مہنگائی کے اسباب کا خاتمہ ضروری
دیکھا جائے تو منڈی کے محرکات آزاد ہیں اور حکومت ان محرکات پر اقدامات کے ذریعے قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوتی
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ رمضان المبارک میں اشیائے خورونوش کی فراہمی یقینی بنائی جائے ، قیمتوں پر کنٹرول کیا اور سستے رمضان بازار لگائے جائیں۔
انھوں نے مرغی کی گوشت کی قیمت میں غیر معمولی اضافے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے قیمتیں کنٹرول میں لانے کی ہدایت کی اور کہا مارکیٹ میں پولٹری فیڈ کی کمی نہیں تو پھر مرغی کی قیمت میں یہ ناجائز اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔
انھوں نے وفاق اور صوبوں میں ذخیرہ اندوزوں، ناجائز منافع خوروں اور من مانی قیمتیں وصول کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا مہنگائی کی صورتحال پر فکر مند ہونا فطری امر ہے۔ پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی، ٹیکسز میں اضافے، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہونے والی زیادتی سے آج کل پاکستان مہنگائی کی شدید لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔
مہنگائی کی اس شدت نے نہ صرف عام آدمی کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے بلکہ مڈل کلاس طبقے کے لیے بھی سفید پوشی قائم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ 170ارب روپے کے نئے ٹیکسز عائد کیے جاچکے ہیں۔
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی پریشانیوں کو مزید بڑھا دیا ہے، عوام سوچتے ہیں کہ اگر وہ مہینے بھر کی کمائی بجلی اور گیس کے بلوں اور ٹیکسز کی ادائیگی میں ہی لگا دیں گے تو پھر اپنا اور اپنے خاندانوں کا پیٹ کیسے پالیں گے؟ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں جو اضافہ ہونا چاہیے تھا۔
اس سے کہیں زیادہ اضافہ تاجروں نے کر دیا ہے اور حکومت مہنگائی کو کنٹرول نہیں کر پا رہی ہے، اگر حکومت ذخیرہ اندوزوں، ناجائز منافع خوروں، لالچی مڈل مینوں اور بدعنوان تاجروں کو لگام ڈال سکے تو اس سے بھی بلاشبہ مہنگائی میں کمی ہو سکتی ہے۔
مہنگائی کے مقابلے کا سارا بوجھ عام آدمی پر ڈالنے کے بجائے حکومت کو اپنے اخراجات کم کر کے عام آدمی کو ریلیف دینا چاہیے۔ لمبی چوڑی کابینہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ہماری کرنسی دن بدن اپنی قدر کھوتی جا رہی ہے۔ پروڈکشن پراسس میں کاسٹ کو Manage نہ کرنا بھی اشیا کی قیمتوں میں گرانی کا سبب بن سکتا ہے، کیونکہ اگراس پر قابو نہ پایا جائے تو اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔
جس کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ بزنس مین کی مجبوری بن جاتا ہے۔ قرضوں سے مالی ضروریات پوری کرنا بھی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
مثال کے طور پر اگر بینک سے سود پر قرضہ لیا جائے اور اس کی مدد سے پھر کاروبار کیا جائے تو کاروبار میں فائدہ ہو یا نقصان ، سود کی مد میں پیسہ بہرحال واپس کرنا ہے اور یہ اضافی بوجھ کسٹمر کی جیب برداشت کرتی ہے۔
اس کے علاوہ نامناسب نفع (Abnormal Profit) بھی مہنگائی کی شرح میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے۔
حکومت عالمی منڈی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ کرنے پر مجبور نظر آتی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرے۔
ایسا بھی نہیں کہ صرف پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں مہنگائی ہورہی ہے لیکن ایک خاص نظم و ضبط کے تحت، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جب بھی اشیاء ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں تو وہ اُس کا متبادل بھی لوگوں کو فراہم کرتے ہیں۔
مہنگائی کی وجہ عالمی دنیا میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے، عوام اس بات کو سمجھتے ہیں، مگر ہمیشہ کی طرح حکومتوں سے التجاء کرتے ہیں کہ اُن کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا جائے تاکہ وہ اس مہنگائی کا سامنا کرسکیں۔
یہاں پر تنخواہوں میں اضافے سے مراد یہ ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم بنایا جائے ، معیشت کو اتنا مضبوط کردیں کہ ملک میں سرمایہ کاری بڑھے اور کاروبار میں بھی اضافہ ہو، جب کاروبار میں اضافہ ہوگا تو مالکان کو منافع ملے گا اور جب اُن کو منافع ہوگا تو وہ اپنے ادارے میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کریں گے۔
تنخواہیں نہ بڑھنے کی وجہ سے ملک کو بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خاص طور پر ایسے لوگوں کی طرز زندگی بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہوگئی ہے جو کہ روز کا کمانے والے ہیں یا پھر مہینے کے آخر میں تنخواہ کے ملنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
ملک میں خوراک کی کسی نہ کسی شے کا بحران سال بھر رہتا ہے ایک اور مسئلہ منصوبہ بندی کے ساتھ اشیاء کا بحران پیدا کرنا بھی ہے جس سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی سے یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ٹماٹر ، سبزی ، آٹا اور خاص طور پر چینی کی نایابی معمول بن جاتی ہے۔
پیداواری سطح پر حکومتی ناکامی منڈی کی سطح پر ناقص اقدامات کے باعث اور آڑھتیوں کی ملی بھگت کے نتیجے میں بحران پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں خوراک کے نرخوں میں عوام کو خود ساختہ اور منصوبہ بند اضافے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دیکھا جائے تو منڈی کے محرکات آزاد ہیں اور حکومت ان محرکات پر اقدامات کے ذریعے قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوتی، ان حالات میں قیمتوں کو کیونکر اعتدال میں رکھنا ممکن ہوگا۔
مہنگائی کے ان داخلی عوامل کے علاوہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کے اثرات کے باعث مہنگائی کی پندرہ روزہ اور ماہوار لہر کا ایک تسلسل جاری ہے حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے توانائی پر عائد ٹیکسوں میں اضافہ کرتی ہے ساتھ ہی ساتھ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
مشکل امر یہ ہے کہ حکومت ٹیکس اور برآمدات سے ریکارڈ آمدنی کے دعوے تو کرتی ہے مگر عوام پر بوجھ ڈالنے کے سوا کوئی اور بہتری نظر نہیں آتی۔
ماہرین اقتصادیات کے مطابق بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے عام آدمی کو خواہشات اور ضروریات میں فرق سامنے رکھنا ہوگا۔ گھر کے اخراجات کا تعین سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے اور بہت ضروری اخراجات کی ایک لسٹ بنائی جانی چاہیے اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شاپنگ مال پہنچ کر بہت سی ایسی چیزیں خرید لی جاتی ہیں جو بظاہر اہم نہیں ہوتیں۔ شاپنگ کے اس رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی گھر میں عام طور پر جو ضروری اخراجات کیے جاتے ہیں، ان میں مکان کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز، سودا سلف ، تعلیمی اخراجات اور ٹرانسپورٹ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
اس مہنگائی میں ایک کمائے اور پانچ کھائیں والا فارمولہ نہیں چلے گا۔ اب چار کمائیں گے تو پانچ ٹھیک سے کھا سکیں گے۔ لڑکیاں اپنے گھروں میں بچوں کو ٹیوشن پڑھائیں ، خواتین آن لائن کھانا فروخت کریں ، سلائی کڑھائی سیکھیں ، بڑے لڑکے سیلز مینی کرلیں یا ویک اینڈ پر اضافی جاب کریں ، پھر جا کر معاملات درست ہوں گے۔
معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دہشت گردی کا سامناہے، ان سوالات کا جواب بھی حکومت کے ذمے ہے کہ جن سات ملین کے قریب بچوں کو پرائمری اسکولوں میں ہونا چاہیے تھا ، وہ گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر کیا کر رہے ہیں؟ وہ تین کروڑ کے لگ بھگ بچے کہ جو ابھی تک تعلیمی اداروں میں ایک دن بھی نہیں گئے اور اپنی جہالت کے سبب سیکولر اور مذہبی انتہا پسندوں کا رزق بن جاتے ہیں اور وہ نوجوان کہ جو ڈگریاں ہاتھوں میں اٹھائے روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔
آخر ان کا پرسان حال کون ہے؟ مطلب یہ کہ ' بے روزگاری ' بھی دہشت گردی میں اضافے کا سبب ہے، اگر بے روزگاری بھی دہشت گردی میں اضافے کا سبب ہے تو پھر بے روزگاری پر قابو پانا بھی حکومت ہی کا کام ہے، اگر حکومتیں اپنے فرائض کی صحیح طریقے پر بجا آوری کرے تو ہمیں یقین ہے کہ دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان جاری رسہ کشی اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے جب کہ دوسری طرف ملک میں کاروباری حالات بھی بد سے بدتر ہیں، دہشت گردی کا عفریت ایک دفعہ پھر سر اٹھاتا ہوا نظر آرہا ہے۔
پاکستان اب ایک دوراہے پر کھڑا ہے ' آگے بڑھنے کے لیے ایک راستہ اختیار کرنا پڑے گا' اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
سرد جنگ کے دور کی پالیسی اب نہیں چل سکتی ' سرد جنگ کے ثمرات سمیٹ کر امیر ہونے والا طبقہ پاکستان کو آگے لے کر چلنے کا وژن نہیں رکھتالہٰذا اس طبقے کی معیشت 'سیاست اور انتظامیہ پر چلی آ رہی طاقت کو ختم کرنا ہو گا۔
سرد جنگ کی وجہ سے امیر ہونے والا با اثر گروہ ریاست کو رجعت پسندی کے تحت چلانا چاہتا ہے جو اب ممکن نہیں۔
انھوں نے مرغی کی گوشت کی قیمت میں غیر معمولی اضافے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے قیمتیں کنٹرول میں لانے کی ہدایت کی اور کہا مارکیٹ میں پولٹری فیڈ کی کمی نہیں تو پھر مرغی کی قیمت میں یہ ناجائز اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔
انھوں نے وفاق اور صوبوں میں ذخیرہ اندوزوں، ناجائز منافع خوروں اور من مانی قیمتیں وصول کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا مہنگائی کی صورتحال پر فکر مند ہونا فطری امر ہے۔ پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی، ٹیکسز میں اضافے، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہونے والی زیادتی سے آج کل پاکستان مہنگائی کی شدید لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔
مہنگائی کی اس شدت نے نہ صرف عام آدمی کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے بلکہ مڈل کلاس طبقے کے لیے بھی سفید پوشی قائم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ 170ارب روپے کے نئے ٹیکسز عائد کیے جاچکے ہیں۔
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی پریشانیوں کو مزید بڑھا دیا ہے، عوام سوچتے ہیں کہ اگر وہ مہینے بھر کی کمائی بجلی اور گیس کے بلوں اور ٹیکسز کی ادائیگی میں ہی لگا دیں گے تو پھر اپنا اور اپنے خاندانوں کا پیٹ کیسے پالیں گے؟ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں جو اضافہ ہونا چاہیے تھا۔
اس سے کہیں زیادہ اضافہ تاجروں نے کر دیا ہے اور حکومت مہنگائی کو کنٹرول نہیں کر پا رہی ہے، اگر حکومت ذخیرہ اندوزوں، ناجائز منافع خوروں، لالچی مڈل مینوں اور بدعنوان تاجروں کو لگام ڈال سکے تو اس سے بھی بلاشبہ مہنگائی میں کمی ہو سکتی ہے۔
مہنگائی کے مقابلے کا سارا بوجھ عام آدمی پر ڈالنے کے بجائے حکومت کو اپنے اخراجات کم کر کے عام آدمی کو ریلیف دینا چاہیے۔ لمبی چوڑی کابینہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ہماری کرنسی دن بدن اپنی قدر کھوتی جا رہی ہے۔ پروڈکشن پراسس میں کاسٹ کو Manage نہ کرنا بھی اشیا کی قیمتوں میں گرانی کا سبب بن سکتا ہے، کیونکہ اگراس پر قابو نہ پایا جائے تو اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔
جس کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ بزنس مین کی مجبوری بن جاتا ہے۔ قرضوں سے مالی ضروریات پوری کرنا بھی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
مثال کے طور پر اگر بینک سے سود پر قرضہ لیا جائے اور اس کی مدد سے پھر کاروبار کیا جائے تو کاروبار میں فائدہ ہو یا نقصان ، سود کی مد میں پیسہ بہرحال واپس کرنا ہے اور یہ اضافی بوجھ کسٹمر کی جیب برداشت کرتی ہے۔
اس کے علاوہ نامناسب نفع (Abnormal Profit) بھی مہنگائی کی شرح میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے۔
حکومت عالمی منڈی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ کرنے پر مجبور نظر آتی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرے۔
ایسا بھی نہیں کہ صرف پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں مہنگائی ہورہی ہے لیکن ایک خاص نظم و ضبط کے تحت، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جب بھی اشیاء ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں تو وہ اُس کا متبادل بھی لوگوں کو فراہم کرتے ہیں۔
مہنگائی کی وجہ عالمی دنیا میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے، عوام اس بات کو سمجھتے ہیں، مگر ہمیشہ کی طرح حکومتوں سے التجاء کرتے ہیں کہ اُن کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا جائے تاکہ وہ اس مہنگائی کا سامنا کرسکیں۔
یہاں پر تنخواہوں میں اضافے سے مراد یہ ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم بنایا جائے ، معیشت کو اتنا مضبوط کردیں کہ ملک میں سرمایہ کاری بڑھے اور کاروبار میں بھی اضافہ ہو، جب کاروبار میں اضافہ ہوگا تو مالکان کو منافع ملے گا اور جب اُن کو منافع ہوگا تو وہ اپنے ادارے میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کریں گے۔
تنخواہیں نہ بڑھنے کی وجہ سے ملک کو بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خاص طور پر ایسے لوگوں کی طرز زندگی بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہوگئی ہے جو کہ روز کا کمانے والے ہیں یا پھر مہینے کے آخر میں تنخواہ کے ملنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
ملک میں خوراک کی کسی نہ کسی شے کا بحران سال بھر رہتا ہے ایک اور مسئلہ منصوبہ بندی کے ساتھ اشیاء کا بحران پیدا کرنا بھی ہے جس سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی سے یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ٹماٹر ، سبزی ، آٹا اور خاص طور پر چینی کی نایابی معمول بن جاتی ہے۔
پیداواری سطح پر حکومتی ناکامی منڈی کی سطح پر ناقص اقدامات کے باعث اور آڑھتیوں کی ملی بھگت کے نتیجے میں بحران پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں خوراک کے نرخوں میں عوام کو خود ساختہ اور منصوبہ بند اضافے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دیکھا جائے تو منڈی کے محرکات آزاد ہیں اور حکومت ان محرکات پر اقدامات کے ذریعے قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوتی، ان حالات میں قیمتوں کو کیونکر اعتدال میں رکھنا ممکن ہوگا۔
مہنگائی کے ان داخلی عوامل کے علاوہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کے اثرات کے باعث مہنگائی کی پندرہ روزہ اور ماہوار لہر کا ایک تسلسل جاری ہے حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے توانائی پر عائد ٹیکسوں میں اضافہ کرتی ہے ساتھ ہی ساتھ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
مشکل امر یہ ہے کہ حکومت ٹیکس اور برآمدات سے ریکارڈ آمدنی کے دعوے تو کرتی ہے مگر عوام پر بوجھ ڈالنے کے سوا کوئی اور بہتری نظر نہیں آتی۔
ماہرین اقتصادیات کے مطابق بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے عام آدمی کو خواہشات اور ضروریات میں فرق سامنے رکھنا ہوگا۔ گھر کے اخراجات کا تعین سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے اور بہت ضروری اخراجات کی ایک لسٹ بنائی جانی چاہیے اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شاپنگ مال پہنچ کر بہت سی ایسی چیزیں خرید لی جاتی ہیں جو بظاہر اہم نہیں ہوتیں۔ شاپنگ کے اس رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی گھر میں عام طور پر جو ضروری اخراجات کیے جاتے ہیں، ان میں مکان کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز، سودا سلف ، تعلیمی اخراجات اور ٹرانسپورٹ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
اس مہنگائی میں ایک کمائے اور پانچ کھائیں والا فارمولہ نہیں چلے گا۔ اب چار کمائیں گے تو پانچ ٹھیک سے کھا سکیں گے۔ لڑکیاں اپنے گھروں میں بچوں کو ٹیوشن پڑھائیں ، خواتین آن لائن کھانا فروخت کریں ، سلائی کڑھائی سیکھیں ، بڑے لڑکے سیلز مینی کرلیں یا ویک اینڈ پر اضافی جاب کریں ، پھر جا کر معاملات درست ہوں گے۔
معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دہشت گردی کا سامناہے، ان سوالات کا جواب بھی حکومت کے ذمے ہے کہ جن سات ملین کے قریب بچوں کو پرائمری اسکولوں میں ہونا چاہیے تھا ، وہ گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر کیا کر رہے ہیں؟ وہ تین کروڑ کے لگ بھگ بچے کہ جو ابھی تک تعلیمی اداروں میں ایک دن بھی نہیں گئے اور اپنی جہالت کے سبب سیکولر اور مذہبی انتہا پسندوں کا رزق بن جاتے ہیں اور وہ نوجوان کہ جو ڈگریاں ہاتھوں میں اٹھائے روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔
آخر ان کا پرسان حال کون ہے؟ مطلب یہ کہ ' بے روزگاری ' بھی دہشت گردی میں اضافے کا سبب ہے، اگر بے روزگاری بھی دہشت گردی میں اضافے کا سبب ہے تو پھر بے روزگاری پر قابو پانا بھی حکومت ہی کا کام ہے، اگر حکومتیں اپنے فرائض کی صحیح طریقے پر بجا آوری کرے تو ہمیں یقین ہے کہ دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان جاری رسہ کشی اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے جب کہ دوسری طرف ملک میں کاروباری حالات بھی بد سے بدتر ہیں، دہشت گردی کا عفریت ایک دفعہ پھر سر اٹھاتا ہوا نظر آرہا ہے۔
پاکستان اب ایک دوراہے پر کھڑا ہے ' آگے بڑھنے کے لیے ایک راستہ اختیار کرنا پڑے گا' اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
سرد جنگ کے دور کی پالیسی اب نہیں چل سکتی ' سرد جنگ کے ثمرات سمیٹ کر امیر ہونے والا طبقہ پاکستان کو آگے لے کر چلنے کا وژن نہیں رکھتالہٰذا اس طبقے کی معیشت 'سیاست اور انتظامیہ پر چلی آ رہی طاقت کو ختم کرنا ہو گا۔
سرد جنگ کی وجہ سے امیر ہونے والا با اثر گروہ ریاست کو رجعت پسندی کے تحت چلانا چاہتا ہے جو اب ممکن نہیں۔