ہم بھی دنیا چاہتے ہیں مگر کیسی دنیا…
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ زمین میں پھیل جائو اور میر افضل تلاش کرو ،وہ فضل کیا ہے؟
SUKKUR:
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ زمین میں پھیل جائو اور میر افضل تلاش کرو ،وہ فضل کیا ہے ؟اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ مجھ سے دنیا حسنہ طلب کرو،(اے ہمارے رب!ہمیںدنیا حسنہ عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا)(البقرۃ )مگر کیسی دنیا ؟دنیا اتنی لازمی چیز ہے کہ ہر نمازمیں ایک بندہ مومن اپنے پروردگار سے اس کا سوال کرتا ہے ،دنیا حسنہ ! ایک ایسی دنیا جس میں انسان انسان کا غلام نہ ہو!!،
کس نہ باشد درجہاں محتاج کس
نقطہء شرع مبین ایں است و بس
ایک ایسی دنیا جس میں جہالت نہ ہو،جس میں غربت ، بدامنی، بھوک اور لوڈ شیڈنگ نہ ہو،جس میں ایک دوسرے کا استحصال نہ کیا جاسکے ،کوئی ایک دوسرے پر اپنی خدائی اور نظام نافذ نہ کرسکے ،ایک ایسی دنیا کی تلاش اور تعمیر کا حکم اس دعا میں دیا گیا ہے ۔
اس کے مقابلے میں آج کی دنیا لالچ ، فساد اور دھوکے کی دنیا ہے ،حسد کی دنیا ہے ،مال سمیٹنے اور دوسروں کا استحصال کرنے کی دنیا ہے ،یہ دنیا ظلم اور جبر کی آماجگاہ بن چکی ہے ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (وہ شخص جو مال جمع کرتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا)(الحمزۃ)یہ مال کو گن گن کر رکھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ مال ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا۔یہ سود اور جھوٹ کی دنیا،یہ سرمایہ داروں ،جاگیر داروں اور وڈیروں کی دنیا ،یہ شیطان ابلیس اور جھوٹے مکاروںاور بادشاہوں کی دنیا ہے ۔
اس دنیا کو تبدیل کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوںکو دیا ہے ہمیںایسی دنیا نہیں چاہیے، جس میںمحنت کوئی کرے اور اس کا پھل کوئی دوسرا کھائے۔ جہاں چند سیاسی برہمن، معاشی دہشت گرد 18 کروڑ عوام کو شودراورچھوت سمجھ لیں اور انھیں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار ہوں۔ اس نظام کو مومن کبھی برداشت نہیں کر سکتا یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اس کو بدلنے کی کوشش نہ کرنے والا اللہ کی فرماںبرداری کا دعویدار کیسے ہو سکتا ہے؟ جہاں کسی غریب عورت کی عزت کو تار تارکر دیا جائے تو اس کی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی۔ غریب ماں کے سامنے اس کے بچوں کو ذبح کر دیا جائے تو اس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کوئی احتجاج نہیں کرتیں۔ گزشتہ دنوں میں تھر میں گیا وہاں میں نے بھوک سے نڈھال مائوں کو دیکھا، ہڈیوں کے ڈھانچے بنی بہنوں کو دیکھا، ان کی گودوں میں بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھا۔ کئی کئی مہینوں سے بچے جب دودھ سے محروم ہوں، ان کی مائوں کے سینوں میںدودھ نہیں تھا وہ بار بار آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے اور انسانوں کو رحم طلب نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ہر روز دس پندرہ مائیں اپنی پھول سے بچوں کو مٹی کے حوالے کر رہی تھیں۔ آنسو بہا بہا کر ان کے آنسو خشک ہو گئے تھے۔ ان کے لبوں پر فریاد کے لیے الفاظ اور رحم طلب کرنے کے لیے آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔ دوسری طرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر عریانی و فحاشی کا جشن برپا تھا۔ ثقافت کے نام پر ساری دنیا سے ''فنکاروں'' کو اکٹھے کر کے پاکستان کے بیت المال سے اخراجات ہوتے رہے۔ کراچی ائیر پورٹ پر ان کو لانے لے جانے کے لیے دو ہیلی کاپٹر ہمہ تن مصروف رہے۔ اس غریب اور نان جویں کو ترستی قوم کا ایک ارب اور تیس کروڑ روپے ثقافتی میلے پر خرچ کر دیا گیا جس کے بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور سندھ حکومت کہتی ہے کہ یہ میڈیا نے سارا ڈرامہ رچایا اور شور مچایا ہے۔ یہ تو غریب لوگ ہیں مرتے رہتے ہیں، یہ کیڑے مکوڑے ہیں ان کی قسمت میں یہی کچھ لکھا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے متاثرین تھر کے لیے دس پندرہ کروڑ روپے کا سامان دیا ، ہم نے الخدمت فائونڈیشن کو متاثرین کی خدمت میں مصروف پایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہی مقام ہے جس کے لیے اقبال نے فرمایا تھا۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے درودیوار ہلا دو
گرمائو جوانوںکا لہو جوشِ یقیں سے
کنجشک فر و مایہ کو شاہیں سے لڑا دو
کیوں خالق و مخلوق میںحائل ہوں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
میں بتانا اور خبردار کرنا چاہتا ہوں اگر اس ملک میں خلافت اور شریعت کا نظام نہ آیا، اس ملک میں عدل و انصاف کی میزان قائم نہ ہوئی ،تو دنیا دیکھے گی کہ ان جھونپڑیوں سے بھوکے اور ننگے پیروں والے لوگ اٹھیں گے ، کیڑے اور مکوڑے اپنے بلوںسے باہر آئیں گے اور ان بنگلوں اور محلوں کا محاصرہ کر کے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور ان کے ایک ایک ظلم اورنا انصافی کا حساب لیںگے۔قوم کو خونی انقلاب سے بچنے کے لیے پُرامن اور نرم انقلاب کی جدوجہد کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے اس ملک کو اگر آپ بغداد، کابل، تاجکستان اور دوشنبہ نہیںبنانا چاہتے، تو پھر اس وقت سے پہلے اٹھنا ہو گا جب یہ تباہی ہمیںآ لے گی اور اسے روکنے کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہو سکے گی۔پاکستانی قوم اٹھے گی تو دنیا میں خلافت اور امامت قائم ہو گی۔
تاتاریوں نے بغداد فتح کیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ تاتاری سپہ سالار نے سلطان کو پکڑا اور ایک پنجرے میں بند کر دیا ،اس کوجب بھوک لگی تو لوگوںنے تاتاری سے کہا کہ سلطان کو بھوک لگی ہے !وہ کھانا مانگ رہے ہیں!!تاتاری نے ایک بڑے ٹرے میں ہیرے اور جواہرات لا کر سلطان کے سامنے رکھ دیے اور کہا کہ کھائو! یہ ہیرے، سونا اور جواہرات !!سلطان نے کہا میں تو یہ نہیں کھا سکتا۔ یہ کوئی کھانے کی چیز تو نہیں ہے، تو تاتاری نے کہا کہ پھر تم نے انھیں جمع کیوںکیا؟ کیا تمہارے پیغمبر ﷺنے یہ نہیں کہا تھا کہ گھوڑے تیار کرو، جہاد کی تیاری کرو، تلواریںاور تیر بنائو، تم نے اپنے پیغمبر ﷺکی بات نہیں مانی اس لیے خالق کائنات کی طرف سے میں تمہارے اوپر عذاب بن کر نازل ہوا ہوں۔
آج ہمارے ملک کے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا بھی یہی حال ہے وہ بھی تباہی کے اسی راستے پر دوڑے چلے جا رہے ہیں جس سے انھیں روکا گیا ہے۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی حکومت قائم ہوئی، انھوں نے پہلے دن ہی اپنی بیوی سے کہا کہ یہ جو تم نے گلے میں ہیروں کا ہار پہنا ہوا ہے یہ تمھارے والد نے بیت المال سے بنوایا تھا اگر تم میرے نکاح میں رہنا چاہتی ہو تو تمہیں یہ ہار بیت المال میں جمع کرانا ہو گا اور اگر ہار واپس نہیں کرتیں تو پھر میرے نکا ح میں بھی نہیں رہ سکتیں۔ انھوں نے فوری طور پر اپنے گلے سے ہار کو نوچ کر اتارا اور فرمایا کہ میں ایسے لاکھوں ہار آپ پر قربان کر سکتی ہوں۔
یہ وہی عمربن عبدالعزیز ؒ تھے جنھوں نے ایک بہت بڑا صندوق اٹھایا ہوا تھا اور اس جیسے کئی صندوق بیت المال کے اہل کاروں نے اٹھا رکھے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ان صندوقوں کے ساتھ جامع مسجد میں گئے اور مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان صندوقوں میں اموی خاندان کی جائیدادوں کی رجسٹریاں ہیں۔ یہ تمام جاگیروں کے کاغذات اور سندیں ہیں جو انھوں نے ظلم و جبر سے ہتھیا کر اپنے قبضے میں لے لی تھیں۔ وہ ایک ایک صندوق کو کھولتے رجسٹریوں کو نکالتے، اور قینچی سے ان کاغذوں کو کاٹ کاٹ کر پھینکتے گئے اور فرمایا کہ یہ ساری جاگیریں آج میں نے غریب عوام کو واپس کر دی ہیں جن پر اموی شہنشاہوں نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا تھا۔
جس طرح اس زمین اور انسانیت کو کل کے سورج کی ضرورت ہے اس سے بڑھ کر اس قوم ، امت اور دنیا کو ایک عمر بن عبدالعزیزؒ کی ضرورت ہے جس کے ہاتھ میں ایک قینچی ہو اور وہ تمام جاگیروں کے کاغذات کتر کتر کر پھینک دے۔ ہمارے ملک کے سرمایہ دار بھی عوام کے ٹیکسوں اور سرمائے سے اپنے صندوقوں کو بھر رہے ہیں اور بیرونی ممالک میں بھجوا رہے ہیں لیکن قوم یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سرمائے سے بھرے ان صندوقوں کو واپس لائیں اور جن لوگوں کا حق مار کر یہ دولت اکٹھی کی گئی ہے ان کو واپس لوٹا دیں۔ نہیں تو ان پر زمین تنگ ہو جائے گی اور پھر انھیں بھاگنے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ زمین میں پھیل جائو اور میر افضل تلاش کرو ،وہ فضل کیا ہے ؟اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ مجھ سے دنیا حسنہ طلب کرو،(اے ہمارے رب!ہمیںدنیا حسنہ عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا)(البقرۃ )مگر کیسی دنیا ؟دنیا اتنی لازمی چیز ہے کہ ہر نمازمیں ایک بندہ مومن اپنے پروردگار سے اس کا سوال کرتا ہے ،دنیا حسنہ ! ایک ایسی دنیا جس میں انسان انسان کا غلام نہ ہو!!،
کس نہ باشد درجہاں محتاج کس
نقطہء شرع مبین ایں است و بس
ایک ایسی دنیا جس میں جہالت نہ ہو،جس میں غربت ، بدامنی، بھوک اور لوڈ شیڈنگ نہ ہو،جس میں ایک دوسرے کا استحصال نہ کیا جاسکے ،کوئی ایک دوسرے پر اپنی خدائی اور نظام نافذ نہ کرسکے ،ایک ایسی دنیا کی تلاش اور تعمیر کا حکم اس دعا میں دیا گیا ہے ۔
اس کے مقابلے میں آج کی دنیا لالچ ، فساد اور دھوکے کی دنیا ہے ،حسد کی دنیا ہے ،مال سمیٹنے اور دوسروں کا استحصال کرنے کی دنیا ہے ،یہ دنیا ظلم اور جبر کی آماجگاہ بن چکی ہے ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (وہ شخص جو مال جمع کرتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا)(الحمزۃ)یہ مال کو گن گن کر رکھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ مال ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا۔یہ سود اور جھوٹ کی دنیا،یہ سرمایہ داروں ،جاگیر داروں اور وڈیروں کی دنیا ،یہ شیطان ابلیس اور جھوٹے مکاروںاور بادشاہوں کی دنیا ہے ۔
اس دنیا کو تبدیل کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوںکو دیا ہے ہمیںایسی دنیا نہیں چاہیے، جس میںمحنت کوئی کرے اور اس کا پھل کوئی دوسرا کھائے۔ جہاں چند سیاسی برہمن، معاشی دہشت گرد 18 کروڑ عوام کو شودراورچھوت سمجھ لیں اور انھیں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار ہوں۔ اس نظام کو مومن کبھی برداشت نہیں کر سکتا یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اس کو بدلنے کی کوشش نہ کرنے والا اللہ کی فرماںبرداری کا دعویدار کیسے ہو سکتا ہے؟ جہاں کسی غریب عورت کی عزت کو تار تارکر دیا جائے تو اس کی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی۔ غریب ماں کے سامنے اس کے بچوں کو ذبح کر دیا جائے تو اس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کوئی احتجاج نہیں کرتیں۔ گزشتہ دنوں میں تھر میں گیا وہاں میں نے بھوک سے نڈھال مائوں کو دیکھا، ہڈیوں کے ڈھانچے بنی بہنوں کو دیکھا، ان کی گودوں میں بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھا۔ کئی کئی مہینوں سے بچے جب دودھ سے محروم ہوں، ان کی مائوں کے سینوں میںدودھ نہیں تھا وہ بار بار آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے اور انسانوں کو رحم طلب نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ہر روز دس پندرہ مائیں اپنی پھول سے بچوں کو مٹی کے حوالے کر رہی تھیں۔ آنسو بہا بہا کر ان کے آنسو خشک ہو گئے تھے۔ ان کے لبوں پر فریاد کے لیے الفاظ اور رحم طلب کرنے کے لیے آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔ دوسری طرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر عریانی و فحاشی کا جشن برپا تھا۔ ثقافت کے نام پر ساری دنیا سے ''فنکاروں'' کو اکٹھے کر کے پاکستان کے بیت المال سے اخراجات ہوتے رہے۔ کراچی ائیر پورٹ پر ان کو لانے لے جانے کے لیے دو ہیلی کاپٹر ہمہ تن مصروف رہے۔ اس غریب اور نان جویں کو ترستی قوم کا ایک ارب اور تیس کروڑ روپے ثقافتی میلے پر خرچ کر دیا گیا جس کے بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور سندھ حکومت کہتی ہے کہ یہ میڈیا نے سارا ڈرامہ رچایا اور شور مچایا ہے۔ یہ تو غریب لوگ ہیں مرتے رہتے ہیں، یہ کیڑے مکوڑے ہیں ان کی قسمت میں یہی کچھ لکھا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے متاثرین تھر کے لیے دس پندرہ کروڑ روپے کا سامان دیا ، ہم نے الخدمت فائونڈیشن کو متاثرین کی خدمت میں مصروف پایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہی مقام ہے جس کے لیے اقبال نے فرمایا تھا۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے درودیوار ہلا دو
گرمائو جوانوںکا لہو جوشِ یقیں سے
کنجشک فر و مایہ کو شاہیں سے لڑا دو
کیوں خالق و مخلوق میںحائل ہوں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
میں بتانا اور خبردار کرنا چاہتا ہوں اگر اس ملک میں خلافت اور شریعت کا نظام نہ آیا، اس ملک میں عدل و انصاف کی میزان قائم نہ ہوئی ،تو دنیا دیکھے گی کہ ان جھونپڑیوں سے بھوکے اور ننگے پیروں والے لوگ اٹھیں گے ، کیڑے اور مکوڑے اپنے بلوںسے باہر آئیں گے اور ان بنگلوں اور محلوں کا محاصرہ کر کے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور ان کے ایک ایک ظلم اورنا انصافی کا حساب لیںگے۔قوم کو خونی انقلاب سے بچنے کے لیے پُرامن اور نرم انقلاب کی جدوجہد کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے اس ملک کو اگر آپ بغداد، کابل، تاجکستان اور دوشنبہ نہیںبنانا چاہتے، تو پھر اس وقت سے پہلے اٹھنا ہو گا جب یہ تباہی ہمیںآ لے گی اور اسے روکنے کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہو سکے گی۔پاکستانی قوم اٹھے گی تو دنیا میں خلافت اور امامت قائم ہو گی۔
تاتاریوں نے بغداد فتح کیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ تاتاری سپہ سالار نے سلطان کو پکڑا اور ایک پنجرے میں بند کر دیا ،اس کوجب بھوک لگی تو لوگوںنے تاتاری سے کہا کہ سلطان کو بھوک لگی ہے !وہ کھانا مانگ رہے ہیں!!تاتاری نے ایک بڑے ٹرے میں ہیرے اور جواہرات لا کر سلطان کے سامنے رکھ دیے اور کہا کہ کھائو! یہ ہیرے، سونا اور جواہرات !!سلطان نے کہا میں تو یہ نہیں کھا سکتا۔ یہ کوئی کھانے کی چیز تو نہیں ہے، تو تاتاری نے کہا کہ پھر تم نے انھیں جمع کیوںکیا؟ کیا تمہارے پیغمبر ﷺنے یہ نہیں کہا تھا کہ گھوڑے تیار کرو، جہاد کی تیاری کرو، تلواریںاور تیر بنائو، تم نے اپنے پیغمبر ﷺکی بات نہیں مانی اس لیے خالق کائنات کی طرف سے میں تمہارے اوپر عذاب بن کر نازل ہوا ہوں۔
آج ہمارے ملک کے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا بھی یہی حال ہے وہ بھی تباہی کے اسی راستے پر دوڑے چلے جا رہے ہیں جس سے انھیں روکا گیا ہے۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی حکومت قائم ہوئی، انھوں نے پہلے دن ہی اپنی بیوی سے کہا کہ یہ جو تم نے گلے میں ہیروں کا ہار پہنا ہوا ہے یہ تمھارے والد نے بیت المال سے بنوایا تھا اگر تم میرے نکاح میں رہنا چاہتی ہو تو تمہیں یہ ہار بیت المال میں جمع کرانا ہو گا اور اگر ہار واپس نہیں کرتیں تو پھر میرے نکا ح میں بھی نہیں رہ سکتیں۔ انھوں نے فوری طور پر اپنے گلے سے ہار کو نوچ کر اتارا اور فرمایا کہ میں ایسے لاکھوں ہار آپ پر قربان کر سکتی ہوں۔
یہ وہی عمربن عبدالعزیز ؒ تھے جنھوں نے ایک بہت بڑا صندوق اٹھایا ہوا تھا اور اس جیسے کئی صندوق بیت المال کے اہل کاروں نے اٹھا رکھے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ان صندوقوں کے ساتھ جامع مسجد میں گئے اور مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان صندوقوں میں اموی خاندان کی جائیدادوں کی رجسٹریاں ہیں۔ یہ تمام جاگیروں کے کاغذات اور سندیں ہیں جو انھوں نے ظلم و جبر سے ہتھیا کر اپنے قبضے میں لے لی تھیں۔ وہ ایک ایک صندوق کو کھولتے رجسٹریوں کو نکالتے، اور قینچی سے ان کاغذوں کو کاٹ کاٹ کر پھینکتے گئے اور فرمایا کہ یہ ساری جاگیریں آج میں نے غریب عوام کو واپس کر دی ہیں جن پر اموی شہنشاہوں نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا تھا۔
جس طرح اس زمین اور انسانیت کو کل کے سورج کی ضرورت ہے اس سے بڑھ کر اس قوم ، امت اور دنیا کو ایک عمر بن عبدالعزیزؒ کی ضرورت ہے جس کے ہاتھ میں ایک قینچی ہو اور وہ تمام جاگیروں کے کاغذات کتر کتر کر پھینک دے۔ ہمارے ملک کے سرمایہ دار بھی عوام کے ٹیکسوں اور سرمائے سے اپنے صندوقوں کو بھر رہے ہیں اور بیرونی ممالک میں بھجوا رہے ہیں لیکن قوم یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سرمائے سے بھرے ان صندوقوں کو واپس لائیں اور جن لوگوں کا حق مار کر یہ دولت اکٹھی کی گئی ہے ان کو واپس لوٹا دیں۔ نہیں تو ان پر زمین تنگ ہو جائے گی اور پھر انھیں بھاگنے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔