سابق خوش قسمت اور موجودہ بے بس حکومت

عمران خان کی کوشش رہی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہو اور حکومت ناکام رہے اور جلد الیکشن پر مجبور ہو جائے

m_saeedarain@hotmail.com

متفقہ طور پر منظور 1973 کے آئین کے وقت سندھ و پنجاب جیسے بڑے صوبوں میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومتیں تھیں اور بعد میں ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں گورنر راج لگا کے وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی حکومت برطرف کی تھی جس پر صوبہ سرحد کے جے یو آئی کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود نے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ دونوں چھوٹے صوبوں میں نیپ اور جے یو آئی کی مخلوط حکومتیں تھیں جس کے بعد بھٹو صاحب نے دونوں صوبوں میں بھی پی پی کی حکومتیں بنوا دی تھیں۔

میاں نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد پنجاب اور سرحد میں (ن) لیگ کی اور سندھ بلوچستان میں دوسری پارٹیوں کو ملا کر اتحادی حکومتیں بنائی گئی تھیں۔ بھٹو دور کے بعد کبھی چاروں صوبوں اور وفاق میں پیپلز پارٹی یا (ن) لیگ کی حکومتیں کبھی نہیں بنیں۔

عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے والوں نے انھیں مضبوط کرنے کے لیے ارکان توڑ کر پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت بنائی جب کہ پنجاب میں (ن) لیگ کے ارکان زیادہ تھے۔

2013 میں وزیر اعظم نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کی مخالفت کے باوجود کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت اس لیے بننے دی تھی کہ کے پی میں پی ٹی آئی کے ارکان زیادہ تھے۔

نواز شریف نے پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کا احترام کیا ورنہ وہاں پی ٹی آئی کی حکومت نہ بنتی مگر عمران خان نے 2018 میں پنجاب میں (ن) لیگ کی اکثریت کا احترام نہیں کیا تھا اور ان کی فرمائش پر پی ٹی آئی کو ارکان دلا کر ان کی حکومت بنوائی گئی جہاں دس سال (ن) لیگ کی حکومت رہی تھی۔

جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملک کے چاروں صوبوں میں ان کی مرضی کی حکومتیں رہیں اور عمران خان کی مرضی سے بالاتروں نے اکثریت نہ ہونے کے باوجود پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی جب کہ بلوچستان میں بھی ان کی اتحادی حکومت تھی اور عمران خان کی شدید خواہش تھی کہ سندھ میں بھی کسی طرح ان کی حکومت بن جائے جس کے لیے آئے دن دعوے ہوتے رہے مگر وفاقی حکومت ناکام رہی اور کوشش کے باوجود عمران خان کا سندھ میں پی ٹی آئی کی حکومت بنوانے کا خواب پورا نہ ہوا کیونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی یہ تیسری مسلسل حکومت تھی جسے تنہا ہی دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔

عمران خان نے اپنی وفاقی حکومت کے باعث گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی اپنی حکومتیں قائم کرا لیں جب کہ صدر مملکت ان کے اپنے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات بہت اچھے تھے جس پر وہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ایک پیج پر ہونے کے متواتر دعوے کرتے تھے۔ انھوں نے پنجاب اور کے پی میں اپنی مرضی کے وزیر اعلیٰ برقرار رکھے ۔


عمران حکومت بنوانے میں اہم کردار ادا کرنے والے عدالتی محافظ تو ان پر پہلے ہی نہایت مہربان تھے جن کے بعد آنے والوں کی خصوصی عنایات بھی عمران خان کی حکومت پر جاری رہیں۔ عمران خان اپنی خواہش کے مطابق اپنے تمام سیاسی مخالفین کو نیب کے ذریعے گرفتار کرانے اور عدلیہ کی مہربانی سے انھیں طویل عرصہ جیلوں میں قید رکھنے پر بڑا فخر کیا کرتے تھے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے مہربانوں کے بھرپور تعاون سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت اور مرکزی رہنماؤں پر نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے اتنے مقدمے بنوائے کہ طویل عرصہ ان کی ضمانتیں ہو سکیں نہ ان پر کیس چل سکے جو سب جھوٹے اور بے بنیاد تھے۔

دونوں کے اسیر رہنماؤں کو جیل میں رکھ کر ان سے غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا اور ان پر اذیتوں کی نگرانی عمران خان خود کرتے تھے۔ اپوزیشن رہنما رانا ثنا اللہ پر 15 کلو ہیروئن برآمدگی کا مقدمہ بنوا کر انھیں جیل میں رکھا جن کی گرفتاری کا اعلان عمران خان نے خود کیا تھا کہ میں رانا ثنا اللہ کو مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالوں گا۔

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو اسپیکر نے مجبوری میں بنا تو لیا تھا جنھیں عمران خان نے قبول نہیں کیا۔ ان کی میثاق معیشت کی پیشکش اور بلاول بھٹو کی ملکی مفاد کے لیے باہمی تعاون اور مل کر بیٹھنے کی پیشکش عمران خان نے حقارت سے ٹھکرا دی کہ اپوزیشن رہنما مجھ سے این آر او مانگتے ہیں جو میں انھیں کبھی نہیں دوں گا۔

اپوزیشن رہنما کہتے رہے کہ ہمیں این آر او نہیں چاہیے بلکہ ہم عدالتوں میں عمران حکومت کے جھوٹے مقدمات کا سامنا کریں گے بلکہ جمہوریت کے دعویدار وزیر اعظم شہنشاہ معظم بنے رہے۔

عمران خان کی حکومت کو اکثریت بالاتروں نے دلائی تھی اور چھوٹی پارٹیوں کو حکومت میں شامل کرایا تھا جن سے کیے گئے وعدے عمران خان نے پورے نہیں کیے جس پر سردار اختر مینگل نے پہلے ہی ان کی حمایت چھوڑ دی تھی مگر وزیر اعظم کا آمرانہ رویہ برقرار رہا۔

عمران خان کی حکومت نہایت خوش قسمت تھی جب کہ موجودہ حکومت انتہائی بے بس ہے۔ 28 نومبر تک اتحادی حکومت مجبور رہی مگر اب بھی بے بس ہے۔

عمران خان کی کوشش رہی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہو اور حکومت ناکام رہے اور جلد الیکشن پر مجبور ہو جائے اور نئے چیف جسٹس کے آنے سے قبل وہ دوبارہ اقتدار میں آجائیں، بے بس حکومت اتنی مجبور ہے کہ متعدد مقدمات کے باوجود عدالتی رعایت سے وہ اب تک محفوظ ہیں۔
Load Next Story