طلباء تنظیموں کا تصادم قائد اعظم یونیورسٹی میں رینجرز تعیناتی کے لیے خط
قائداعظم یونیورسٹی میں طلباء کوچرس سمیت دیگر منشیات کی ترسیل کابھی خدشہ ہے
قائداعظم یونیورسٹی میں طلباء تنظیموں کے تصادم کے باعث وائس چانسلر نے رینجرز تعیناتی کے لیے سیکرٹری داخلہ کو خط لکھ دیا۔
قائم مقام وائس چانسلر نے خط میں کہا کہ امن و امان قائم ہونے تک رینجرز تعینات کی جائے، یونیورسٹی میں آؤٹ سائیڈرز اور شدت پسندوں کو نکالنا ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی کو گزشتہ روز تا حکم ثانی بند کر دیا گیا تھا۔
وفاقی دارالحکومت میں قائداعظم یونیورسٹی میں دوطلبہ گروپوں پختون کونسل اور بلوچ کونسل میں ایک ہفتہ کے اندر دوسرے خوفناک تصادم میں چھ سے زائد طالب علم زخمی ہوگئے جبکہ ایس ایچ اوتھانہ کوہسار عدیل شوکت بھی طلباء گروپوں کے تصادم میں زخمی ہوگئے ہیں جنہیں پمز منتقل کردیاگیاہے۔
پولیس ذرائع نے ایکسپریس کوبتایاہے کہ پختون اوربلوچ کونسل کے طلباء کے مابین کئی روز سے صورتحال کشیدہ تھی جس میں ایک ہفتہ قبل دونوں گروپوں کے مابین پہلے بھی ایک تصادم ہوچکاہے جس میں یونیورسٹی انتظامیہ دونوں گروپوں کے درمیان حالات کو معمول پرلانے میں ناکام رہی اور یونیورسٹی میں دونوں گروپوں کے درمیان کسی بھی وقت خونریز تصادم کی افواہوں کی وجہ سے طلباء وطالبات خوف وہراس کاشکار تھے۔
بنیادی طورپر ان گروپوں میں صورتحال کشیدہ ہونے کی وجہ سامنے آئی ہے کہ پختون کونسل کے طلباء نے خود کوزیادہ مضبوط اور طاقتور ہونے کایونیورسٹی میں تاثر پھیلایا اوراس سے دیگر طلباء و طالبات کومرعوب کرنے کے لئے بلوچ کونسل کے ساتھ وابستگی رکھنے والے طالب علموں کے ساتھ مبینہ بدتمیزی معمول بنالیا اور حتی کہ طاقت کے زعم میں بلوچ کونسل کے چند طلباء کو گالیاں دیں اور تشدد کانشانہ بھی بنایاجس پردونوں گروپوں میں ایک ہفتہ قبل تصادم ہوا۔
پختون کونسل کے زیادہ تعدادمیں طالب علم اور بیرونی عناصر جمع ہوئےاوراسوقت بلوچ کونسل کے طلباء پرانکا پلڑا بھاری رہا ۔
سابقہ لڑائی اور گالیاں دینے کا پختون کونسل سے بدلہ لینے اور حساب برابر کرنے کے لئے بلوچ کونسل کے طلباء سوموار کویونیورسٹی میں جمع ہوئے جن کے ساتھ ساتھ انکےمتحارب پختون کونسل کے ساتھ وابستگی رکھنے والے طلباء بھی بڑی تعداد میں جمع ہوگئے ۔
پھر بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے خاطر خواہ نوٹس نہ لیا جس کی وجہ سے یونیورسٹی کے اندر دونوں گروپوں میں ایک مرتبہ پھر خوفناک تصادم ہوگیا جس میں یونیورسٹی میں خوف وہراس پھیل گیا اور خاص طورپرطالبات چیخیں مارتی ہوئی خود کو بچانے کے لئے محفوظ جگہ پر پناہ لینے کو بھاگتی بتائی گئی ہیں ۔
تصادم خطرناک صورتحال اختیار کرجانےپر یونیورسٹی انتظامیہ نےمتعلقہ تھانہ سیکریٹریٹ کو اطلاع دی لیکن تھانہ سیکریٹریٹ پولیس حالات کوکنٹرول کرنے میں ناکام رہی تو پولیس کی مذید کمک تھانہ کوہسار سے بلوائی گئی جو ایس ایچ او تھانہ کوہسار عدیل شوکت کی سربراہی میں یونیورسٹی کے اندر پہنچی تو شرپسند عناصر کی جانب سے پولیس پر شدید پتھراؤ کیاگیا جس میں ایس ایچ اوتھانہ کوہسار عدیل شوکت زخمی ہوگئے جنہیں پمز منتقل کردیاگیا جبکہ دونوں گروپوں کے چھ طالب علم زیادہ زخمی بتائے گئے ہیں ۔
اس ضمن میں متعلقہ سٹی زون کے ایک آفیسر نے ایکسپریس کے رابطہ پرتصدیق کرتے ہوئے کہاکہ بلاشبہ دونوں گروپوں میں کشیدگی کئی روز سے جاری تھی اور تازہ واقعے کی وجہ سے یونیورسٹی انتظامیہ نے تاحکم ثانی یونیورسٹی بندکردی ہے۔
انہوں نے بتایاکہ تصادم کے دوران زخمی طالب علموں کو ہسپتال منتقل کرنے کے لئے منگوائی گئی ایمبولینس پر بھی پتھراؤ اور تھوڑ پھوڑ کی گئی ۔ ایک سوال پر انکا کہنا تھاکہ چند سالوں سے آئے روز قائد اعظم یونیورسٹی میں خونریز تصادم معمول بن چکے ہیں جس کے لئے یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کے لئے پرامن تعلیمی ماحول پیدا کرنے کی خاطر اب یہ ناگزیر ہوچکاہے کہ پولیس کونہ صرف یونیورسٹی انتظامیہ اپنا پورا کام کرنے دے بلکہ یونیورسٹی میں امن کو تہہ و بالا کرنے والے طالب علموں کی نشاندہی کرے تاکہ یونیورسٹی کے اندر امن قائم کیاجاسکے۔
ایک سوال پرانکا کہنا تھاکہ قائداعظم یونیورسٹی میں طلباء کوچرس سمیت دیگر منشیات کی ترسیل کابھی خدشہ ہے کیونکہ چند سالوں میں نوجوانوں میں آئے روز خوفناک جھگڑے معمول بن چکے ہیں جس میں عدم برداشت کا ایک بنیادی پہلو نوجوانوں میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی نشہ کی لعنت بھی ہے۔
قائم مقام وائس چانسلر نے خط میں کہا کہ امن و امان قائم ہونے تک رینجرز تعینات کی جائے، یونیورسٹی میں آؤٹ سائیڈرز اور شدت پسندوں کو نکالنا ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی کو گزشتہ روز تا حکم ثانی بند کر دیا گیا تھا۔
وفاقی دارالحکومت میں قائداعظم یونیورسٹی میں دوطلبہ گروپوں پختون کونسل اور بلوچ کونسل میں ایک ہفتہ کے اندر دوسرے خوفناک تصادم میں چھ سے زائد طالب علم زخمی ہوگئے جبکہ ایس ایچ اوتھانہ کوہسار عدیل شوکت بھی طلباء گروپوں کے تصادم میں زخمی ہوگئے ہیں جنہیں پمز منتقل کردیاگیاہے۔
پولیس ذرائع نے ایکسپریس کوبتایاہے کہ پختون اوربلوچ کونسل کے طلباء کے مابین کئی روز سے صورتحال کشیدہ تھی جس میں ایک ہفتہ قبل دونوں گروپوں کے مابین پہلے بھی ایک تصادم ہوچکاہے جس میں یونیورسٹی انتظامیہ دونوں گروپوں کے درمیان حالات کو معمول پرلانے میں ناکام رہی اور یونیورسٹی میں دونوں گروپوں کے درمیان کسی بھی وقت خونریز تصادم کی افواہوں کی وجہ سے طلباء وطالبات خوف وہراس کاشکار تھے۔
بنیادی طورپر ان گروپوں میں صورتحال کشیدہ ہونے کی وجہ سامنے آئی ہے کہ پختون کونسل کے طلباء نے خود کوزیادہ مضبوط اور طاقتور ہونے کایونیورسٹی میں تاثر پھیلایا اوراس سے دیگر طلباء و طالبات کومرعوب کرنے کے لئے بلوچ کونسل کے ساتھ وابستگی رکھنے والے طالب علموں کے ساتھ مبینہ بدتمیزی معمول بنالیا اور حتی کہ طاقت کے زعم میں بلوچ کونسل کے چند طلباء کو گالیاں دیں اور تشدد کانشانہ بھی بنایاجس پردونوں گروپوں میں ایک ہفتہ قبل تصادم ہوا۔
پختون کونسل کے زیادہ تعدادمیں طالب علم اور بیرونی عناصر جمع ہوئےاوراسوقت بلوچ کونسل کے طلباء پرانکا پلڑا بھاری رہا ۔
سابقہ لڑائی اور گالیاں دینے کا پختون کونسل سے بدلہ لینے اور حساب برابر کرنے کے لئے بلوچ کونسل کے طلباء سوموار کویونیورسٹی میں جمع ہوئے جن کے ساتھ ساتھ انکےمتحارب پختون کونسل کے ساتھ وابستگی رکھنے والے طلباء بھی بڑی تعداد میں جمع ہوگئے ۔
پھر بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے خاطر خواہ نوٹس نہ لیا جس کی وجہ سے یونیورسٹی کے اندر دونوں گروپوں میں ایک مرتبہ پھر خوفناک تصادم ہوگیا جس میں یونیورسٹی میں خوف وہراس پھیل گیا اور خاص طورپرطالبات چیخیں مارتی ہوئی خود کو بچانے کے لئے محفوظ جگہ پر پناہ لینے کو بھاگتی بتائی گئی ہیں ۔
تصادم خطرناک صورتحال اختیار کرجانےپر یونیورسٹی انتظامیہ نےمتعلقہ تھانہ سیکریٹریٹ کو اطلاع دی لیکن تھانہ سیکریٹریٹ پولیس حالات کوکنٹرول کرنے میں ناکام رہی تو پولیس کی مذید کمک تھانہ کوہسار سے بلوائی گئی جو ایس ایچ او تھانہ کوہسار عدیل شوکت کی سربراہی میں یونیورسٹی کے اندر پہنچی تو شرپسند عناصر کی جانب سے پولیس پر شدید پتھراؤ کیاگیا جس میں ایس ایچ اوتھانہ کوہسار عدیل شوکت زخمی ہوگئے جنہیں پمز منتقل کردیاگیا جبکہ دونوں گروپوں کے چھ طالب علم زیادہ زخمی بتائے گئے ہیں ۔
اس ضمن میں متعلقہ سٹی زون کے ایک آفیسر نے ایکسپریس کے رابطہ پرتصدیق کرتے ہوئے کہاکہ بلاشبہ دونوں گروپوں میں کشیدگی کئی روز سے جاری تھی اور تازہ واقعے کی وجہ سے یونیورسٹی انتظامیہ نے تاحکم ثانی یونیورسٹی بندکردی ہے۔
انہوں نے بتایاکہ تصادم کے دوران زخمی طالب علموں کو ہسپتال منتقل کرنے کے لئے منگوائی گئی ایمبولینس پر بھی پتھراؤ اور تھوڑ پھوڑ کی گئی ۔ ایک سوال پر انکا کہنا تھاکہ چند سالوں سے آئے روز قائد اعظم یونیورسٹی میں خونریز تصادم معمول بن چکے ہیں جس کے لئے یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کے لئے پرامن تعلیمی ماحول پیدا کرنے کی خاطر اب یہ ناگزیر ہوچکاہے کہ پولیس کونہ صرف یونیورسٹی انتظامیہ اپنا پورا کام کرنے دے بلکہ یونیورسٹی میں امن کو تہہ و بالا کرنے والے طالب علموں کی نشاندہی کرے تاکہ یونیورسٹی کے اندر امن قائم کیاجاسکے۔
ایک سوال پرانکا کہنا تھاکہ قائداعظم یونیورسٹی میں طلباء کوچرس سمیت دیگر منشیات کی ترسیل کابھی خدشہ ہے کیونکہ چند سالوں میں نوجوانوں میں آئے روز خوفناک جھگڑے معمول بن چکے ہیں جس میں عدم برداشت کا ایک بنیادی پہلو نوجوانوں میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی نشہ کی لعنت بھی ہے۔