بدامنی کی ذمے دار مہنگائی

ڈالر تو سستا ہوگیا مگر مہنگائی اپنی ہی جگہ ہے، کوئی شے سستی نہیں ہوئی۔


Pakiza Munir April 13, 2014

ڈالر تو سستا ہوگیا مگر مہنگائی اپنی ہی جگہ ہے، کوئی شے سستی نہیں ہوئی۔ مہنگائی کی چکی میں عوام ویسے ہی پس رہے ہیں، مہنگائی کی وجہ سے جرائم کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے، حکومت جرائم کی روک تھام کرنے کے لیے پولیس اور رینجرز کی تعداد میں اضافہ کردیتی ہے مگر پھر بھی جرائم رکنے کے بجائے بھیانک حد تک بڑھ رہے ہیں، اگر حکومت بے روزگاری کا خاتمہ کردے اور ہر شہری کو ملازمت فراہم کی جائے تو جرائم خود بہ خود ختم ہوجائیں، اس بے روزگاری کی وجہ سے کئی حادثات جنم لے رہے ہیں۔

لوٹ مار عام ہوگئی ہے، کراچی کا کوئی علاقہ محفوظ نہیں جہاں لوٹ مار نہیں ہوئی۔ اسٹریٹ کرائم میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا اور اس میں نوجوان نسل ملوث ہے جو بے روزگاری کی وجہ سے اور بے پناہ مہنگائی کی وجہ سے جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ سولجر بازار میں ڈکیت مسلم کمرشل بینک ایمپلائر فائونڈیشن کے 60 لاکرز گیس کٹر سے کاٹ کر لاکھوں روپے نقد، بھاری مالیت کے طلائی زیورات، پرائز بانڈ، سیونگ سرٹیفکیٹ، قیمتی سامان اور اراضی کی دستاویزات لوٹ کر فرار ہوگئے۔ بینک میں بیشتر ریٹائر اور بیوہ خواتین کی جمع پونجی تھی، 3خواتین جمع پونجی لٹ جانے پر بے ہوش ہوگئیں۔ یہ بہت بڑی ڈکیتی ہے، بے سہارا لوگ اور مزید بے سہارا ہوگئے، اس کی ذمے دار حکومت ہی ہے جو شہر کراچی کے حالات کو صحیح کرنے سے قاصر ہے۔

4ڈکیت 8 سے 9 گھنٹے تک بینک میں رہے اور بہت آرام اور اطمینان سے 60 لاکر توڑ کر لاکھوں روپے کی مالیت کا سامان لے کر فرار ہوگئے، لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی ان کی زندگی لے کر فرار ہوگئے، جیتے جی مار گئے۔ یہ بہت بدترین واقعہ ہے، غم سے نڈھال لوگ کسی نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے زیور اور نقدی لاکر میں رکھی تھی تو کسی نے اپنے بیٹے کی پڑھائی کے لیے پیسہ لاکر میں رکھا تھا۔ دوسری شہر کی بڑی ڈکیتی حب میں ہوئی جس میں ڈکیت 1 کروڑ 34 لاکھ لے کر فرار ہوگئے۔ شہر میں اس وقت بری طرح لوٹ مار ہورہی ہے۔ رینجرز آپریشن کے باوجود شہر کراچی کے حالات صحیح ہونے کے بجائے مزید بدتر ہوگئے ہیں۔ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر کئی روز سے وارداتیں ہورہی ہیں، چند ہی روز میں 2 مرتبہ مجھ سے گن پوائنٹ پر میرا بیگ اور موبائل فون چھن لیا گیا، ڈکیتی کی وارداتیں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور ہماری پولیس بس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے باعث نئی نسل نہ صرف ڈکیت بن رہی ہے بلکہ روزگار کی کمی کے باعث کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان چپراسی کی نوکری کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔اعلیٰ تعلیم ہے مگر پھر بھی اچھی ملازمت کرنے سے قاصر ہیں، جو نوجوان حالات سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود چپراسی بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور جو نہیں سمجھوتہ کرتے وہ ڈکیت بن جاتے ہیں۔ چپراسی کا گریڈ 2 ہوتا ہے اور جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اور 2 گریڈ پر فائز ہو وہ معاشرہ پھر تباہی ہی کی طرف بڑھتا ہے اور پھر ڈکیت زیادہ سے زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔

شہر کے دفاتر اور اداروں میں کام کرنے والے چپراسی معاشی مسائل کا شکار رہتے ہیں، عموماً نجی اداروں میں کام کرنے والے چپراسیوں کی تنخواہ 6 سے 10 ہزار روپے ہوتی ہے، سرکاری اداروں میں سینئر چپراسی کی تنخواہ 15 سے 20 ہزار اور نئے چپراسی کی تنخواہ 10 ہزار ہوتی ہے، اتنی مہنگائی اور تنخواہیں اس قدر کم تو بعض نوجوان ڈکیت بننے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں کہ ڈگری ہونے کے باوجود ملازمت نہیں اور جو ملازمت مل رہی ہے وہ چپراسی کی اور تنخواہیں اس قدر کم کہ گھر والوں کی کفالت بھی نہیں ہوسکتی تو ایسے معاشرے میں جہاں پڑھے لکھے افراد کے لیے ملازمت نہ ہو تو اس معاشرے کے حالات کیسے صحیح ہوسکتے ہیں۔

کراچی میں سرکاری و نجی اداروں میں ڈیڑھ لاکھ افراد چپراسی ہیں، آج سے 15 برس قبل عموماً چپراسی مڈل پاس یا ناخواندہ بھی رکھا جاتا تھا لیکن اب صورت حال تبدیل ہوگئی ہے، چپراسی کے عہدے کے لیے گریجویٹ اور ماسٹر پاس نوجوان بھی خواہش مند ہوگئے ہیں۔ بیروزگاری نے معاشی بد حالی بڑھادی ہے، ایک طرف ماسٹر پاس افراد 17 گریڈ پر فائز ہیں، جن کے پاس سفارش نہیں ہے وہ ماسٹر کی ڈگری لے کر چپراسی کی پوسٹ پر فائز ہے۔

جس معاشرے میں اتنا امتیاز ہوگا تو وہ معاشرہ بدحالی، بدامنی کا شکار ہی ہوگا۔ امن اس وقت ہی قائم ہونا ممکن ہے جب معاشرے میں امتیازات کو ختم کردیا جائے۔ روزگار کو عام کیا جائے، مہنگائی کو ختم کیاجائے تو معاشرے میں خود بخود امن قائم ہوجائے گا اور پھر نہ کسی پولیس اور نہ کسی رینجرز کی تعداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔

جو پیسہ پولیس اور رینجرز کی تعداد بڑھاکر ان پر خرچ کیا جارہاہے وہی پیسہ بے روزگاری کو ختم کرنے پر خرچ کیا جائے تو بہت ممکن حد تک امن قائم ہوجائے، مہنگائی کے باعث ہر شہری پریشان ہے، چاہے وہ مرد ہو یا خواتین سب ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔

مہنگائی کے باعث خواتین سلائی اور ڈیزائننگ سیکھ کر اپنے اہل خانہ کی کفالت کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں، مہنگائی کے باعث خواتین کے فنی تربیتی اداروں میں سلائی، کڑھائی اور پینٹنگ کا ہنر سیکھ کر اپنے گھر والوں کی کفالت کا رجحان بڑھ رہا ہے، پہلے گھر کا ایک فرد کماتا تھا، 10 کھاتے تھے مگر اب 10بھی کمائیں تو پورا نہیں پڑتا، یہی خواتین کپڑے سلائی کرتی ہیں، کڑھائی کرتی ہیں اور ان کو دکان دار معاوضہ بہت کم دیتے ہیں اور اپنی دکانوں میں کئی گنا زیادہ مہنگا کرکے دیتے ہیں، کوئی بھی خاتون شوق سے ملازمت نہیں کرتی، مہنگائی اور پیسے کی کمی کی وجہ سے باہر نکلتی ہیں، فنی تربیتی اداروں میں خواتین کافی مشکلات کا شکار ہیں۔

ان اداروں میں بجلی کی کمی، پنکھے خراب، اساتذہ کی تنخواہیں بہت کم ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے تمام اداروں پر خصوصی توجہ دے اور تمام سہولیات فراہم کرے تاکہ خواتین ان اداروں میں زیادہ سے زیادہ کام سیکھیں گی تو اس طوفانی مہنگائی کا سامنا کرپائے گی۔ جتنی زیادہ سہولت ان اداروں کو فراہم کی جائے گی خواتین زیادہ سے زیادہ وہاں جائیں گی اور کام سیکھیں گی اور اپنے گھر والوں کی کفالت کریں گی، مگر سہولت نہ ہونے کے باوجود خواتین مہنگائی کے باعث ایسے فنی تربیتی اداروں میں کام سیکھنے پر مجبور ہیں کیوں کہ اس قدر طوفانی مہنگائی میں کوئی اپنے پیاروں کو تڑپتے، بھوک سے مرتے نہیں دیکھ سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں