جسٹس فائز عیسیٰ کا مقدمات سماعت کیلئے مقرر کرنے کے طریقہ کار کا نوٹس

ایک رجسٹرار جج سے بھی طاقتور ہے، کیا میں فون کرکے رجسٹرار کو کہہ سکتا ہوں فلاں کیس فلاں بینچ میں لگا دیں، جسٹس فائز

(فوٹو : فائل)

سپریم کورٹ میں مقدمات سماعت کے لیے مقرر ہونے کے طریقہ کار سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے معاملے کا نوٹس لے لیا۔

عدالت نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو تمام ریکارڈ سمیت فوری طور پر طلب کر لیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میں سپریم کورٹ کا جج ہوں جبکہ پانچ سال تک چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بھی رہ چکا ہوں، ہم چاہتے ہیں شفافیت ہونی چاہیے لیکن اگر رجسٹرار کیس ایک بینچ سے دوسرے بینچ میں لگا دے تو شفافیت کیسے ہوگی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے ایک رجسٹرار تو میرے جیسے جج سے بھی زیادہ طاقتور ہے، میں 2010 کے کیسز نہیں سن سکتا کیوں کہ کیسز رجسٹرار سماعت کے لیے مقرر کرتا ہے، کیا میں فون کرکے رجسٹرار کو یہ کہہ سکتا ہوں فلاں کیس فلاں بینچ میں لگا دیں۔

رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان صاحب کی منظوری سے ہی مقدمات سماعت کے لیے مقرر ہوتے ہیں

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ بینچ میں جسٹس حسن رضوی صاحب تھے تو بینچ کیوں تبدیل ہوا، کیسز فکس کرنے کا کیا طریقہ کار ہے۔

سابق صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنران نے کہا کہ لوگ پوچھ پوچھ کر تھک گئے ہیں لیکن ہمارے کیسز نہیں لگتے۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی عدالت پیش ہوئے۔ بار بار عدالتی سوالات پوچھنے کے باوجود رجسٹرار سپریم کورٹ تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

جسٹس قاضی فاٸزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس میں شفافیت نام کی کوٸی چیز نہیں ہے، 1999 کے مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، ہم 2022کی اپیلیں سن رہے ہیں کوٸی تو وضاحت ہونی چاہیے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار آفس میں شفافیت ہونی چاہیے، سپریم کورٹ رجسٹرار آفس جو بھی کام کرے وہ تحریری صورت میں ہونا چاہیے۔

جسٹس قاضی فاٸزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی کو کچھ نہیں پتہ۔ انہوں نے ایڈیشنل رجسٹرار سے استفسار کیا کہ کیا آپ ڈی فیکٹو رجسٹرار کے طور پر کام کر رہے ہیں؟


جسٹس قاضی فاٸزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں بتائیں کہ پھر ہم کس کو بلائیں، کیا ہم سیکشن آفیسر کو اس معاملے پر بلائیں، ہمیں بتائیں کہ کیسز سے متعلق سپریم کورٹ کا کیا طریقہ کار ہے اور پرانے کیسز کیوں نہیں لگائے جا رہے ہیں۔

عدالت نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے متعلقہ ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت میں ساڑھے 11 بجے تک وقفہ کیا۔ سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج تمام مقدمات سننے سے انکار کر دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسڑار سپریم کورٹ سے استفسار کیا کہ بینچ کیوں تبدیل کیا گیا، جس پر رجسڑار سپریم کورٹ نے بتایا کہ مجھے چیف جسٹس کے سیکریٹری نے بینچ تبدیل کرنے کے لیے کہا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا سپریم کورٹ ججز کے بینچ اسٹاف افسر چلاتا ہے، پوری دنیا اس کیس کو دیکھ رہی ہے اس لیے اپنا موقف سوچ کر بتائیں۔

رجسڑار سپریم کورٹ عشرت علی عدالتی سماعت شروع ہونے کے بعد تاخیر سے پہنچے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ رجسڑار صاحب عدالت ساڑھے گیارہ شروع ہوتی ہے، میرا آج بینچ جسٹس حسن اظہر رضوی کے ساتھ تھا اور جسٹس یحییٰ آفریدی دوسرے بینچ کے سربراہ تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دوبارہ استفسار کیا کہ میرا اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے بینچ کی تشکیل تبدیل کیوں کی گئی؟ رجسڑار سپریم کورٹ عشرت علی نے عدالتی سوالات کے جوابات دینے سے احتراز کیا جس پر عدالت برہم ہوگئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جس کے خلاف فیصلہ دیں گے وہ کہے گا میرے لیے خاص بینچ بنایا گیا۔

رجسڑار سپریم کورٹ کی جانب سے عدالت کے سامنے بینچز تبدیلی کی فائل نہ دکھانے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مجھے نوٹ دکھائیں بینچ کیوں تبدیل کیا؟ دنیا سپریم کورٹ میں انصاف کے لیے دستک دیتی ہے، کیا رجسڑار صاحب شفافیت پر یقین رکھتے ہیں، مقدمات کی ردو بدل سے آدھا انصاف تو ختم ہو جاتا ہے۔

رجسڑار سپریم کورٹ عشرت علی نے کہا کہ کیس منیجمنٹ کی سفارشات 2 جولائی 2022 سے چیف جسٹس کے آفس میں زیر غور ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بینچ بنانے سے متعلق چیف جسٹس کے اختیارات سے واقف ہیں لیکن بینچ تبدیل ہونے کی وجوہات ہونے چاہیے، سمری میں لکھا جانا چاہیے کہ جج بیمار تھے یا دستیاب نہیں لیکن جب دونوں جج صاحبان دستیاب تھے تو بینچ تبدیلی کی وجوہات سامنے نہیں آئی۔ آئین میں عدلیہ کی آزادی کو تحفظ دیا گیا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ بغیر وجوہات بینچ تبدیل ہونے سے شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں، عوام میں غیر ضروری تنقید ہوتی ہے۔ موجودہ کیس میں دونوں بینچ تبدیل نہ کرنے کی وجوہات نہیں بتائی گئیں، سپریم کورٹ میں پرانے مقدمات زیر التوا ہیں اور نئے مقرر کر دیے گئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اج مقدمات نہ سننے پر وکلا سے معذرت کرتا ہوں۔
Load Next Story