پی آئی بی اسپتال 10 سال بعد بھی مکمل فعال نہ ہوسکا
اسپتال کی عمارت 2022 میں مکمل ہوئی مگر محکمہ صحت کے حوالے نہیں کی گئی، ترجمان
صوبائی محکمہ صحت اور محکمہ ورکس اینڈ سروسز سندھ کی غیرسنجیدگی سے ضلع شرقی میں سندھ گورنمنٹ اسپتال پی آئی بی سالہا سال بعد بھی مکمل طور پر فعال نہیں ہوسکا ہے۔
کروڑوں کی لاگت سے تعمیر اسپتال میں مشینیں، فرنیچر اور طبی سامان موجود نہیں، دس سال بعد بھی صرف چند ڈاکٹروں سے او پی ڈی چلائی جارہی ہے، 24 گھنٹے چلنے والے اسپتال کو 5 گھنٹے صرف او پی ڈی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
سندھ گورنمنٹ اسپتال پی آئی بی کالونی کے قیام کی منظوری حکومت نے سالانہ ترقیاتی اسکیم 2012 میں دی تھی، اسپتال کی تعمیر کے لیے ابتدائی طور پر 48 کڑور روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی تھی۔
اس منصوبے کو 3 سال میں مکمل کرنا تھا لیکن 10 سال گزرنے کے بعد بھی یہ تاحال مکمل ہوکر عوام کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوا محکمہ ورکس اینڈ سروسز کی غفلت کے باعث اس کا تخمینہ بڑھاکر 48 سے 66 کڑور روپے کر دیا گیا۔
محکمہ صحت سندھ کی ترجمان مہر خورشید کے مطابق اسپتال کی عمارت کو 2022 میں ہر لحاظ سے مکمل کرلیا گیا تھا مگر محکمہ صحت کے حوالے نہیںکیا گیا۔
100 بستروں پر مشتمل اسپتال میں مشینری اور طبی سامان تک موجود نہیں اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے شعبہ حادثات بھی فعال نہیں، ضلعی صحت افسر ڈاکٹر محمد نعیم کی زیرنگرانی اسپتال میں چند ڈاکٹروں کے ذریعے اوپی ڈی چلائی جارہی ہے۔
محکمہ صحت سندھ کی ترجمان کے مطابق اسپتال کی عمارت تاحال محکمہ صحت سندھ کے حوالے نہیں کی گئی تاہم اعلیٰ حکام کی ہدایات پر علاقے کے عوام کے لیے او پی ڈی، ای پی آئی اور فیملی پلاننگ کی خدمات دینی شروع کردی ہیں یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسپتال محکمہ صحت کے حوالے نہیں کیا گیا تو اس میں او پی ڈی کیسے شروع کر دی گئی؟
گزشتہ ماہ وفاقی وزیر شازیہ مری نے اس اسپتال میں نشونما سینٹر کا افتتاح کیسے کیا؟ سال 2021-22 میں اسپتال کے لیے ساڑھے 4 کروڑ کی مشینری خریدی کی گئی لیکن وہ مشینری اسپتال میں موجود نہیں، محکمہ صحت کے مطابق اس مشینری کو اسٹور میں رکھا گیا ہے حالانکہ اسپتال کے لیے خریدی گئی مشینری کا اسٹور میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔
کروڑوں کی لاگت سے تعمیر اور کروڑوں کی مشینری کی خریداری کے باوجود اس اسپتال کا فعال نہ ہونا قابل گرفت معاملہ ہے اگر حکومت شہریوں کو صحت کی سہولیات دینا چاہتی ہے اور اس کے لیے کروڑوں روپے بھی مختص کرتی ہے تو حکومت کو غفلت دکھانے والے اداروں کے خلاف کاروائی بھی کرنی چاہیے۔
کروڑوں کی لاگت سے تعمیر اسپتال میں مشینیں، فرنیچر اور طبی سامان موجود نہیں، دس سال بعد بھی صرف چند ڈاکٹروں سے او پی ڈی چلائی جارہی ہے، 24 گھنٹے چلنے والے اسپتال کو 5 گھنٹے صرف او پی ڈی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
سندھ گورنمنٹ اسپتال پی آئی بی کالونی کے قیام کی منظوری حکومت نے سالانہ ترقیاتی اسکیم 2012 میں دی تھی، اسپتال کی تعمیر کے لیے ابتدائی طور پر 48 کڑور روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی تھی۔
اس منصوبے کو 3 سال میں مکمل کرنا تھا لیکن 10 سال گزرنے کے بعد بھی یہ تاحال مکمل ہوکر عوام کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوا محکمہ ورکس اینڈ سروسز کی غفلت کے باعث اس کا تخمینہ بڑھاکر 48 سے 66 کڑور روپے کر دیا گیا۔
محکمہ صحت سندھ کی ترجمان مہر خورشید کے مطابق اسپتال کی عمارت کو 2022 میں ہر لحاظ سے مکمل کرلیا گیا تھا مگر محکمہ صحت کے حوالے نہیںکیا گیا۔
100 بستروں پر مشتمل اسپتال میں مشینری اور طبی سامان تک موجود نہیں اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے شعبہ حادثات بھی فعال نہیں، ضلعی صحت افسر ڈاکٹر محمد نعیم کی زیرنگرانی اسپتال میں چند ڈاکٹروں کے ذریعے اوپی ڈی چلائی جارہی ہے۔
محکمہ صحت سندھ کی ترجمان کے مطابق اسپتال کی عمارت تاحال محکمہ صحت سندھ کے حوالے نہیں کی گئی تاہم اعلیٰ حکام کی ہدایات پر علاقے کے عوام کے لیے او پی ڈی، ای پی آئی اور فیملی پلاننگ کی خدمات دینی شروع کردی ہیں یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسپتال محکمہ صحت کے حوالے نہیں کیا گیا تو اس میں او پی ڈی کیسے شروع کر دی گئی؟
گزشتہ ماہ وفاقی وزیر شازیہ مری نے اس اسپتال میں نشونما سینٹر کا افتتاح کیسے کیا؟ سال 2021-22 میں اسپتال کے لیے ساڑھے 4 کروڑ کی مشینری خریدی کی گئی لیکن وہ مشینری اسپتال میں موجود نہیں، محکمہ صحت کے مطابق اس مشینری کو اسٹور میں رکھا گیا ہے حالانکہ اسپتال کے لیے خریدی گئی مشینری کا اسٹور میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔
کروڑوں کی لاگت سے تعمیر اور کروڑوں کی مشینری کی خریداری کے باوجود اس اسپتال کا فعال نہ ہونا قابل گرفت معاملہ ہے اگر حکومت شہریوں کو صحت کی سہولیات دینا چاہتی ہے اور اس کے لیے کروڑوں روپے بھی مختص کرتی ہے تو حکومت کو غفلت دکھانے والے اداروں کے خلاف کاروائی بھی کرنی چاہیے۔