تعلیم کے ساتھ ہنر وقت کی اہم ضرورت
تعلیم کے ساتھ ہنر نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں نوجوانوں کو روزگار کا مسئلہ درپیش رہتا ہے
گئے وقتوں کی بات ہے، بزرگ کہا کرتے تھے کہ اگر خالص دودھ چاہیے تو اپنی بھینس رکھو اور خالص علم چاہیے تو اپنے بچوں کو علم پڑھاؤ۔ بزرگوں کی یہ نصیحت آج کے دور کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔
آج کے دور میں آپ کو نہ صرف یہ کہ خالص دودھ چاہیے تو اپنی بھینس، گائے یا بکری رکھیں، بلکہ اگر آپ کو خالص پلمبر چاہیے تو اپنے بچوں کو پلمبر کا کام سکھادیں، اگر اچھا الیکٹریشن چاہیے تو شرم، جھجک کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ الیکٹریشن کا ہنر سکھادیں (تاکہ وہ بوقت ضرورت گھر کا پنکھا، بجلی کا سوئچ، موٹر کی فٹنگ وغیرہ کرسکیں، کیونکہ آج کل اچھا کاریگر یا تو ملتا نہیں اور اگر مل جائے تو اس سے وقت نہیں ملتا)
تعلیمی چھٹیوں کے دوران موٹرسائیکل مکینک، کار مکینک یا دیگر چھوٹے موٹے کام سکھادیں تاکہ وہ محتاجی ، خواری اور مالی وسائل کے زیاں سے بچ سکے۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پر ایک طرف غربت، بھوک، افلاس، بیروزگاری تو ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے، وہیں دوسری طرف دو نمبری، بے ایمانی، دھوکا، جھوٹ، کرپشن میں بھی ہم اپنے ہی بنائے ہوئے ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔
ایک طرف لوگ آٹے کے ایک تھیلے کےلیے لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں، وہیں دوسری طرف اگر آپ مزدوروں کے اڈے پر چلے جائیں تو آپ کو ڈھنگ کا مزدور نہیں ملے گا۔ آپ کو اچھے میسن کی تلاش میں دانتوں پسینہ آجائے گا۔ پلمبر آپ کو وقت نہیں دے گا، اگر وقت دے گا تو بل بہت بنادے گا۔ موٹرسائیکل مکینک آپ کی بائیک میں وہ نقص بھی نکال دے گا جو آپ کے گمان تک میں نہیں ہوں گے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام وخواص کی ایمانی، دنیاوی صلاحیتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ چائنا کی طرز پر مرد و زن، بچے، بوڑھے سبھی کام میں لگ جائیں۔ عورتیں اگر ہمارے کلچر کے مطابق باہر کام نہیں کرسکتیں تو ایسے ہنر سیکھ لیں کہ وہ گھر بیٹھے، پردے کے اندر کام کرسکیں اور نہیں تو کم ازکم گھر کی چھت یا بالکونی پر مرغیاں، بکریاں پال کر معاشی میدان میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔
اسی طرح بچے تعلیم کے ساتھ ہنر سیکھ کر معاون ثابت ہوسکتے ہیں، بلکہ اسکول کی سطح پر ہی انہیں ریاضی، اردو کی کلاسز کی طرح ''ہنر کی کلاسز'' دی جائیں تو زیاد ہ بہتر ہوگا۔ اس طرح ہمارے تعلیمی ادارے جو منشیات کی آماجگاہ بن چکے ہیں، مثبت سرگرمیوں کا مرکز بن جائیں گے۔ (بقول ایک سابق وفاقی وزیر اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں 55 فیصد لڑکیاں اور 75 فیصد لڑکے منشیات استعمال کرتے ہیں، اور حال ہی میں ایک ایلیٹ اسکول میں ساتھی لڑکیوں کی جانب سے اپنی ہی ایک کلاس فیلو کو اس وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ اس نے انہیں نشے سے منع کرنے کی کوشش کی تھی)
اس حوالے سے وطن عزیز میں پہلے بھی کوشش ہوچکی ہے مگر یہ کوششیں آگاہی مہم تک ہی محدود رہیں۔ مثال کے طور پر 2022 میں حکومت پنجاب کی ہدایت پر پی آئی ٹی بی کی آگاہی مہم کے دوران کئی سیمینارز منعقد ہوئے جن میں مقررین، فری لانسرز اور انفلوئنسرز نے تعلیم کے ساتھ ہنر کی اہمیت پر روشنی ڈالی، لیکن شائد کوئی عملی قدم نہ اٹھایا جاسکا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تعلیم کے ساتھ ہنر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے یہاں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ ہمارے نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں تھامے ملازمت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں لیکن ہنر سیکھنے کو برا سمجھتے ہیں۔ اگر یہی نوجوان دوران تعلیم اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق کوئی ہنر یا ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کرلیں تو دوران تعلیم اور بعد از تعلیم کوئی جز وقتی ملازمت کرکے اپنا جیب خرچ نکال سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ٹائپنگ کی مہارت حاصل کرلیں تو عین ممکن ہے کسی بھی دفتر میں آفس اسسٹنٹ/ کلرک/ ٹائپسٹ کی نوکری کرتے ہوئے بغیر کسی پر بوجھ بنے اپنی حتمی منزل کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔
آپ کی دلچسپی کےلیے عرض کرتا چلوں کہ امریکی ریاست میری لینڈ میں پلمبرز اینڈ اسٹیم فٹرز یونین کی جانب سے طالب علموں کو تعلیم کے دوران ہنر سکھائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے طالب علموں کےلیے اپنا تعلیمی قرضہ اتارنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک تحقیق کے مطابق روزگار کے حوالے سے 30 پیشے کامیاب تصور کیے جاتے ہیں، جن میں سے نصف کےلیے یونیورسٹی ڈگری کے بجائے ٹریننگ ضروری تصور کی جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل پاکستان تعلیم کے ساتھ ہنر سیکھنے کو یقینی بنائیں اور پھر چین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کسی بڑے انڈسٹریل یونٹ کے بجائے اپنے گھروں میں اپنی مہارت اور استطاعت کے مطابق چھوٹے یونٹ لگائیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم غربت کے گھن چکر سے نکل آئیں گے اور پاکستان کی ہاں میں دنیا کی ہاں ہوگی، بصورت دیگر ہمیں سری لنکا بننے میں دیر نہیں لگے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آج کے دور میں آپ کو نہ صرف یہ کہ خالص دودھ چاہیے تو اپنی بھینس، گائے یا بکری رکھیں، بلکہ اگر آپ کو خالص پلمبر چاہیے تو اپنے بچوں کو پلمبر کا کام سکھادیں، اگر اچھا الیکٹریشن چاہیے تو شرم، جھجک کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ الیکٹریشن کا ہنر سکھادیں (تاکہ وہ بوقت ضرورت گھر کا پنکھا، بجلی کا سوئچ، موٹر کی فٹنگ وغیرہ کرسکیں، کیونکہ آج کل اچھا کاریگر یا تو ملتا نہیں اور اگر مل جائے تو اس سے وقت نہیں ملتا)
تعلیمی چھٹیوں کے دوران موٹرسائیکل مکینک، کار مکینک یا دیگر چھوٹے موٹے کام سکھادیں تاکہ وہ محتاجی ، خواری اور مالی وسائل کے زیاں سے بچ سکے۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پر ایک طرف غربت، بھوک، افلاس، بیروزگاری تو ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے، وہیں دوسری طرف دو نمبری، بے ایمانی، دھوکا، جھوٹ، کرپشن میں بھی ہم اپنے ہی بنائے ہوئے ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔
ایک طرف لوگ آٹے کے ایک تھیلے کےلیے لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں، وہیں دوسری طرف اگر آپ مزدوروں کے اڈے پر چلے جائیں تو آپ کو ڈھنگ کا مزدور نہیں ملے گا۔ آپ کو اچھے میسن کی تلاش میں دانتوں پسینہ آجائے گا۔ پلمبر آپ کو وقت نہیں دے گا، اگر وقت دے گا تو بل بہت بنادے گا۔ موٹرسائیکل مکینک آپ کی بائیک میں وہ نقص بھی نکال دے گا جو آپ کے گمان تک میں نہیں ہوں گے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام وخواص کی ایمانی، دنیاوی صلاحیتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ چائنا کی طرز پر مرد و زن، بچے، بوڑھے سبھی کام میں لگ جائیں۔ عورتیں اگر ہمارے کلچر کے مطابق باہر کام نہیں کرسکتیں تو ایسے ہنر سیکھ لیں کہ وہ گھر بیٹھے، پردے کے اندر کام کرسکیں اور نہیں تو کم ازکم گھر کی چھت یا بالکونی پر مرغیاں، بکریاں پال کر معاشی میدان میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔
اسی طرح بچے تعلیم کے ساتھ ہنر سیکھ کر معاون ثابت ہوسکتے ہیں، بلکہ اسکول کی سطح پر ہی انہیں ریاضی، اردو کی کلاسز کی طرح ''ہنر کی کلاسز'' دی جائیں تو زیاد ہ بہتر ہوگا۔ اس طرح ہمارے تعلیمی ادارے جو منشیات کی آماجگاہ بن چکے ہیں، مثبت سرگرمیوں کا مرکز بن جائیں گے۔ (بقول ایک سابق وفاقی وزیر اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں 55 فیصد لڑکیاں اور 75 فیصد لڑکے منشیات استعمال کرتے ہیں، اور حال ہی میں ایک ایلیٹ اسکول میں ساتھی لڑکیوں کی جانب سے اپنی ہی ایک کلاس فیلو کو اس وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ اس نے انہیں نشے سے منع کرنے کی کوشش کی تھی)
اس حوالے سے وطن عزیز میں پہلے بھی کوشش ہوچکی ہے مگر یہ کوششیں آگاہی مہم تک ہی محدود رہیں۔ مثال کے طور پر 2022 میں حکومت پنجاب کی ہدایت پر پی آئی ٹی بی کی آگاہی مہم کے دوران کئی سیمینارز منعقد ہوئے جن میں مقررین، فری لانسرز اور انفلوئنسرز نے تعلیم کے ساتھ ہنر کی اہمیت پر روشنی ڈالی، لیکن شائد کوئی عملی قدم نہ اٹھایا جاسکا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تعلیم کے ساتھ ہنر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے یہاں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ ہمارے نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں تھامے ملازمت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں لیکن ہنر سیکھنے کو برا سمجھتے ہیں۔ اگر یہی نوجوان دوران تعلیم اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق کوئی ہنر یا ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کرلیں تو دوران تعلیم اور بعد از تعلیم کوئی جز وقتی ملازمت کرکے اپنا جیب خرچ نکال سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ٹائپنگ کی مہارت حاصل کرلیں تو عین ممکن ہے کسی بھی دفتر میں آفس اسسٹنٹ/ کلرک/ ٹائپسٹ کی نوکری کرتے ہوئے بغیر کسی پر بوجھ بنے اپنی حتمی منزل کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔
آپ کی دلچسپی کےلیے عرض کرتا چلوں کہ امریکی ریاست میری لینڈ میں پلمبرز اینڈ اسٹیم فٹرز یونین کی جانب سے طالب علموں کو تعلیم کے دوران ہنر سکھائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے طالب علموں کےلیے اپنا تعلیمی قرضہ اتارنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک تحقیق کے مطابق روزگار کے حوالے سے 30 پیشے کامیاب تصور کیے جاتے ہیں، جن میں سے نصف کےلیے یونیورسٹی ڈگری کے بجائے ٹریننگ ضروری تصور کی جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل پاکستان تعلیم کے ساتھ ہنر سیکھنے کو یقینی بنائیں اور پھر چین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کسی بڑے انڈسٹریل یونٹ کے بجائے اپنے گھروں میں اپنی مہارت اور استطاعت کے مطابق چھوٹے یونٹ لگائیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم غربت کے گھن چکر سے نکل آئیں گے اور پاکستان کی ہاں میں دنیا کی ہاں ہوگی، بصورت دیگر ہمیں سری لنکا بننے میں دیر نہیں لگے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔