’’کمزور خواتین آسان ہدف جنگلوں میں ہوتی ہیں انسانوں میں نہیں۔۔‘‘
کراچی میں راہ گیر خواتین سے بدتمیزی کے بڑھتے ہوئے واقعات۔۔۔
سماج میں خواتین کے حوالے سے مختلف مسئلے مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔
ساتھ ہی ان مسائل پر لوگوں کا ردعمل، سوچنے کا انداز یا مسئلے کو سمجھنے کا طریقہ بھی کبھی سوچ کے نئے زاویے کھولتا ہے، تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شاید مسئلے کو درست طریقے سے سمجھا نہیں جا رہا ہوتا، اس کی غلط تشریح کی جا رہی ہوتی ہے یا اس کے حل کے واسطے کوئی مناسب رائے سامنے نہیں آرہی ہوتی۔
ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ بات کہاں سے شروع کی جائے۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے کراچی جیسے شہر کے مصروف ترین علاقے صدر میں بھی راہ چلتی خواتین کے ساتھ بدتمیزی کے کچھ واقعات سامنے آرہے ہیں، جس میں بھرے بازار میں اوباش نوجوان وہاں سے گزرنے والی خواتین کو ہراساں اور پریشان یہاں تک کے دست درازی تک کر رہے ہیں۔
عام طور پر ہمارے سماج میں ایسی بدتمیزیاں اگرچہ بیمار ذہن افراد کی جانب سے کہیں نہ کہیں کی جاتی ہی رہتی ہیں، لیکن اس میں ملزمان کو کم سے کم دو خوف ضرور لاحق رہتے تھے کہ وہ ایسی قبیح حرکات کم آر جار والی جگہوں پر کرتے تھے، کیوں کہ کسی پررونق جگہ پر ایسا کرنے کی صورت میں انھیں عوام کی جانب سے شدید ردعمل کا خدشہ ہوتا تھا۔
دوسرا یہ کہ یہ واقعات کم سے کم کراچی جیسے شہر کے مضافات وغیرہ میں ہی رپورٹ ہوتے تھے، اس طرح شہر کے قلب اور مرکز میں کھلے عام ایسے واقعات کا ارتکاب ناقابل تصور تھا، لیکن بدقسمتی سے اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس شہر کی سیاست اور ماحول کے ساتھ اس کی طرزِ معاشرت بھی بری طرح متاثر ہونے لگی ہے۔
ورنہ یہ شہر گذشتہ 60، 70 برسوں میں دسیوں طرح کے مصائب اور بحرانوں کا شکار رہا ہے، لیکن یہاں کے طرزِ معاشرت اور ماحول میں ایسے نیچ پن کے مظاہرہ کرنے کی ہمت کسی کو نہیں ہوتی تھی۔
کراچی میں راہ گیر خواتین کے ساتھ پیش آنے والے دست درازی کے ان واقعات کے حوالے سے ایک خاتون کا یہ کہنا تھا کہ 'کسی بھی جگہ کمزور عورت ایسے لوگوں کا آسان ہدف ہوتی ہے!' کہنے کو یہ ایک سادہ سا جملہ ہے، لیکن ہم جیسے گذشتہ دو پشتوں سے اس شہر کے باسی کے لیے یہ جملہ تیر کی طرح کلیجے میں پیوست ہوا ہے کہ کیا واقعی اس شہر کی سماجیات بھی اب اس قدر گر چکی ہیں کہ یہاں سڑک سے گزرنے والی لڑکی یا خاتون کی عزت وعصمت کی طرف نگاہ ڈالنا اور اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھنا اس قدر آسان ہوچکا ہے۔
کہ ہم یہ کہیں گے کہ لوگ کسی خاتون کی عصمت کے درپے ہیں کہ وہ 'طاقت وَر' نہیں ہے! ہم مانتے ہیں کہ اس کے کواکب اس شہر کی یتیم ہوئی سیاسی سماجی حیثیت سے جا ملتے ہیں، کہ جہاں ابھی تک مجموعی طور پر تہذیب وشرافت کا سکہ عروج پر رہا تھا، مسئلے مسائل اور خرابیاں ضرورہوتی رہتی تھیں، لیکن صورت حال اس قدر پست کبھی نہ ہوئی تھی!
اس کے ساتھ ساتھ 'کمزور عورت، آسان ہدف' والی بات اگر واقعی سچ ہے تو کیا یہ اس بات کا اعلان نہیں ہے کہ اب شہرِ قائد کی قلبی گلیاں اور مرکزی شاہ راہیں بھی اب انسان نما 'جنگلیوں' اور 'جانوروں' کے نرغے میں آچکی ہیں۔
کمزور کا ہدف بنایا جانا تو معاف کیجیے گا کہ کسی 'جنگل' کا مختصر ترین تعارف معلوم ہوتا ہے، لیکن بقول زہرا نگاہ صاحبہ کہ ''سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے!'' تو کیا یہ شہر اور اس کی سماجیات بھی امتدادِ زمانہ کا شکار ہوچکی ہے۔۔۔؟ کیا اس شہر کی عمومی فضا میں عام خواتین کے لیے جو ایک غیر محسوس سا احساس تحفظ پایا جاتا تھا، جسے اس شہر میں آکر لوگ بہت اچھی طرح محسوس بھی کرتے تھے، کیا اب وہ سب ختم ہونے لگا ہے۔۔۔؟
یعنی یہاں بھی عام خواتین کے لیے ذہنی بیمار اور پست سوچ کا غلبہ اس قدر بے خوف اور آزاد ہوگیا کہ وہ انتہا تک پہنچنے سے بھی نہیں چُوکتا۔۔۔ قانون کی گرفت ہی نہیں سماجی حلقوں کے دباؤ کا معاملہ بھی اب پس منظر میں چلا گیا ہے۔ ''راہ چلتی خواتین کے ساتھ کم سے کم کراچی میں تو ایسا نہیں ہوسکتا'' یہ جملہ کیا اب ماضی کی ایک یاد اور تاریخ بن چکا ہے۔۔۔؟
یہاں کے بڑے سے بڑے مجمع میں بھی عادی ملزمان اور درندوں کے سوا عام طور پر بہتر صورت حال رہتی تھی، یہاں کے بڑے بڑے سیاسی جلسے جلوسوں تک میں خواتین کے ادب واحترام کا ایک ماحول ہوتا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ تربیت مزید بڑھاوا پاتی، دیگر لوگ بھی اس ماحول سے سیکھتے اور پست ذہنیت اور نیچ سوچ والے افراد کو لگام ڈالتے اور یہ تہذیب کا ماحول ہمارے ملک کی پہچان بنتا۔
ورنہ ہم تو اکیسویں صدی میں بھی بیٹیوں کو زندہ گاڑنے کو ایوان بالا میں قبائلی روایت قرار دینے سے لے کر چہرے پر تیزاب پھینکنے اور 'کاری' قرار دے کر قتل کیے جانے سے پہچانے جاتے ہیں۔۔۔
آج یہ شہر بھی سیاسی پس ماندگی اور جبروگھٹن میں شاید اس 'ناسور' کا شکار ہو گیا ہے کہ یہاں بھی بازار سے گزرنے والی عام خواتین کو پریشان کیا جانے لگا ہے، اور اس پر اس تہذیب کے دل دادہ شہر میں یہ عذر پیش ہوتا ہے کہ کمزور عورت آسان ہدف ہوتی ہے۔ ارے صاحب، ہوتی ہوگی کمزور عورت نشانہ۔۔۔ مگر وہ سماج نہیں، جنگل میں ہوتی ہے، جنگلیوں اور جانوروں ہی میں وہ ہدف ہوتی ہے، کیوں کہ وہاں طاقت قانون اور اصول ہوتی ہے، اور وہ آسان ہدف ذہنی بیماروں اور گھٹن کے مارے مریضوں میں ہوتی ہے۔
حقیقت میں انسانوں کے درمیان طاقت اور کمزور کا اصول نہیں ہوتا، تہذیب اور وضع داریوں کے سماج میں یہ گھٹیا پن قطعی نہیں ہوتا، یہاں تو یہ سوچ آجانا ہی کسی بہت بڑے المیے سے کم نہیں ہے کہ ''کمزور عورت ہر جگہ نشانہ بنے گی'' نہیں جناب۔۔۔! کمزور عورت نشانہ صرف ''جانوروں'' کے درمیان ہوتی ہے، وہ 'جانور' جو فقط انسانی شکل میں دکھائی دیتے ہیں، صرف انھی کے درمیان ہوتی ہے۔
انسانوں کے سماج میں تو سنسان محلّوں میں بھی یہ شیطانیت قریب نہیں پھٹکتی، الّا یہ کہ سرِ عام ان گزرنے والی خواتین کو اس طرح پریشان کیا جائے، اور ان سے دست درازی کی جائے جیسا کہ اب شکایات سامنے آرہی ہیں۔
یہ ایک المیہ ہی نہیں بلکہ ایک لمحہ فکریہ بھی ہے، اس شہر کے ناخداؤں، اس شہر والوں کی قسمت کے مالک بننے والوں سے لے کر ماہرین سماجیات کے لیے کہ وہ دیکھیں کہ ان سے کہاں بھول ہوئی ہے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے شہر کی تہذیب کو اس لائق نہیں چھوڑ سکے کہ جہاں تہذیب کی بنیادی قدریں پائمال کر ڈالی گئی ہیں۔ آخر صنف نازک کو ڈسنے والا 'جبر وگھٹن' کا یہ اژدھا تین کروڑ نفوس پر مشتمل اس ملک کے معاشی دارالحکومت کو کہاں لے کر جائے گا۔
خواتین کے حقوق سے لے کر انسانی حقوق تک کی بڑی بڑی غیر سرکاری تنظیموں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کچھ اپنی سمت کو درست کریں، کہاں تو انھیں سماج کی اور لوگوں کی تربیت کرنی تھی اور کہاں کراچی جیسے بڑے شہر میں اب معاملات کس ڈگر پر چل نکلے ہیں۔ بنیادی حقوق اور بنیادی سہولتوں سے محرومی سے لے کر چھینا جھپٹی اور جان چلی جانے کے بے کراں خوف کے سائے میں اب ایک نئی اُفتاد اس شہر کی بیچوں بیچرقصاں ہے۔
شاید اس شہر سے خواتین کے کسی قدر تحفظ اور تہذیب وتمدن کی ہر شناخت کو بھی چھین لیے جانے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اور اس پر مستزاد کہ خواتین کے حقوق کے نام لیواؤں سے لے کر عام دانش وَر تک اس سمت کوئی غوروخوص نہیں کر رہے، بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ سب دانستہ اور غیر دانستہ طور پر بے خبر بیٹھے ہیں۔
ساتھ ہی ان مسائل پر لوگوں کا ردعمل، سوچنے کا انداز یا مسئلے کو سمجھنے کا طریقہ بھی کبھی سوچ کے نئے زاویے کھولتا ہے، تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شاید مسئلے کو درست طریقے سے سمجھا نہیں جا رہا ہوتا، اس کی غلط تشریح کی جا رہی ہوتی ہے یا اس کے حل کے واسطے کوئی مناسب رائے سامنے نہیں آرہی ہوتی۔
ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ بات کہاں سے شروع کی جائے۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے کراچی جیسے شہر کے مصروف ترین علاقے صدر میں بھی راہ چلتی خواتین کے ساتھ بدتمیزی کے کچھ واقعات سامنے آرہے ہیں، جس میں بھرے بازار میں اوباش نوجوان وہاں سے گزرنے والی خواتین کو ہراساں اور پریشان یہاں تک کے دست درازی تک کر رہے ہیں۔
عام طور پر ہمارے سماج میں ایسی بدتمیزیاں اگرچہ بیمار ذہن افراد کی جانب سے کہیں نہ کہیں کی جاتی ہی رہتی ہیں، لیکن اس میں ملزمان کو کم سے کم دو خوف ضرور لاحق رہتے تھے کہ وہ ایسی قبیح حرکات کم آر جار والی جگہوں پر کرتے تھے، کیوں کہ کسی پررونق جگہ پر ایسا کرنے کی صورت میں انھیں عوام کی جانب سے شدید ردعمل کا خدشہ ہوتا تھا۔
دوسرا یہ کہ یہ واقعات کم سے کم کراچی جیسے شہر کے مضافات وغیرہ میں ہی رپورٹ ہوتے تھے، اس طرح شہر کے قلب اور مرکز میں کھلے عام ایسے واقعات کا ارتکاب ناقابل تصور تھا، لیکن بدقسمتی سے اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس شہر کی سیاست اور ماحول کے ساتھ اس کی طرزِ معاشرت بھی بری طرح متاثر ہونے لگی ہے۔
ورنہ یہ شہر گذشتہ 60، 70 برسوں میں دسیوں طرح کے مصائب اور بحرانوں کا شکار رہا ہے، لیکن یہاں کے طرزِ معاشرت اور ماحول میں ایسے نیچ پن کے مظاہرہ کرنے کی ہمت کسی کو نہیں ہوتی تھی۔
کراچی میں راہ گیر خواتین کے ساتھ پیش آنے والے دست درازی کے ان واقعات کے حوالے سے ایک خاتون کا یہ کہنا تھا کہ 'کسی بھی جگہ کمزور عورت ایسے لوگوں کا آسان ہدف ہوتی ہے!' کہنے کو یہ ایک سادہ سا جملہ ہے، لیکن ہم جیسے گذشتہ دو پشتوں سے اس شہر کے باسی کے لیے یہ جملہ تیر کی طرح کلیجے میں پیوست ہوا ہے کہ کیا واقعی اس شہر کی سماجیات بھی اب اس قدر گر چکی ہیں کہ یہاں سڑک سے گزرنے والی لڑکی یا خاتون کی عزت وعصمت کی طرف نگاہ ڈالنا اور اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھنا اس قدر آسان ہوچکا ہے۔
کہ ہم یہ کہیں گے کہ لوگ کسی خاتون کی عصمت کے درپے ہیں کہ وہ 'طاقت وَر' نہیں ہے! ہم مانتے ہیں کہ اس کے کواکب اس شہر کی یتیم ہوئی سیاسی سماجی حیثیت سے جا ملتے ہیں، کہ جہاں ابھی تک مجموعی طور پر تہذیب وشرافت کا سکہ عروج پر رہا تھا، مسئلے مسائل اور خرابیاں ضرورہوتی رہتی تھیں، لیکن صورت حال اس قدر پست کبھی نہ ہوئی تھی!
اس کے ساتھ ساتھ 'کمزور عورت، آسان ہدف' والی بات اگر واقعی سچ ہے تو کیا یہ اس بات کا اعلان نہیں ہے کہ اب شہرِ قائد کی قلبی گلیاں اور مرکزی شاہ راہیں بھی اب انسان نما 'جنگلیوں' اور 'جانوروں' کے نرغے میں آچکی ہیں۔
کمزور کا ہدف بنایا جانا تو معاف کیجیے گا کہ کسی 'جنگل' کا مختصر ترین تعارف معلوم ہوتا ہے، لیکن بقول زہرا نگاہ صاحبہ کہ ''سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے!'' تو کیا یہ شہر اور اس کی سماجیات بھی امتدادِ زمانہ کا شکار ہوچکی ہے۔۔۔؟ کیا اس شہر کی عمومی فضا میں عام خواتین کے لیے جو ایک غیر محسوس سا احساس تحفظ پایا جاتا تھا، جسے اس شہر میں آکر لوگ بہت اچھی طرح محسوس بھی کرتے تھے، کیا اب وہ سب ختم ہونے لگا ہے۔۔۔؟
یعنی یہاں بھی عام خواتین کے لیے ذہنی بیمار اور پست سوچ کا غلبہ اس قدر بے خوف اور آزاد ہوگیا کہ وہ انتہا تک پہنچنے سے بھی نہیں چُوکتا۔۔۔ قانون کی گرفت ہی نہیں سماجی حلقوں کے دباؤ کا معاملہ بھی اب پس منظر میں چلا گیا ہے۔ ''راہ چلتی خواتین کے ساتھ کم سے کم کراچی میں تو ایسا نہیں ہوسکتا'' یہ جملہ کیا اب ماضی کی ایک یاد اور تاریخ بن چکا ہے۔۔۔؟
یہاں کے بڑے سے بڑے مجمع میں بھی عادی ملزمان اور درندوں کے سوا عام طور پر بہتر صورت حال رہتی تھی، یہاں کے بڑے بڑے سیاسی جلسے جلوسوں تک میں خواتین کے ادب واحترام کا ایک ماحول ہوتا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ تربیت مزید بڑھاوا پاتی، دیگر لوگ بھی اس ماحول سے سیکھتے اور پست ذہنیت اور نیچ سوچ والے افراد کو لگام ڈالتے اور یہ تہذیب کا ماحول ہمارے ملک کی پہچان بنتا۔
ورنہ ہم تو اکیسویں صدی میں بھی بیٹیوں کو زندہ گاڑنے کو ایوان بالا میں قبائلی روایت قرار دینے سے لے کر چہرے پر تیزاب پھینکنے اور 'کاری' قرار دے کر قتل کیے جانے سے پہچانے جاتے ہیں۔۔۔
آج یہ شہر بھی سیاسی پس ماندگی اور جبروگھٹن میں شاید اس 'ناسور' کا شکار ہو گیا ہے کہ یہاں بھی بازار سے گزرنے والی عام خواتین کو پریشان کیا جانے لگا ہے، اور اس پر اس تہذیب کے دل دادہ شہر میں یہ عذر پیش ہوتا ہے کہ کمزور عورت آسان ہدف ہوتی ہے۔ ارے صاحب، ہوتی ہوگی کمزور عورت نشانہ۔۔۔ مگر وہ سماج نہیں، جنگل میں ہوتی ہے، جنگلیوں اور جانوروں ہی میں وہ ہدف ہوتی ہے، کیوں کہ وہاں طاقت قانون اور اصول ہوتی ہے، اور وہ آسان ہدف ذہنی بیماروں اور گھٹن کے مارے مریضوں میں ہوتی ہے۔
حقیقت میں انسانوں کے درمیان طاقت اور کمزور کا اصول نہیں ہوتا، تہذیب اور وضع داریوں کے سماج میں یہ گھٹیا پن قطعی نہیں ہوتا، یہاں تو یہ سوچ آجانا ہی کسی بہت بڑے المیے سے کم نہیں ہے کہ ''کمزور عورت ہر جگہ نشانہ بنے گی'' نہیں جناب۔۔۔! کمزور عورت نشانہ صرف ''جانوروں'' کے درمیان ہوتی ہے، وہ 'جانور' جو فقط انسانی شکل میں دکھائی دیتے ہیں، صرف انھی کے درمیان ہوتی ہے۔
انسانوں کے سماج میں تو سنسان محلّوں میں بھی یہ شیطانیت قریب نہیں پھٹکتی، الّا یہ کہ سرِ عام ان گزرنے والی خواتین کو اس طرح پریشان کیا جائے، اور ان سے دست درازی کی جائے جیسا کہ اب شکایات سامنے آرہی ہیں۔
یہ ایک المیہ ہی نہیں بلکہ ایک لمحہ فکریہ بھی ہے، اس شہر کے ناخداؤں، اس شہر والوں کی قسمت کے مالک بننے والوں سے لے کر ماہرین سماجیات کے لیے کہ وہ دیکھیں کہ ان سے کہاں بھول ہوئی ہے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے شہر کی تہذیب کو اس لائق نہیں چھوڑ سکے کہ جہاں تہذیب کی بنیادی قدریں پائمال کر ڈالی گئی ہیں۔ آخر صنف نازک کو ڈسنے والا 'جبر وگھٹن' کا یہ اژدھا تین کروڑ نفوس پر مشتمل اس ملک کے معاشی دارالحکومت کو کہاں لے کر جائے گا۔
خواتین کے حقوق سے لے کر انسانی حقوق تک کی بڑی بڑی غیر سرکاری تنظیموں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کچھ اپنی سمت کو درست کریں، کہاں تو انھیں سماج کی اور لوگوں کی تربیت کرنی تھی اور کہاں کراچی جیسے بڑے شہر میں اب معاملات کس ڈگر پر چل نکلے ہیں۔ بنیادی حقوق اور بنیادی سہولتوں سے محرومی سے لے کر چھینا جھپٹی اور جان چلی جانے کے بے کراں خوف کے سائے میں اب ایک نئی اُفتاد اس شہر کی بیچوں بیچرقصاں ہے۔
شاید اس شہر سے خواتین کے کسی قدر تحفظ اور تہذیب وتمدن کی ہر شناخت کو بھی چھین لیے جانے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اور اس پر مستزاد کہ خواتین کے حقوق کے نام لیواؤں سے لے کر عام دانش وَر تک اس سمت کوئی غوروخوص نہیں کر رہے، بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ سب دانستہ اور غیر دانستہ طور پر بے خبر بیٹھے ہیں۔