باؤ فورم برائے ایشیا اور اقتصادی نمو
باؤ فورم سے دنیا کو یہ جاننے کا موقع مل رہا ہے کہ ایشیائی ممالک اقتصادی نمو کی بابت کیا رویہ اختیار کرنےجا رہے ہیں
KARACHI:
جمعرات کو چین میں باؤ فورم برائے ایشیا 2014 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں تحقیق و ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو اقتصادی نمو کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک جوکہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اکثر پیچھے ہیں، کی اہم شعبوں میں ٹیکنالوجی میں معاونت کی جائے۔
دنیا بھر کے اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اب زیادہ اقتصادی نمو یورپ اور امریکا کے بجائے چین، ہندوستان اور دیگر ایشیائی ملکوں میں ہوگی۔ اس وقت ساری دنیا کی نظریں ایشیا پر لگی ہوئی ہیں۔ اور ایسے موقع پر فورم کے انعقاد سے دنیا بھر کو یہ جاننے کا موقع مل رہا ہے کہ خود ایشیا کے ملک اقتصادی نمو کی بابت کیا رویہ اختیار کرنے جا رہے ہیں۔ ادھر ایشیا کی نظریں چین پر جمی ہوئی ہیں کہ چین اقتصادی ترقی کے میدان میں اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ یہ بات بغیر تمہید کے اب بیان کی جاسکتی ہے کہ جب چین نے شاہراہ ریشم کی بحالی کی بات کی ہے۔ گوادر پورٹ کو بھی ترقی دی جا رہی ہے تو ہم باآسانی کہہ سکتے ہیں کہ دنیا بھر کی نظر ایشیا پر ہے اور ایشیا بھر کی نظر چین پر ہے اور چین کی نظریں پاکستان پر جمی ہوئی ہیں۔ اس طرح پاکستان دنیا، ایشیا اور چین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ملک بن چکا ہے۔ اس میں قدیم شاہراہ ریشم کی بحالی سے پاکستان کی اہمیت مزید دوچند ہوتی جا رہی ہے۔
سلک روٹ جسے شاہراہ ریشم کہا جاتا ہے بنگال، ہندوستان، چین سے پاکستان اور ایشیا کے دیگر ملکوں سے پاکستان کے راستے تجارتی سامان وسط ایشیائی ملکوں حتیٰ کہ یورپ تک جا پہنچتا تھا۔ اس شاہراہ کی بحالی سے پاکستان مشرق وسطیٰ وسطی ایشیا اور چین کو تجارتی راہداری دینے کے قابل ہوجائے گا۔ شاہراہ ریشم کی بحالی کے حوالے سے کانفرنس سے چین کے وزیر اعظم نے بھی خطاب کیا۔ چین جوکہ اپنی برآمدات میں مزید وسعت لانا چاہتا ہے جلد ہی ایشیا معیشت کا محور بننے جا رہا ہے۔ اس دوران اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ایشیا کے ملکوں کے مابین باہمی تجارت کو بھرپور طریقے سے فروغ دیا جائے۔ اگر شاہراہ ریشم بحال ہوجاتا ہے تو چین پاکستان کے راستے اپنا سامان تجارت زمینی راستے کے ذریعے وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے علاوہ یورپی ممالک تک پہنچاسکتا ہے۔ دوسری طرف گوادر پورٹ کے ذریعے دنیا بھر کے ساتھ بحری راستے کے ذریعے اس کے تجارتی روابط مضبوط ہوں گے۔
اس موقع پر پاکستان کو اس امر پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی کہ دنیا کی دو سب سے بڑی آبادی والے ممالک چین اور ہندوستان کا پڑوسی ہونے کے ناطے، نیز جب کہ پاکستان خود اس وقت دنیا کی چھٹی بڑی آبادی والا ملک ہے۔ ماہرین آبادیات کے مطابق 2050 سے قبل پاکستان دنیا کی چوتھی بڑی آبادی والا ملک بن جائے گا۔ اس صورت حال میں پاکستان کو اپنی اقتصادی اہمیت سے کس طرح بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پاکستان اس وقت امن و امان کی مخدوش صورتحال اور توانائی کے شدید بحران سے گزر رہا ہے۔ چین کے سرمایہ کاروں نے توانائی بحران کے حل کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کا آغاز کردیا ہے۔ چین کے سرمایہ کاروں کی جانب سے پاکستان میں 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا یعنی چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
موجودہ حکومت نے اپنے قیام سے قبل بھی اپنی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے توانائی کو اولین ترجیح دی تھی اس کے ساتھ امن و امان سے متعلق مسائل کا حل بھی نئی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ حکومت کی آمد کے چند ماہ میں ہی عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے بھی اعلان کیا گیا کہ پاکستان کی اقتصادی نمو میں بہتری کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔ دیگر معاشی انڈیکیٹرز بھی بہتری کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کو ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر اور آئی ایم ایف سے قرض کی قسط کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کی جانب سے قرضوں کے اعلان کے ساتھ ہی معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں جس کے باعث عالمی مالیاتی منڈی میں پاکستان پر اظہار و اعتماد کرتے ہوئے پاکستان کی طرف سے بانڈز کے اجرا کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔
پہلے پاکستان 50 کروڑ ڈالرز کے بانڈز جاری کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن زیادہ پیشکش موصول ہونے کے بعد اب دو ارب ڈالرز کے بانڈز پیش کیے جائیں گے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان نے شرح سود بڑھا کر پیش کیے ہیں جس کے باعث عالمی سرمایہ کاروں نے زیادہ دلچسپی دکھائی ہے۔ کیونکہ اسی وقت سری لنکا نے عالمی مالیاتی منڈی میں 50 کروڑ ڈالر کے برابر بانڈز پیش کیے جس پر شرح سود سوا پانچ فی صد تھی۔ جب کہ پاکستان نے تقریباً پونے سات فیصد پر یورو بانڈ جاری کیے ہیں۔ پاکستان نے دو ارب ڈالرز کے یورو بانڈز کے اجرا کا جب ارادہ ظاہر کیا تو اس میں سے 59 فیصد امریکی اور 19 فیصد برطانوی سرمایہ کاروں نے حاصل کیا۔ اس طرح سے عالمی سرمایہ کاروں کی جانب سے پاکستان پر اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
حکومت تھری جی اور فور جی کی نیلامی سے ایک ارب ڈالر کی توقع ظاہر کر رہی ہے۔ جب کہ ورلڈ بینک سے بھی پہلے مرحلے میں ایک ارب ڈالرز کے حصول کی توقع ہے۔ حکومت نے اگرچہ 7 برس کے وقفے سے ایک دفعہ پھر یورو بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے دوسری طرف حال ہی میں دبئی میں سرکاری کانفرنس ہوئی ہے جس میں مراکش کے وزیر ٹرانسپورٹ نے سندھ کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی جس میں کراچی میں ٹرانسپورٹ کی سہولیات کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کو کراچی شہر میں ٹرانسپورٹ سہولیات کی فراہمی کے سلسلے میں کام کا آغاز کردینا چاہیے۔ اگر مراکش کے وزیر ٹرانسپورٹ سے گفتگو کے نتائج مثبت برآمد ہوئے ہیں تو اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ مراکش ایک برادر اسلامی ملک ہے۔ ٹرانسپورٹ سہولیات کی فراہمی سے متعلق اس ملک کے تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
ملک کے اس سب سے بڑے شہر میں جہاں پانی، نکاسی آب، بیروزگاری، مہنگائی سمیت بے شمار مسائل ہیں وہاں صبح ہوتے ہی ہر مسافر کے لیے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ وبال جان بن جاتا ہے۔ اب اس مسئلے کی سنگینی کے باعث لاکھوں افراد ڈپریشن اور دیگر کئی مہلک بیماریوں کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ آئے روز ٹریفک جام کے مسائل اور حادثات میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لہٰذا صوبائی حکومت کے لیے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنا اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ یقینا صوبائی حکومت اس سلسلے میں توجہ بھی دے رہی ہے۔ لیکن مراکش اور دیگر ملکوں کے تجربات سے استفادہ کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے۔ کسی بھی ملک کی اقتصادی نمو میں اضافے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ذرائع نقل و حمل کو ترقی دی جائے ملک کے شہروں سے لے کر دور دراز علاقوں تک ٹرانسپورٹ کے نظام کو انتہائی ترقی یافتہ بنایا جائے۔