مصری فوج کا ایڈز کے علاج میں انقلابی پیش رفت کا دعویٰ
مصر کی انٹیلی جنس سروس 22 برس سے خفیہ طبی تحقیقی پروجیکٹ پر کام کررہی تھی، ابراہیم عبدل اتی
ایڈز اور ہیپاٹائٹس دو مہلک بیماریاں ہیں جو سالانہ لاکھوں افراد کی موت کا سبب بنتی ہیں۔ ان امراض کا علاج دریافت کرنے پر شب و روز تحقیق ہورہی ہے مگر اس ضمن میں ابھی تک کوئی نمایاں کام یابی حاصل نہیں ہوسکی۔
لہٰذا پچھلے دنوں جب مصری فوج کی جانب سے ایڈز اور ہیپاٹائٹس کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ سامنے آیا تو سب حیران رہ گئے۔ مصری فوج کے فزیشن میجر جنرل ابراہیم عبدل اتی نے گذشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ مصر کی انٹیلی جنس سروس کے تحت پچھلے بائیس سال سے ایک خفیہ طبی تحقیقی پروجیکٹ پر کام جاری تھا جو اب پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہے، اور اس پروجیکٹ سے حاصل ہونے والے نتائج ایڈز اور ہیپاٹائٹس کے علاج میں انقلابی ثابت ہوں گے۔
پریس کانفرنس کے دوران ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کو ایک ویڈیو فوٹیج دکھائی گئی جس میں مریض بستروں پر لیٹے نظر آرہے تھے۔ مختلف مشینوں سے متعدد تار نکل کر ان کے جسموں سے منسلک تھے۔ ویڈیو میں وہ ڈیوائس بھی دکھائی گئی جو مصری فوجی محققین کی بائیس سالہ کاوش کا نتیجہ تھی۔ میجرجنرل ابراہیم کے مطابق یہ ڈیوائس ایک بم ڈٹیکٹر سے متاثر ہوکر تخلیق کی گئی ہے جس سے ایک اینٹینا بھی منسلک ہے۔ جنرل کے مطابق یہ ڈیوائس چند فٹ کے فاصلے سے کسی مریض میں جگر کے امراض کی نشان دہی کرسکتی ہے۔
فوج کے مطابق اس نوع کی دو ڈیوائسز تیار کی گئی ہیں جو C-Fast اور I-Fastکہلاتی ہیں۔ یہ ڈیوائسز برقی مقناطیسی لہروں کی مدد سے ہیپاٹائٹس سی اور ایڈز کے وائرس کا سراغ لگاتی ہیں۔ مصر کی وزارت دفاع نے ورلڈ انٹیلکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے پاس اپنی ایجاد کو پیٹنٹ کرانے کے لیے درخواست بھی دائر کردی ہے۔
بین الاقوامی سائنسی تحقیقی حلقوں کی جانب سے مصری فوج کی تحقیق کے درست ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے، کیوں کہ یہ تحقیق کسی بھی عالمی تحقیقی جریدے میں شایع نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی شہرت یافتہ ادارے نے اس کی توثیق کی ہے۔ دوسری جانب مصری فوج کے اس دعوے کو سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی قرار دیا جارہا ہے۔
لہٰذا پچھلے دنوں جب مصری فوج کی جانب سے ایڈز اور ہیپاٹائٹس کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ سامنے آیا تو سب حیران رہ گئے۔ مصری فوج کے فزیشن میجر جنرل ابراہیم عبدل اتی نے گذشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ مصر کی انٹیلی جنس سروس کے تحت پچھلے بائیس سال سے ایک خفیہ طبی تحقیقی پروجیکٹ پر کام جاری تھا جو اب پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہے، اور اس پروجیکٹ سے حاصل ہونے والے نتائج ایڈز اور ہیپاٹائٹس کے علاج میں انقلابی ثابت ہوں گے۔
پریس کانفرنس کے دوران ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کو ایک ویڈیو فوٹیج دکھائی گئی جس میں مریض بستروں پر لیٹے نظر آرہے تھے۔ مختلف مشینوں سے متعدد تار نکل کر ان کے جسموں سے منسلک تھے۔ ویڈیو میں وہ ڈیوائس بھی دکھائی گئی جو مصری فوجی محققین کی بائیس سالہ کاوش کا نتیجہ تھی۔ میجرجنرل ابراہیم کے مطابق یہ ڈیوائس ایک بم ڈٹیکٹر سے متاثر ہوکر تخلیق کی گئی ہے جس سے ایک اینٹینا بھی منسلک ہے۔ جنرل کے مطابق یہ ڈیوائس چند فٹ کے فاصلے سے کسی مریض میں جگر کے امراض کی نشان دہی کرسکتی ہے۔
فوج کے مطابق اس نوع کی دو ڈیوائسز تیار کی گئی ہیں جو C-Fast اور I-Fastکہلاتی ہیں۔ یہ ڈیوائسز برقی مقناطیسی لہروں کی مدد سے ہیپاٹائٹس سی اور ایڈز کے وائرس کا سراغ لگاتی ہیں۔ مصر کی وزارت دفاع نے ورلڈ انٹیلکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے پاس اپنی ایجاد کو پیٹنٹ کرانے کے لیے درخواست بھی دائر کردی ہے۔
بین الاقوامی سائنسی تحقیقی حلقوں کی جانب سے مصری فوج کی تحقیق کے درست ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے، کیوں کہ یہ تحقیق کسی بھی عالمی تحقیقی جریدے میں شایع نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی شہرت یافتہ ادارے نے اس کی توثیق کی ہے۔ دوسری جانب مصری فوج کے اس دعوے کو سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی قرار دیا جارہا ہے۔