دل پر پتھر رکھ کر انھیں دوسری ٹیم میں جانے دیا ،میں سمجھ سکتا ہوں کہ اپنی ہی ٹیم کے خلاف اعظم کو چھکے،چوکے لگاتے دیکھ کر معین بھائی بڑی مشکل سے جذبات کو قابو میں رکھ پاتے ہوں گے،ان کا دل چاہتا ہو گا کہ نشست سے اٹھ کر خوب جشن منائیں مگر پھر اپنی ٹیم کا حال دیکھ کر ہلکی سی تالیوں پر ہی اکتفا کر لیتے ہوں گے،ماضی میں بھی ہم نے کئی زائد الوزن کرکٹرز کو پرفارم کرتے دیکھا ہے۔
حالیہ دنوں کی مثال ویسٹ انڈیز کے راکھیم کورنوال ہیں،ان کا وزن تو شاید اعظم سے بھی زیادہ ہے لیکن انھوں نے بھی انٹرنیشنل کرکٹ میں زبردست پرفارم کیا،میں اب اس بات پر قائل ہو چکا ہوں کہ اعظم پاکستان کیلیے کم از کم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ تو کھیل ہی سکتے ہیں،محمد رضوان کی شاندار کارکردگی کو دیکھتے ہوئے بطور وکٹ کیپر انٹری تو ممکن نہیں آپ انھیں فیلڈ میں کہیں اور فٹ کریں،یقین مانیے اب دنیا کے بڑے بولرز بھی اعظم سے ڈرتے ہوں گے،لیگز میں تو سامنا ہوتا ہی رہتا ہے۔
آپ انھیں موقع دیں گے تو یقینا امپیکٹ نظر آئے گا،ٹیم کو ایک اچھا پاور ہٹر بھی مل جائے گا،اس سے قبل فٹنس میں بہتری کا پلان بھی بنا کر دیں تاکہ وہ مزید کارآمد ثابت ہو سکیں،اتنے بہترین ٹیلنٹ کو ایسے ہی ضائع نہیں کر دینا چاہیے،آج اگر اعظم اسلام آباد یونائٹیڈ کو چھوڑنے کا اعلان کریں تو ہر فرنچائز انھیں لینے کے لیے تیار ہو گی،ان کا مذاق اڑانے والے بھی اچھے کھیل کے گرویدہ ہو گئے ہیں،صرف موٹاپے کی وجہ سے انھیں نظر انداز نہ کریں جہاں ضرورت محسوس ہو موقع دیں یقینا ٹیم کے کام ہی آئیں گے۔
اور ہاں میں نے معلوم کیا ہے اعظم ہر وقت بریانی یا فاسٹ فوڈ نہیں کھاتے ان کی جسمانی ساخت ہی ایسی ہے،اس کے باوجود ان کی خواتین میں فین فولوئنگ بھی بہت ہے،لوگ سیلفیز کے لیے بے چین رہتے ہیں،کارکردگی سے انھوں نے وزن کی خامی کو بھلا دیا لیکن اگر کچھ کمی لے آئیں تو شاید اس سے بھی اچھا پرفارم کریں،شاباش اعظم آپ نے ہم '' موٹوں'' کا کیس اچھی طرح دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ کسی بھی شعبے میں ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
''تم تو گھر کا سارا راشن اکیلے ہی ختم کر دیتے ہو گے''
''ایکسرسائز کیا کرو،کیا حال کر لیا ہے اپنا''
''تمہارے سائز کے کپڑے مل جاتے ہیں کیا''
یہ اور اس قسم کی کئی باتیں میں بچپن سے سنتا چلا آ رہا ہوں اس لیے ''موٹا'' ہونے کے نقصانات سے اچھی طرح واقف ہوں،لوگوں کو لگتا ہے کہ ہمارے جیسے لوگ ہر وقت کچھ کھاتے رہتے ہیں،واک یا ایکسرسائز بالکل نہیں کرتے،ہم صبح پراٹھے،دوپہر کو میک ڈونلڈ اور رات کو کے ایف سی کھاتے ہیں،ہمیں اچھا لگتا ہے کہ ایسے نظر آئیں لیکن حقیقت میں ایسا قطعی نہیں ہوتا۔
ہم بھی چاہتے ہیں اسمارٹ دکھائی دیں لیکن شاید قدرتی طور پر جسم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوشش کے باوجود وزن زیادہ کم نہیں ہو پاتا، جب کبھی تھوڑا وزن کم کریں تو کچھ عرصے میں واپس پرانی ڈگر پر آ جاتے ہیں،بعض اوقات ریجیکشن بھی سہنا پڑتی ہے،یار آپ کا کام بہترین ہے لیکن وزن زیادہ ہے ٹی وی پر اچھے نہیں لگیں گے۔
صحافیوں کو لفافہ کہہ کر چھیڑا جاتا ہے مجھے ایک بار پی ایس ایل فرنچائز اونر نے کہا کہ میٹنگ میں ''موٹا '' کہہ کر ذکر کیا گیا تھا،یہ تہمید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ اعظم خان کے ساتھ جو بیت رہی ہے میں اس سے بخوبی واقف ہوں،شاید اگر وہ معین خان کے بیٹے نہ ہوتے تو ٹیلنٹ گھر کی چھت یا محلے کی گلی تک ہی محدود رہتا لیکن والد کی وجہ سے مواقع ملے اور انھوں نے ثابت کر دیا کہ وزن زیادہ ہونے کے باوجود کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔
اعظم جب قومی ٹیم میں آئے تو مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے اعتراض کیا کہ چونکہ چچا ندیم خان ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس سینٹر ہیں اس لیے موقع ملا،حقیقت میں بھی شاید کسی حد تک ایسا ہو لیکن ان کے ٹیلنٹ سے کوئی انکار نہیں کر سکتا،کئی برس قبل جب ندیم عمر نے اعظم کی بیٹنگ کو کرس گیل سے تشبیہ دی تو سب نے بات ہنسی میں اڑا دی تھی،پھر انھیں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جانب سے پی ایس ایل میں کھلایا گیا تو ابتدا میں محدود مواقع ملے،کارکردگی بھی اچھی نہ رہی،ساتھ والد کے کوچ ہونے کی وجہ سے سفارشی کے طعنے بھی ملتے رہے۔
ایک نوجوان کو ہر وقت ایسی باتیں سہنا پڑیں تو وہ سب کچھ چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتا ہے لیکن اعظم کے والد معین خان ذہنی طور پر بہت مضبوط شخصیت کے مالک ہیں، یقینا انہی سے یہ خوبی ان میں آئی ہو گی،تمام تر تنقید سہنے کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور محنت کرتے رہے،ایک وقت ایسا بھی آیا جب وزن تھوڑا کم کرلیا لیکن اب پھر پرانی ڈگر پر لوٹ آئے ہیں،گذشتہ دنوں میں ''مووان پک'' ہوٹل کے پول سائیڈ پر کسی دوست کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ اچانک وہاں اعظم خان آ گئے۔
ہمیں دیکھ کر رک گئے اور سلام کیا،اس وقت میں نے انھیں غور سے دیکھا تو محسوس کیا کہ میری طرح پھر سے وزن بڑھا لیا ہے۔ خیرقومی ٹیم کی سلیکشن میں فٹنس کا یقینا بہت اہم کردار ہوتا ہے،ٹی ٹوئنٹی میں آپ کو رنز بنانے کے ساتھ رنز بچانے بھی پڑتے ہیں،اگر وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے آپ آزادانہ موو نہیں کر سکتے تو بیٹنگ میں جتنے بڑے طرم خان ہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا،شاید یہی وجہ ہے کہ اعظم اپنے والد کی طرح وکٹ کیپر ہیں،انھوں نے ڈائیو لگا کر بھی کئی شاندار کیچز لیے ہیں،بطور فیلڈر بھی وہ جب کھیلے بہتر ہی پرفارم کیا۔
جس طرح پی ایس ایل میں انھوں نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے چھکے چھڑائے وہ قابل دید تھا،97رنز کی اننگز نے ایونٹ میں شائقین کی دلچسپی مزید بڑھا دی،حسنین کو ایک چھکے نے تو ان کے والد کی یاد دلا دی وہ بھی ایسے شاٹس کھیلا کرتے تھے، دنیا بھر کی دیگر لیگز میں بھی اعظم اچھا پرفارم کر رہے ہیں،ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش میں وہ ہیرو ہیں،کوئٹہ کو افسوس ہوتا ہوگا کہ کیوں اسلام آباد یونائٹیڈ میں جانے دیا،مسئلہ یہ تھا کہ وہ اور سرفراز احمد دونوں وکٹ کیپرز ہیں،کپتان کو تو ڈراپ نہیں کیا جا سکتا۔
اعظم کو کم مواقع مل رہے تھے،کوچ کے ساتھ بطور باپ بھی معین خان کو محسوس ہو رہا تھا کہ اس طرح اعظم کا ٹیلنٹ ضائع ہو جائے گا اس لیے دل پر پتھر رکھ کر انھیں دوسری ٹیم میں جانے دیا ،میں سمجھ سکتا ہوں کہ اپنی ہی ٹیم کے خلاف اعظم کو چھکے،چوکے لگاتے دیکھ کر معین بھائی بڑی مشکل سے جذبات کو قابو میں رکھ پاتے ہوں گے،ان کا دل چاہتا ہو گا کہ نشست سے اٹھ کر خوب جشن منائیں مگر پھر اپنی ٹیم کا حال دیکھ کر ہلکی سی تالیوں پر ہی اکتفا کر لیتے ہوں گے،ماضی میں بھی ہم نے کئی زائد الوزن کرکٹرز کو پرفارم کرتے دیکھا ہے۔
حالیہ دنوں کی مثال ویسٹ انڈیز کے راکھیم کورنوال ہیں،ان کا وزن تو شاید اعظم سے بھی زیادہ ہے لیکن انھوں نے بھی انٹرنیشنل کرکٹ میں زبردست پرفارم کیا،میں اب اس بات پر قائل ہو چکا ہوں کہ اعظم پاکستان کیلیے کم از کم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ تو کھیل ہی سکتے ہیں،محمد رضوان کی شاندار کارکردگی کو دیکھتے ہوئے بطور وکٹ کیپر انٹری تو ممکن نہیں آپ انھیں فیلڈ میں کہیں اور فٹ کریں،یقین مانیے اب دنیا کے بڑے بولرز بھی اعظم سے ڈرتے ہوں گے،لیگز میں تو سامنا ہوتا ہی رہتا ہے۔
آپ انھیں موقع دیں گے تو یقینا امپیکٹ نظر آئے گا،ٹیم کو ایک اچھا پاور ہٹر بھی مل جائے گا،اس سے قبل فٹنس میں بہتری کا پلان بھی بنا کر دیں تاکہ وہ مزید کارآمد ثابت ہو سکیں،اتنے بہترین ٹیلنٹ کو ایسے ہی ضائع نہیں کر دینا چاہیے،آج اگر اعظم اسلام آباد یونائٹیڈ کو چھوڑنے کا اعلان کریں تو ہر فرنچائز انھیں لینے کے لیے تیار ہو گی،ان کا مذاق اڑانے والے بھی اچھے کھیل کے گرویدہ ہو گئے ہیں،صرف موٹاپے کی وجہ سے انھیں نظر انداز نہ کریں جہاں ضرورت محسوس ہو موقع دیں یقینا ٹیم کے کام ہی آئیں گے۔
اور ہاں میں نے معلوم کیا ہے اعظم ہر وقت بریانی یا فاسٹ فوڈ نہیں کھاتے ان کی جسمانی ساخت ہی ایسی ہے،اس کے باوجود ان کی خواتین میں فین فولوئنگ بھی بہت ہے،لوگ سیلفیز کے لیے بے چین رہتے ہیں،کارکردگی سے انھوں نے وزن کی خامی کو بھلا دیا لیکن اگر کچھ کمی لے آئیں تو شاید اس سے بھی اچھا پرفارم کریں،شاباش اعظم آپ نے ہم '' موٹوں'' کا کیس اچھی طرح دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ کسی بھی شعبے میں ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)