سیاست جمہوریت اور دولت کی سیاست
اب سیاست ان ہی لوگوں کے قبضہ میں ہے جو دولت رکھتے ہیں یا مالی طور پر ان کے وسائل ہی ان کی اصل بڑی سیاسی طاقت ہیں
سیاست ، جمہوریت اور عام آدمی کی حکمرانی میں موثر اور بااختیار شمولیت کے تناظر میں آج بہت سی سیاسی ، برادری یا خاندانی سمیت مالی سطح کے مسائل موجود ہیں۔سیاست اور دولت کے باہمی گٹھ جوڑ نے ہماری سیاسی ، جمہوری اور اخلاقی معیارات کو بھی بدل دیا ہے ۔
اب سیاست ان ہی لوگوں کے قبضہ میں ہے جو دولت رکھتے ہیں یا مالی طور پر ان کے وسائل ہی ان کی اصل بڑی سیاسی طاقت ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج کی قومی سیاست ان ہی لوگوں کے گرد گھوم رہی ہے جو بڑے سیاسی خاندانوں یا مالی طور پر مستحکم افراد تک محدود ہے ۔
اس پورے کھیل میں عام آدمی یا مڈل کلاس افراد کی جانب سے انتخابی سیاسی عمل میں حصہ لینا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے ۔سیاست اور جمہوری عمل جب '' کارپوریٹ ماڈل'' کی شکل اختیار کرلے یعنی ہم سیاسی نظام کو پیسے اور کاروبار کی بنیاد پر چلائیں گے تو پھر اس سیاسی حکمت عملی کے تحت ہم شفاف حکمرانی کے نظام کو کیسے قائم کرسکیں گے ۔
سیاسی ورکرز یا سیاسی کارکن کے پاس سیاسی جماعتوں میں سرگرم ہونے یا شمولیت کے حوالے سے تو سیاسی مواقع موجود ہیں ۔لیکن ان کی یہ شمولیت محض ایک سیاسی کارکن یا زندہ باد،مردہ باد یا سیاسی جماعتوں میں شامل دولت مند طاقت ور افراد کی خوشنودی کے حصول تک محدود نظر آتی ہے ۔سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کو بھی دیکھیں تو اس میں دولت مند افراد کو سیاسی برتری حاصل ہے ۔
پارٹی عہدوں سے لے کر ٹکٹوں کی سیاسی تقسیم اور وزارتوں کی بندربانٹ تک سب ہی جگہ طاقت ورافراد جن کی مالی حیثیت بہت زیادہ ہوتی ہے غالب نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ اب سیاسی جماعتوں کی قیادت اور ملک میں موجود بڑے کاروباری طبقات یا زمینوں کے کاروبارسے متعلق بڑے نام میں موجود باہمی گٹھ جوڑ نظر آتا ہے ۔
یہ بڑے کاروباری طبقات کے لوگ بڑی سیاسی جماعتوں سے یا تو خود اپنے اور اپنے خاندان کے افراد کے لیے پارٹی ٹکٹ مانگتے ہیں یا اپنے خاص لوگوں کو ٹکٹس دلواتے ہیں ۔ اسی طرح ان کی کوشش ہے کہ وہ بھاری بھرکم مالی معاونت کے نام پر اقتدار میں آنے والی حکومتوں کو اپنے مخصوص مالی و سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرسکیں ۔
اب یہاں انتخاب لڑنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔ کروڑوں روپوں تک انتخابی اخراجات کو برداشت کرنا عام آدمی یا مڈل کلاس افراد کی صلاحیت ہی نہیں ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت سب سے پہلے ایسے ہی افراد کو اپنی ترجیحات کا اہم حصہ بناتی ہیں ان میں ان کی مالی طاقت کا بخوبی اندازہ لگا کر ہی حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے ۔
سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کی منطق ہے کہ ہم اگر پارٹی ٹکٹ ایسے لوگوں کو دیتے ہیں جو سیاسی طور پر تو مضبوط ہوں لیکن مالی طور پر کمزور تو ایسے میں ان افراد کو بطور جماعت فنڈز فراہم کرنا پڑتا ہے۔
یہاں سیاسی جماعتیں ٹکٹوں کی تقسیم کرتے ہوئے دو باتوں پر غور کرتی ہیں اول، وہ افراد کتنے مالی وسائل اپنی انتخابی مہم پر خرچ کرسکتے ہیں اور دوئم، وہ کتنی بڑی رقم پارٹی کو انتخابی مہم چلانے کے لیے دے سکتے ہیں ۔
اسی لیے لوگ یہ برملا کہتے ہیں کہ یہاں ہمارے سیاسی انتخابی نظام میں پارٹی ٹکٹس باقاعدہ بیچے جاتے ہیں ۔ ایسے میں ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں جو لوگ بھاری رقوم کے عوض سیاسی نظام کا حصہ بنتے ہیں وہ عوامی حکمرانی کا حق ادا کرسکتے ہیں ۔ہمارا انتخابی نظام دولت کے کھیل کے تناظر میں عام آدمی کا مذاق اڑا رہا ہے۔
اگرچہ سیاسی جماعتوں اور خود الیکشن کمیشن کے نظام میں بہت سے قانونی پہلو ہیں جو سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کو پابند کرتے ہیں کہ وہ ایسے امیدوار جو انتخابی اخراجات میں انتخابی قوانین کا مذاق اڑاتے ہیں اس کا قانونی پہلو کیونکر کمزور ہے ۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ خود سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن یا تو ان دولت مند افراد یا خاندان کے سامنے بے بس ہیں ، مفلوج ہیں یا وہ بھی سیاسی و قانونی سمجھوتوں کا شکار ہیں جو مزید حالات کی سنگینی کی نشاندہی کرتا ہے ۔انتخابی قوانین اور الیکشن کمیشن ایک طرف اور دوسرے انتخابی قوانین کی بڑے پیمانے پر دھجیاں اڑتے دیکھنے کو ملتی ہیں ۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں ''کارپوریٹ سیاست ، جمہوریت اور انتخابات '' کی سوچ غالب ہے۔ اس مسئلہ کا ادراک کیے بغیر ہم کیسے اس کا علاج تلاش کرسکتے ہیں ۔
ہماری پارلیمنٹ اور فیصلہ ساز سب کچھ کرتے ہیں مگر ان مسائل پر توجہ نہیں دیتے یا ان پر کوئی قانون سازی یا پالیسی سازی کے میکنزم نہیں بناتے جو قومی سیاست کو دولت کے کھیل میں تبدیل کر رہی ہے ۔
سیاسی جماعتیں جن کا بڑا مینڈیٹ صاف ، شفاف سیاست اور جمہوریت کا نظام ہے وہ کیونکر اپنی ذمے داری ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ۔سیاسی جماعتیں جب خود دولت مند افراد کو اپنی سیاسی ترجیح کا حصہ بنائیں گی تو اس نتیجے میں الیکشن کمیشن بھی کوئی بڑی کارکردگی نہیں دکھا سکے گا۔
سیاست میں دولت کے اس موذی مرض کا علاج ایک طرف سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام کی شفافیت اور مضبوطی سے جڑا ہوا ہے تو دوسری طرف ہمیں ایک آزادانہ خود مختار اور شفافیت پر مبنی الیکشن کمیشن بھی درکار ہے جو سیاسی سمجھوتوں سے پاک ہو۔ یہ دونوں ادارے یعنی سیاسی اور الیکشن کمیشن یا عدالتیں مل کر ہی اس مرض کا علاج تلاش کرسکتی ہیں ۔
اسی طرح سول سوسائٹی ، میڈیا اور سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والے انفرادی یا اجتماعی سطح پر کام کرنے والے افراد یا اداروں کو اپنی آوازوں کو بلند کرنا ہوگا ۔ سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن سمیت عام آدمی میں یہ دباؤ بڑھانا ہوگا کہ وہ سیاست میں بڑھتے ہوئے دولت کے کھیل کو روکنے میں موثر اقدامات کرے ۔سیاسی جماعتوں کے داخلی محاذ پر ان اہم معاملات پر سنجیدہ گفتگو اور عملی اقدامات کو سامنے آنا چاہیے ۔
اسی طرح الیکشن کمیشن اگر اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین پر عملدرآمد کے لیے تیار نہیں یا کمزور ہے تو پھر دولت کے کھیل کو کیسے روکا جاسکے گا۔
سیاسی جماعتوں میں شامل سیاسی کارکنوں کو بھی جس حد تک ممکن ہو اپنی آوازوں کو بلند کرنا ہوگا اور ان کی جانب سے دولت مند سیاسی افراد یا خاندانوں کی سرپرستی ، خوشنودی یا ان کی جی حضوری کرنے کے بجائے ان کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔میڈیا بھی ان دولت مند سیاسی افراد یا خاندانوں کی جس طرح سے پذیرائی کرتا ہے اس کے خلاف بھی بند باندھنا ہوگا ۔کیونکہ اگر واقعی ہم اپنی سیاست اور جمہوریت کو عام آدمی کے تناظر میں مضبوط ، شفاف اور توانا بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ہی سیاسی نظام میں ایک بڑی سیاسی سرجری کی ضرورت ہے ۔
یہ سرجری محض انتظامی یا قانونی نوعیت کی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور، ذہن سازی یا رائے عامہ کی تشکیل میں بھی ہمیں اپنا بڑا کردار ادا کرنا چاہیے ۔کیونکہ لوگوں میں بھی اس سیاسی و سماجی شعور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ خود کو دولت کی بنیاد پر جاری اس سیاسی کھیل سے خود کو دور رکھیں اور اس نظام کو بلاوجہ کندھا نہ فراہم کریں ۔
ہمیں اپنے سیاسی ، انتظامی اور قانونی نظام کو اس حد تک مضبوط بنانا ہے کہ ہم اس میں جہاں ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا اظہار کریں بلکہ اس میں اس نظام کی شفافیت کے لیے ہمیں ایک مضبوط، مربوط اور خود مختار نگرانی اور جوابدہی کے نظام کو قائم کرنا ہے ۔
کیونکہ جب ایسے لوگوں کی نشاندہی ہوگی جو دولت کی بنیاد پر سیاسی کھیل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ان کو سیاسی ، انتظامی ، قانونی اور اخلاقی گرفت کے ساتھ ہی بہتر طور پر نمٹا جا سکے گا۔