انسانی اسمگلنگ کی روک تھام ضروری
برے وقت میں راہ فرار اختیار کرنا آسان ہوتا ہے لیکن حالات بدلنے کے لیے ذمے داری اٹھانا مشکل لیکن پروقار انتخاب ہے
جنوبی اٹلی کے سمندر میں کشتی تباہ ہونے سے اٹھائیس پاکستانیوں اور بچوں سمیت ساٹھ تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔
ایک شخص کو انسانی اسمگلنگ کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ہلاک ہونیوالے ان پاکستانیوں کا تعلق گجرات، کھاریاں، منڈی بہاؤالدین سے بتایا جا رہا ہے۔
اس سانحہ پر جتنے بھی افسوس کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے، گزشتہ کئی برسوں سے ایسے افسوسناک واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں ، بیروزگاری کا آسیب ہمیں نگل رہا ہے ، پہلے کمبوڈیا اور ویت نام کے باشندوں کی خبریں میڈیا پر گردش کرتی تھیں کہ اتنے تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی یا کنیٹینر میں دم گھنٹے سے مرگئے۔
اب یہ سب کچھ پاکستانیوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے ملک میں قابل اعتماد اعداد و شمار کی کمی ہے لہٰذا اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ کس پیمانے پر انسانی اسمگلنگ کی جا رہی ہے۔ اسمگلر ایک عام فرد کو پھنسانے کے لیے مختلف حربے آزماتے ہیں، چکنی چپڑی باتوں اور مستقبل کا لالچ دیا جاتا ہے۔
سنہرے خواب اور بیرون ملک سیٹل ہونے کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ مستقبل کے ان جھوٹے خوابوں میں لالچ اور رومانس بھی شامل ہوتے ہیں۔ نوکریوں کے جھوٹے اشتہار بھی اخبارات میں نظر سے گزرتے ہونگے۔ اچھی تعلیم یا بیرون ملک سیٹل ہونا کسی کا بھی خواب ہو سکتا ہے۔
سو اسے بھی باآسانی استعمال کیا جاتا ہے۔ لالچ اور فریب میں آکر بہت سے افراد جال میں پھنس جاتے ہیں۔
آنکھوں میں روشن مستقبل کے سہانے سپنے سجا کر یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کا رخ کرنا دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ پاکستان کے نوجوانوں کا بھی منتہائے مقصود بنا ہوا ہے اور اس خوابناک مقصد کے حصول کی کوشش میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نتائج اور انجام سے بے پرواہ ہر سال انسانی اسمگلروں اور ان دیکھے مصائب و مشکلات کا چارہ بنتی ہے۔
ایسے لوگوں کو بیرون ملک بھجوانے والے ایجنٹ انھیں راستے میں پیش آنیوالی مشکلات کے بارے میں سچ نہیں بتاتے اس لیے، ان کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کو علم ہی نہیں ہوتا کہ انھیں یورپ جانے کے لیے کس قسم کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اگرچہ انسانی اسمگلنگ سے متعلق کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق پاکستان سے ہر سال تقریباً 3لاکھ افراد اسمگل کیے جاتے ہیں۔
کوئی شک نہیں کہ پاکستان معاشی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے انتہائی مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، ہر ادارہ متنازع ہے، سیاسی قیادت بری طرح ایکسپوز ہوچکی ہے، مایوسی کا اندھیرا بڑھ رہا ہے اور امید کی کرنیں ایک ایک کر کے بجھ رہی ہیں۔
ان حالات میں شعوری طور پر سب سے پہلے جو طبقہ متاثر ہوتا ہے وہ نوجوان ہیں اور یہی طبقہ سب سے پہلے فیصلہ کرتا ہے کہ آگے کیا کرنا ہے، عام طور پر ان کے پاس دو ہی راستے بچ جاتے ہیں۔
پہلا کہ اجڑتی ہوئی بستی کو چھوڑ کر خوشحال بستی کی تلاش میں ہجرت کر لی جائے اور ایک نیا مسکن تلاش کیا جائے یا دوسرا یہ کہ اس اندھیرے کو دور کرنے کے لیے خود ہی شمعیں روشن کی جائیں چاہے اس کا ایندھن اپنا خون ہی کیوں نہ ہو۔
مشکل کی گھڑی میں نوجوانوں کا ملک چھوڑ کر جانا بہت بڑا المیہ ہے ، اگر یونہی ہمارے نوجوان ملک کو چھوڑ کر جاتے رہے تو مجبور اور لاچاروں کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا؟ اگر گرہن کی اس گہری رات میں سب ہی جگنو چلے گئے تو صبح اور خوابوں کی تعمیل کے انتظار میں بیٹھے اس ملک کے مکینوں کو راستہ کون دکھائے گا؟
جب آپ کے گھر میں غیر یقینی ہو ، بد امنی ہو، لاقانونیت ہو ، کوئی سسٹم نہ ہو ، کہیں انصاف نہ مل رہا ہو ، اقربا پروری ہو اور پھر کہیں سے بہتری کی کوئی اُمید بھی نظر نہ آرہی ہو تو پھر آپ گھر چھوڑنے والوں کو کیسے روک سکتے ہیں؟
یہ بات لاکھ درست سہی کہ اس وقت ملک میں معاشی بد حالی ، بدانتظامی، عدم انصاف اور نا جانے درجنوں مسائل کی وجہ سے اندھیرا ہے لیکن اس سب میں قصور وار تو وہ ہیں جو بالواسطہ اور بلاواسطہ اس ملک کے حکمران رہے یا ہیں۔ تو اس ملک کو اس اشرافیہ سے نجات دلانے کی جدوجہد کرنے کے بجائے ہم ملک کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟
اس صورتحال کا سادہ پس منظر یہ ہے کہ ہم نے پاکستان میں ان نوجوانوں کے لیے روزگار، تحفظ اور خوشی کی کوئی کرن باقی نہیں رہنے دی۔ جہاں تک تعلیم یافتہ افراد کا تعلق ہے تو پاکستان کی معیشت اور معاشرہ اپنے نوجوان شہریوں کی صلاحیت سے مستفیض ہونے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔
ہم نے نوجوان نسل کے خواب دریا برد کر دیے ہیں۔ ماہرین معیشت اس صورت حال کو برین ڈرین یعنی ذہانت کا زیاں قرار دیتے ہیں۔ اس سے معیشت اور تمدن مجموعی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ پاکستان کے ان نوجوانوں کے لیے واحد محرک تلاش معاش نہیں۔ آج کا نوجوان ہم عصر دنیا سے باخبر ہے۔
اس وقت ایسا لگتا ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے پہلا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزرے برس بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں حیران کن اور افسوسناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
2022 میں 7 لاکھ 65 ہزار پڑھے لکھے نوجوانوں نے پاکستان چھوڑ دیا ہے، ان میں ڈاکٹرز، انجینئرز ، آئی ٹی ایکسپرٹس اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان شامل ہیں، کچھ بڑے شعبوں کی بات کریں تو گزرے سال پاکستان 7 ہزار سے زائد انجینئرز، اڑھائی ہزار ڈاکٹروں، 1600 نرسوں، 2 ہزار آئی ٹی ماہرین، 6500 اکاؤنٹنٹس، 2600 زرعی ماہرین اور 900 اساتذہ سے محروم ہوگیا۔
پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد، جنھیں کسی بھی ملک کی ترقی اور روشن مستقبل کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔
اس ملک میں نہیں رہنا چاہتے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہر دوسرا دوست یا عزیز امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ یا کسی یورپی ملک میں زندگی گزارنے کے خواب دیکھ رہا ہے جب کہ خطے کے دیگر ممالک شہریت کے لیے نت نئے ''پیکیجز'' متعارف کروا رہے ہیں، سرمایہ دار پاکستانیوں کو اپنی طرف راغب کر رہے ہیں۔
آج کل آپ نے پاکستان میں ترکی میں سرمایہ کاری کے اشتہارات تو دیکھے ہی ہونگے، وہ پاکستانیوں کے لیے خصوصی پیکیجز متعارف کروا رہے ہیں، گزشتہ چند سالوں میں ترکی نے جس انداز میں پاکستان میں اپنا Influenceپیدا کیا ہے۔
اُس کی مثال نہیں ملتی۔ جیسے ہی انڈین ڈراموں پر پابندی لگی، ترک فلم اور ڈراما انڈسٹری نے پاکستان میں جگہ بنانا شروع کر دی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ عمل سرکاری سطح پر بھی ہونے لگا جس کا اثر یہ ہوا کہ 90فیصد پاکستانی سلطنت عثمانیہ سے روشناس ہوگئے جس سے نا صرف ترکی کی سیاحت کو فروغ ملا بلکہ گزشتہ چند سالوں میں ڈھائی لاکھ پاکستانیوں نے وہاں مستقل سکونت بھی اختیار کی۔
ترکی نے پاکستانیوں کو یہ سہولت فراہم کردی ہے کہ جو عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا ویزہ لگوائے، اُس کے لیے ترکی کا ایک ماہ کا ویزہ فری ہوگا۔
ان کے ایسا کرنے سے گزشتہ3 سالوں میں53 لاکھ پاکستانیوں نے ترکی کا دورہ کیا۔ یو اے ای نے غیر ملکیوں کو شہریت دینے کا فیصلہ کردیا ہے۔ یو اے ای نے دنیا بھر کی اشرافیہ کو راغب کرنے کے لیے نئی اسکیمیں متعارف کروائی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی شہریت حاصل کرنیوالے اپنی اصل شہریت بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔
ان اسکیموں سے دنیا بھر کے امرا نے فائدہ اٹھایا ہے جس میں بھارتی پہلے نمبر پر ہیں جب کہ پاکستانی دوسرے نمبر پر نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح ہماری آدھی سے زائد ٹیکسٹائل انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہو چکی ہے یعنی پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات محض 7ارب ڈالر جب کہ بنگلہ دیش کی 34ارب ڈالر ہو چکی ہیں، اگر ہم رقبہ، آبادی، وسائل اور معیشت کے لحاظ سے پاکستان کا موازنہ بنگلہ دیش سے کریں تو اس کی ٹیکسٹائل برآمدات بھی 34 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔
فی الوقت بنگلہ دیش نے ایسا کوئی پیکیج اناؤنس تو نہیں کیا مگر اُس نے پاکستان میں انرجی کرائسز کو دیکھتے ہوئے سرمایہ کاروں کے لیے بجلی کے نرخ پاکستان سے آدھے، بلاتعطل اور مفت پانی کی فراہمی اور پٹرولیم مصنوعات پر بھی سبسڈی کا اعلان کیا ہے۔
یہ وقت ملک چھوڑ کر جانے کا نہیں بلکہ اس بدبو دار نظام کو تبدیل کرنے کا ہے۔ پڑھے لکھے اور باشعور نوجوانوں کو خود نظام کی تبدیلی کے لیے میدان میں آنا ہوگا تاکہ ملک کے عوام کو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کمیشن خوروں، منی لانڈررز اور اخلاقی چوروں کے بجائے ایک ایماندار، اہل اور باشعور قیادت کا آپشن میسر آئے۔
برے وقت میں راہ فرار اختیار کرنا آسان ہوتا ہے لیکن حالات بدلنے کے لیے ذمے داری اٹھانا مشکل لیکن پروقار انتخاب ہے، کیوں نہ دوسرا راستہ اختیار کیا جائے، کیوں نہ اس اندھیرے کو دور کرنے کے لیے شمعیں جلائی جائیں۔ اندھیرے کے بیوپاریوں سے ملک کو نجات دلائی جائے۔
اس ملک کو چھوڑ کر جانا مسائل کا حل نہیں ہے، مسائل کو حل کرنا مسائل کا حل ہے۔ نوجوان تو ملک چھوڑ جائیں گے لیکن ان کے خاندان اور اپنوں نے یہی رہنا ہے۔
دوسرا پردیس لاکھ محنتوں کے بعد بھی کبھی دیس نہیں بن سکتا۔ راہ فرار اختیار کرنا آسان اور ذمے داریاں نبھانا مشکل ہوتا ہے۔ فیصلہ نوجوانوں کا ہے، ذمے داری نبھانی ہے یا ملک چھوڑ جانا ہے۔
ایک شخص کو انسانی اسمگلنگ کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ہلاک ہونیوالے ان پاکستانیوں کا تعلق گجرات، کھاریاں، منڈی بہاؤالدین سے بتایا جا رہا ہے۔
اس سانحہ پر جتنے بھی افسوس کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے، گزشتہ کئی برسوں سے ایسے افسوسناک واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں ، بیروزگاری کا آسیب ہمیں نگل رہا ہے ، پہلے کمبوڈیا اور ویت نام کے باشندوں کی خبریں میڈیا پر گردش کرتی تھیں کہ اتنے تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی یا کنیٹینر میں دم گھنٹے سے مرگئے۔
اب یہ سب کچھ پاکستانیوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے ملک میں قابل اعتماد اعداد و شمار کی کمی ہے لہٰذا اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ کس پیمانے پر انسانی اسمگلنگ کی جا رہی ہے۔ اسمگلر ایک عام فرد کو پھنسانے کے لیے مختلف حربے آزماتے ہیں، چکنی چپڑی باتوں اور مستقبل کا لالچ دیا جاتا ہے۔
سنہرے خواب اور بیرون ملک سیٹل ہونے کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ مستقبل کے ان جھوٹے خوابوں میں لالچ اور رومانس بھی شامل ہوتے ہیں۔ نوکریوں کے جھوٹے اشتہار بھی اخبارات میں نظر سے گزرتے ہونگے۔ اچھی تعلیم یا بیرون ملک سیٹل ہونا کسی کا بھی خواب ہو سکتا ہے۔
سو اسے بھی باآسانی استعمال کیا جاتا ہے۔ لالچ اور فریب میں آکر بہت سے افراد جال میں پھنس جاتے ہیں۔
آنکھوں میں روشن مستقبل کے سہانے سپنے سجا کر یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کا رخ کرنا دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ پاکستان کے نوجوانوں کا بھی منتہائے مقصود بنا ہوا ہے اور اس خوابناک مقصد کے حصول کی کوشش میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نتائج اور انجام سے بے پرواہ ہر سال انسانی اسمگلروں اور ان دیکھے مصائب و مشکلات کا چارہ بنتی ہے۔
ایسے لوگوں کو بیرون ملک بھجوانے والے ایجنٹ انھیں راستے میں پیش آنیوالی مشکلات کے بارے میں سچ نہیں بتاتے اس لیے، ان کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کو علم ہی نہیں ہوتا کہ انھیں یورپ جانے کے لیے کس قسم کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اگرچہ انسانی اسمگلنگ سے متعلق کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق پاکستان سے ہر سال تقریباً 3لاکھ افراد اسمگل کیے جاتے ہیں۔
کوئی شک نہیں کہ پاکستان معاشی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے انتہائی مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، ہر ادارہ متنازع ہے، سیاسی قیادت بری طرح ایکسپوز ہوچکی ہے، مایوسی کا اندھیرا بڑھ رہا ہے اور امید کی کرنیں ایک ایک کر کے بجھ رہی ہیں۔
ان حالات میں شعوری طور پر سب سے پہلے جو طبقہ متاثر ہوتا ہے وہ نوجوان ہیں اور یہی طبقہ سب سے پہلے فیصلہ کرتا ہے کہ آگے کیا کرنا ہے، عام طور پر ان کے پاس دو ہی راستے بچ جاتے ہیں۔
پہلا کہ اجڑتی ہوئی بستی کو چھوڑ کر خوشحال بستی کی تلاش میں ہجرت کر لی جائے اور ایک نیا مسکن تلاش کیا جائے یا دوسرا یہ کہ اس اندھیرے کو دور کرنے کے لیے خود ہی شمعیں روشن کی جائیں چاہے اس کا ایندھن اپنا خون ہی کیوں نہ ہو۔
مشکل کی گھڑی میں نوجوانوں کا ملک چھوڑ کر جانا بہت بڑا المیہ ہے ، اگر یونہی ہمارے نوجوان ملک کو چھوڑ کر جاتے رہے تو مجبور اور لاچاروں کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا؟ اگر گرہن کی اس گہری رات میں سب ہی جگنو چلے گئے تو صبح اور خوابوں کی تعمیل کے انتظار میں بیٹھے اس ملک کے مکینوں کو راستہ کون دکھائے گا؟
جب آپ کے گھر میں غیر یقینی ہو ، بد امنی ہو، لاقانونیت ہو ، کوئی سسٹم نہ ہو ، کہیں انصاف نہ مل رہا ہو ، اقربا پروری ہو اور پھر کہیں سے بہتری کی کوئی اُمید بھی نظر نہ آرہی ہو تو پھر آپ گھر چھوڑنے والوں کو کیسے روک سکتے ہیں؟
یہ بات لاکھ درست سہی کہ اس وقت ملک میں معاشی بد حالی ، بدانتظامی، عدم انصاف اور نا جانے درجنوں مسائل کی وجہ سے اندھیرا ہے لیکن اس سب میں قصور وار تو وہ ہیں جو بالواسطہ اور بلاواسطہ اس ملک کے حکمران رہے یا ہیں۔ تو اس ملک کو اس اشرافیہ سے نجات دلانے کی جدوجہد کرنے کے بجائے ہم ملک کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟
اس صورتحال کا سادہ پس منظر یہ ہے کہ ہم نے پاکستان میں ان نوجوانوں کے لیے روزگار، تحفظ اور خوشی کی کوئی کرن باقی نہیں رہنے دی۔ جہاں تک تعلیم یافتہ افراد کا تعلق ہے تو پاکستان کی معیشت اور معاشرہ اپنے نوجوان شہریوں کی صلاحیت سے مستفیض ہونے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔
ہم نے نوجوان نسل کے خواب دریا برد کر دیے ہیں۔ ماہرین معیشت اس صورت حال کو برین ڈرین یعنی ذہانت کا زیاں قرار دیتے ہیں۔ اس سے معیشت اور تمدن مجموعی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ پاکستان کے ان نوجوانوں کے لیے واحد محرک تلاش معاش نہیں۔ آج کا نوجوان ہم عصر دنیا سے باخبر ہے۔
اس وقت ایسا لگتا ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے پہلا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزرے برس بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں حیران کن اور افسوسناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
2022 میں 7 لاکھ 65 ہزار پڑھے لکھے نوجوانوں نے پاکستان چھوڑ دیا ہے، ان میں ڈاکٹرز، انجینئرز ، آئی ٹی ایکسپرٹس اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان شامل ہیں، کچھ بڑے شعبوں کی بات کریں تو گزرے سال پاکستان 7 ہزار سے زائد انجینئرز، اڑھائی ہزار ڈاکٹروں، 1600 نرسوں، 2 ہزار آئی ٹی ماہرین، 6500 اکاؤنٹنٹس، 2600 زرعی ماہرین اور 900 اساتذہ سے محروم ہوگیا۔
پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد، جنھیں کسی بھی ملک کی ترقی اور روشن مستقبل کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔
اس ملک میں نہیں رہنا چاہتے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہر دوسرا دوست یا عزیز امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ یا کسی یورپی ملک میں زندگی گزارنے کے خواب دیکھ رہا ہے جب کہ خطے کے دیگر ممالک شہریت کے لیے نت نئے ''پیکیجز'' متعارف کروا رہے ہیں، سرمایہ دار پاکستانیوں کو اپنی طرف راغب کر رہے ہیں۔
آج کل آپ نے پاکستان میں ترکی میں سرمایہ کاری کے اشتہارات تو دیکھے ہی ہونگے، وہ پاکستانیوں کے لیے خصوصی پیکیجز متعارف کروا رہے ہیں، گزشتہ چند سالوں میں ترکی نے جس انداز میں پاکستان میں اپنا Influenceپیدا کیا ہے۔
اُس کی مثال نہیں ملتی۔ جیسے ہی انڈین ڈراموں پر پابندی لگی، ترک فلم اور ڈراما انڈسٹری نے پاکستان میں جگہ بنانا شروع کر دی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ عمل سرکاری سطح پر بھی ہونے لگا جس کا اثر یہ ہوا کہ 90فیصد پاکستانی سلطنت عثمانیہ سے روشناس ہوگئے جس سے نا صرف ترکی کی سیاحت کو فروغ ملا بلکہ گزشتہ چند سالوں میں ڈھائی لاکھ پاکستانیوں نے وہاں مستقل سکونت بھی اختیار کی۔
ترکی نے پاکستانیوں کو یہ سہولت فراہم کردی ہے کہ جو عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا ویزہ لگوائے، اُس کے لیے ترکی کا ایک ماہ کا ویزہ فری ہوگا۔
ان کے ایسا کرنے سے گزشتہ3 سالوں میں53 لاکھ پاکستانیوں نے ترکی کا دورہ کیا۔ یو اے ای نے غیر ملکیوں کو شہریت دینے کا فیصلہ کردیا ہے۔ یو اے ای نے دنیا بھر کی اشرافیہ کو راغب کرنے کے لیے نئی اسکیمیں متعارف کروائی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی شہریت حاصل کرنیوالے اپنی اصل شہریت بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔
ان اسکیموں سے دنیا بھر کے امرا نے فائدہ اٹھایا ہے جس میں بھارتی پہلے نمبر پر ہیں جب کہ پاکستانی دوسرے نمبر پر نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح ہماری آدھی سے زائد ٹیکسٹائل انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہو چکی ہے یعنی پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات محض 7ارب ڈالر جب کہ بنگلہ دیش کی 34ارب ڈالر ہو چکی ہیں، اگر ہم رقبہ، آبادی، وسائل اور معیشت کے لحاظ سے پاکستان کا موازنہ بنگلہ دیش سے کریں تو اس کی ٹیکسٹائل برآمدات بھی 34 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔
فی الوقت بنگلہ دیش نے ایسا کوئی پیکیج اناؤنس تو نہیں کیا مگر اُس نے پاکستان میں انرجی کرائسز کو دیکھتے ہوئے سرمایہ کاروں کے لیے بجلی کے نرخ پاکستان سے آدھے، بلاتعطل اور مفت پانی کی فراہمی اور پٹرولیم مصنوعات پر بھی سبسڈی کا اعلان کیا ہے۔
یہ وقت ملک چھوڑ کر جانے کا نہیں بلکہ اس بدبو دار نظام کو تبدیل کرنے کا ہے۔ پڑھے لکھے اور باشعور نوجوانوں کو خود نظام کی تبدیلی کے لیے میدان میں آنا ہوگا تاکہ ملک کے عوام کو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کمیشن خوروں، منی لانڈررز اور اخلاقی چوروں کے بجائے ایک ایماندار، اہل اور باشعور قیادت کا آپشن میسر آئے۔
برے وقت میں راہ فرار اختیار کرنا آسان ہوتا ہے لیکن حالات بدلنے کے لیے ذمے داری اٹھانا مشکل لیکن پروقار انتخاب ہے، کیوں نہ دوسرا راستہ اختیار کیا جائے، کیوں نہ اس اندھیرے کو دور کرنے کے لیے شمعیں جلائی جائیں۔ اندھیرے کے بیوپاریوں سے ملک کو نجات دلائی جائے۔
اس ملک کو چھوڑ کر جانا مسائل کا حل نہیں ہے، مسائل کو حل کرنا مسائل کا حل ہے۔ نوجوان تو ملک چھوڑ جائیں گے لیکن ان کے خاندان اور اپنوں نے یہی رہنا ہے۔
دوسرا پردیس لاکھ محنتوں کے بعد بھی کبھی دیس نہیں بن سکتا۔ راہ فرار اختیار کرنا آسان اور ذمے داریاں نبھانا مشکل ہوتا ہے۔ فیصلہ نوجوانوں کا ہے، ذمے داری نبھانی ہے یا ملک چھوڑ جانا ہے۔