ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے سخت فیصلے ناگزیر
معاشی بحران کاواحد حل آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ہے، اتحادی حکومت نے سیاست کے بجائے ریاست بچانے کو ترجیح دی
موجودہ معاشی چیلنجز، منی بجٹ، نئے ٹیکسز، مہنگائی اور عوام کی صورتحال کے حوالے سے جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
رانا احسان افضل
(وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے صنعت و تجارت )
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے سے انحراف کرکے ملک کو اس نہج پر پہنچایا کہ ہمارے پاس سخت فیصلوں کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہا۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے ہمیں مجبوراََ سخت اقدامات اٹھانے پڑے جن کا بوجھ عوام پر پڑ رہا ہے ۔
موجودہ حالات میں آئی ایم ایف ہی واحد راستہ ہے جو معاشی استحکام کی جانب جاتا ہے، اس لئے اتحادی حکومت نے سیاست بچانے کی بجائے ریاست بچانے کو ترجیح دی ورنہ تباہی اس سے کہیں خوفناک اور بھیانک ہوتی۔
پاکستان مسلم لیگ(ن)نے ماضی میں آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا تھا، انشاء اللہ اب بھی پاکستان مسلم لیگ(ن)کی قیادت میں اتحادی حکومت، اسے مکمل کرے گی۔
ہم ملک کو مشکل سے نکالنے کیلئے گزشتہ آٹھ ماہ سے غیر مقبول اور سخت فیصلے لے رہے ہیں جن سے معاشی صورتحال میں بہتری آرہی ہے، تجارتی خسارے میں کمی واقع ہورہی ہے، اسی طرح ٹیکس وصولیوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے البتہ ایکسٹرنل فرنٹ پر دباؤ ہے۔
توقع ہے کہ جلد آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف سطح کا معاہدہ ہوجائے گا اور قرضے کی اگلی قسط بھی منظور ہوجائے گی جس کے بعد پاکستان کے ایکسٹرنل فنانسنگ کے حوالے سے دباؤ میں بھی کمی واقع ہونا شروع ہوجائے گی۔
موجودہ حکومت نے پی ٹی آئی دور میں آئی ایم ایف سے طے کردہ شرائط کو پورا کرتے ہوئے 170 ارب روپے کے ٹیکس لگائے،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا اور سبسڈی واپس لی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی بتدریج اضافہ کیا جارہا ہے۔
ان اقدامات سے قلیل المیعاد مہنگائی بڑھے گی لیکن چند ماہ بعد معاملات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ ابھی چین نے پاکستان کا 70 کروڑ ڈالر کا قرضہ رول اوور کردیا ہے جبکہ آئی ایم ایف پروگرام ٹریک پر آنے کے بعد دوست ممالک سے بھی فنانسنگ مل جائے گی اور فرینڈز آف پاکستان کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کیلئے اعلان کردہ امدادی رقم بھی ملنا شروع ہوجائے گی۔
عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دیگر ڈونرز کی جانب سے بھی فنانسنگ ہوگی جس سے ملک کے ذرمبادلہ کے ذخائر بڑھنا شروع ہوجائیں گے، مارکیٹ میں بہتری آئے گی ، روپے کی قدر مستحکم ہوگی اور مہنگائی میں بھی کمی آئے گی۔
قوم کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پونے چار سال میں جو تباہی کی، اسے ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا ۔ پاکستان کو آئندہ تین برسوں میں قرضوں کی واپسی اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے 100 ارب ڈالر درکار ہونگے.
70 ارب ڈالر سے زائد کے قرضے واپس کرنا ہیں جبکہ پچیس سے تیس ارب ڈالر کرنٹ اکاونٹ خسارے کو پورا کرنے کی مد میں درکار ہونگے جو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف اور چیلنج ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور میں ملک کا پرائمری خسارہ ایک فیصد تھا جو پاکستان تحریک انصاف کے دور میں بڑھ کر اڑھائی فیصد کے لگ بھگ ہوگیا ۔
مالی و اقتصادی ٹرم میں پرائمری خسارے کو گناہ کبیرہ کہا جاتا ہے۔ حکومت کی متعارف کروائی گئی اصلاحات اور وزیراعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے اعلان کردہ دو سو ارب روپے مالیت کے کفایت شعاری اقدامات سودمند ثابت ہونگے۔ اتحادی حکومت پالیسی سطح پر ٹھوس اور پائیدار اصلاحاتی اقدامات متعارف کروارہی ہے۔
حکومت کی طرف سے 170 ارب روپے کے ٹیکسز میں سیلز ٹیکس کی شرح سترہ فیصد سے بڑھاکر اٹھارہ فیصد کرنے، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھے گی مگر آئی ایم ایف پروگرام ٹریک پر آنے سے بہتری آئے گی۔
حکومت پسماندہ ترین لوگوں کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے اور ریلیف دینے کیلئے ٹارگٹڈ سبسڈی بھی دے رہی ہے، سوشل سیفٹی پروگرامز کے ذریعے پسماندہ طبقے کو تحفظ دیا جائے گا ۔ بجلی اور گیس کے حوالے سے اشرافیہ پر توجہ دی جارہی ہے، جو لوگ بجلی وگیس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان کیلئے یہ مہنگی کی جارہی ہے اور کوشش ہے کہ غریب صارفین پر اس کا بوجھ کم سے کم پڑے۔
حکومت تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے جامع اور مربوط منصوبہ بندی کررہی ہے۔ پہلے مرحلے میں پی او ایس کے ذریعے ٹاؤن کے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جارہا ہے ، کوشش ہے کہ ایک سال کے دوران پوائنٹ آف سیل کے حامل ریٹیلرز کی تعداد دوگنا کی جائے۔
اسی طرح چھوٹے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے بھی کام جاری ہے، امید ہے کہ اگلے دو سے تین سال میں ملک کو معاشی و مالی بحران سے نکال کر دوبارہ اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کردیا جائے گا ۔
فاد وحید
(سینئر نائب صدراسلام آباد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری )
سیلز ٹیکس ہر شعبے میں بڑھا دیا گیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ صنعت میں استعمال ہونے والا خام مال بھی اس کی زد میں ہو گا اور وہ انڈسٹری کی پیداواری لاگت کو بڑھا ئے گا جو لازمی طور پر صارفین سے وصول کی جائے گی۔
یہ اضافی سیلز ٹیکس سب سے زیادہ عام آدمی کو متاثر کرے گا ، اس کے اثرات مہنگائی کی صورت میں ظاہر بھی ہورہے ہیں ۔
پاکستان میں جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27 فیصد سے زائد رہی جو 48 برس کی بلند ترین شرح ہے۔ مہنگائی کی شرح میں ہونے والے اضافے کی بڑی وجہ ملک میں اشیائے خورو نوش، ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا بڑا اضافہ ہے۔
اضافی سیلز ٹیکس سے مہنگائی کی شرح 30 فیصد سے زیادہ ہو جائے گی۔ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے سواء دوسرا راستہ نہیں ہے۔
ہمارے پالیسی سازوں کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ کیوں ہم ہر کچھ عرصے کے بعد واپس اسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا ہوتا ہے۔
آ ئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے 1.2 ارب ڈالر کی قسط جو ادائیگی کے توازن کے تحت ایک ایسا قدم تھاجسے ٹالا نہیں جاسکتا لیکن ساتھ ہی یہ170ارب روپے کے ٹیکس کے اقدامات پر مبنی منی بجٹ پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ مہنگائی اور معیشت کو مزید متاثر کرے گا۔
جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا بلند ترین سطح تک پہنچنا اور گیس کے نرخوں میں حد سے زیادہ اضافے سے عام آدمی پر ناقابل برداشت حد تک دباؤ پڑے گا، کاروباری ادارے شدید بحران کا شکار ہوں گے۔
جی ایس ٹی کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کے فیصلے سے تمام اشیاء غریب عوام کی پہنچ سے دور ہوجائیں گی جو ہر روز روٹی کمانے کے لیے تگ ودو کر رہے ہیں۔
ایسی صنعتیں اور کاروبار جو پہلے ہی مختلف مسائل کا شکار ہیں، منی بجٹ میں اعلان کردہ کاروبار مخالف اقدامات کے اثرات کو برداشت نہیں کرپائیں گے، برآمدات کو عالمی منڈی میں مسابقتی بنانے اور قیمتوں کی جنگ جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسی پالیسیاں وضع کریں جو پاکستان کے برآمد کنندگان کو مسابقتی بنا سکیں۔
میری تجویز ہے کہ فاسٹ سسٹم کے تحت سیلز ٹیکس ریفنڈز 72 گھنٹے کے اندر دیے جائیں اور ری فنانس، لانگ ٹرم فنانسنگ کی سہولت کے نرخ بھی کم کیے جائیں جبکہ کیش فلو کے لیے ایک خصوصی ونڈو بھی شروع کی جائے تاکہ ترسیلات میں اضافہ ہو جو کہ زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
اسی طرح درآمدات کے متبادل صنعت کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درآمدات کو کم کیا جا سکے، تیل کے بل کو کم کرنے کے لیے بچت اقدامات کو بھی ہنگامی بنیادوں پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔
گردشی قرضوں سے نمٹنے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں بڑے پیمانے پر اضافے سے معاشی سست روی مزید بڑھ جائے گی خاص طور پر برآمدی شعبے کے لئے سبسڈیز کی واپسی سے بجلی کی قیمتوں میں80سے 85فیصد تک اضافہ ہوجائے گا جو برآمدی صنعتوں کے لئے مہلک ثابت ہوگا۔ وفاقی حکومت پہلے ہی گیس کے نرخوں میں 112 فیصد تک اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر چکی ہے۔
عام صنعتوں کے لئے گیس کی قیمت میں 35فیصد اضافہ کیا گیا ہے جس سے پاکستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی لاگت بڑھ جائے گی۔لارج سکیل پیداوار پہلے ہی دسمبر 2022 میں 3.5 فیصد تک گر چکی ہے جو کہ موجودہ مالی سال میں چھٹی ماہانہ گرواٹ کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس کے نتیجے میں بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان کی علاقائی مسابقت متاثر ہو رہی ہے جس سے پاکستان کی اقتصادی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
شیخ عبدالوحید
( سابق نائب صدر ایف پی سی سی آئی)
ملکی معیشت کی بحالی کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ حالیہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ماہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اب پورٹ فولیو انویسٹمنٹ بھی آناشروع ہوجائے گی۔
جس سے ملکی سٹاک مارکیٹ میں مثبت رجحان شروع ہو جائے گا اور روپے کی قدر بھی مستحکم ہوناشروع ہوجائے گی لیکن اس کو برقرار رکھنے اور اس کی رفتار تیز کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ملک کو سیاسی عدم استحکام سے بچانا ہوگا۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہم جلد معاشی بحران سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائیں گے۔
جہاں تک آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط کا تعلق ہے تو پی ٹی آئی حکومت کو اس معاہدے کا پاس رکھنا چاہیے تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر معاملات میں سیاسی فیصلے کرنا بہت بڑی غلطی تھی جس کی قیمت آج تک چکانا پڑ رہی ہے۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے سے انحراف کرکے ملک کو جس صورتحال سے دوچار کردیا تھا، اس میں اتحادی حکومت کو داد دینی چاہیے کہ اس نے صورتحال کو سنبھالا ۔ ہم معاشی طور پر تقریباََ دیوالیہ ہوچکے تھے ، اتحادی حکومت نے غیر مقبول فیصلے کیے اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا تاہم ابھی مشکلات ضرور ہیں ، ان سے بھی جلد نکل آئیں گے۔
ٹیکس ریونیو بڑھانے کی آئی ایم ایف کی شرط خود ہمارے مفاد میں ہے لیکن اس کیلئے نئے ٹیکس لگانا اور پہلے سے موجود فائلرز پر ہی بوجھ ڈالنا ٹھیک نہیں، ٹیکس نیٹ کا دائرہ کا بڑھایاجائے۔ پہلے بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ٹیکس نیٹ کو وسعت دے کر ریونیو بڑھایا تھا لہٰذا اب بھی امید ہے کہ وہ نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لاکر ریونیو بڑھانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ملک کی بائیس کروڑ کی آبادی میں سے اگر صرف پانچ کروڑ لوگ بھی ٹیکس نیٹ میں آجائیں تو ہمیں آئی ایم ایف سمیت کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اس کی ابتداء مرحلہ وار کی جائے۔
پہلے مرحلے میں شہروں کو فوکس کیا جائے۔ ہر قسم کی قابل ٹیکس آمدنی سے ٹیکس لیا جائے، اسی طرح بڑی بڑی جائیدادیں رکھنے والوں کا سراغ لگا کر انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ جہاں تک تاجروں کا تعلق ہے تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اس شعبے میں ٹیکس ریونیو کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے مگر اعتماد کا فقدان ہے۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ چھوٹے تاجروں کیلئے ماضی کی طرح خودتشخیصی سکیم تعارف کروائی جائے جس میں تاجروں کو ہر سال بیس فیصد اضافے کے ساتھ ٹیکس بڑھا کر ادا کرنے کی اجازت دی جائے اور بیس فیصد اضافے کے ساتھ ٹیکس جمع کروانے والوں سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہ کی جائے اور تمام کاروبار کیلئے ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کو لازمی قرار دیا جائے۔ جو لوگ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروائیں ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے۔
ملک کو قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا دلوانے اور اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے خودانحصاری کی طرف جانا ہوگا۔ درآمدی بل کو کم سے کم کیا جائے اور میڈ ان پاکستان کو پروموٹ کیا جائے۔ گاڑیوں سمیت تمام لگژری اشیاء کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کی جائے جو ملکی معیشت پر بوجھ کا باعث بن رہی ہیں۔
ملک کے زرعی شعبہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں گنے اور اس قسم کی دوسری فصلوں پر سبسڈی ختم کرنا ہوگی۔ اگر حکومت صرف کپاس پر فوکس کرے اور اس کی کاشت پر سبسڈی دے تو پاکستان کپاس میں خود کفیل ہوجائے گا ،ٹیکسٹائل انڈسٹری سو فیصد آپریشنل ہوجائے گی اور ٹیکسٹائل کی پیداواری لاگت بھی کم ہوجائے گی جس سے روزگار کے مواقع میں بھی اضافہ ہوگا اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات بھی بڑھیں گی۔
اس ایک اقدام سے نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری سو فیصد آپریشنل ہوجائے گی بلکہ کھانے کے تیل کی انڈسٹری جو اس وقت ایک فیصد چل رہی ہے وہ بھی بیس فیصد سے زائد پر چلنا شروع ہوجائے گی اور گھی و کوکنگ آئل کی قیمتیں بھی کم ہوجائیں گی ساتھ ہی کھانے کے تیل کی درآمد اور آئل سیڈز کی درآمد پر خرچ ہونے والا ذرمبادلہ بھی بچے گا ساتھ میں کَھل بنولے کی انڈسٹری بھی پھر سے فروغ پائے گی جس سے جانوروں کی مقامی سطح پر سستی اور معیاری خوراک دستیاب ہوسکے گی جس سے لائیو سٹاک اور ڈیری سیکٹر بھی فروغ پائے گا۔
ملک کی گھی اور کوکنگ انڈسٹری کو مقامی سطح پر خام مال کی دستیابی کو یقینی بنانے کیلئے ملک میں زیتون ،سورج مکھی اور اس قسم کی دوسری فصلوں کی کاشت کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔
یہ وہ اقدامات ہیں جن سے نہ صرف ان اشیاء کی درآمدپر خرچ ہونے والا اربوں ڈالر کا قیمتی ذرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے بلکہ مقامی سطح پر سستا خام مال فراہم کرکے سستی اشیاء کی دستیابی اور روزگار کے مواقع بھی بڑھائے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان اشیاء کی وسط ایشیائی ممالک کو برآمد بڑھا کر ذرمبادلہ بھی کمایاجاسکتا ہے۔
ساجد امین
(ماہر معیشت )
اتحادی حکومت کے پاس موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کے سواء کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں تھا۔ اگر ستمبر 2022ء سے ہی آئی ایم ایف کی شرائط پر بتدریج عمل شروع کردیاجاتا تو شائد صورتحال مختلف ہوتی۔ البتہ اب آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی بحالی کیلئے شرائط کا پورا کرنا ملکی معیشت کیلئے خوش آئند ہے کیونکہ معاشی بہتری کے تمام راستے اور آپشنز آئی ایم ایف سے ہوکر ہی جاتے ہیں۔
جو وقت ضائع کیا گیا اس سے دباؤ بڑھا اور پھر جب آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے پر مجبور ہوکر ایک ساتھ مختلف مشکل فیصلے لئے تو یکدم مہنگائی بڑھی، خصوصی طور پر جب ڈالرایک ساتھ چالیس روپے مہنگا ہوا۔
حکومت کی طرف سے لائے جانیو الے منی بجٹ میں جی ایس ٹی کی شرح بڑھانے،پٹرول،ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی سمیت دوسرے سخت اقدامات اور فیصلوں نے مل کر معیشت اور عام عوام کو متاثر کیا ابھی جو اقدامات لئے گئے ہیں اس کے اثرات آنا باقی ہیں اور اگلے دو سے تین ہفتوں میں مہنگائی کی شرح35 فیصد سے40 فیصد تک جانے کی توقع ہے جبکہ دوسری طرف جی ڈی پی گروتھ بھی کم ہوکر ایک فیصد کے لگ بھگ رہنے کی توقع ہے۔
اس کے علاوہ ابھی بجلی گیس نے بتدریج اور مرحلہ وار مزید مہنگی ہونا ہے لہٰذا ایک سے ڈیڑھ سال تک مہنگائی کا دباؤ رہے گا۔ دوسری جانب جی ڈی پی گروتھ کم رہنے کی وجہ سے روزگار کے مواقع بھی کم ہونگے، عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا لہٰذا غریب اور پسماندہ ترین لوگوں کو فوری طور پر سرکاری ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف بھی اس کا خواہاں ہے کہ سب کو سبسڈی دینے کے بجائے مستحق و پسماندہ افراد کو ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے۔عو ام کو ریلیف دینے کیلئے آٹا،چینی ودالوں سمیت دیگر اشیائے ضروریہ پر، پسماندہ لوگوں کو سبسڈی دی جائے اور سماجی تحفظ کے پروگرام کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے۔
مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی و انتظامی اقدامات اور ذمہ داریاں پوری کرکے عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے، سمگلنگ کی روک تھام کی جائے، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کو روکا جائے۔ اگر حکومت موثر طریقے سے یہ کام کرنے میں کامیاب ہوجائے تو عام آدمی کو خاطرخواہ ریلیف ملے گا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ صوبے اپنا فعال اور بھرپور کردار ادا کریں کیونکہ پرائس مانیٹرنگ و انفورسمنٹ میں زیادہ کردار صوبوں کا ہے۔
مہنگائی کم کرنے کا تیسرا موثر ذریعہ سٹیٹ بینک آف پاکستان ہے ، اس کی مانیٹری پالیسی کو مزید سخت کرنا چاہیے، اس سے مہنگائی کا گراف نیچے آئے گا۔ ٹیکسٹائل و دیگر مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دینا ہوگا، پیداواری لاگت کم لانے کیلئے تمام ممکنہ اقدامات کرنا ہونگے۔ جن انڈسٹریز کا انحصار درآمدی خام مال پر ہے ان کیلئے خام مال کی درآمد ی لاگت کو کم سے کم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔
مقامی انڈسٹری کو فروغ دینا ہوگا اور جو مصنوعات مقامی سطح پر تیار ہوتی ہیں،ان کی درآمد کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ تمام لگژی اشیاء کی درآمد پر پابندی یا ڈیوٹی ،ٹیکس بہت زیادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درآمدی بل بھی کم ہو اور مقامی انڈسٹری کو بھی فروغ ملے۔
سعودی عرب سے فرینڈلی کیش ڈیپاذٹ اور ادھار پرتیل لینے کی بجائے انویسٹمنٹ پر فوکس ہونا چاہیے۔ بھارت، قطر،یو اے ای اور سعودی عرب کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدے کرتا ہے اسی طرح ہمیں بھی سرمایہ کاری لانے پر فوکس کرنا ہوگا ۔ ہمیں سعودی عرب کے علاوہ قطر،عمان سمیت دوسرے گلف ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے معاہدے کرنا ہونگے۔
رانا احسان افضل
(وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے صنعت و تجارت )
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے سے انحراف کرکے ملک کو اس نہج پر پہنچایا کہ ہمارے پاس سخت فیصلوں کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہا۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے ہمیں مجبوراََ سخت اقدامات اٹھانے پڑے جن کا بوجھ عوام پر پڑ رہا ہے ۔
موجودہ حالات میں آئی ایم ایف ہی واحد راستہ ہے جو معاشی استحکام کی جانب جاتا ہے، اس لئے اتحادی حکومت نے سیاست بچانے کی بجائے ریاست بچانے کو ترجیح دی ورنہ تباہی اس سے کہیں خوفناک اور بھیانک ہوتی۔
پاکستان مسلم لیگ(ن)نے ماضی میں آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا تھا، انشاء اللہ اب بھی پاکستان مسلم لیگ(ن)کی قیادت میں اتحادی حکومت، اسے مکمل کرے گی۔
ہم ملک کو مشکل سے نکالنے کیلئے گزشتہ آٹھ ماہ سے غیر مقبول اور سخت فیصلے لے رہے ہیں جن سے معاشی صورتحال میں بہتری آرہی ہے، تجارتی خسارے میں کمی واقع ہورہی ہے، اسی طرح ٹیکس وصولیوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے البتہ ایکسٹرنل فرنٹ پر دباؤ ہے۔
توقع ہے کہ جلد آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف سطح کا معاہدہ ہوجائے گا اور قرضے کی اگلی قسط بھی منظور ہوجائے گی جس کے بعد پاکستان کے ایکسٹرنل فنانسنگ کے حوالے سے دباؤ میں بھی کمی واقع ہونا شروع ہوجائے گی۔
موجودہ حکومت نے پی ٹی آئی دور میں آئی ایم ایف سے طے کردہ شرائط کو پورا کرتے ہوئے 170 ارب روپے کے ٹیکس لگائے،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا اور سبسڈی واپس لی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی بتدریج اضافہ کیا جارہا ہے۔
ان اقدامات سے قلیل المیعاد مہنگائی بڑھے گی لیکن چند ماہ بعد معاملات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ ابھی چین نے پاکستان کا 70 کروڑ ڈالر کا قرضہ رول اوور کردیا ہے جبکہ آئی ایم ایف پروگرام ٹریک پر آنے کے بعد دوست ممالک سے بھی فنانسنگ مل جائے گی اور فرینڈز آف پاکستان کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کیلئے اعلان کردہ امدادی رقم بھی ملنا شروع ہوجائے گی۔
عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دیگر ڈونرز کی جانب سے بھی فنانسنگ ہوگی جس سے ملک کے ذرمبادلہ کے ذخائر بڑھنا شروع ہوجائیں گے، مارکیٹ میں بہتری آئے گی ، روپے کی قدر مستحکم ہوگی اور مہنگائی میں بھی کمی آئے گی۔
قوم کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پونے چار سال میں جو تباہی کی، اسے ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا ۔ پاکستان کو آئندہ تین برسوں میں قرضوں کی واپسی اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے 100 ارب ڈالر درکار ہونگے.
70 ارب ڈالر سے زائد کے قرضے واپس کرنا ہیں جبکہ پچیس سے تیس ارب ڈالر کرنٹ اکاونٹ خسارے کو پورا کرنے کی مد میں درکار ہونگے جو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف اور چیلنج ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور میں ملک کا پرائمری خسارہ ایک فیصد تھا جو پاکستان تحریک انصاف کے دور میں بڑھ کر اڑھائی فیصد کے لگ بھگ ہوگیا ۔
مالی و اقتصادی ٹرم میں پرائمری خسارے کو گناہ کبیرہ کہا جاتا ہے۔ حکومت کی متعارف کروائی گئی اصلاحات اور وزیراعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے اعلان کردہ دو سو ارب روپے مالیت کے کفایت شعاری اقدامات سودمند ثابت ہونگے۔ اتحادی حکومت پالیسی سطح پر ٹھوس اور پائیدار اصلاحاتی اقدامات متعارف کروارہی ہے۔
حکومت کی طرف سے 170 ارب روپے کے ٹیکسز میں سیلز ٹیکس کی شرح سترہ فیصد سے بڑھاکر اٹھارہ فیصد کرنے، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھے گی مگر آئی ایم ایف پروگرام ٹریک پر آنے سے بہتری آئے گی۔
حکومت پسماندہ ترین لوگوں کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے اور ریلیف دینے کیلئے ٹارگٹڈ سبسڈی بھی دے رہی ہے، سوشل سیفٹی پروگرامز کے ذریعے پسماندہ طبقے کو تحفظ دیا جائے گا ۔ بجلی اور گیس کے حوالے سے اشرافیہ پر توجہ دی جارہی ہے، جو لوگ بجلی وگیس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان کیلئے یہ مہنگی کی جارہی ہے اور کوشش ہے کہ غریب صارفین پر اس کا بوجھ کم سے کم پڑے۔
حکومت تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے جامع اور مربوط منصوبہ بندی کررہی ہے۔ پہلے مرحلے میں پی او ایس کے ذریعے ٹاؤن کے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جارہا ہے ، کوشش ہے کہ ایک سال کے دوران پوائنٹ آف سیل کے حامل ریٹیلرز کی تعداد دوگنا کی جائے۔
اسی طرح چھوٹے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے بھی کام جاری ہے، امید ہے کہ اگلے دو سے تین سال میں ملک کو معاشی و مالی بحران سے نکال کر دوبارہ اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کردیا جائے گا ۔
فاد وحید
(سینئر نائب صدراسلام آباد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری )
سیلز ٹیکس ہر شعبے میں بڑھا دیا گیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ صنعت میں استعمال ہونے والا خام مال بھی اس کی زد میں ہو گا اور وہ انڈسٹری کی پیداواری لاگت کو بڑھا ئے گا جو لازمی طور پر صارفین سے وصول کی جائے گی۔
یہ اضافی سیلز ٹیکس سب سے زیادہ عام آدمی کو متاثر کرے گا ، اس کے اثرات مہنگائی کی صورت میں ظاہر بھی ہورہے ہیں ۔
پاکستان میں جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27 فیصد سے زائد رہی جو 48 برس کی بلند ترین شرح ہے۔ مہنگائی کی شرح میں ہونے والے اضافے کی بڑی وجہ ملک میں اشیائے خورو نوش، ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا بڑا اضافہ ہے۔
اضافی سیلز ٹیکس سے مہنگائی کی شرح 30 فیصد سے زیادہ ہو جائے گی۔ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے سواء دوسرا راستہ نہیں ہے۔
ہمارے پالیسی سازوں کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ کیوں ہم ہر کچھ عرصے کے بعد واپس اسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا ہوتا ہے۔
آ ئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے 1.2 ارب ڈالر کی قسط جو ادائیگی کے توازن کے تحت ایک ایسا قدم تھاجسے ٹالا نہیں جاسکتا لیکن ساتھ ہی یہ170ارب روپے کے ٹیکس کے اقدامات پر مبنی منی بجٹ پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ مہنگائی اور معیشت کو مزید متاثر کرے گا۔
جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا بلند ترین سطح تک پہنچنا اور گیس کے نرخوں میں حد سے زیادہ اضافے سے عام آدمی پر ناقابل برداشت حد تک دباؤ پڑے گا، کاروباری ادارے شدید بحران کا شکار ہوں گے۔
جی ایس ٹی کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کے فیصلے سے تمام اشیاء غریب عوام کی پہنچ سے دور ہوجائیں گی جو ہر روز روٹی کمانے کے لیے تگ ودو کر رہے ہیں۔
ایسی صنعتیں اور کاروبار جو پہلے ہی مختلف مسائل کا شکار ہیں، منی بجٹ میں اعلان کردہ کاروبار مخالف اقدامات کے اثرات کو برداشت نہیں کرپائیں گے، برآمدات کو عالمی منڈی میں مسابقتی بنانے اور قیمتوں کی جنگ جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسی پالیسیاں وضع کریں جو پاکستان کے برآمد کنندگان کو مسابقتی بنا سکیں۔
میری تجویز ہے کہ فاسٹ سسٹم کے تحت سیلز ٹیکس ریفنڈز 72 گھنٹے کے اندر دیے جائیں اور ری فنانس، لانگ ٹرم فنانسنگ کی سہولت کے نرخ بھی کم کیے جائیں جبکہ کیش فلو کے لیے ایک خصوصی ونڈو بھی شروع کی جائے تاکہ ترسیلات میں اضافہ ہو جو کہ زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
اسی طرح درآمدات کے متبادل صنعت کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درآمدات کو کم کیا جا سکے، تیل کے بل کو کم کرنے کے لیے بچت اقدامات کو بھی ہنگامی بنیادوں پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔
گردشی قرضوں سے نمٹنے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں بڑے پیمانے پر اضافے سے معاشی سست روی مزید بڑھ جائے گی خاص طور پر برآمدی شعبے کے لئے سبسڈیز کی واپسی سے بجلی کی قیمتوں میں80سے 85فیصد تک اضافہ ہوجائے گا جو برآمدی صنعتوں کے لئے مہلک ثابت ہوگا۔ وفاقی حکومت پہلے ہی گیس کے نرخوں میں 112 فیصد تک اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر چکی ہے۔
عام صنعتوں کے لئے گیس کی قیمت میں 35فیصد اضافہ کیا گیا ہے جس سے پاکستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی لاگت بڑھ جائے گی۔لارج سکیل پیداوار پہلے ہی دسمبر 2022 میں 3.5 فیصد تک گر چکی ہے جو کہ موجودہ مالی سال میں چھٹی ماہانہ گرواٹ کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس کے نتیجے میں بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان کی علاقائی مسابقت متاثر ہو رہی ہے جس سے پاکستان کی اقتصادی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
شیخ عبدالوحید
( سابق نائب صدر ایف پی سی سی آئی)
ملکی معیشت کی بحالی کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ حالیہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ماہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اب پورٹ فولیو انویسٹمنٹ بھی آناشروع ہوجائے گی۔
جس سے ملکی سٹاک مارکیٹ میں مثبت رجحان شروع ہو جائے گا اور روپے کی قدر بھی مستحکم ہوناشروع ہوجائے گی لیکن اس کو برقرار رکھنے اور اس کی رفتار تیز کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ملک کو سیاسی عدم استحکام سے بچانا ہوگا۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہم جلد معاشی بحران سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائیں گے۔
جہاں تک آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط کا تعلق ہے تو پی ٹی آئی حکومت کو اس معاہدے کا پاس رکھنا چاہیے تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر معاملات میں سیاسی فیصلے کرنا بہت بڑی غلطی تھی جس کی قیمت آج تک چکانا پڑ رہی ہے۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے سے انحراف کرکے ملک کو جس صورتحال سے دوچار کردیا تھا، اس میں اتحادی حکومت کو داد دینی چاہیے کہ اس نے صورتحال کو سنبھالا ۔ ہم معاشی طور پر تقریباََ دیوالیہ ہوچکے تھے ، اتحادی حکومت نے غیر مقبول فیصلے کیے اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا تاہم ابھی مشکلات ضرور ہیں ، ان سے بھی جلد نکل آئیں گے۔
ٹیکس ریونیو بڑھانے کی آئی ایم ایف کی شرط خود ہمارے مفاد میں ہے لیکن اس کیلئے نئے ٹیکس لگانا اور پہلے سے موجود فائلرز پر ہی بوجھ ڈالنا ٹھیک نہیں، ٹیکس نیٹ کا دائرہ کا بڑھایاجائے۔ پہلے بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ٹیکس نیٹ کو وسعت دے کر ریونیو بڑھایا تھا لہٰذا اب بھی امید ہے کہ وہ نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لاکر ریونیو بڑھانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ملک کی بائیس کروڑ کی آبادی میں سے اگر صرف پانچ کروڑ لوگ بھی ٹیکس نیٹ میں آجائیں تو ہمیں آئی ایم ایف سمیت کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اس کی ابتداء مرحلہ وار کی جائے۔
پہلے مرحلے میں شہروں کو فوکس کیا جائے۔ ہر قسم کی قابل ٹیکس آمدنی سے ٹیکس لیا جائے، اسی طرح بڑی بڑی جائیدادیں رکھنے والوں کا سراغ لگا کر انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ جہاں تک تاجروں کا تعلق ہے تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اس شعبے میں ٹیکس ریونیو کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے مگر اعتماد کا فقدان ہے۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ چھوٹے تاجروں کیلئے ماضی کی طرح خودتشخیصی سکیم تعارف کروائی جائے جس میں تاجروں کو ہر سال بیس فیصد اضافے کے ساتھ ٹیکس بڑھا کر ادا کرنے کی اجازت دی جائے اور بیس فیصد اضافے کے ساتھ ٹیکس جمع کروانے والوں سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہ کی جائے اور تمام کاروبار کیلئے ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کو لازمی قرار دیا جائے۔ جو لوگ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروائیں ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے۔
ملک کو قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا دلوانے اور اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے خودانحصاری کی طرف جانا ہوگا۔ درآمدی بل کو کم سے کم کیا جائے اور میڈ ان پاکستان کو پروموٹ کیا جائے۔ گاڑیوں سمیت تمام لگژری اشیاء کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کی جائے جو ملکی معیشت پر بوجھ کا باعث بن رہی ہیں۔
ملک کے زرعی شعبہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں گنے اور اس قسم کی دوسری فصلوں پر سبسڈی ختم کرنا ہوگی۔ اگر حکومت صرف کپاس پر فوکس کرے اور اس کی کاشت پر سبسڈی دے تو پاکستان کپاس میں خود کفیل ہوجائے گا ،ٹیکسٹائل انڈسٹری سو فیصد آپریشنل ہوجائے گی اور ٹیکسٹائل کی پیداواری لاگت بھی کم ہوجائے گی جس سے روزگار کے مواقع میں بھی اضافہ ہوگا اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات بھی بڑھیں گی۔
اس ایک اقدام سے نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری سو فیصد آپریشنل ہوجائے گی بلکہ کھانے کے تیل کی انڈسٹری جو اس وقت ایک فیصد چل رہی ہے وہ بھی بیس فیصد سے زائد پر چلنا شروع ہوجائے گی اور گھی و کوکنگ آئل کی قیمتیں بھی کم ہوجائیں گی ساتھ ہی کھانے کے تیل کی درآمد اور آئل سیڈز کی درآمد پر خرچ ہونے والا ذرمبادلہ بھی بچے گا ساتھ میں کَھل بنولے کی انڈسٹری بھی پھر سے فروغ پائے گی جس سے جانوروں کی مقامی سطح پر سستی اور معیاری خوراک دستیاب ہوسکے گی جس سے لائیو سٹاک اور ڈیری سیکٹر بھی فروغ پائے گا۔
ملک کی گھی اور کوکنگ انڈسٹری کو مقامی سطح پر خام مال کی دستیابی کو یقینی بنانے کیلئے ملک میں زیتون ،سورج مکھی اور اس قسم کی دوسری فصلوں کی کاشت کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔
یہ وہ اقدامات ہیں جن سے نہ صرف ان اشیاء کی درآمدپر خرچ ہونے والا اربوں ڈالر کا قیمتی ذرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے بلکہ مقامی سطح پر سستا خام مال فراہم کرکے سستی اشیاء کی دستیابی اور روزگار کے مواقع بھی بڑھائے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان اشیاء کی وسط ایشیائی ممالک کو برآمد بڑھا کر ذرمبادلہ بھی کمایاجاسکتا ہے۔
ساجد امین
(ماہر معیشت )
اتحادی حکومت کے پاس موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کے سواء کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں تھا۔ اگر ستمبر 2022ء سے ہی آئی ایم ایف کی شرائط پر بتدریج عمل شروع کردیاجاتا تو شائد صورتحال مختلف ہوتی۔ البتہ اب آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی بحالی کیلئے شرائط کا پورا کرنا ملکی معیشت کیلئے خوش آئند ہے کیونکہ معاشی بہتری کے تمام راستے اور آپشنز آئی ایم ایف سے ہوکر ہی جاتے ہیں۔
جو وقت ضائع کیا گیا اس سے دباؤ بڑھا اور پھر جب آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے پر مجبور ہوکر ایک ساتھ مختلف مشکل فیصلے لئے تو یکدم مہنگائی بڑھی، خصوصی طور پر جب ڈالرایک ساتھ چالیس روپے مہنگا ہوا۔
حکومت کی طرف سے لائے جانیو الے منی بجٹ میں جی ایس ٹی کی شرح بڑھانے،پٹرول،ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی سمیت دوسرے سخت اقدامات اور فیصلوں نے مل کر معیشت اور عام عوام کو متاثر کیا ابھی جو اقدامات لئے گئے ہیں اس کے اثرات آنا باقی ہیں اور اگلے دو سے تین ہفتوں میں مہنگائی کی شرح35 فیصد سے40 فیصد تک جانے کی توقع ہے جبکہ دوسری طرف جی ڈی پی گروتھ بھی کم ہوکر ایک فیصد کے لگ بھگ رہنے کی توقع ہے۔
اس کے علاوہ ابھی بجلی گیس نے بتدریج اور مرحلہ وار مزید مہنگی ہونا ہے لہٰذا ایک سے ڈیڑھ سال تک مہنگائی کا دباؤ رہے گا۔ دوسری جانب جی ڈی پی گروتھ کم رہنے کی وجہ سے روزگار کے مواقع بھی کم ہونگے، عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا لہٰذا غریب اور پسماندہ ترین لوگوں کو فوری طور پر سرکاری ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف بھی اس کا خواہاں ہے کہ سب کو سبسڈی دینے کے بجائے مستحق و پسماندہ افراد کو ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے۔عو ام کو ریلیف دینے کیلئے آٹا،چینی ودالوں سمیت دیگر اشیائے ضروریہ پر، پسماندہ لوگوں کو سبسڈی دی جائے اور سماجی تحفظ کے پروگرام کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے۔
مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی و انتظامی اقدامات اور ذمہ داریاں پوری کرکے عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے، سمگلنگ کی روک تھام کی جائے، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کو روکا جائے۔ اگر حکومت موثر طریقے سے یہ کام کرنے میں کامیاب ہوجائے تو عام آدمی کو خاطرخواہ ریلیف ملے گا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ صوبے اپنا فعال اور بھرپور کردار ادا کریں کیونکہ پرائس مانیٹرنگ و انفورسمنٹ میں زیادہ کردار صوبوں کا ہے۔
مہنگائی کم کرنے کا تیسرا موثر ذریعہ سٹیٹ بینک آف پاکستان ہے ، اس کی مانیٹری پالیسی کو مزید سخت کرنا چاہیے، اس سے مہنگائی کا گراف نیچے آئے گا۔ ٹیکسٹائل و دیگر مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دینا ہوگا، پیداواری لاگت کم لانے کیلئے تمام ممکنہ اقدامات کرنا ہونگے۔ جن انڈسٹریز کا انحصار درآمدی خام مال پر ہے ان کیلئے خام مال کی درآمد ی لاگت کو کم سے کم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔
مقامی انڈسٹری کو فروغ دینا ہوگا اور جو مصنوعات مقامی سطح پر تیار ہوتی ہیں،ان کی درآمد کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ تمام لگژی اشیاء کی درآمد پر پابندی یا ڈیوٹی ،ٹیکس بہت زیادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درآمدی بل بھی کم ہو اور مقامی انڈسٹری کو بھی فروغ ملے۔
سعودی عرب سے فرینڈلی کیش ڈیپاذٹ اور ادھار پرتیل لینے کی بجائے انویسٹمنٹ پر فوکس ہونا چاہیے۔ بھارت، قطر،یو اے ای اور سعودی عرب کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدے کرتا ہے اسی طرح ہمیں بھی سرمایہ کاری لانے پر فوکس کرنا ہوگا ۔ ہمیں سعودی عرب کے علاوہ قطر،عمان سمیت دوسرے گلف ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے معاہدے کرنا ہونگے۔