کوئی امید بَر نہیں آتی
اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لسانی تعصب نے وطنِ عزیز کو دو لخت کردیا
انڈیا اور پاکستان نے فرنگی حکمرانوں کی غلامی سے آزادی کے بعد 1947 میں اپنے سفر کا آغاز ایک ساتھ کیا تھا ، دونوں ممالک میں یہ سانحہ مشترک ہے کہ اِن کے بانی قائدین زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے۔
گاندھی جی بھارت کی موجودہ انتہا پسند سیاسی جماعت بی جے پی کی مادر سیاسی جماعت ہندو مہا سبھا کے ایک شدت پسند کارکن ناتھو رام گوڈسے کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے اور اِدھر پاکستان میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح طویل علالت کے بعد رحلت فرما گئے۔
انڈیا کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہاں پنڈت جواہر لال نہرو جیسا متبادل موجود تھا جس نے وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھال کر بھارت کی کَشتی کے ناخدا کی حیثیت سے اُس مُلک کی باگ ڈور سنبھال لی۔
یہاں پاکستان میں یہ ہوا کہ قائدِ اعظم کی وفات کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے قائد کے دستِ راست نواب زادہ لیاقت علی خان نے وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھال لیا مگر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ سازشی ٹولے نے انھیں شہید کردیا جس کے بعد وطنِ عزیز سیاسی افراتفری کا شکار ہوگیا اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج تک جاری ہے۔
بھارت کی ایک اور خوش قسمتی یہ تھی کہ جواہر لال نہرو ایک طویل عرصہ تک بھارت کی قیادت کرتے رہے جن کی عالمگیر شہرت سے بین الاقوامی برادری سے بھارت کو بہت فائدہ پہنچا۔اِس کے برعکس لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد یہ ہوا کہ ملک ایک لائق اور مخلص قائد سے محروم ہوگیا۔
اِس کے بعد مسلم لیگ کی جائے پیدائش مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مخلص بنگالی قائدین بشمول خواجہ ناظم الدین، حُسین شہید سہُروردی، نورالامین جیسے مخلص محبانِ وطن نے پاکستان کی ڈولتی ہوئی کَشتی کو سنبھالنے کے لیے بہت کوششیں کیں لیکن سازشی ٹولے نے اُن کی ایک نہ چلنے دی۔
اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لسانی تعصب نے وطنِ عزیز کو دو لخت کردیا لیکن ہم ہیں کہ مسلسل لسانی تفرقہ کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور کوئی اِن بیڑیوں کو توڑنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا ۔ ہماری اِس کوتاہی اور تنگ نظری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبالؔ نے بجا فرمایا ہے:
حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
خوفِ خدا سے عاری اور دنیا پرستی کے عادی ہمارے رہنماؤں کی ایک ہی منزل ہے اور وہ ہے ہوسِ زر اور ہوسِ اقتدار۔ ہمارا نہ تو کوئی دین اور نہ ایمان ہے۔
سرائے فانی کو ہم نے اپنا مستقل ٹھکانہ سمجھا ہوا ہے اور ہم نے خوابِ غفلت کو حقیقت سمجھا ہوا ہے۔ہم لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور جنازوں پر جنازے اٹھا رہے ہیں لیکن اِس کے باوجود ہماری آنکھیں بند ہیں اور ہمیں یہ احساس چھو کر بھی نہیں گزرا ہے کہ کسی بھی پل ہمارا اپنا انجام بھی یہی ہوسکتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
آگاہ اپنی مَوت سے کوئی بشر نہیں
سامان سَو برس کا ہے پَل کی خبر نہیں
ہماری تجویز یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور افسران کے دفاتر میں نمایاں جگہوں پر جنازے کی تصویر آویزاں کردی جائے اور اُس کے ساتھ یہ تحریر کردیا جائے:
یہ جہاں عارضی ٹھکانہ ہے
سب کو ایک روز اٹھ کے جانا ہے
اللہ تعالیٰ نے وطنِ عزیز کو بیشمار وسائل سے مالا مال کیا ہوا ہے لیکن خود غرضی اور بے ایمانی کی وجہ سے ہمارے حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں اور ہم بھیک کا پیالہ ہاتھ میں اٹھائے ہوئے دنیا بھر میں مارے مارے پھِر رہے ہیں اور ہم نے اپنی غیرت اور خود داری کو گِروی رکھ دیا ہے۔
حکمرانوں پر حکمراں تبدیل ہورہے ہیں لیکن ہمارے عوام کی حالت سُدھرنے کے بجائے دن بہ دن بگڑ رہی ہے۔ بھگت کبیر کے بقول:
چلتی چاکی دیکھ کر دیا کبیرا روئے
دو پاٹن کے بیچ میں ثابت رہا نہ کوئے
عوام بیچارے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان بُری طرح پِس رہے ہیں اور اُن کی داد رسی کرنے والا سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں ہے ، جہاں تک غریب کا تعلق ہے تو وہ تو کسی نہ کسی طرح مانگ تانگ کر گزارہ کررہا ہے اور مالداروں کو اِس کا پتہ ہی نہیں کہ مُلک دیوالیہ ہونے کے کنارے پر جا پہنچا ہے۔
سب سے بُرا حال متوسط طبقہ کا ہے جو مڈل کلاس کہلاتا ہے اور جسے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ بقولِ غالب۔
کوئی امید بَر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی